جب حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر فتح کیا، اور اس کے گورنر بنے تو کچھ عرصے بعد بؤنہ کا مہینہ آیا۔(یہ ماہ جون کا قبطی نام ہے)۔مہینہ کے شروع ہوتے ہی قدیم قبطی باشندوں کا ایک وفد حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: جناب امیر! ہمارے دریاء نیل کو ایک عادت ایسی پڑگئی ہے کہ جسے پورا نہ کیا جائے تو وہ چلنا بند کردیتا ہے۔
"حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے پوچھا: "وہ کیا"?"کہنے لگے": عادت یہ ہے کہ پؤنہ کے مہینہ کی بارہ راتیں پوری ہوجاتی ہیں تو ہم کسی حسین دوشیزہ کو تلاش کرتے ہیں اور ملنے پر اس کے ماں باپ کو راضی کرتے ہیں اور راضی ہونے پر ہم سب اس دوشیزہ کو اچھے زیور اور کپڑوں کے ساتھ تیار کرتے ہیں اور
پھر دریاء نیل میں ڈال دیتے ہیں اس کے بعد وہ خوب چلتا
ہے۔"حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "اسلام میں ایسا نہیں ہوسکتا اسلام پچھلی جاہلانہ رسموں کو منہدم کرتاہے"
وفد یہ سن کر چلا گیا، لیکن ہوا واقعتا یہی بؤنہ(جون)ابیب(جولائی) اور مسری(اگست) تینوں مہینے گزرگئے اور دریائے نیل خشک پڑا رہا۔ یہاں تک کہ لوگ دوسرے مقامات کی طرف جانے کا ارادہ کرنے لگے، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر مشورہ طلب کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: "تم نے ٹھیک کیا اسلام واقعی پرانی رسموں کو منہدم کرتا ہے، میں تمہارے پاس ایک پرچہ بھیج رہا ہوں،اسے دریائےنیل ڈال دینا۔"حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے وہ پرچہ کھول کر دیکھاتو اسمیں لکھا تھا: اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام"حمد و صلواۃ۔اگر تو اپنی مرضی سے بہا کرتا ہے تو بہنا بند کردے، اور اگر خدائے واحد قہار ہے جو تجھے چلاتا ہے ، تو ہم اسی خدائے واحد قہار سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ تجھے بہنے پر مجبور
کردے۔"حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ پرچہ نصارٰی کی عید صلیب سے ایک دن پہلے دریا میں ڈال دیا، مصر کے باشندے وہاں سے بھاگنے کو پوری تیاریاں کرچکے تھے ، اسلیے کہ ان کی زندگی کا دارومدار دریائے نیل کی پانی پر تھا، لیکن عید صلیب کے دن صبح جاکر دیکھا تو دریائے نیل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہنا شروع پوچکا تھا، اور ایک رات میں پانی کی سطح سولہ زراع بلند ہوگئی تھی۔ البداية والنهاية (1/27) و (7/10