ابوالمریم
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2014
- پیغامات
- 23
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 38
قسط ١
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِکٌ وَهُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ رَأَی رَجُلًا يُصَلِّي فَطَفَّفَ فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ مُنْذُ کَمْ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ قَالَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ مَا صَلَّيْتَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَلَوْ مِتَّ وَأَنْتَ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ لَمِتَّ عَلَی غَيْرِ فِطْرَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُخَفِّفُ وَيُتِمُّ وَيُحْسِنُ
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1317
احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، مالک، ابن مغول، طلحہ بن مصرف، زید بن وہب، حذیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جس شخص نے نماز کو گھٹا دیا (یعنی اس کی شرائط اور ارکان میں کمی کر دی) تو حذیفہ نے دریافت کیا کہ تم کتنے زمانہ سے اس طریقہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ چالیس سال سے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہتم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی اور اگر اس طرح نماز پڑھتے ہوئے تمہیں موت آگئی تو تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر نہ مرے گا۔ (پھر وہ اسے نماز سکھانے لگے) اور فرمایا انسان نماز ہلکی پڑھے لیکن رکوع و سجود مکمل کرے۔
کیا ہماری نماز ایسی ہے- آج اس پر فتن دور میں جہاں نماز کے ہر دوسرے دن نیا طریقہ ایجاد ہور رہا ہے ہر کوئی اپنی مرضی سے نماز کی جستجو میں لگا ہوا ہے اور اسے صحیح ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے - کوئی حنفی نماز - کوئی حنبلی نماز- کوئی شافی نماز - اور کوئی مالکی نماز کو صحیح سمجھ کر اس کے مطابق نماز ادا کر رہا ہے۔
نماز کے معنی کیا ہیں۔ عربی زبان میں نماز کو صلات کہا جاتا ہے۔ یہ عربی کے اک لفظ صلی سے ملا ہوا ہے اجس کے معنی ہیں دعا کی تعلق کے ہیں - "صلی یصلہ" اک عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بانس کی ٹیڑھی لکڑی کو آگ میں ڈال کر سیدھا کرنا۔ جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کے انسان جس کے شمائل مسائل اور ازکار جو خراب ہوں ٹیڑھے ہوں نماز کا احتمام کرکے اسے سیدھا کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو تھے معنی جو عربی میں استعمال کئے جانے والے الفاظ جو صلات کے مادے سے نکلے ہیں۔
مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں ہم اپنی اس گفتگو کو حصّوں میں تقسیم کر لیتے ہیں تا کہ ہم حدیث کا مفہوم سہی سمجھ سکیں۔
١۔ نماز کو گھٹانا۔
٢۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر نہ مرے گا۔
٣۔ نماز ہلکی پڑھے۔
٤۔ رکوع و سجود مکمل کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِکٌ وَهُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ رَأَی رَجُلًا يُصَلِّي فَطَفَّفَ فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ مُنْذُ کَمْ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ قَالَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ عَامًا قَالَ مَا صَلَّيْتَ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً وَلَوْ مِتَّ وَأَنْتَ تُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ لَمِتَّ عَلَی غَيْرِ فِطْرَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيُخَفِّفُ وَيُتِمُّ وَيُحْسِنُ
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1317
احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، مالک، ابن مغول، طلحہ بن مصرف، زید بن وہب، حذیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جس شخص نے نماز کو گھٹا دیا (یعنی اس کی شرائط اور ارکان میں کمی کر دی) تو حذیفہ نے دریافت کیا کہ تم کتنے زمانہ سے اس طریقہ سے نماز پڑھتے چلے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ چالیس سال سے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہتم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی اور اگر اس طرح نماز پڑھتے ہوئے تمہیں موت آگئی تو تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر نہ مرے گا۔ (پھر وہ اسے نماز سکھانے لگے) اور فرمایا انسان نماز ہلکی پڑھے لیکن رکوع و سجود مکمل کرے۔
کیا ہماری نماز ایسی ہے- آج اس پر فتن دور میں جہاں نماز کے ہر دوسرے دن نیا طریقہ ایجاد ہور رہا ہے ہر کوئی اپنی مرضی سے نماز کی جستجو میں لگا ہوا ہے اور اسے صحیح ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے - کوئی حنفی نماز - کوئی حنبلی نماز- کوئی شافی نماز - اور کوئی مالکی نماز کو صحیح سمجھ کر اس کے مطابق نماز ادا کر رہا ہے۔
نماز کے معنی کیا ہیں۔ عربی زبان میں نماز کو صلات کہا جاتا ہے۔ یہ عربی کے اک لفظ صلی سے ملا ہوا ہے اجس کے معنی ہیں دعا کی تعلق کے ہیں - "صلی یصلہ" اک عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بانس کی ٹیڑھی لکڑی کو آگ میں ڈال کر سیدھا کرنا۔ جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کے انسان جس کے شمائل مسائل اور ازکار جو خراب ہوں ٹیڑھے ہوں نماز کا احتمام کرکے اسے سیدھا کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو تھے معنی جو عربی میں استعمال کئے جانے والے الفاظ جو صلات کے مادے سے نکلے ہیں۔
مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں ہم اپنی اس گفتگو کو حصّوں میں تقسیم کر لیتے ہیں تا کہ ہم حدیث کا مفہوم سہی سمجھ سکیں۔
١۔ نماز کو گھٹانا۔
٢۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ پر نہ مرے گا۔
٣۔ نماز ہلکی پڑھے۔
٤۔ رکوع و سجود مکمل کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے