محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَيَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ۰ۡفَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِكَ بَيَّتَ طَاۗىِٕفَۃٌ مِّنْھُمْ غَيْرَ الَّذِيْ تَقُوْلُ۰ۭ وَاللہُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُوْنَ۰ۚ فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ وَكِيْلًا۸۱ اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۰ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۸۲
۲؎ اس آیت میں دعوت تدبر وتفکر ہے ۔ جو شخص قرآن حکیم پر دیانت داری کے ساتھ غور کرے گا۔ ضرور ہے کہ اس کی عظمت وصداقت پر یقین لے آئے ۔سب سے بڑی بات جو قرآن پاک کی معجزانہ دلیل ہے وہ اس کی وحدت ویکسانی ہے ۔سارا قرآن پڑھ جاؤ۔ اس میں ہزاروں نکات ومعارف بیان کیے ہیں۔ کہیں تضاد وتعارض کا نام نہیں۔ ایک دریا ہے جو برابر بہتا چلاجاتا ہے اور پڑھنے والے کو بہائے لیے جارہا ہے ۔ اسلوب بیان بھی بیسیوں اختیار کیے ہیں مگر سب میں حیران کن بلاغت ہے ۔ کہیں زورِ کلام کم نہیں ہوتا۔ توحید والٰہیات سے لے کر اخلاق ومعاشرت کے باریک اور نازک مسائل تک بیان کیے ہیں مگر کیا مجال ہے جو شگفتگی وپاکیزگی میں فرق آجائے ۔ وہی نزاہت وزور جو اس کا مخصوص خاصہ ہے ، ہرجگہ نمایاں ہے ۔
۱؎ طاعۃٌ بصورت رفع اس کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کاملہ جس میں کوئی انقطاع وتجدد نہیں۔ یعنی جب کہ منافق آپ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں، اس وقت غیر مشروط اورغیر متغیر اطاعت کا یقین دلاتے ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں ،اسلام کے خلاف حیل وتدابیر تلاش کرتے ہیں۔ فرمایا آپ ان سے زیادہ تعرض نہ فرمائیں۔ توکل رکھیں۔ اللہ آپ ﷺ کا ناصر ووکیل ہے ۔اورکہتے ہیں کہ قبول ہے ۔پھر جب تیرے پاس سے باہر جاتے ہیں تو ان میں سے ایک فریق کے لوگ اس کے خلاف جو توکہتا ہے رات کو مشورہ کرتے ہیں اورخدا لکھ لیتا ہے جو وہ مشورہ کرتے ہیں۔ سو تو ان سے تغافل نہ کراور اللہ پر بھروسہ رکھ۔ اللہ کارساز کافی ہے۔۱؎ (۸۱) کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے ؟ اوراگروہ اللہ کے سوا کسی اور کا ہوتا تو وہ اس میں ضرور بہت اختلاف پاتے۔۲؎ (۸۲)
۲؎ اس آیت میں دعوت تدبر وتفکر ہے ۔ جو شخص قرآن حکیم پر دیانت داری کے ساتھ غور کرے گا۔ ضرور ہے کہ اس کی عظمت وصداقت پر یقین لے آئے ۔سب سے بڑی بات جو قرآن پاک کی معجزانہ دلیل ہے وہ اس کی وحدت ویکسانی ہے ۔سارا قرآن پڑھ جاؤ۔ اس میں ہزاروں نکات ومعارف بیان کیے ہیں۔ کہیں تضاد وتعارض کا نام نہیں۔ ایک دریا ہے جو برابر بہتا چلاجاتا ہے اور پڑھنے والے کو بہائے لیے جارہا ہے ۔ اسلوب بیان بھی بیسیوں اختیار کیے ہیں مگر سب میں حیران کن بلاغت ہے ۔ کہیں زورِ کلام کم نہیں ہوتا۔ توحید والٰہیات سے لے کر اخلاق ومعاشرت کے باریک اور نازک مسائل تک بیان کیے ہیں مگر کیا مجال ہے جو شگفتگی وپاکیزگی میں فرق آجائے ۔ وہی نزاہت وزور جو اس کا مخصوص خاصہ ہے ، ہرجگہ نمایاں ہے ۔