• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی مذھب کو حدیث پر مقدم کیا جا سکتا ہے؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کیا کسی مذھب کو حدیث پر مقدم کیا جا سکتا ہے؟


جواب دلیل سے دیں!



ہمارے
آئمہ رحمتہ اللہ اجمعین
کے قد آور اقوال جن سے
قرآن و حدیث
کی فقہ پر فوقیت واضح ہوتی ہے

دین و شریعت صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ رسول کریمﷺ کے علاوہ کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی ہر بات تسلیم کی جاسکتی ہو۔ صحابہ کرام، آئمہ و محدثین عظام نے بھی ہدایت کے اسی چشمے سے فیض پایا۔ عموماً یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ کتاب و سنت کو براہ راست سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ بات درست نہیں۔ ہمارے لیے کتاب و سنت کو سمجھنا بہت آسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ہمارے لیے بطور خاص معلم بنا کر مبعوث فرمایا، صحابہ کرام نے آپﷺ سے مکمل دین سیکھا اور اسے ہم تک پہنچانے کا حق ادا کیا۔ صحابہ کرام کی طرح آئمہ اربعہ نے بھی صرف اتباع سُنت ہی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اتباع سنت کی اہمیت آئمہ اربعہ کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں ملاحظہ کیجئے




گزارش! اللہ تعالیٰ نے 10 ہجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر اپنا دین مکمل کر دیا۔ تکمیل دین کے 70 سال بعد امام ابو حنیفہ، 83 سال بعد امام مالک، 140 سال بعد امام شافع اور 154 سال بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پیدا ہوئے۔ عالم اسلام کی عظیم المرتبت علمی شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکمیل دین کے 400 سال بعد تک اہل اسلام کسی ایک فقہ یا مسلک یے پیرو کار نہیں تھے۔(حجۃ اللہ البالغہ ج:1 ص:152) اگرآج ہم کسی امام، مسلک یا فرقے سے وابستگی کے بغیر مسلمان نہیں بن سکتے تو چوتھی صدی ہجری سے پہلے کے مسلمانوں کو کیا کہیں گے؟
لمحہ فکریہ: آئمہ اربعہ کے واضع ارشادات کے بعد ان کی تقلید اور ان کے ناموں سے موسوم فرقوں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے؟
آئیے! ہم بھی اسی سرچشمۂ رُشد و ہدایت سے براہ راست دین حاصل کریں جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، آئمہ اربعہ رحمہ اللہ اور محدثین عظام نے دین حاصل کیا کہ یہی ان کی تعلیمات کا تقاضا ہے۔



 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ہمارے
آئمہ رحمتہ اللہ اجمعین
کے قد آور اقوال جن سے
قرآن و حدیث
کی فقہ پر فوقیت واضح ہوتی ہے

دین و شریعت صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ رسول کریمﷺ کے علاوہ کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی ہر بات تسلیم کی جاسکتی ہو۔ صحابہ کرام، آئمہ و محدثین عظام نے بھی ہدایت کے اسی چشمے سے فیض پایا۔ عموماً یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ کتاب و سنت کو براہ راست سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ بات درست نہیں۔ ہمارے لیے کتاب و سنت کو سمجھنا بہت آسان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ہمارے لیے بطور خاص معلم بنا کر مبعوث فرمایا، صحابہ کرام نے آپﷺ سے مکمل دین سیکھا اور اسے ہم تک پہنچانے کا حق ادا کیا۔ صحابہ کرام کی طرح آئمہ اربعہ نے بھی صرف اتباع سُنت ہی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اتباع سنت کی اہمیت آئمہ اربعہ کے اقوال و ارشادات کی روشنی میں ملاحظہ کیجئے


گزارش! اللہ تعالیٰ نے 10 ہجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر اپنا دین مکمل کر دیا۔ تکمیل دین کے 70 سال بعد امام ابو حنیفہ، 83 سال بعد امام مالک، 140 سال بعد امام شافع اور 154 سال بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پیدا ہوئے۔ عالم اسلام کی عظیم المرتبت علمی شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تکمیل دین کے 400 سال بعد تک اہل اسلام کسی ایک فقہ یا مسلک یے پیرو کار نہیں تھے۔(حجۃ اللہ البالغہ ج:1 ص:152) اگرآج ہم کسی امام، مسلک یا فرقے سے وابستگی کے بغیر مسلمان نہیں بن سکتے تو چوتھی صدی ہجری سے پہلے کے مسلمانوں کو کیا کہیں گے؟
لمحہ فکریہ: آئمہ اربعہ کے واضع ارشادات کے بعد ان کی تقلید اور ان کے ناموں سے موسوم فرقوں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے؟
آئیے! ہم بھی اسی سرچشمۂ رُشد و ہدایت سے براہ راست دین حاصل کریں جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، آئمہ اربعہ رحمہ اللہ اور محدثین عظام نے دین حاصل کیا کہ یہی ان کی تعلیمات کا تقاضا ہے۔


جزاک اللہ خیر بھائی۔۔

کیا حنفی بھائی اب بھی تقلید کرے گے؟
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں بالخصوص اہل حدیث فکر نظریاتی اعتبار سےبرتری حاصل کرچکی ہے اسے بہر حال ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ان کا نعرہ انتہائی زیادہ حقیقت کے مطابق ہے۔کہ اصل چیز قرآن و سنت ہے اور ائمہ کا احترام لازم لیکن ان کی رائے دلیل کے ساتھ مانی جائے گی۔دوسری طرف عالمی حالات کے تناظر میں جو افکار و نظریات دنیا پر غالب ہو چکے ہیں ان کے پیش نظر بھی صرف فکر اہل حدیث ہی ایسی نظر آتی ہے جس کے مطابق دئراہءاسلام میں رہتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس فکر کو کماحقہ سمجھنے میں موافقین اور مخالفین ہر دو طرح کے گروہ میں کئی ایک غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلا دونوں ہی عمومی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اہل حدیث فقہ کو نہیں مانتے اور اگر تسلیم کرتے بھی ہیں تو نہ ماننے کے برابر۔یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی نظر آتی ہے حالنکہ اہل حدیث فقہ کو مانتا ہے کیونکہ فقہ کے بغیر گزار ہی نہیں۔ ہر عام انسان جو کتاب و سنت کو مسائل نہیں سمجھ نہیں سکتا یا اجتہادی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تو کسی امام کی ہی بات مانتا ہوتا ہے۔بس فرق یہ ہے کہ جہاں کہیں فقہی مسائل کے ساتھ کتاب و سنت کا تعارض ہو جائے وہاں نصوص شرعیہ کو ترجیح دینی ہے۔ایسے ہی عام طور پر بذات خود اہل حدیث حضرات میں سوچ پائی جاتی ہے کہ ہر شخص بنفس نفیس قرآن و سنت سے پڑھے اور اس پر عمل کرے اس بارے میں ائمہ کی کیا ضرورت ہے؟ حالنکہ یہ زاویہ فکر غلط ہے۔ ایک عام آدمی کا قرآن و سنت کو پڑھ لینے سے وہ ائمہ سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر میں بالخصوص اہل حدیث فکر نظریاتی اعتبار سےبرتری حاصل کرچکی ہے اسے بہر حال ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے۔ان کا نعرہ انتہائی زیادہ حقیقت کے مطابق ہے۔کہ اصل چیز قرآن و سنت ہے اور ائمہ کا احترام لازم لیکن ان کی رائے دلیل کے ساتھ مانی جائے گی۔دوسری طرف عالمی حالات کے تناظر میں جو افکار و نظریات دنیا پر غالب ہو چکے ہیں ان کے پیش نظر بھی صرف فکر اہل حدیث ہی ایسی نظر آتی ہے جس کے مطابق دئراہءاسلام میں رہتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ کی جاسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس فکر کو کماحقہ سمجھنے میں موافقین اور مخالفین ہر دو طرح کے گروہ میں کئی ایک غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلا دونوں ہی عمومی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اہل حدیث فقہ کو نہیں مانتے اور اگر تسلیم کرتے بھی ہیں تو نہ ماننے کے برابر۔یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی نظر آتی ہے حالنکہ اہل حدیث فقہ کو مانتا ہے کیونکہ فقہ کے بغیر گزار ہی نہیں۔ ہر عام انسان جو کتاب و سنت کو مسائل نہیں سمجھ نہیں سکتا یا اجتہادی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تو کسی امام کی ہی بات مانتا ہوتا ہے۔بس فرق یہ ہے کہ جہاں کہیں فقہی مسائل کے ساتھ کتاب و سنت کا تعارض ہو جائے وہاں نصوص شرعیہ کو ترجیح دینی ہے۔ایسے ہی عام طور پر بذات خود اہل حدیث حضرات میں سوچ پائی جاتی ہے کہ ہر شخص بنفس نفیس قرآن و سنت سے پڑھے اور اس پر عمل کرے اس بارے میں ائمہ کی کیا ضرورت ہے؟ حالنکہ یہ زاویہ فکر غلط ہے۔ ایک عام آدمی کا قرآن و سنت کو پڑھ لینے سے وہ ائمہ سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔

جزاک اللہ خیر بھائی۔۔
 
Top