وجاہت
رکن
- شمولیت
- مئی 03، 2016
- پیغامات
- 421
- ری ایکشن اسکور
- 44
- پوائنٹ
- 45
اس طرح کا ایک سوال پوچھا جا چکا ہے - اسلامک بیلیف والوں سے اب دیکھتے ہیں کہ ان کا جواب کیا ہے تا کہ علمی گفتگو آگے بڑھ سکے - یہاں مجھے خوشی ہوئی کہ ایک دوسرے پر طنز کیے بغیر گفتگو آگے بڑھ رہی ہے - امید ہے کہ آگے بھی ایسا ہی ہو گا -ہمارا مقصد یہاں ایک دوسرے کو گالیاں دینا نہیں بلکہ جو ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں ہیں وہ دور ہوں - الله ہم سب کا حامی و ناصر ہو - میری اس پوسٹ کا کوئی غلط مطلب نہ لیا جایے - الله دلوں کے حال بہتر جانتا ہے - شکریہاور گمراہ شخص تھا ،جس نے بیک وقت صحابہ اور جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،کی واضح گستاخی کی ۔ڈاکٹر مسعود عثمانی بالقابہ السیئہ۔یقیناً ایک گستاخ
اور اس کے مقلدین نے اس کی پیروی میں یہی بری راہ اپنائی ۔اور موجودہ علما سے لے کر سلف تک یعنی امام احمد بن حنبل ؒ
اور کئی ائمہ محدثین تک کونہ چھوڑا ۔
ڈاکٹر عثمانی اور ان کے اندھے تکفیری مقلدین جو کہ امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی خصوصا اور دیگر ائمہ دین کی عموما گستاخی کرتے ہیں اور ان پر شرک و کفر کے فتوے داغتے رہتے ہیں، ان کی ذہنی حالت ایک لطیفہ سے کم نہیں ۔
ان کا دعوی ہے کہ پوری امت میں عقیدہ توحید ان کے علاوہ نہ کوئی سمجھتا ہے اور نہ بیان کرتا ہے ،، اور یہی بات ان کے گمراہ ہونے کی دلیل ہے
ایک بھائی محمد عرفان اسلامک بیلیف والوں سے پوچھتے ہیں کہ
اسلام علیکم
سوال 1
تکفیر امت کا مسئلہ کیا ھے اس کی وضاحت کریں ؟
سوال 2
تکفیر مطلق اور تکفیر معین کے بارے میں وضاحت کریں ؟
سوال 3
کیا کسی شخص کو معین کر کے اس کی تکفیر کی جا سکتی ھے جیسے کچھ حضرات امام احمد بن حنبل ابن تیمیہ اور ابن قیم کی کتابوں اور ان کے عقائد کی وجہ سے ان کی اور ان کو ماننے والوں کی تکفیر کرتے ہیں ؟
جواب
تکفیر یعنی کسی کو کافر کہنا ہے
اس میں اہل اسلام کا اختلاف ہے کہ اہل قبلہ کو کیا کافر کہا جا سکتا ہے یا نہیں
کافر قرار دینے کی امثال
ابو بکر نے زکوات نہ دینے والے قبائل کی تکفیر کی حالآنکہ وہ اہل قبلہ تھے
محدثین نے خلق قرآن کے قائل خلفاء کی تکفیر کی مثلا امام احمد نہ جگہ جگہ خلق قرآن کے قائلین کو کافر کہا ہے لیکن خروج نہیں کیا
کافر قرار نہ دینے کی مثال
خوارج کو امت میں سے کسی نے کافر نہیں کہا خوارج علی اور عثمان کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کہتے ہیں لیکن ان کی تکفیر نہیں کی گئی یہاں تک کہ محدثین نے اور ابن عباس نے ان کو شاگرد بنایا اور صحیح بخاری میں خارجی سے روایت لی گئی ہے
ظاہر ہے کفر سے عدالت ساقط ہوتی ہے
ختم نبوت کے انکار پر کفر کا فتوی
ختم نبوت کا انکار بھی ابو بکر کے نزدیک کفر ہے اور اسی پر صحابہ کا عمل تھا
تکفیر معین کی مثال اور اس کے اثرات
جعد بن درہم اور جھم بن صفوان کو امام احمد کافر کہتے تھے
وحدت الوجودی جھمی ہیں اس لئے تمام صوفیاء جو اس کے قائل ہیں وہ بھی امام احمد کے فتوی کی زد میں اتے ہیں
وہ بنیادی چیزیں جن کا انکار کیا جائے تو اسلام سے خارج ہو جانا ہے ان میں
توحید کا اقرار ہے کہ الله ایک ہے اس کی بیوی بیٹی اور بیٹا نہیں ہے
نبی صلی الله علیہ وسلم آخری رسول ہیں
قرآن جو ہاتھوں میں ہے آخری کتاب ہے
اسلام کے ارکان دین کا ظاہر ہیں ان کا انکار بھی کفر سمجھا گیا ہے
لہذا اہل سنت کی کتب میں شیعہ پر کفر کا فتوی نہیں لگایا گیا کیونکہ باوجود غلو کے انہوں نے بنیاد کا انکار نہیں کیا ہے اور رافضی کی روایت محدثین نے صحیح بخاری و مسلم میں لکھی ہے یعنی عدالت ساقط نہیں ہوتی
جھمی کو کافر کہا گیا کیونکہ انہوں نے صفات الہی کا انکار کیا اور ان کی حدیث بھی چھوڑ دی گئی
وہ چیزیں جن کو قرآن کفر کہتا ہے ان کو کرنے سے تکفیر مطلق ہوتی ہے مثلا شرک لیکن اس میں امت کی اکثریت آج مبتلا ہے
لہذا اس میں بحث و اختلاف ہے – اس میں ایک رائے نہیں ہے
اس میں ہر شخص اپنے مطابق دوسرے کو کافر کہہ رہا ہے مثلا تکفیر کرنا حکومت کا کام رہنے ہی نہیں دیا گیا جب امام احمد نے اس میں فتوی بازی شروع کی الٹا حکومت کو ہی فارغ ایمان کر ڈالا
یہ انسانوں کا عمل ہے لیکن رب کہتا ہے
جو الله کے نازل کردہ حکم پر حکم نہ کریں فاسق ہیں ظالم ہیں کافر ہیں
یہ آیات اہل کتاب کے لئے نازل ہوئیں لیکن ظاہر ہے الله کا اپنا فیصلہ ہے اور آخر اسی کا فیصلہ چلتا ہے
امام احمد یا ابن تیمیہ اور ان کے ماننے والے وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو قرآن سے ثابت نہیں ہوتا ظاہر ہے اس میں انسانوں کے کہنے سے وہ کافر نہیں ہوں گے نہ انسانوں کے کہنے سے جنتی بن جائیں گے گمراہی کا تعلق اس سے ہے کہ قرآن کا بیان کردہ عقیدہ کیا ہے کیا اس میں ان فلسفوں کی گنجائش ہے جو یہ ائمہ بیان کر گئے ہیں
لہذا ان پر کفر کا فتوی ڈاکٹر عثمانی نے کہیں نہیں لگایا انہوں نے صرف یہ کہا ہے کہ صحیح عقیدہ ایک ہی ہے جس کا ماننے والا صحیح دین پر ہے اور تبین کے لئے انہوں نے اپنی کتابوں میں ان ائمہ کے عقائد کو بیان کر دیا ہے
ڈاکٹر عثمانی نے عذاب البرزخ میں لکھا تھا
========
یہ دونوں عقیدے جو قرآن و حدیث کی تصدیق یا تکذیب کرتے ہیں ایک نہیں ان میں زمین و آسمان کی دوری اور ایمان و کفر کا فرق ہے ایک کا ماننے والا بہر جال دوسرے کا کافر ہے
=======
اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایک عقیدے کو ماننے والا دوسرے عقیدہ کا کفر کرتا ہے اس میں ایک اصل ایمان ہے
ظاہر ہے جب کسی عقیدہ میں دو آراء پائیں جائیں تو صحیح تو ایک ہی ہو گی نہ کہ دونوں ایک ساتھ صحیح ہوں
امام احمد کا بھی یہی انداز تھا جس کو سنا صفات میں کلام کیا اس کو ٹھک سے جھمی کافر کہا اس میں جرح صرف عثمانی پر ہی کیوں ہے ؟
====================
امام بخاری کا کنفیوژن اور تکفیر کا بازار
التزام جماعت کا بہت ذکر سننے کو ملتا کہ جو جماعت سے الگ ہوا وہ گمراہ ہوا- بعض اس کو اپنی تنظیموں کے لئے استمعال کرتے ہیں اور بعض حکمران اس کو اقتدار کے لئے –امام بخاری نے جماعت کے مفھوم کو اہل اقتدار کی اطاعت سے نکال کر اہل علم کی طرف کیا لہذا امام بخاری صحیح میں باب قائم کرتے ہیں
باب قوله تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] وما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم کہ جماعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولوالامر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علماء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دوسری مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم، فأخطأ خلاف الرسول من غير علم، فحكمه مردود لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خلاف رسول بغیر علم کہے تو وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعالى: {وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ” فقال أبو بكر: والله لأقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وأرادوا تبديل الدين وأحكامه» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا
الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں نماز اور زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو دین بدلے اس کو قتل کرو
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق الافعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہو گی
یعنی کافر قرار دینا حکومت کا کام تھا جیسا ابو بکر رضی الله عنہ نے کیا
محدثین نے اس کوبدل کر اپنے لئے کر لیا جب دیکھا کہ عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں
اس کے بعد تکفیر کا باب کھل گیا ہر عالم دوسرے مخالف کو کافر کہنے لگا
یہاں تک کہ خوارج و شیعہ کو بھی کافر کہا گیا جبکہ یہ جملہ محدثین خود رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے
یہ تکفیر بازی کا امت میں ارتقاء ہے اس سے نکلنے کی سبیل نہیں ہے
باب قوله تعالى: {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] وما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بلزوم الجماعة، وهم أهل العلم
اور الله کا قول {وكذلك جعلناكم أمة وسطا} [البقرة: 143] اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم کہ جماعت کو
پکڑو اور وہ اہل علم ہیں
یعنی اہل اقتدار یا اولوالامر کی اطاعت سے نکال کر اس کو علماء کی اطاعت قرار دیا
اس کی دوسری مثال صحیح میں ہی ہے جہاں امام بخاری باب قائم کرتے ہیں
باب إذا اجتهد العامل أو الحاكم، فأخطأ خلاف الرسول من غير علم، فحكمه مردود لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
باب کہ جب گورنر یا حاکم اجتہاد کرے اور اس میں خطا کرے خلاف رسول بغیر علم کہے تو وہ قول مردود ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کی بنا پر کہ جس نے ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد ہے
امام بخاری صحیح میں باب قول الله تعالى: {وأمرهم شورى بينهم میں لکھتے ہیں
ورأى أبو بكر قتال من منع الزكاة، فقال عمر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فإذا قالوا: لا إله إلا الله عصموا مني دماءهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله ” فقال أبو بكر: والله لأقاتلن من فرق بين ما جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم «ثم تابعه بعد عمر فلم يلتفت أبو بكر إلى مشورة إذ كان عنده حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم في الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة وأرادوا تبديل الدين وأحكامه» وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه
اور ابو بکر نے زکات کے انکاریوں سے قتال کیا اور عمر نے کہا آپ کیسے قتال کر سکتے ہیں لوگوں سے اور بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا
الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جب کہہ دیں تو ان کا خوں اور مال مجھ سے بچ گئے سوائے حق کے اور ان کا حساب الله کے ذمے ہے پس ابو بکر نے کہا کہ الله کی قسم میں قتال کروں گا جو اس چیز میں فرق کرے جس پر رسول للہ نے جمع کیا پھر عمر ان کے تابع ہوئے اور ابو بکر نے ان سے مشورہ نہیں کیا کیونکہ ان کے پاس رسول الله کا حکم تھا ان کے لئے جو فرق کریں نماز اور زکات میں اور دین کو تبدیل کریں اور اس کے احکام کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو دین بدلے اس کو قتل کرو
امام بخاری کے نزدیک ان قبائل نے دین کو تبدیل کیا اور اس وجہ سے مرتد قرار پائے
امام بخاری نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا کیونکہ ان کے نزدیک عباسی خلفاء کا عقیدہ خلق قرآن غلط تھا انہوں نے اس پر کتاب خلق الافعال العباد بھی لکھی اور کہا جو خلق قرآن کا موقف رکھے وہ جھمی ہے اس کے پیچھے نماز نہیں ہو گی
یعنی کافر قرار دینا حکومت کا کام تھا جیسا ابو بکر رضی الله عنہ نے کیا
محدثین نے اس کوبدل کر اپنے لئے کر لیا جب دیکھا کہ عباسی خلفاء کا عقیدہ صحیح نہیں
اس کے بعد تکفیر کا باب کھل گیا ہر عالم دوسرے مخالف کو کافر کہنے لگا
یہاں تک کہ خوارج و شیعہ کو بھی کافر کہا گیا جبکہ یہ جملہ محدثین خود رافضی کی روایت صحیح میں لکھتے تھے
یہ تکفیر بازی کا امت میں ارتقاء ہے اس سے نکلنے کی سبیل نہیں ہے