محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
میرے بھائی میں آپ کی وضاحت علماء کی طرف ٹیگ کر دیتا ہو -کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرواور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩
تو اس تنازع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلانا اسلام و ایمان ہے اب کون مسلمان ہے جو اس اسلام و ایمان کا انکار کرے سوائے منافق اور کافر کے
والسلام
کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان
''اے ایمان والو! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرواور اولی الامر (امراء یا اہل علم) کی بھی، پس اگر تمہارا کسی شے میں تنازع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ زیادہ بہتر اور نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔'' سورة النساء: ٥٩
تو اس تنازع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلانا اسلام و ایمان ہے اب کون مسلمان ہے جو اس اسلام و ایمان کا انکار کرے سوائے منافق اور کافر کے
والسلام
درج بالا حدیث مبارکہ سے دوسروں کو کھانا کھلانے کی فضیلت بیان ہو رہی ہے، چہلم کا ثبوت ہرگز نہیں ہورہا۔ مغالطہ دینا بہرام صاحب کی پرانی عادت ہے۔ یہاں بھی انہوں نے یہی مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ کوئی عام کھانا ہو اگر اس میں فی ذاتہ کوئی خلافِ اسلام (مثلاً حرام کھانا یا اسراف وغیرہ) بات نہ ہو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن کسی مخصوص موقع کا کھانا اس کا حکم اس مخصوص موقع کا ہوتا ہے۔ یہاں صرف کھانا کھلانے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ چہلم کے کھانے کی بات ہو رہی ہے۔ جیسے چہلم منانا بدعت ہے تو اس کا کھانا بھی اس بدعت کو فروغ دینے کا باعث ہے۔ ہاں اگر آپ کو چہلم کے بدعت ہونے پر اعتراض ہے تو اس پر بات کریں۔ اس کو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام بشمول سیدنا علی وحسنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت کریں!کھانا کھلانا اسلام ہے
امام بخاری نے صحیح بخاری میں " کتاب ایمان " میں ایک حدیث بیان کی کہ
ترجمہ داؤد راز
ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کی روشنی میں کھانا کھلانا اسلام ہے یعنی ایمان ہے اور چہلم وغیرہ میں بھی کھانا ہی کھلایا جاتا جو کہ اس ارشاد پاک کی روشنی میں ایمان و اسلام ہے
لیکن یہ بات حضرت عمر کو معلوم نہیں تھی اس لئے انھوں نے صحابی رسول حضرت صہیب جو کہ صہیب رومی کے نام سے مشہور ہیں پر اس بات پر اعتراض کیا اور حضرت عمر نے حضرت صہیب رومی کی تین بری خصلتیں گنوائی جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وفيك سرفٌ في الطَّعامِیعنی تمہاری یہ خصلت بہت بری ہے تم کھانا بہت کھلاتے ہو اس کے جواب میں حضرت صہیب بن سنان نے فرمایا کہ وأمَّا قولُك فيك سرفٌ في الطَّعامِ یعنی حضرت صہیب بن سنان نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت کھانا کھلاتا ہوں تو وہ اس لئے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فإنِّي سمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ خيارُكم من أطعم الطَّعامَ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے
اس حدیث کو البانی صاحب نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں بیان کیا جلد چہارم کتاب اخلاق
اور اس حدیث سے پہلے البانی صاحب نے ایک حدیث بیان کی ہے فقاہت فی الاسلام کی برتری کے عنوان سے جس کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے ذیادی معزز کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ
" زمانہ جہالیت میں جو بہتر تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی بہتر ہیں اگر ان میں دین کی سمجھ ہو "
ان ساری احادیث سے یہ نتیجہ نکل رہا کہ حضرت صہیب بن سنان حضرت عمر سے بہتر ہیں کیوں کہ انہیں دین کی سمجھ حضرت عمر سے ذیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ کھانا کھلانے کو برا سمجھنا حضرت عمر کی سنت ہے لیکن کھانا کھلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اسلام و ایمان