ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
جو شخص نیکی کا حکم دے یا برائی سے روکے لیکن خود عمل نہ کرے
اللہ مالک الملک نے فرمایا :
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾
کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم
کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ (44) سورة البقرة
مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت٭٭
یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے
نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہئے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔
طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے یہ حدیث غریب ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا ایک تو آیت
(اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ) 2۔ البقرۃ:44) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو؟
دوسری آیت آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 61۔ الصف:2-3) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔
تیسری آیت حضرت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت (وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ) 11۔ہود:88) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے
کہو تم ان تینوں آیتوں سے بےخوف ہو؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو۔ (تفسیر مردویہ)
حضرت ابراہیم نخعی نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا۔
تفسیر ابن کثیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرامین :
1 ۔ سیدنا ابو زید اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہوئے سنا کہ، قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس سے اس کے پیٹ کی آنتیں نکل آئیں گی وہ آنتوں کو لے کر اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے۔ دوزخ والے اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے، اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ (یعنی آج تو کس حالت میں ہے؟) کیا تو لوگوں کو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا : ہاں میں لوگوں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائی سے منع کرتا تھا لیکن میں خود برائی میں مبتلا تھا۔ صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2982 زہد و تقوی کا بیان : جو آدمی دوسروں کو نیکی کا حکم دتیا ہے اور خود نیکی نہ کرتا ہو اور دوسروں کو برائی سے روکتا ہو اور خود برائی کرتا ہو ایسے آدمی کی سزا کے بیان میں
فوائد :
اس میں علماء و داعیان حق اور مصلحین امت کے لیے سخت تنبیہ ہے جن کا اپنا عمل اس وعظ اور نصیحت کے خلاف ہوتا ہےجو اسٹیج پر اور منبر و محراب پر وہ لوگوں کو کرتے ہیں۔ اس حدیث میں والدین،اساتذہ،پیروں فقیروں اورمذہبی و ساسی لیڈروں کے لیے بھی انتباہ موجود ہے جو دوسروں کو اچھی باتیں کہتے ہیں مگر خود اُن پرعمل نہیں کرتے۔
(مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ)
2 ۔ رأيتُ ليلةَ أُسري بي رجالًا تُقرضُ شِفاهُهم بمقاريضَ من النَّارِ فقلتُ من هؤلاء يا جبريلُ قال الخطباءُ من أمَّتك الَّذين يأمرون النَّاسَ بالبرِّ وينسَوْن أنفسَهم وهو يتلون الكتابَ أفلا يعقلون
الراوي: أنس بن مالك المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 3/236
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں جبریل؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں حالانکہ وہ خود کتاب کی تلاوت کرتے ہیں تو عقل سے کام کیوں نہیں لیتے(یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان، ابن ابی الدنیا کی کتاب الصمت اور بیہقی وغیرہ میں یہ روایت موجود ہے)
اللہ مالک الملک نے فرمایا :
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾
کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم
کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ (44) سورة البقرة
مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت٭٭
یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے
نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہئے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔
طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے یہ حدیث غریب ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا ایک تو آیت
(اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ) 2۔ البقرۃ:44) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو؟
دوسری آیت آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 61۔ الصف:2-3) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔
تیسری آیت حضرت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت (وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ) 11۔ہود:88) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے
کہو تم ان تینوں آیتوں سے بےخوف ہو؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو۔ (تفسیر مردویہ)
حضرت ابراہیم نخعی نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا۔
تفسیر ابن کثیر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرامین :
1 ۔ سیدنا ابو زید اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہوئے سنا کہ، قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس سے اس کے پیٹ کی آنتیں نکل آئیں گی وہ آنتوں کو لے کر اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے۔ دوزخ والے اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے، اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ (یعنی آج تو کس حالت میں ہے؟) کیا تو لوگوں کو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا : ہاں میں لوگوں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائی سے منع کرتا تھا لیکن میں خود برائی میں مبتلا تھا۔ صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2982 زہد و تقوی کا بیان : جو آدمی دوسروں کو نیکی کا حکم دتیا ہے اور خود نیکی نہ کرتا ہو اور دوسروں کو برائی سے روکتا ہو اور خود برائی کرتا ہو ایسے آدمی کی سزا کے بیان میں
فوائد :
اس میں علماء و داعیان حق اور مصلحین امت کے لیے سخت تنبیہ ہے جن کا اپنا عمل اس وعظ اور نصیحت کے خلاف ہوتا ہےجو اسٹیج پر اور منبر و محراب پر وہ لوگوں کو کرتے ہیں۔ اس حدیث میں والدین،اساتذہ،پیروں فقیروں اورمذہبی و ساسی لیڈروں کے لیے بھی انتباہ موجود ہے جو دوسروں کو اچھی باتیں کہتے ہیں مگر خود اُن پرعمل نہیں کرتے۔
(مولانا صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ)
2 ۔ رأيتُ ليلةَ أُسري بي رجالًا تُقرضُ شِفاهُهم بمقاريضَ من النَّارِ فقلتُ من هؤلاء يا جبريلُ قال الخطباءُ من أمَّتك الَّذين يأمرون النَّاسَ بالبرِّ وينسَوْن أنفسَهم وهو يتلون الكتابَ أفلا يعقلون
الراوي: أنس بن مالك المحدث:المنذري - المصدر: الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 3/236
خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں جبریل؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں حالانکہ وہ خود کتاب کی تلاوت کرتے ہیں تو عقل سے کام کیوں نہیں لیتے(یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان، ابن ابی الدنیا کی کتاب الصمت اور بیہقی وغیرہ میں یہ روایت موجود ہے)