سوال یہ ہے :
کیا ویڈیو بیانات اور پروفائل پر تصاویر لگائے بنا دعوت دین کا کام نہیں ہو سکتا؟
ضرورتیں ناجائز کاموں جائز بنا دیتی ہیں؟ کیا تصاویر بنانا بھی اسی مجبوری کے تحت آتا ہے ۔
ہم کسی کو تصاویر کی حرمت پر بیان دیں تو وہ علماء کرام کی پروفائل پکچرز اور ویڈیو بیان سامنے لے آتے ہیں ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عصر حاضر میں ویڈیو بنانے اور اور دیکھنے تک ہر شخص کی رسائی ہے ،
میڈیا یا الیکٹرانک یعنی برقی ذرائع ابلاغ میں سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ "ویڈیو " ہی سمجھا جاتا ہے ؛
اور سوشل میڈیا پر سیاسی اور مذہبی ابلاغ کیلئے بھی ویڈیو کو نمایاں اہمیت حاصل ہے
انہی وجوہ کی بنا پر اس کے شرعی حکم کی اہمیت و ضرورت سے انکار نہیں ہوسکتا،
چونکہ ویڈیو کا تعلق بظاہر تصویر سے بنتا ہے ،اور تصویر سازی اسلام میں منع ہے ،
اس لئے موجودہ دور کے اہل علم سے بارہا اس موضوع پر رجوع کیا جاتا ہے اور چونکہ یہ جدید اور حادث چیز ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ماہیت و اثرات کے پیش نظر اس کے متعلق اجتہاد سے کام لیا جائے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال الشيخ ابن عثيمين : " والصُّور بالطُّرُقِ الحديثة قسمان :
الأول : لا يَكُونُ له مَنْظَرٌ ولا مَشْهَد ولا مظهر ، كما ذُكِرَ لِي عن التصوير بِأَشرطة الفيديو ، فهذا لا حُكْمَ له إطلاقاً ، ولا يَدْخُل في التحريم مطلقاً ، ولهذا أجازه العلماء الذين يَمْنَعونَ التّصوير على الآلة الفوتوغرافية على الورق وقالوا : إن هذا لا بأس به ، حتى إنه قيل هل يجوز أن تصوَّر المحاضرات التي تلقى في المساجد ؟ فكان الرأي ترك ذلك ، لأنه ربما يشوش على المصلين ، وربما يكون المنظر غير لائق وما أشبه ذلك .
القسم الثاني : التصوير الثابت على الورق ......
ولكن يبقى النظر إذا أراد الإنسان أن يُصوِّر هذا التصوير المباح فإنه تجري فيه الأحكام الخمسة بحسب القصد ، فإذا قُصد به شيءٌ مُحَرَّم فهو حرام ، وإن قُصد به شيءٌ واجب كان واجباً . فقد يجب التصوير أحياناً خصوصاً الصور المتحركة ، فإذا رأينا مثلاً إنساناً متلبساً بجريمة من الجرائم التي هي من حق العباد كمحاولة أن يقتل ، وما أشبه ذلك ولم نتوصل إلى إثباتها إلا بالتصوير ، كان التصوير حينئذٍ واجباً ، خصوصاً في المسائل التي تضبط القضية تماماً ، لأن الوسائل لها أحكام المقاصد . إذا أجرينا هذا التصوير لإثبات شخصية الإنسان خوفاً من أن يُتَّهم بالجريمة غيره ، فهذا أيضاً لا بأس به بل هو مطلوب ، وإذا صوّرنا الصورة من أجل التمتع إليها فهذا حرام بلا شك " انتهى من "الشرح الممتع" (2/197).
ترجمہ :
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"
موجودہ نئے طريقہ سے تصوير كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
نہ تو اس تصوير كا كوئى مشہد ہو اور نہ ہى مظہر، جيسا كہ مجھے ويڈيو كى ريل ميں موجود تصاوير كے متعلق بتايا گيا ہے، تو اس كو مطلقا كوئى حكم حاصل نہيں، اور نہ ہى مطلقا يہ حرمت ميں داخل ہوتا ہے، اس ليے جو علماء كاغذ پر فوٹو گرافى سے منع كرتے ہيں ان كا كہنا ہے: اس ميں كوئى حرج نہيں، حتى كہ يہ سوال كيا گيا:
آيا مساجد ميں ديے جانے والے دروس اور ليكچر كى تصوير بنانى جائز ہے ؟
تو اس كے جواب ميں رائے يہى تھى كہ ايسا نہ كيا جائے، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ چيز نمازيوں كے ليے تشويش كا باعث ہو، اور ہو سكتا ہے منظر بھى لائق نہ ہو.
دوسرى قسم:
كاغذ پر موجود تصوير.......
ليكن يہ ديكھنا باقى ہے كہ: جب انسان مباح تصوير بنانا چاہے، تو اس ميں مقصد كے اعتبار سے پانچ احكام جارى ہونگے، لہذا اگر اس نے كسى حرام چيز كا قصد كيا تو يہ حرام ہوگى، اور اگر اس سے واجب مقصود ہو تو يہ واجب ہے، كيونكہ بعض اوقات تصوير واجب ہو جاتى ہے، اور خاص كر متحرك تصوير، مثلا جب ہم ديكھيں كہ كوئى شخص جرم كر رہا اور اس جرم كا تعلق حقوق العباد سے ہے يعنى وہ كسى كو قتل كر رہا ہے اور ہم اس كو تصوير كے بغير ثابت ہى نہيں كر سكتے، تو اس وقت تصوير بنانى واجب ہوگى.
اور خاص كر ان مسائل ميں جو معاملات كو مكمل كنٹرول كرتے ہيں، كيونكہ وسائل كو احكام مقاصد حاصل ہيں، اگر ہم اس خوف اور خدشہ كى بنا پر يہ تصوير بنائيں كہ كہيں مجرم كے علاوہ كسى اور كو اس جرم ميں نہ پھنسا ديا جائے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں بلكہ تصوير بنانا مطلوب ہو گا، اور اگر تفريح كى بنا پر تصوير بنائى جائے تو بلاشك و شبہ يہ حرام ہے. انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 197 ).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علمی تحقیقات اور فتاوی کیلئے سعودی علماء کی مستقل کمیٹی کا فتوی ہے :
وقد سئل علماء اللجنة الدائمة للإفتاء : هل يجوز التصوير بالكاميرا (آلة التصوير) وهل يجوز التصوير بالتليفزيون، وهل يجوز مشاهدة التليفزيون وخاصة في الأخبار؟
فأجابوا : "لا يجوز تصوير ذوات الأرواح بالكاميرا أو غيرها من آلات التصوير، ولا اقتناء صور ذوات الأرواح ولا الإبقاء عليها إلا لضرورة كالصور التي تكون بالتابعية أو جواز السفر، فيجوز تصويرها والإبقاء عليها للضرورة إليها.
وأما التليفزيون فآلة لا يتعلق بها في نفسها حكم وإنما يتعلق الحكم باستعمالها، فإن استعملت في محرم كالغناء الماجن وإظهار صور فاتنة وتهريج وكذب وافتراء وإلحاد وقلب للحقائق وإثارة للفتن إلى أمثال ذلك ، فذلك حرام، وإن استعمل في الخير كقراءة القرآن وإبانة الحق والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وإلى أمثال ذلك ، فذلك جائز، وإن استعمل فيهما فالحكم التحريم إن تساوى الأمران أو غلب جانب الشر فيه " انتهى .
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1/458) .
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا كيمرہ يا ٹيلى ويژن كى تصوير جائز ہے، اور كيا ٹى وى ديكھنا خاص كر خبريں ديكھنا جائز ہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" كيمرہ يا دوسرے آلات تصوير كے ساتھ ذى روح كى تصوير اتارنى جائز نہيں، اور نہ ہى ذى روح كى تصاوير باقى ركھنا جائز ہيں، صرف ضرورت والى مثلا شناختى كارڈ يا پاسپورٹ والى تصوير اتروانى اور اسے ركھنا جائز ہے، كيونكہ اس كى ضرورت ہے.
ليكن ٹى وي ايك ايسا آلہ ہے جسے فى نفسہ كوئى حكم حاصل نہيں، ليكن اس كے استعمال كے اعتبار سے حكم ہوگا، اس ليے اگر تو يہ حرام يعنى گانے اور گندى فلميں اور ڈرامے ديكھنے، اور پرفتن تصاوير ديكھنے، اور جھوٹ و بہتنا الحاد اور حقيقت كو توڑ موڑ كر بيان كرنے اور فتن و فساد كو ابھارنے والے پروگرام ديكھنے كے استعمال ہو تو يہ حرام ہے.
اور اگراسے خير و بھلائى مثلا قرآن مجيد كى تلاوت اور حق بيان كرنے اور امر بالمعروف و النہى عن المنكر جيسے پروگرام ديكھنے ميں استعمال كيا جائے تو يہ جائز ہے.
اور اگر اسے دونوں قسم كے پروگراموں كے ليے استعمال كيا جائے تو پھر اسے حرام كا حكم ہى ديا جائيگا، چاہے دونوں چيزيں برابر ہوں، يا پھر برائى والى جانب غالب ہو" انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 1 / 458 ).
والحاصل : أن التصوير بالفيديو أو بالهاتف ونقل ذلك إلى الحاسب أو غيره من الأجهزة لا يأخذ حكم التصوير المحرم .
ثالثا :
وأما النظر إلى هذه الصور الموجودة على الفيديو أو الحاسب أو الهاتف ، فإن لم تشتمل على حرام ، فلا حرج في النظر إليها ، ومن أمثلة الحرام هنا : نظر الرجل إلى صور النساء الأجنبيات عنه ، ونظر المرأة إلى صور النساء الكاشفات عن عوراتهن ، أو إلى صور الحفلات التي يختلط فيها الرجال بالنساء على وجه يثير الفتنة ، فإن النظر إلى ذلك محرم ، وكذلك إذا اشتمل ملف الفيديو على صوت الموسيقى والمعازف .
قال الشيخ ابن جبرين حفظه الله : " النظر إلى الصور عبر جهاز التلفاز أو الفيديو ونحوه : ومن المنكرات أيضا : النظر إلى تلك الصور الفاتنة والتفكه بالنظر فيها ، تلك الصور التي تعرض في الأفلام عبر أجهزة الفيديو والتلفاز وغيرهما ، والتي تعرض فيها صور النساء المتبرجات ، سيما التي تذاع من البلاد الأجنبية كالبث المباشر ، وما يعرض بواسطة ما يسمى ( بالدش ) وما أشبهها .
إنها والله فتنة وأي فتنة ، حيث إن الذي ينظر إلى تلك الصور لا يأمن أن تقع في قلبه صورة هذه المرأة أو صورة هذا الزاني أو هذا الذي يفعل الفاحشة أمام عينيه ، وهو يمثل له كيفية الوصول إليها . فلا يملك نفسه أن يندفع إلى البحث عن قضاء شهوته ، إذا لم يكن معه إيمان حيث أكب على النظر إلى هذه الصور ، سواء كانت مرسومة أو مصورة في صحف ومجلات ، أو كانت مرئية عبر البث المباشر ، أو تعرض في الأفلام ونحوها .
إن هذه المعاصي والمحرمات المتمكنة قد فشت كثيرا وكثيرا ، ودعت إلى فواحش أخرى ، فالمرأة إذا أكبت على رؤية هؤلاء الرجال الأجانب لم تأمن أن يميل قلبها إلى فعل الفاحشة ، وإذا رأت المرأة هؤلاء النساء المتفسخات المتبرجات المتحليات بأنواع الفتنة ، لم تأمن أن تقلدهن فترى أنهن أكمل منها عقلا ، وأكمل منها اتزانا وقوة ، فيدفعها ذلك إلى أن تلقي جلباب الحياء ، وأن تكشف عن وجهها ، وأن تبدي زينتها للأجانب ، وأن تكون فتنة وأي فتنة " انتهى من موقع الشيخ على الإنترنت .
وما قاله الشيخ في التلفاز يقال في الفيديو وغيره .
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/answers/101257/
حاصل يہ ہوا كہ: ويڈيو يا موبائل سے تصوير لے كر اسے كمپيوٹر وغيرہ دوسرے آلات ميں داخل كرنا حرام تصوير كے حكم ميں نہيں آتا.
سوم:
اور ويڈيو يا كمپيوٹر يا موبائل ميں موجود تصاوير كو ديكھنے كے بارہ ميں گزارش يہ ہے كہ: اگر يہ تصاوير حرام پر مشتمل نہ ہوں تو انہيں ديكھنے ميں كوئى حرج نہيں، حرام كى مثال يہ ہے كہ: مرد غير محرم عورتوں كى تصويريں ديكھيں، يا پھر عورت كا عورتوں كى ايسى تصاوير ديكھنا جو پرفتن اعضاء ننگے كيے ہوں، يا پھر ان تقريبات اور محفلوں كى تصاوير ديكھنا جس ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو، اور فتنہ پھيلے، كيونكہ اسے ديكھنا حرام ہے، اور اسى طرح جب ويڈيو ميں موسيقى اور گانا بجانا شامل ہو تو بھى ديكھنا حرام ہے.
شيخ ابن جبرين حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" ٹى وى يا ويڈيو كے ذريعہ تصوير ديكھنا بھى برائى ميں شامل ہے، ان پرفتن تصاوير كو ديكھنا اور اسے ديكھ راحت محسوس كرنا بھى برائى ہے، وہ تصاوير ويڈيو اور ٹى وى وغيرہ كے ذريعہ فلموں ميں دكھائى جاتى ہيں، جن ميں بےپردہ عورتيں پيش كى جاتى ہيں، اور خاص كر وہ فلميں جو دوسرے ممالك سے پيش كى جاتى ہيں، اور جسے آج كل ڈش كہا جاتا ہے كے ذريعہ براہ راست پيش كيا جا رہا ہے اللہ كى قسم يہ فتنہ ہے.
ايسا فتنہ كہ جو بھى ان تصاوير كو ديكھتا ہے خطرہ ہے كہ اس فاحشہ اور زانى كى تصوير اس كے دل ميں گھر كر جائے، يا پھر اس كى آنكھوں كے سامنے سكرين پر جو فحش كام ہو رہا ہے ديكھنے والا اس تك پہنچنے كا طريقہ ڈھونڈتا پھرے، اور اپنى شہوت پورى كرے بغير كوئى چارہ نہ ہو اور وہ خواہشات ميں پڑ جائے، جو فحش كام ميں پڑنے كا سبب اور باعث بنے.
تو جب وہ يہ تصاوير ديكھ رہا ہے اس وقت اس كے ساتھ ايمان نہيں رہتا چاہے وہ تصوير ہاتھ سے بنى ہوں يا پھر اخبارات اور ميگزين ميں چھپى ہوئى ہوں، يا پھر براہ راست ڈش پر دكھائى جا رہى ہو، يا پھر فلموں وغيرہ ميں پيش كى جا رہى ہوں.
يہ گناہ و معاصى اور حرام كام بہت زيادہ پھيل چكے ہيں، اور اس كى كثرت ہو چكى ہے، اور يہى نہيں بلكہ يہ دوسرے فحش كام كى بھى دعوت ديتا ہے، جب عورت ان غير محرم مردوں كو ديكھتى ہے تو پھر اس كا دل فحاشى كى طرف مائل ہونے لگےگا.
اور جب عورت ان بےپرد اور فاحشہ عورتوں كئى قسم كے فتنہ و فساد ميں پڑى ہوئى عورتوں كو ديكھے گى تو خطرہ ہے كہ دوسرى عورتيں اس كى نقل كرتے ہوئے وہ بھى ايسا كرينگى، تو يہ عورت خيال كريگے كى وہ ان عورتوں سے زيادہ عقلمند ہے، اور اس سے طاقت و قوت ميں بہتر ہے، تو يہ اس كے حياء كا پردہ اتارنے كا باعث بن جائے اور اپنا چہرہ ننگا كر بيٹھے، اور اپنى زيبائش و زينت اجنبى اور غير محرم مردوں كے سامنے ظاہر كرنے لگے، اور فتنہ و خرابى كا باعث بن جائے، اس سے بڑھ كر اور كيا فتنہ ہو گا " انتہى
ماخوذ از: شيخ ابن جبرين كى ويب سائٹ.
شيخ نے جو كچھ ٹى وى كے بارہ ميں كہا ہے ويڈيو كے بارہ ميں بھى وہى كہا جائيگا.
واللہ اعلم .