شیخ صالح المنجد سے جب اس بارے سوال ہوا تو انہوں نے اہل علم کی رائے بیان کرتے ہوئے کچھ یوں نتیجہ نکالا ہے:
كيا خوبصورتى اور زيبائش كے ليے مچھلياں ركھنا حرام ہيں
كيا خوبصورتى اور زيبائش كے ليے مچھلياں ركھنا حرام ہيں؟
الحمد للہ :
شرعى احكام ميں بعض جانوروں كو ركھنے اور ان كى پرورش كرنے كى نہى آئى ہے، مثلا ( كتا اور خنزير ) كيونكہ اسے ركھنے ميں كئى قسم كے نقصانات ہيں، جن ميں سے ہو سكتا ہے بعض كا ہميں علم ہو اور كچھ ہمارے علم ميں نہ آئيں۔
ليكن جن جانوروں كو ركھنا شريعت نے منع نہيں كيا تو انہيں ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، سنت نبويہ سے ثابت ہوتا ہے كہ كچھ صحابہ كرام نے زيبائش اور ركھوالى، اور مباح قسم كے كھيل اور دل بہلانے كے ليے مباح جانور ركھے ہوئے تھے۔
جيسا كہ انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے چھوٹى بھائى كے پاس ايك چڑيا تھى جس سے وہ كھيلا كرتا تھا، اس كى يہ چڑيا مر گئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے غمگين ديكھا، تو اس كا دل بہلانے لگے جو اس چھوٹے سے پرندہ كو ركھنے كى رضامندى تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" اے ابو عمير نغير نے كيا كيا !! "
اور ايك حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك عورت بلى كى وجہ سے آگ ميں داخل ہو گئى، اس نے اسے باندھ ديا اور كھانے كو كچھ نہ ديا، اور نہ ہى اسے چھوڑا كہ وہ زمين كے كيڑے وغيرہ كھا لے"
تو اس حديث سے يہ سمجھ آتى ہے كہ اگر اس عورت نے اس بلى كو كھانے كے ليے كچھ ديا ہوتا تو وہ اس وعيد سے نجات پا جاتى۔
اور كہا جاتا ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى كنيت بھى اسى ليے پڑى كہ وہ اپنے ساتھ بلى ركھا كرتے تھے۔
لہٰذا مباح اور جائز حيوانوں كى ضروريات پورى اور ان كى ديكھ بھال كرتے ہوئے پال كر ركھنا جائز اور مباح امور ميں سے ہے، بلكہ ہو سكتا ہے اجرو ثواب ميں بھى شامل ہو۔
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر جاندار اور ذى روح ميں اجر وثواب ہے"
ليكن جب اس كا خيال نہ ركھا جائے اور اس كى ديكھ بھال نہ ہو تو يہ گناہ اور معصيت كے باب ميں داخل ہو گا، اور يہ آگ كى وعيد ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ اس حديث ميں ذكر كيا گيا ہے جس ميں عورت نے بلى كى ديكھ بھال نہ كى اوراس كا خيال نہ ركھا تو وہ مر گئى۔
يہاں ہم سوال كرنے والے بھائى اور قارى كو يہ تنبيہ كرتے ہيں كہ مشرقى اور مغربى تنظيموں سے قبل ہى اسلام نے عورت اور جانوروں اور ملازمين اور مالكوں وغيرہ كے سارے حقوق كا خيال ركھنے كا اعلان كيا ہے، بلكہ اس سے بھى بڑھ كر مخلوق پر اللہ تعالى كے حقوق اور اللہ تعالى پر مخلوق كے كيا حقوق ہيں اسے بھى بيان كيا ہے۔
يہاں ہم يہ بھى تنبيہ كريں گے كہ حيوان اور جانوروں سے زيادہ انسان و بشر كے حقوق كا خيال ركھنا زيادہ اولى اور افضل ہے، اور اس ميں اجروثواب بھى زيادہ ہے۔
فرمان نبوي صلى اللہ عليہ وسلم ہے:
" آگ سے بچ جاؤ اگرچہ آدھى كھجور خرچ كر كے ہى"
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى ہے:
" ميں اور يتيم كى كفالت كرنے والا شخص جنت ميں اس طرح ہيں"
اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى انگشت شہادت اور اس كے ساتھ والى انگلى كے ساتھ اشارہ كيا۔
اس كے علاوہ بھى كئى ايك احاديث ہيں جن ميں حقوق بيان كيے گئے ہيں۔
تو اس بنا پر آپ كے ليے خوبصورتى والى مچھلياں جن كا ذكر آپ نے سوال ميں كيا ہے ركھنى جائز ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ ان كى ديكھ بھال كرنا ہو گى، اور انہيں ہلاك كرنے والے اسباب سے بچنا ہو گا۔
واللہ اعلم
شيخ محمد صالح المنجد
نوٹ: بعض اہل علم نے پالتو جانوروں کے رکھنے اور نہ رکھنے میں ان کی قید اور آزادی کو بھی بنیا دبنایا ہے یعنی ان اہل علم کے نزدیک وہ پالتو جانور رکھا جا سکتا ہے کہ جس کا رکھنا مباح ہو بشرطیکہ اس کو قید نہ کیا گیا جیسا کہ بلی ، مرغی، کبوتر وغیرہ جو آزاد اور کھلے بھی پھرتے رہیں اور خود ہی اپنے دڑبے یا پنجرے میں آزاد مرضی سے واپس بھی آ جائیں۔واللہ اعلم بالصواب