• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ حدیث حسن ہے?

ادریس احمد

مبتدی
شمولیت
مارچ 05، 2014
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
18
کیا یہ حدیث حسن ہے?

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ہے:
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ اَبُوْبَکْرٍ اَسَاسُہَا وَ عُمَرٌ حِیْطَانُہاَ وَ عُثْمَانٌ سَقْفُہَا وَ عَلِیٌّ بَابُہَا

میں شہر علم ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیواریں ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی؈ دروازۂ شہر ہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا یہ حدیث حسن ہے?

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ہے:
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ اَبُوْبَکْرٍ اَسَاسُہَا وَ عُمَرٌ حِیْطَانُہاَ وَ عُثْمَانٌ سَقْفُہَا وَ عَلِیٌّ بَابُہَا

میں شہر علم ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیواریں ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی؈ دروازۂ شہر ہیں۔
اصل حدیث "أنا مدینة العلم وعلي بابہا فمن أراد العلم فلیأت بالباب" تک ہی ہے اگرچہ اس میں بھی اسناداً کچھ کلام ہے اور علامہ البانی نے اسے بھی موضوع قرار دیا ہے، آپ نے جو زائد حصہ نقل کیا ہے ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اسے نقل کیا ہے، لیکن اس کی کوئی سند نہیں ملتی اور متنِ حدیث بھی منکر ہے روایت اس طرح ہے: "قال ابن عساکر ۳/۳۸: أنبأنا أبو الفرج غیث بن علي الخطیب حدثني أبو الفرج الإسفرایني قال: کان أبوسعد إسماعیل بن المثنی الإستراباذي یعظ بدمشق فقام إلیہ رجل فقال أیہا الشیخ ما تقول فی قول النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) أنا مدینة العلم وعلی بابہا قال فأطرق لحظة ثم رفع رأسہ وقال نعم لا یعرف ہذا الحدیث علی التمام إلا من کان صدرا فی الإسلام إنما قال النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) أنا مدینة العلم وأبی بکر أساسہا وعمر حیطانہا وعثمان سقفہا وعلی بابہا قال فاستحسن الحاضرون ذلک وہو یرددہ ثم سألوہ أن یخرج لہ إسنادہ فأغتم ولم یخرجہ لہم" ثم قال أبو الفرج الإسفراینی: ثم وجدت لہ ہذا الحدیث بعد مدة فی جزء علی ما ذکرہ ابن المثنی۔
اس سے پہلے ابن عساکر ہی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس سے ملتا جلتا نقل کیا ہے، اور اس پر "منکر جدا، اسناداً ومتناً" کا حکم لگایا ہے۔ اس لیے بظاہر یہ حدیث موضوع معلوم ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے بھی اپنی کتاب "اللآلی المصنوعة في الأحادیث الموضوعة" میں (۱/۳۰۸) پر اسے نقل کیا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علامہ البانی نے اس حدیث کے بارے یہ راے دی ہےاور وہ اس ساری حدیث کو سرے سے ہی باطل قرار دیتے ہیں اور اس حدیث کو شیعہ حضرات کی کارستانی بتلاتے ہیں ، چناچہ وہ سلسلۃ صحیحۃ میں رقم طراز ہیں:

- (أنا مدينة العلم، وعلي بابها، فمن أراد العلم فليأته من بابه)
قلت: بل باطل ظاهر البطلان من وضع بعض جهلة المتعصبين ممن ينتمون للسنة.
وجملة القول؛ أن حديث الترجمة ليس في أسانيده ما تقوم به الحجة، بل كلها ضعيفة، وبعضها أشد ضعفا من بعض، ومن حسنه أو صححه فلم ينتبه لعنعنة الأعمش في الإسناد الأول.
فإن قيل: هذا لا يكفي للحكم على الحديث بالوضع.
قلت: نعم، ولكن في متنه ما يدل على وضعه كما بينه شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالي في " منهاج السنة " قال:
" وحديث " أنا مدينة العلم وعلى بابها " أضعف وأوهى، ولهذا إنما يعد في الموضوعات وإن رواه الترمذي، وذكره ابن الجوزي وبين أن سائر طرقه موضوعة، والكذب يعرف من نفس متنه،
(سلسلۃ الصحیحۃ:رقم الحدیث2955)
 

کامر

مبتدی
شمولیت
اگست 08، 2015
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
کیا یہ حدیث حسن ہے?

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ہے:
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ اَبُوْبَکْرٍ اَسَاسُہَا وَ عُمَرٌ حِیْطَانُہاَ وَ عُثْمَانٌ سَقْفُہَا وَ عَلِیٌّ بَابُہَا

میں شہر علم ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیواریں ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی؈ دروازۂ شہر ہیں۔
 
Top