• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ہم مرجیئہ ہیں؟؟؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حمد و ثناکے بعد!

جب بھی آپ تکفیر کے موضوع پر اصول و ضوابط کا ذکر کریں، مصالح و موانع کی بات کریں،
مفاسد کی طرف توجہ دلائیں تو ایک مخصوص طبقہ ہے جو فورا آپ پر مرجئہ کا الزام جڑ دیگا۔
جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ مرجئہ کی تعریف تک سے واقف نہیں۔ تکفیر
اصول و ضوابط کے ماتحت اور فہم سلف کی روشنی میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف ہے جسے
آج مرجئہ عقیدہ کا نام دیکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ذیل میں ہم مختصرا
اس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے اور فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ کیا ہم مرجئہ
ہیں؟؟؟؟
درج زیل اقتباس محترم حامد کمال الدین صاحب کے مضمون ” بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’
خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!”کا ہے، حامد صاحب جن کے تحریری مواد کو خارجی لوگ بنیاد بناتے ہیں۔
حامد کمال صاحب کی بدقسمتی کے افغان جہاد کے دوران جب مسلمان دور دور سے اپنا گھر بار
چھوڑ کر جہاد فی سبیل اللہ کے فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے جوق در جوق پشاور آتے اور
یہاں سے آگے عملی میدانوں میں اپنا خون پسینہ پیش کرتے اس وقت حامد صاحب پشاور میں سید
قطب کی تصنیفات کے مطالعے میں مصروف رہتے اور یہیں سے ان کی فکر کی کجی کی بنیاد
رکھی گئی جس کی وجہ سے آج تک وہ عملی طور پر جہادی عمل سے دور اور فکری طور پر فقط
تحریری و تقریری جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اگرچہ وہ شجر سلف سے پیوستہ ہونے کے دعویدارہیں لیکن سید قطب کی فکر انھیں اکثر شجر سلف سے پرے لے جاتی اور وہ اکثر مقامات پر فکریطور پر سلف سے تعلق میں انتہائی دور نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی اصلاح فرمائے۔ آمین

’}}مرجئہ‘ کا لفظ ’اِرجاء‘ سے ہے جس کا مطلب ہے: مؤخر کر دینا، پیچھے ہٹا دینا۔ سورۃ
التوبۃ میں یہ لفظ ’مؤخر کیا جانے‘ کے معنی میں آیا ہے: وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ (
التوبۃ: 106) اسلامی تاریخ میں علمائے سنت نے یہ لفظ یعنی ’مرجئہ‘ اُس فکری
انحراف کے حاملین کیلئے بولا جو مسلمان ہونے کیلئے آدمی کے محض ’دعوائے ایمان‘ کو
کافی جانتا ہے اور ’حقیقتِ ایمان‘ کو پیچھے رہنے دیتا ہے؛ نہ کبائر پہ اصرار کرنے والے کو
فاسق مانتا ہے اور نہ افعالِ کفر پہ اصرار کرنے والے کو کافر۔ ایمان دراصل ایک حقیقت ہے نہ کہ
محض ایک دعویٰ۔
اسلامی تاریخ میں ’مرجئہ‘: پس وہ فرقہ رہا ہے جو ایمان کی تعریف سے ایمان کی حقیقت کو ہٹا دیتا ہے اور صرف ایمان کے دعویٰ کو ہی ایمان کے معتبر ہونے کیلئے کافی گردانتا ہے۔ اہلسنت کے نزدیک ایمانکادعویٰ معتبر ضرور ہے لیکن اگر اس انسان کے معمولاتمیں وہی کام اور وہی باتیں شامل ہیں جنہیں خدا کی کتاب یا اُس کے نبی کی سنت ’کفر‘ یا ’شرک‘ قرار دیتی ہو تو تب اعتبار اُس کے دعوائے ایمان کا نہیں بلکہ اُس کے اس فعل کا ہو گا جسے کتاب و سنت میں کفر یا شرک ٹھہرایا گیا تھا۔ اب اِس صورت میں کہ جب اُس سے افعالِ شرک ظاہر ہونے لگے ہیں، جبکہ کلمۂ طیبہ اسے اِن افعالِ شرک سے روکنے کیلئے ہی دنیا میں آیا
تھا، لہٰذا ایسے شخص کی ’کلمہ گوئی‘ کا بھی علمائے توحید و سنت کے نزدیک اب کوئی اعتبار
باقی نہیں رہا۔
’کلمہ گو‘ ہونے کا اعتبار اُس وقت تک ضرور تھا جب تک اُس سے کفر اور شرک
پر مبنی افعال ظاہر نہیں ہوئے تھے مگر اب کفر اور شرک کا وتیرہ اختیار کر کے اُس نے جس چیز
کو سب سے پہلے توڑ ڈالا وہ اس کا ’کلمہ‘ ہی ہے جو آیا ہی اِس لئے تھا کہ وہ اسے رب
العالمین کے ساتھ کفر یا شرک کا وتیرہ اختیار کر رکھنے سے روکے۔ اب جب اُس نے شرک کر لیا
ہے تو یہ ”کلمہ“ جو اسے شرک سے باز رکھنے آیا تھا، اب اس کے خلاف نالش کرے گا نہ کہ
اس کا دفاع۔

مگر خدا کی تعظیم اور اُس کے حق کو نہایت بڑا جاننے کے ساتھ ساتھ، اہل سنت چونکہ انصاف
سے بھی دامن کش نہیں ہوتے اور مخلوق پر رحم اور ترس کھانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔۔۔
لہٰذا کسی شخص سے کوئی ایسا فعل اور وتیرہ سرزد ہو جائے جو کفر اور شرک کے زمرے میں آتا
ہو تو بھی وہ اُسے اِس بات کا عذر دیتے ہیں کہ کفر یا شرک کا وہ فعل اُس سے لا علمی میں ہو گیا
تھا، یا وہ کسی علمی اور فکری الجھن میں گرفتار ہو کر وہ کام کر بیٹھا تھا، یا کسی ظالم کے قہر
اور جبر تلے اُس نے اُس فعل کا ارتکاب کر لیا تھا۔ یہ تینوں باتیں اہل سنت کے نزدیک کسی شخص
کی تکفیر ہونے میں مانع ہیں۔ پہلی بات کو اصطلاح میں ’جہل‘ کہا جاتا ہے، دوسری کو ’
تاویل‘ اور تیسری کو ’اِکراہ‘۔ اِن تینوں کو اہل سنت کی اصطلاح میں ’موانعِ تکفیر‘ کہا جاتا
ہے۔ لہٰذا ایسا نہیں کہ مرجئہ کوئی اہل سنت سے بڑھ کر مخلوق پر مہربان ہیں؛ معاملہ یہ ہے کہ
اہل سنت مرجئہ یا دنیا کے کسی بھی طائفہ سے بڑھ کر خالق کے حق کی تعظیم اور خالق کے
مرتبہ و مقام کی پاسبانی کرتے ہیں۔

غرض اسلام کی تاریخ میں ’مرجئہ‘ وہ گروہ ہے جس کا پورا زور اِس بات پر رہا ہے کہ عمل
سے چاہے کوئی شخص خدائے رب العالمین کی کتنی ہی بڑی بغاوت کرے اور کیسا ہی وہ مالک
الملک کے ساتھ شرک اور کفر کرے، زبان سے بس اگر وہ اسلام کا دعویٰ کرتا ہے تو لازماً اُس کو
ایمان کا سرٹیفکیٹ دے رکھا جائے۔ دوسری انتہا پر ایک دوسرا گمراہ فرقہ رہا ہے جو خدا کے حق
کی تعظیم میں افراط کرتے ہوئے یہ مسلک رکھتا تھا کہ جس شخص سے بھی کوئی کبیرہ گناہ سرزد
ہو جائے بس وہ دائرۂ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے؛ اِس دوسری انتہا پر پائے جانے والے فرقہ کو
’خوارج‘ کہا گیا۔ مرجئہ اور خوارج کے بیچ، وسط اور اعتدال کی راہ پر، اہل سنت تھے جن کا
اعتقاد ہے کہ: ہر کبیرہ گناہ ہو جانے سے تو آدمی دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ صرف گناہگار
ٹھہرتا ہے، البتہ ایسے کبائر جنہیں خود اللہ اور اُس کا رسول ہی کفر اور شرک قرار دیں اُن کے
ارتکاب سے ضرور آدمی دائرۂ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے، بشرطیکہ:
(1) آدمی کو اگر کوئی لا علمی تھی تواُس کی وہ لا علمی دور کر دی گئی ہو،
(2) وہ اگر کسی فکری الجھن یا ذہنی پیچیدگی کا شکار تھا تو اہل علم کی جانب سے وہ الجھن یا پیچیدگی بھی بدرجۂ اتم زائل کر دی گئی ہو
(1)، اور (3) اِس بات کو بھی یقینی بنا لیا گیا ہو کہ کفر کے اُس فعل کا ارتکاب کرنے
میں وہ کسی ظالم کے قہر و جبر کے زیر اثر نہ تھا۔۔
جبکہ خوارج تکفیر کی اِن شرطوں کو نہ مانتے تھے۔ علاوہ ازیں، خوارج بہت سے ایسے افعال کو بھی کفر قرار دیتے تھے جو کفر نہ بنتے تھے، مثلاً کبائر۔ مزید برآں، خوارج اجتہادی اختلاف کو بھی کفر پر محمول کرتے۔{{
(بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!)
اس اقتباس کو ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ خوارج ، مرجئہ اور اہل سنہ کے منہج میں فرق واضح ہوجائے اور کوئی شخص اصول و ضوابط کے تحت تکفیر کو مرجئیت نہ قراردے سکے۔ آخری بات جب امام شافعی رحمہ اللہ پر لوگوں نے رافضیت کا الزام لگایا تو انھوں نے اس پروپیگینڈے کے جواب میں یہ شعر کہا
ان کان رفضا حب اٰلِ محمدفلیشھد الثقلان انی رافضی (الانتقاء لا بن عبدالبر:۹۱)
اگر آل بیت کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو اے جن وانس تم گواہ رہو کہ میں رافضی ہوں۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر تکفیر اصول و ضوابط کے تحت کرنا، اور تکفیر کے بے لگام گھوڑے کو شریعت کے تابع کرنا مرجئیت ہے، تواے جن و انس گواہ ہو کہ ہم مرجیئہ ہیں!!

بشکریہ: منہج اہل السنة
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
حمد و ثناکے بعد!

جب بھی آپ تکفیر کے موضوع پر اصول و ضوابط کا ذکر کریں، مصالح و موانع کی بات کریں،
مفاسد کی طرف توجہ دلائیں تو ایک مخصوص طبقہ ہے جو فورا آپ پر مرجئہ کا الزام جڑ دیگا۔
جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ مرجئہ کی تعریف تک سے واقف نہیں۔ تکفیر
اصول و ضوابط کے ماتحت اور فہم سلف کی روشنی میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف ہے جسے
آج مرجئہ عقیدہ کا نام دیکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ذیل میں ہم مختصرا
اس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے اور فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ کیا ہم مرجئہ
ہیں؟؟؟؟
درج زیل اقتباس محترم حامد کمال الدین صاحب کے مضمون ” بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’
خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!”کا ہے، حامد صاحب جن کے تحریری مواد کو خارجی لوگ بنیاد بناتے ہیں۔
حامد کمال صاحب کی بدقسمتی کے افغان جہاد کے دوران جب مسلمان دور دور سے اپنا گھر بار
چھوڑ کر جہاد فی سبیل اللہ کے فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے جوق در جوق پشاور آتے اور
یہاں سے آگے عملی میدانوں میں اپنا خون پسینہ پیش کرتے اس وقت حامد صاحب پشاور میں سید
قطب کی تصنیفات کے مطالعے میں مصروف رہتے اور یہیں سے ان کی فکر کی کجی کی بنیاد
رکھی گئی جس کی وجہ سے آج تک وہ عملی طور پر جہادی عمل سے دور اور فکری طور پر فقط
تحریری و تقریری جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اگرچہ وہ شجر سلف سے پیوستہ ہونے کے دعویدارہیں لیکن سید قطب کی فکر انھیں اکثر شجر سلف سے پرے لے جاتی اور وہ اکثر مقامات پر فکریطور پر سلف سے تعلق میں انتہائی دور نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی اصلاح فرمائے۔ آمین

’}}مرجئہ‘ کا لفظ ’اِرجاء‘ سے ہے جس کا مطلب ہے: مؤخر کر دینا، پیچھے ہٹا دینا۔ سورۃ
التوبۃ میں یہ لفظ ’مؤخر کیا جانے‘ کے معنی میں آیا ہے: وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ (
التوبۃ: 106) اسلامی تاریخ میں علمائے سنت نے یہ لفظ یعنی ’مرجئہ‘ اُس فکری
انحراف کے حاملین کیلئے بولا جو مسلمان ہونے کیلئے آدمی کے محض ’دعوائے ایمان‘ کو
کافی جانتا ہے اور ’حقیقتِ ایمان‘ کو پیچھے رہنے دیتا ہے؛ نہ کبائر پہ اصرار کرنے والے کو
فاسق مانتا ہے اور نہ افعالِ کفر پہ اصرار کرنے والے کو کافر۔ ایمان دراصل ایک حقیقت ہے نہ کہ
محض ایک دعویٰ۔
اسلامی تاریخ میں ’مرجئہ‘: پس وہ فرقہ رہا ہے جو ایمان کی تعریف سے ایمان کی حقیقت کو ہٹا دیتا ہے اور صرف ایمان کے دعویٰ کو ہی ایمان کے معتبر ہونے کیلئے کافی گردانتا ہے۔ اہلسنت کے نزدیک ایمانکادعویٰ معتبر ضرور ہے لیکن اگر اس انسان کے معمولاتمیں وہی کام اور وہی باتیں شامل ہیں جنہیں خدا کی کتاب یا اُس کے نبی کی سنت ’کفر‘ یا ’شرک‘ قرار دیتی ہو تو تب اعتبار اُس کے دعوائے ایمان کا نہیں بلکہ اُس کے اس فعل کا ہو گا جسے کتاب و سنت میں کفر یا شرک ٹھہرایا گیا تھا۔ اب اِس صورت میں کہ جب اُس سے افعالِ شرک ظاہر ہونے لگے ہیں، جبکہ کلمۂ طیبہ اسے اِن افعالِ شرک سے روکنے کیلئے ہی دنیا میں آیا
تھا، لہٰذا ایسے شخص کی ’کلمہ گوئی‘ کا بھی علمائے توحید و سنت کے نزدیک اب کوئی اعتبار
باقی نہیں رہا۔
’کلمہ گو‘ ہونے کا اعتبار اُس وقت تک ضرور تھا جب تک اُس سے کفر اور شرک
پر مبنی افعال ظاہر نہیں ہوئے تھے مگر اب کفر اور شرک کا وتیرہ اختیار کر کے اُس نے جس چیز
کو سب سے پہلے توڑ ڈالا وہ اس کا ’کلمہ‘ ہی ہے جو آیا ہی اِس لئے تھا کہ وہ اسے رب
العالمین کے ساتھ کفر یا شرک کا وتیرہ اختیار کر رکھنے سے روکے۔ اب جب اُس نے شرک کر لیا
ہے تو یہ ”کلمہ“ جو اسے شرک سے باز رکھنے آیا تھا، اب اس کے خلاف نالش کرے گا نہ کہ
اس کا دفاع۔

مگر خدا کی تعظیم اور اُس کے حق کو نہایت بڑا جاننے کے ساتھ ساتھ، اہل سنت چونکہ انصاف
سے بھی دامن کش نہیں ہوتے اور مخلوق پر رحم اور ترس کھانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔۔۔۔
لہٰذا کسی شخص سے کوئی ایسا فعل اور وتیرہ سرزد ہو جائے جو کفر اور شرک کے زمرے میں آتا
ہو تو بھی وہ اُسے اِس بات کا عذر دیتے ہیں کہ کفر یا شرک کا وہ فعل اُس سے لا علمی میں ہو گیا
تھا، یا وہ کسی علمی اور فکری الجھن میں گرفتار ہو کر وہ کام کر بیٹھا تھا، یا کسی ظالم کے قہر
اور جبر تلے اُس نے اُس فعل کا ارتکاب کر لیا تھا۔ یہ تینوں باتیں اہل سنت کے نزدیک کسی شخص
کی تکفیر ہونے میں مانع ہیں۔ پہلی بات کو اصطلاح میں ’جہل‘ کہا جاتا ہے، دوسری کو ’
تاویل‘ اور تیسری کو ’اِکراہ‘۔ اِن تینوں کو اہل سنت کی اصطلاح میں ’موانعِ تکفیر‘ کہا جاتا
ہے۔ لہٰذا ایسا نہیں کہ مرجئہ کوئی اہل سنت سے بڑھ کر مخلوق پر مہربان ہیں؛ معاملہ یہ ہے کہ
اہل سنت مرجئہ یا دنیا کے کسی بھی طائفہ سے بڑھ کر خالق کے حق کی تعظیم اور خالق کے
مرتبہ و مقام کی پاسبانی کرتے ہیں۔

غرض اسلام کی تاریخ میں ’مرجئہ‘ وہ گروہ ہے جس کا پورا زور اِس بات پر رہا ہے کہ عمل
سے چاہے کوئی شخص خدائے رب العالمین کی کتنی ہی بڑی بغاوت کرے اور کیسا ہی وہ مالک
الملک کے ساتھ شرک اور کفر کرے، زبان سے بس اگر وہ اسلام کا دعویٰ کرتا ہے تو لازماً اُس کو
ایمان کا سرٹیفکیٹ دے رکھا جائے۔ دوسری انتہا پر ایک دوسرا گمراہ فرقہ رہا ہے جو خدا کے حق
کی تعظیم میں افراط کرتے ہوئے یہ مسلک رکھتا تھا کہ جس شخص سے بھی کوئی کبیرہ گناہ سرزد
ہو جائے بس وہ دائرۂ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے؛ اِس دوسری انتہا پر پائے جانے والے فرقہ کو
’خوارج‘ کہا گیا۔ مرجئہ اور خوارج کے بیچ، وسط اور اعتدال کی راہ پر، اہل سنت تھے جن کا
اعتقاد ہے کہ: ہر کبیرہ گناہ ہو جانے سے تو آدمی دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ صرف گناہگار
ٹھہرتا ہے، البتہ ایسے کبائر جنہیں خود اللہ اور اُس کا رسول ہی کفر اور شرک قرار دیں اُن کے
ارتکاب سے ضرور آدمی دائرۂ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے، بشرطیکہ:
(1) آدمی کو اگر کوئی لا علمی تھی تواُس کی وہ لا علمی دور کر دی گئی ہو،
(2) وہ اگر کسی فکری الجھن یا ذہنی پیچیدگی کا شکار تھا تو اہل علم کی جانب سے وہ الجھن یا پیچیدگی بھی بدرجۂ اتم زائل کر دی گئی ہو
(1)، اور (3) اِس بات کو بھی یقینی بنا لیا گیا ہو کہ کفر کے اُس فعل کا ارتکاب کرنے
میں وہ کسی ظالم کے قہر و جبر کے زیر اثر نہ تھا۔۔
جبکہ خوارج تکفیر کی اِن شرطوں کو نہ مانتے تھے۔ علاوہ ازیں، خوارج بہت سے ایسے افعال کو بھی کفر قرار دیتے تھے جو کفر نہ بنتے تھے، مثلاً کبائر۔ مزید برآں، خوارج اجتہادی اختلاف کو بھی کفر پر محمول کرتے۔{{
(بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!)
اس اقتباس کو ذکر کرنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ خوارج ، مرجئہ اور اہل سنہ کے منہج میں فرق واضح ہوجائے اور کوئی شخص اصول و ضوابط کے تحت تکفیر کو مرجئیت نہ قراردے سکے۔ آخری بات جب امام شافعی رحمہ اللہ پر لوگوں نے رافضیت کا الزام لگایا تو انھوں نے اس پروپیگینڈے کے جواب میں یہ شعر کہا
ان کان رفضا حب اٰلِ محمدفلیشھد الثقلان انی رافضی (الانتقاء لا بن عبدالبر:۹۱)
اگر آل بیت کی محبت ہی کا نام رفض ہے تو اے جن وانس تم گواہ رہو کہ میں رافضی ہوں۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر تکفیر اصول و ضوابط کے تحت کرنا، اور تکفیر کے بے لگام گھوڑے کو شریعت کے تابع کرنا مرجئیت ہے، تواے جن و انس گواہ ہو کہ ہم مرجیئہ ہیں!!

بشکریہ: منہج اہل السنة
بھائی اس ویب سائٹ کا فونٹ "جمیل نوری نستعلیق" کرو۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہ کس طرح ہوگا بھائی جی؟
بھائی جان یہ جس کی ویب سائٹ ہے وہ اس کا ڈیفالٹ فونٹ "جمیل نوری نستعلیق" کر لے۔اس کا تعلق ویب ڈیزائننگ سے ہے۔اس کے بارے میں آپ کو شاکر بھائی، باذوق بھائی اور عمیر بھائی ہی بہتر بتا سکیں گے۔
 
Top