• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا چاند بھی وطنی سرحدوں میں قید ہے؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
642
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
77
کیا چاند بھی وطنی سرحدوں میں قید ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ایک نہایت ضروری مسئلہ جس سے مسلسل اغماض برتا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ آج جو شخص مسئلہ رؤیتِ ہلال پر بحث کرے گا، وہ "اختلافِ مطالع" پر نہیں بلکہ "اختلافِ ممالک" پر گفتگو کرے گا۔ دوسرے الفاظ میں، وہ "قومی چاند"، "ملکی چاند" یا "وطنی چاند" کے نظریے کا حامل ہوگا۔ یہ ایک ایسی بدعت ہے جو امتِ مسلمہ میں انگریزوں کی آمد سے پہلے سرے سے موجود نہ تھی۔ اسی بدعت کو فروغ دینے کے لیے ہر ملک میں الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، اور انہیں مطلق اختیار دے دیا گیا، یہاں تک کہ ان کے فیصلوں کو خدائی حکم کی طرح ماننے کی ترغیب دی گئی۔

یہ حقیقت ذہن نشین رہے کہ "اختلافِ ممالک" کا نظریہ اسلامی تعلیمات میں سرے سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس لیے اس نظریے کے دفاع میں قرآن، حدیث اور اقوالِ فقہاء کو پیش کرنا اصولی طور پر غلط ہے۔ کیونکہ یہ تمام نصوص "اختلافِ مطالع" کے مسئلے پر روشنی ڈالتی ہیں، نہ کہ "اختلافِ ممالک" پر۔

چنانچہ، اگر کوئی "قومی چاند" یا "ملکی چاند" کے نظریے کا حامل شخص قرآن و سنت یا فقہاء کے اقوال سے اپنے دعوے کی تائید کرنے کی کوشش کرے، تو سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اسے یہ باور کرایا جائے کہ اس کا نظریہ سرے سے اسلام میں موجود ہی نہیں۔ جب کوئی نظریہ اسلامی بنیاد ہی نہیں رکھتا، تو اس پر اسلامی نصوص کا اطلاق کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے جمہوریت یا دیگر کفریہ نظاموں کے جواز میں اسلامی نصوص کو پیش کیا جائے۔ جب جمہوریت کے حق میں قرآن و حدیث سے استدلال ناجائز ہے، تو "قومی چاند" کے حق میں ایسا کرنا بھی اتنا ہی باطل ہے۔

یہ نکتہ واضح رہے کہ "حدیثِ کریب" یا دیگر فقہی نصوص "اختلافِ مطالع" کے حوالے سے ہیں، نہ کہ "اختلافِ ممالک" کے حوالے سے۔ اس لیے جہاں بحث "اختلافِ مطالع" پر ہو، وہاں ان نصوص کو پیش کیا جا سکتا ہے، لیکن جہاں "اختلافِ ممالک" کی بحث ہو، وہاں ان کا ذکر کرنا علمی دیانت کے خلاف ہوگا۔

یہاں ایک پہاڑی پر ایک ہندوستانی بیٹھا ہے، اور دوسری جانب، محض ایک لکیر کے فاصلے پر، پاکستانی چاند نظر آ رہا ہے۔ سرحد کے اِس پار بیٹھا شخص اعلان کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں چاند نظر آ چکا ہے، جبکہ دوسری جانب موجود شخص بضد ہے کہ یہ رؤیت میرے لیے معتبر نہیں۔ اگر اِسے پاگل پن نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے؟

یہی حال "اختلافِ ممالک" کا ہے، جو درحقیقت "نیشنل ازم" اور "قوم پرستی" کی پیداوار ہے۔ یہ بدعت اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ تاریخ ایک نہیں، بلکہ ہر ملک کی اپنی علیحدہ تاریخ ہے! یہ ایسی غیر معقول بات ہے جسے کوئی بھی سلیم الفطرت انسان قبول نہیں کر سکتا۔

ملکوں کی سرحدیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں، ۱۹۷۱ میں پاکستان دو حصوں میں بٹ گیا، کیا اس سے تاریخ بھی تقسیم ہو گئی؟ اگر کل کو کوئی اور خطہ علیحدہ ہو جائے تو کیا اس کی تاریخ بھی الگ ہوگی؟ یہ کیسا مضحکہ خیز فلسفہ ہے؟

اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ ہمارا سامنا کسی علمی فریق سے نہیں، بلکہ درباری مفادات کے حامل ایک ایسے گروہ سے ہے جس کا کوئی اصول نہیں۔ اگر آج ہی حکومت فیصلہ کر لے کہ مالی بوجھ کم کرنے کے لیے رؤیتِ ہلال کمیٹی کو تحلیل کر دیا جائے اور سعودی عرب کے اعلان پر عمل کیا جائے، تو یہی لوگ فوراً اپنی سابقہ بحثوں کو بھول جائیں گے۔ پھر انہیں "بلادِ قریبہ" اور "بلادِ بعیدہ" کے فقہی نکات بھی یاد نہیں آئیں گے، اور سعودی کمیٹی میں جو کیڑے نکالے جا رہے تھے، وہ بھی دفن ہو جائیں گے۔

لہٰذا، ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کو وطن پرستی کے شرک سے توبہ کی دعوت دیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ گمراہ کر دیے گئے ہیں اور ان کے دین و عقل کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔

یہ حقیقت بھی کبھی فراموش نہ کی جائے کہ یہ افراد جمہوریت کے شرک میں غرق ہو چکے ہیں۔ اختلافِ مطالع یا اختلافِ ممالک تو چھوٹی باتیں ہیں، اگر یہ لوگ نماز بھی ترک کر دیں تو بھی جمہوریت کے شرک کے مقابلے میں یہ کوئی بڑی برائی نہ ہوگی۔ اس لیے ان سے حقیقی ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے ہر مکالمے میں پہلے یہ بات کہی جائے کہ آپ چھوڑیں ان باتوں کو کہ کس کا روزہ ہوتا ہے اور کس کا نہیں، پہلے اپنے ایمان کی خیر منائیں اور جمہوریت کے شرک سے توبہ کریں۔

وما علینا الا البلاغ۔
 
Top