یاسر اسعد
رکن
- شمولیت
- اپریل 24، 2014
- پیغامات
- 158
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 77
کیا پانی کا بحران عارضی ہے؟
پانی کا زندگی سے یا زندگی کا پانی سے کتنا گہرا تعلق ہے شاید اب اس کی بہت زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں رہی۔پانی کے تعلق سے جنم لینے والا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔مگر اس کی طرف عوام و خواص کو جس سنجیدگی اور فکر مندی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتی۔کچھ لوگ لکھ رہے ہیں، کچھ بول رہے ہیں، کچھ بیداری مہم چلا رہے ہیں، لیکن کل آبادی کے مقابلے میں ان کا تناسب کچھ بھی نہیں،اور ان کی کوششوں کے نتائج حوصلہ افزا بالکل نہیں۔پھر بھی جد وجہد جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔کیوں کہ اس تعلق سے آگے جو حالات پیش آسکتے ہیں ان کا محض تصور ہی رونگٹے کھڑا کر دینے والا ہے۔اس سلسلے کے کچھ سوالات ہیں جن کے جواب طے کرنے سے عملی اقدام کی راہ آسان ہوگی۔
زیر نظر تحریر میں صرف ایک سوال پر غور کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، وہ یہ کہ کیا پانی کا یہ بحران عارضی ہے؟کیا ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ اپریل ،مئی،جون کی سخت گرمی اس بحران کا سبب ہے؟ اور یہ کہ جولائی آتے ہی یا بارش شروع ہوتے ہی سب کچھ صحیح ہو جائے گا ؟ اور حسب سابق بے حساب وکتاب پانی بہانے کے لیے میسر ہوگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بارش ہونے سے راحت ضرور ہوگی، مسئلے کی سنگینی میں کمی آئے گی،زیر زمین پانی کی سطح کچھ اوپر اٹھے گی، بعض مشینیں جو فیل ہو چکی تھیں کچھ عرصے کے بعد پھر زمین کے پیٹ سے پانی نکالنا شروع کردیں گی۔سب کچھ صحیح ، لیکن پانی کا بحران طویل المیعاد منصوبوں کا متقاضی ہے، اس موضوع پر مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔زیر زمین پانی تشویش ناک حد تک کم ہو چکاہے۔ڈیڑھ دو ماہ کی بارش بارہ ماہ کا پانی فراہم کردے ایسا بھی بظاہر نظر نہیں آتا ۔ لہذا ہر شہر اور ہر علاقے میں سرکاری، نیم سرکاری اور عوامی کمیٹیوں کی تشکیل کرکے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم کام جس کا کوئی متبادل نہیں وہ بچے کھچے پانی کو بربادی سے بچانے کا ہے۔ہمارے گھروں میں، مسجدوں مندروں اور دیگر عبادت گاہوں میں، اسکولوں اور مدرسوں میں....الغرض جہاں بھی پانی استعمال ہوتا ہے یا برباد ہوتا ہے اس پر قدغن لگانے کی فوری ضرورت ہے۔ پہلے جب زمین سے پانی نکالنے والی مشینوں کا چلن نہیں تھا، ہینڈ پائپ اور کنوؤں سے پانی بھر کر استعمال کیا جاتا تھا تو پانی بہت ہی کم خرچ ہوتا تھا۔مئی جون سمیت سال بھر کبھی ہینڈ پائپ کے پانی نہ دینے یا کنوؤں کے خشک ہو جانے کی شکایت نہیں ملتی تھی۔اب مشینوں سے بغیر کسی محنت کے پانی نکال کر چھوٹی بڑی ٹنکیوں میں اسٹور کرلیا جاتا ہے پھر ٹونٹیوں سے براہ راست نہانا دھلنا اور ہر کام کرنا ہوتا ہے، جس میں عوام کی اکثریت بلا حد وحساب پانی بہاتی ہے۔واضح رہے کہ زیر زمین پانی بھی ایک محدود مقدار ہی میں رکھا گیا ہے، اس کا لا محدود خرچ اسے قبل از وقت اختتام کو پہنچا دے گا ۔ غور کیجیے : ہینڈ پائپ فیل ہوئے، چھوٹی مشینیں فیل ہوئیں، پھر بڑی مشینیں،پھر اس سے بڑی.. کنوؤیں خشک ہوئے، چھوٹے بڑے تالاب اپنا وجود کھو بیٹھے، حتی کہ شہروں اور دیہاتوں کو سیراب کرنے والی چھوٹی بڑی ندیاں یا تو نالوں کا روپ دھار چکی ہیں یا دلدل اور کیچڑ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ نہیں، زیر زمین سطح آب کی مسلسل کمی جس کو شاید ہم اپنی سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھ پا رہے ہیں اسی کمی کا مشاہدہ کرانے کے لیے ایک وارننگ کی شکل میں اسے ہمارے رو برو کر دیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اگلی نسلوں کا پانی پی رہے ہیں (یا برباد کررہے ہیں)یعنی ہمارے حصے کا جتنا پانی رکھا گیا تھا وہ کب کا ہم استعمال کرچکے۔ اب ہم اپنے بیٹوں، پوتوں اور پڑپوتوں کے حصوں کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ غور کریں، انسان اپنے بال بچوں کے مستقبل کو لے کر کتنا فکر مند رہتا ہے، ان کے لیے رہائش، روزگار اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنانا اس کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔مگر کیا اس کے ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ہماری آنے والی نسل پانی کہاں سے پیے گی؟اس کے لیے روپیہ پیسہ اور زمین جائیداد کی طرح پانی بچانے اور اسٹور کرکے رکھنے کا بھی کوئی پلان ہے یا نہیں؟ اسے یہ فکر تو ضرور ستاتی رہتی ہے کہ کہیں ہمارے بعد ہماری اولاد بھک مری اور فاقہ کا شکار نہ ہو اور دو وقت کی روٹی کو نہ ترس جائے، لیکن دو گھونٹ پانی کے بغیر یہی اولاد زندگی کی بازی نہ ہار جائے کیا کبھی اس کی بھی اس نے فکر کی؟
کہا جاتا ہے کہ پانی کا مسئلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ کی نوبت آئی تووہ پانی کے مسئلے کو لے کر ہوگی۔ یعنی دنیا کے سامنے اس سے اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے جو ضرب وحرب اور جنگ تک پہنچادے۔اس خطرناک وقت کے آنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ جنگی پیمانے پر پانی کے تحفظ کے لیے اقدامات شروع کردیں ۔ اس کے لیے فوری طور پر درج ذیل طریقوں سے کام کیا جا سکتا ہے:
نرسری سے لے کر اعلی درجات تک کی تمام درسگاہوں میں پانی کے تعلق سے بیداری مہم شروع کریں۔ ان درسگاہوں میں تعلیم پانے والے نونہالوں کو مختلف وسائل واسالیب سے پانی کی اہمیت اور اس کی بچت کے طریقوں سے واقف کرائیں، اس سلسلے میں ان سے رائے مانگیں، پانی بچانے کے لیے انھیں عملی اقدام کا مکلف کریں اور اس کی رپورٹ مانگیں،اس موضوع پر تحریری وتقریری مقابلے منعقد کریں، لکچرس دلوائیں، کسی دن طلبہ کو کسی علاقے میں سروے کے لیے بھیجیں کہ اس علاقے میں پانی کن کن طریقوں سے ضائع ہو رہا ہے اور اسے روکنے کی کیا ممکنہ شکلیں ہو سکتی ہیں.. وغیرہ وغیرہ۔
میڈیا کا کردار اس معاملے میں بے حد اہم ہے۔ ہمارا میڈیا جو دن رات بہت ساری مفید اور غیر مفید چیزیں نشر کرتا ہے اور بسا اوقات مخصوص افکار ونظریات کی ترویج واشاعت کے لیے مختلف طریقوں سے لوگوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے ، اگر اس موضوع کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی توجہ کا مرکز بنا لے اور منصوبہ بند طریقے سے اس پر مسلسل کام کرے تو یقیناً اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سلسلے میں پرنٹ میڈیا ، الکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا ،ہر ایک کا کردار اپنی جگہ اہم ہے۔ سوشل میڈیا جس کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور عوام کا ایک بڑا طبقہ اس سے جڑا ہوتا ہے اس کا رول بہت مؤثر ہو سکتا ہے۔ہمارے صحافی اور میڈیا کارکن اس اہم موضوع پر رضاکارانہ خدمات پیش کریں اور اپنے قلم، تحریر، رپورٹ، فیچر..وغیرہ وغیرہ متنوع ذریعوں سے عوام وخواص کو پانی کے تحفظ کی ضرورت اور اس کی تدابیر سے واقف کرائیں تو باذنہ تعالی بہت کچھ تبدیلی آسکتی ہے۔
اسعد اعظمی/ جامعہ سلفیہ ،بنارس