• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
کیا چاروں امام برحق ہیں ؟

حافظ زبیر علی زئی﷾​
سوال:
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ چار امام برحق ہیں مگر تقلید صرف ایک کی کرتے ہیں۔قرآن وحدیث سے جواب دیں کہ امام کس طرح برحق ہیں اور ان کو ماننا کس حد تک جائز ہے ؟
جواب:
اہل اسلام میں ہزاروں لاکھوں امام گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام ﷢ ، تمام صحیح العقیدہ ثقہ تابعین وتبع تابعین اور دیگر آئمہ عظام رحمہ اللہ اجمعین۔ اس وقت دنیا میں آل تقلید کے کئی گروہوں میں سے دو بڑے گروہ ہیں۔
اول:
مذاہب اربعہ میں سے صرف ایک مذہب کی تقلید کرنے والے یہ لوگ امام مالک، ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد رحہم اللہ کو چار امام کہتے ہیں۔
دوم:
شیعہ یعنی روافض: یہ اہل بیت کے بارہ اماموں کو امام برحق اور معصوم مانتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ اہل سنت کی طرف منسوب تقلیدی مذاہب والے لوگوں کے نزدیک چار اماموں سے مراد مالک بن انس المدنی، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی الکابلی، محمد بن ادریس الشافعی الہاشمی اور احمد بن حنبل الشیبانی البغدادی رحمہم اللہ ہیں۔
مذکورہ چار اماموں کوبرحق ماننے کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔
نمبر1۔
یہ چاروں حدیث اور فقہ کے بڑے امام تھے۔
عرض ہے کہ امام ابوحنیفہ کےبارے میں جمہور سلف صالحین کااختلاف ہے ، جس کی تفصیل التاریخ الکبیر للبخاری، الکنیٰ للامام مسلم، الضعفاء للنسائی، الکامل لابن عدی، الضعفاء للعقیلی، المجروحین لابن حبان اور میری کتاب ’’ الاسانید الصحیحہ فی احبار الامام ابی حنیفہ ‘‘ میں ہے۔ پانچویں صدی ہجری سے لے کر بعد والے زمانوں میں عام اہل حدیث علماء (محدثین) کے نزدیک امام ابوحنیفہ فقہ کے ایک مشہور امام تھے اور یہی راجح ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا
’’ فقيه مشهور‘‘ (تقریب التہذیب: 7153)
یعنی امام ابوحنیفہ مشہور فقیہ تھے۔
امام یزید بن ہارون الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا
’’ادركت الناس فما رايت احداً عقل ولا افضل ولا اورع من ابي حنيفة‘‘ (تاریخ بغداد ج13، ص364 وسندہ صحیح)
’’ میں نے (بہت سے) لوگوں کو دیکھا ہے لیکن ابوحنیفہ سے زیادہ عقل والا، افضل اور نیک کوئی بھی نہیں دیکھا‘‘
سنن ابی داود کے مصنف امام ابوداود سجستانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
"رحم الله مالكاً كان اماماً رحم الله الشافعي كان اماماً رحم الله ابا حنيفة كان اماماً "(الانتقاء لابن عبدالبرص32 وسندہ صحیح ، الاسانید الصحیحہ ص 82)
’’ مالک (بن انس) پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، شافعی پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے، ابوحنیفہ پر اللہ رحم کرے وہ امام تھے۔‘‘
ان کے علاوہ حکم بن ہشام الثقفی، قاضی عبداللہ بن شبرمہ، شقیق البلخی، عبدالرزاق بن ہمام صاحب المصنف، حافظ ابن عبدالبر اور حافظ ذہبی وغیرہم سے امام ابوحنیفہ کی تعریف وثناء ثابت ہے۔
تنبیہ:
حدیث میں ثقہ ہونا یا نہ ہونا ، حافظے کا قوی ہونا یانہ ہونا یہ علیحدہ مسئلہ ہے جس کی مفصل تحقیق ’’الاسانید الصحیحہ‘‘ میں مرقوم ہے۔بطور خلاصہ عرض ہے کہ جمہور محدثین نے (جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے) امام صاحب (ابوحنیفہ) پر حافظے وغیرہ کی وجہ سے جرح کی ہے۔
ماہنامہ الحدیث حضرو، وغیرہ میں ہم نے اپنامنہج بار بار واضح کردیا ہے کہ اگر محدثین کرام کے درمیان کسی راوی کےبارےمیں جرح وتعدیل کااختلاف ہو تو ہمارےنزدیک تطبیق نہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کوترجیح حاصل ہوتی ہے۔

باقی تینوں امام حدیث میں ثقہ اور فقہ میں امام تھے۔رحمہم اللہ اجمعین​
نمبر2۔
اگر چار امام برحق ہونے کا یہ مطلب ہے کہ لوگوں پر ان چار میں سے صرف ایک امام کی تقلید واجب یا جائز ہے تو یہ مطلب کئی وجہ سے باطل ہے۔
وجہ1۔
عربی لغت میں ’’بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی‘‘ کو تقلید کہتے ہیں۔دیکھیئے القاموس الوحید(ص 1342) اور میری کتاب ’’دین میں تقلید کا مسئلہ‘‘ (ص7)
بے دلیل پیروی قرآن مجید کی رو سے ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ولا تقف ماليس لك به علم﴾ (بنی اسرائیل:36)
اور جس کاتجھے علم نہ ہو اس کو پیروی نہ کر۔
اس آیت سےمعلوم ہوا کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
نیز دیکھیئے المستصفیٰ من علم الاصول للغزالی(ج 2،ص 389)، اعلام الموقعین لابن القیم (ج2 ص188) اور الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی(ص 125، 130)
وجہ2۔
رسول اللہﷺ کی کسی حدیث میں آئمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔لہذا مروجہ تقلید بدعت ہے۔اور رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اورہر بدعت گمراہی ہے۔(صحیح مسلم:868، دارالسلام،2005)
وجہ3۔
صحابہ کرام﷢ سے مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ بعض صحابہ﷢ سے صراحتاً تقلید کی ممانعت ثابت ہے۔مثلاً سیدنا عبداللہ بن مسعود﷜نے فرمایا:
دین میں تقلید نہ کرو۔(السنن الکبریٰ للبیہقی ج2، ص10، وسندہ صحیح ، دین میں تقلید کا مسئلہ ص35)
سیدنا معاذ بن جبل﷜ نے فرمایا:
رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو اگر وہ سیدھے راستے پر بھی ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔الخ (کتاب الزہد للامام وکیع بن الجراح ج1 ص299، 300 ح71 وسندہ حسن)
وجہ4۔
اس پر اجماع ہے کہ مروجہ تقلید ناجائز ہے۔دیکھیئے النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین الابن حزم (ص71)، الرد علی من اخلد الی الارض للسیوطی(ص 131، 132) اور دین میں تقلید کا مسئلہ (ص34، 35)
وجہ5۔
تابعین کرام میں سے کسی سے بھی مروجہ تقلید ثابت نہیں بلکہ ممانعت ثابت ہے۔مثلاً امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہ لوگ تجھے رسول اللہ ﷺ کی جو حدیث بتائیں تو اسے پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے کہیں اسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔(مسند الدارمی ج1 ص67 ح206 وسندہ صحیح)
حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
لوگوں میں سےہر آدمی کی بات آپ لےبھی سکتے ہیں اور رد بھی کرسکتے ہیں سوائے نبی کریمﷺ کے (یعنی آپﷺ کی ہر بات لینا فرض ہے) (الاحکام لابن حزم ج2 ص 293 وسندہ صحیح)
ابراہیم نخفی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول پیش کیا تو انہوں نے فرمایا :
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کا کیا کرو گے۔؟ (الاحکام لابن حزم ج2 ص293 وسندہ صحیح)
وجہ6۔
لوگوں کے مقرر کردہ ان چاروں سے بھی مروجہ تقلید کا جواز یا وجوب ثابت نہیں بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا
"ولا تقلدوني" (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص 51 وسندہ حسن)
’’ اور تم میری تقلید نہ کرو۔‘‘
مزید عرض ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی اور دوسروں کی تقلید سےمنع فرمایا تھا۔دیکھیئے مختصر المزنی( ص1)
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا
اپنے دین میں تو ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔(مسائل ابی داؤد ص277)
بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ ’’ممانعت صرف مجتہدین کےلیے ہے‘‘ بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل اور مردود ہے۔
وجہ7۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
اےیعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔(تاریخی یحیٰ بن معین، روایۃ الدوری ج2 ص607)
مشہور ثقہ راوی قاضی حفص بن غیاث النخعی الکوفی نے فرمایا:
"كنت أجلس الي أبي حنيفة فأسمعه يفتي في المسئلة الواحدة بخمسة أقاويل في اليوم الواحد فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت علي الحديث" (کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل:316 وسندہ صحیح)
’’میں ابوحنیفہ کے پاس بیٹھتا تھا تو ایک دن میں ہی انھیں ایک مسئلے کے بارے میں پانچ اقوال کہتےہوئےسنتا ، جب میں نے یہ یکھا تو انہیں ترک کردیا (یعنی چھوڑ دیا) اورحدیث (پڑھنے) کی طرف متوجہ ہوگیا‘‘
حفص بن غیاث سے اس روایت کےراوی عمر بن حفص بن غیاث ثقہ تھے۔دیکھیئے کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (ج2 ص103 ت 544 نقلہ عن ابیہ ابی حاتم الرازی قال : کوئی ثقۃ ) ان پر جرح مردود ہے۔ عمر بن حفص کے شاگرد ابراہیم بن سعید الجوہری ابو اسحاق ثقہ ثبت تھے۔دیکھیئے تاریخ بغداد(ج6 ص93 ت 3127)ان پر ابن خراش رافضی کی جرح مردود ہے۔ ابراہیم الجوہری رحمہ اللہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ احمد بن یحیٰ بن عثمان نے ان کی متابعت تامہ کررکھی ہے۔دیکھیئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی (ج2 ص 789)
اگر احمد بن یحیٰ بن عثمان کا ذکر کاتب کی غلطی نہیں توعرض ہے کہ یعقوب بن سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ہزار اور زیادہ اساتذہ سے حدیث لکھی ہے اور سارے ثقہ تھے۔الخ (تہذیب الکمال ج1 ص46، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، اختصار ابن منظور ج3 ص105)
تاریخ دمشق کامذکورہ ترجمہ نسخۂ مطبوعہ میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس قول کی سند مل نہ سکی اور یہ قول اختصار کےساتھ تاریخ بغداد (ج4 ص199، 200 وسندہ صحیح) وغیرہ میں موجود ہے۔واللہ اعلم نیز دیکھیئے التنکیل لما فی تانیب الکوثری من الاباطیل (ج1 ص24)
وجہ8۔
بعد کے علماء نے بھی مروجہ تقلید سےمنع فرمایاتھا مثلاً امام ابومحمد القاسم بن محمد بن القاسم القرطبی رحمہ اللہ نے مقلدین کےرد پر ایک کتاب لکھی ۔دیکھیئے سیر اعلام النبلاء (ج13 ص 339)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نےکہا :
اور تقلید حرام ہے۔(النبذۃ الکافیۃ فی احکام اصول الدین ص70)
عینی حنفی نے کہا :
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کاارتکاب کرتا ہے اورہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔(البنایہ شرح الہدایہ ج1 ص 317)
وجہ9۔
دین اسلام میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والے پر امام شافعی وغیرہ کی تقلید حرام ہے۔
وجہ10۔
مروجہ تقلید کی وجہ سے امت میں بڑا انتشار اور اختلاف ہوا ہے۔مثلاً دیکھیئے الفوائد البہیہ (ص 152، 153)، میزان الاعتدال (ج4 ص52)، فتاویٰ البزازیہ (ج4 ص112) اوردین میں تقلید کا مسئلہ (ص89، 90)
مزید تفصیل کےلیے اعلام الموقعین وغیرہ بہترین کتابوں کامطالعہ کرنا مفید ہے۔
درج بلا جواب کاخلاصہ یہ ہے کہ فقیہ ہونے کے لحاظ سے چاروں امام اور دوسرے ہزاروں لاکھون ثقہ صحیح العقیدہ امام برحق تھے۔مگر دین میں مروجہ تقلید کسی ایک کی بھی جائز نہیں اور لوگوں پر یہ فرض ہے کہ سلف صالحین کےفہم کی روشنی میں قرآن وحدیث اور اجماع پر عمل کریں اور مروجہ تقلیدی مذاہب سے اپنے آپ کو دور رکھیں کیونکہ ان تقلیدی مذاہب کے اماموں کی پیدائش سےپہلے اہل سنت کامذہب دنیا مین موجود تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کے پیدا ہونے سے پہلے اہل سنت وجماعت کامذہب قدیم وشمہور ہے کیونکہ یہ صحابہ کا مذہب ہے۔(منہاج السنۃ ج1 ص256)
 
Top