- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 56
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 56
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گداگری کے خاتمے میں اسلام کا کردار
گداگری کے خاتمے میں اسلام کا کردار
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:
محترم سامعین!
سب سے پہلے میں اللہ رب العزت کا شکربجا لاتاہوں کہ اس ذات باری تعالی نے مجھے آج اس عظیم الشان آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس(بتاریخ:9-10 نومبر2024) میں آپ کے سامنےمقالہ پیش کرنے کا موقع عنایت فرمایا ،الحمدللہ علی ذلک۔بعدہ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تمام ذمہ داران واراکین کابے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا ورنہ من آنم کہ من دانم۔فجزاہ اللہ واحسن الجزاء فی الدارین۔یقیناً مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی یہ پیشکش قابل ستائش ہے کہ انہوں نے اسلام کے پیغام کو عام کرنے اور اسلامی تعلیمات سے دوسروں کو مستفیض ہونےکے لئےدوروزہ عظیم الشان کانفرنس بعنوان ’’ احترام انسانیت او رمذاہب عالم ‘‘ کا انعقاد کیا،ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ اے ارحم الرٰحمین تو اس عظیم الشان کانفرنس کو بحسن خوبی اختتام پذیر پہنچا اور اس کے عظیم مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچاتے ہوئے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تمام ذمہ داران واراکین کی تمام کاوشوں کو توشرف قبولیت بخش دے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ آج کے اس عظیم الشان آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں جس عنوان پر مجھےمقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے وہ ہے ’’گداگری کے خاتمے میں اسلام کا کردار‘‘
برادران اسلام!
اس روئے زمین پر اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو تمام بنی نوع انسان کی دنیوی واخروی خیرخواہی کرتاہے،مذہب اسلام کی تعلیم او رپیغام روز اول سے ہی یہی ہے کہ روئے زمین پر امن وشانتی ہو ،ملک وسماج ا ورمعاشرے کا ہرفرد باوقار اور مقدس زندگی گذارے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہرخیروبھلائی کے کاموں کی سراہنا کی ہے اور ہراس کام اور ہر اس حرکت پر قدغن لگایاہے جس سے سماج ومعاشرے اور ملک میں بدامنی پیداہوتی ہو یا پھر کسی کی عزت مجروح ہوتی ہو،اب دیکھئے کہ اسلام کی ایک مقدس تعلیم یہ ہے کہ سماج ومعاشرے کا ہرفرد اپنے ہاتھ سے کمائے جیسا کہ آپ ﷺ نےاپنے ہاتھ سے کمانے اور محنت ومزدوری کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کو سب سےعمدہ کمائی قراردیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ أَطْيَبُ الْكَسْبِ عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ ‘‘سب سےعمدہ کمائی یہ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کاج کرکے کماناہے۔(الصحیحۃ:607،صحیح الجامع للألبانیؒ:1033)دیکھئےجہاں ایک طرف مذہب اسلام نےکام کاج کرکے اپنے ہاتھ سے کمائی کرنے کو سب سے عمدہ کمائی قراردیا ہے وہیں دوسری طرف مذہب اسلام نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ کوئی کسی کے سامنے دست دراز کرے یا پھر کشکول گدائی اٹھائے،ناپسند ہی نہیں بلکہ اسلام نے جتنی مذمت گداگری کی ،کی ہے شاید ہی دنیا کے کسی دیگر مذاہب نے کی ہو کیونکہ اس گداگری میں انسانیت کی تحقیرو تذلیل ہے اور اسلام انسانیت کا وقار اور تمکنت چاہتاہے، تمام انسانوں کو اسی ذلت وحقارت سے بچانے کی فکرکرتے ہوئے اسلام نے یہ تعلیم دی ہےکہ انسان جنگلوں اور پہاڑوں سے لکڑیاں کاٹ کراور اپنے پیٹھ پر لاد کر بازاروں میں لے جاکربیچے اورکمائے مگر کسی کے سامنےہاتھ نہ پھیلائے جیسا کہ محمد عربیﷺ نے فرمایا کہ’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا فَيَسْأَلَهُ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگرکوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھالائے (پھرانہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے) تو ایساکرنے والا اس انسان سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آکر سوال کرتاہے،پھر جس سے سوال کیاگیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔(بخاری:1470)قربان جائیے آپﷺ کے اس فرمان پر کہ آپ نے گداگری کی کیا خجالت بیان کی ہے کہ اگرکوئی مانگنے پر کچھ دے تو یہ مانگنے کی ایک ذلت ہوئی اور اگر کوئی مانگنے پر بھی نہ دے تو یہ دوہری ذلت ہوئی ایک تو مانگنے کی اور دوسری مانگنے پر نہ ملنے کی، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے لکڑیاں کاٹ کر اورمحنت ومزدوری کرکےکمانے کو گداگری کرنے سے بہترقراردیا کیونکہ اس گداگری میں ایک انسان کی ذلت و حقارت ہوتی ہے
اسی بات کو علامہ صفی الرحمن مبارکپوریؒ نے کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ ’’ سوالی اور گداگر کو اگر کچھ مل جائے تو سوال کرنے کی ذلت کیا کچھ کم ہے، بھیک مانگنے سے عزت وآبرو نہیں رہتی،معاشرے میں وقار کم ہوجاتاہے،لوگوں کی نگاہوں میں ایسے آدمی کا کوئی مقام ومرتبہ نہیں رہتا،مفت خوری کی بدعادت ایسے آدمی کو کاہل وسست بناکررکھ دیتی ہے ،معاشرے کی ترقی متأثر ہوجاتی ہے اور ایساشخص بسااوقات چوری اور ہیرا پھیری جیسی بری عادات کا خوگر بن کر رہ جاتاہے۔(بلوغ المرام شرح ازعلامہ صفی الرحمن مبارکپوریؒ ،فائدہ:518)قربان جائیے آپﷺ کی دوربیں نگاہوں پر کہ آپﷺ نے ایک بار نہیں بلکہ بارہا اس گداگری سے دور رہنے کی اپنی امت کو تلقین کی ہے،اکثر احادیث کی کتابوں میں ہمیں اس بات کا بیان ملتا ہےکہ گداگری یعنی کہ بھیک مانگنے کی کراہت کا بیان جیسا کہ امام بخاریؒ نے احادیث نقل کی پھر اس حوالے سےباب باندھا کہ ’’ بَابُ الِاسْتِعْفَافِ عَنِ المَسْأَلَةِ ‘‘یعنی سوال سے بچنے کا بیان، اسی طرح امام نسائیؒ نے بھی اسی عنوان سے اپنی کتاب میں باب باندھا،امام ابن ماجہؒ اور امام ابوداؤدؒنے اپنی اپنی کتاب میں ’’ بَابُ كَرَاهِيَةِ الْمَسْأَلَةِ ‘‘یعنی مانگنے کی ممانعت کا بیان کے عنوان سے باب باندھا ہےاور امام ترمذیؒ نے بھی اپنی کتاب میں ’’ بَابُ مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ المَسْأَلَةِ ‘‘ یعنی کہ مانگنا منع ہےکے عنوان سے باب باندھا ہے تقریباً تمام محدثین کرام نے گداگری کی ممانعت اور ذلت وحقارت کے بارے میں بے شماراحادیث نقل کی ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ اسلام نے بھیک مانگنے اور گداگری کرنے کو ناپسند کرتے ہوئے اہل دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ یہ گداگری انسانیت کی توہین ہے اور اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ کوئی انسان کبھی کہیں پر بھی حقیرو ذلیل ہو۔
محترم سامعین!
آئیے سب سے پہلےاس گداگری کی ممانعت وکراہت اور برے انجام کے بارے میں آپﷺ نے کیا کچھ کہا ہے اس کو پہلے سنتے ہیں چنانچہ آپﷺ نےاپنی امت کوگداگری سے ڈراتے ہوئے فرمایا ’’ مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ القِيَامَةِ وَلَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ ‘‘ يعني كه آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرہ برابربھی گوشت نہ ہوگا۔ (بخاری:1474،مسلم:1040)اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ صفی الرحمن مبارکپوریؒ لکھتے ہیں کہ ایسے آدمی کی قیامت کے روز قدرومنزلت اور عزت ووجاہت نہیں ہوگی اور وہ ذلت وخواری اور گھٹیا حالت کے ساتھ آئے گا،اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی یہ ہوکہ اس کے چہرے کو اتنا عذاب دیا جائے گا کہ چہرے کا گوشت تک اڑ جائے گا،یا اسے اٹھایا ہی اس حالت میں جائے گا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈیوں کا خالی ڈھانچہ ہوگا تا کہ وہ اس کی پہچان کی علامت بنارہے۔(شرح بلوغ المرام از علامہ صفی الرحمن مبارکپوری،فائدہ:516)اعاذنااللہ۔میدان محشر میں گداگروں کی ذلت وحقارت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے جناب محمدعربیﷺ نے فرمایا کہ ’’ مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ ‘‘ جو شخص مانگے حالانکہ اس کے پاس بقدر کفایت روزی روٹی موجود ہو تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ زخمی ہوگا یا اس پر خراشیں ہوں گی یا نوچا ہوا ہوگا۔(ابوداؤد:1626 ، الصحیحۃ:1058)اسی بات کو ایک دوسری روایت میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أَلْمَسَائِلُ كُدُوحٌ يَكْدَحُ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ فَمَنْ شَاءَ أَبْقَى عَلَى وَجْهِهِ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَ ‘‘ یعنی کہ سوال کرنا اپنے آپ کو نوچنا ہے،اس سے انسان اپنا چہرہ چھیلتا اور نوچتا ہے ،چنانچہ جو چاہے اپنے چہرے کی آبروباقی رکھے اور جوچاہے ضائع کردے۔(ابوداؤد:1639،نسائی:2600،صحیح الجامع للألبانیؒ:6695) اسی طرح سے آپﷺ نےاس گداگری کے برے انجام سے ڈراتے ہوئے باخبر کیا کہ ’’ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ ‘‘ جو انسان اپنامال بڑھانے کی غرض سے سوال کرتاہےتو وہ اپنے لئے انگاروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں مانگتا ،اب اس کی مرضی ہے انہیں کم کرے یا پھر زیادہ کرے۔(مسلم:1041) یقینا آپﷺ کی باتوں سے یہ اظہرمن الشمس ہے کہ آپﷺ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ آنے والے دور میں لوگ اس گداگری کوپیشے کی شکل میں اپنائیں گے اسی لئے آپ نے اپنی امت کو اس کے برے انجام سے باربار ڈرایااور متنبہ کیا۔
برادران اسلام!
جہاں ایک طرف آپﷺ نے اپنی امت کو اس قبیح ورذیل پیشے سے دور رہنے کی تلقین کی ہے وہیں دوسری طرف آپ ﷺ نے نہ مانگنے کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے اور ایسے انسان کو جنت کا مستحق قراردیا ہے جو کثیر العیال ہونے کے باوجود بھی لوگوں سے نہ مانگ کر محنت ومزدوری کرکے اپنا اور اپنے اہل وعیا ل کا پیٹ پالتاہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ وَأَهْلُ الْجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ وَرَجُلٌ رَحِيمٌ رَقِيقُ الْقَلْبِ لِكُلِّ ذِي قُرْبَى وَمُسْلِمٍ وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِيَالٍ ‘‘تین آدمی جنتی ہیں نمبر ایک ایسامنصف بادشاہ جو صدقہ کرنے والا ہے اور اسے خیروبھلائی کی توفیق دی گئی ہے ،نمبردو ایسامہربان شخص جو ہرقرابت دار اور ہرمسلمان کے لئے نرم دل رکھتا ہے اور تیسرا وہ پاک دامن شخص جو ہے توکثیر العیال مگر پھربھی وہ کسی سے مانگتا نہیں ہے۔(مسلم:2865)اسی طرح سے ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نےکسی سے سوال نہ کرنے والوں کو جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ مَنْ يَكْفُلُ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ ‘‘ جوشخص مجھے اس بات کی ضمانت دے گا کہ وہ لوگوں سے کبھی کچھ نہ مانگے گا تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔(ابوداؤد:1643صححہ الالبانیؒ)آپ نےسنا کہ مذہب اسلام میں گداگری کرنے کی کیاسزا ہےاور اس سےبچے رہنے والوں کی کیا فضیلت ہے،مگر افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ جس مذہب نے لوگوں کو سب سے زیادہ گداگری سے بچنے کی تلقین کی ہے آج اسی مذہب کے ماننے والےافراد واشخاص اس گداگری پیشے سے سب سے زیادہ منسلک اور مربوط ہیں،29/جولائی 2016/ کے اخبار ہندوستان ٹائمس میں یہ سروے شائع ہواتھا کہ ہندوستان میں جولوگ گداگری کاکام کرتے ہیں اور بھیک پر اپنی زندگی گذارتے ہیں ان میں 25 فیصد تعداد مسلمانوں کی ہوتی ہے ،جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہرچار بھکاریوں میں سے ایک بھکاری مسلمان ہوتا ہے،کتنی شرم وعار کی بات ہے کہ جس مذہب کی تعلیم ہی ہو کہ ’’ أَليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى ‘‘اوپر کا ہاتھ یعنی دینے والے کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ یعنی لینے والے کے ہاتھ سے بہترہوتاہے۔(بخاری:1472)آج اسی مذہب کو ماننے والے لوگ سب سے زیادہ گداگری کرتے ہوئے نظرآتے ہیں اور آج نوبت بایں جا رسید کہ آپ سڑکوں،بازاروں،ریلوے اسٹیشنوں ،بس اڈوں، گلی گلی ،کوچہ بکوچہ،چوک چوراہوں،مساجد ومنادر اور آستانوں کے دروازوں غرض کہ ہرجگہ پرآپ کو گداگری کرنے والے لوگ ضرور مل جائیں گے ، آج سماج ومعاشرے میں بھیک مانگنا ایک پیشہ بن چکاہے،ہمارے ملک میں تو جگہ جگہ پر ان گداگروں کا ایک مافیا بھی ہے جو بڑے ہی ظالمانہ اور وحشیانہ طوروطریقے سے لوگوں اور بالخصوص معصوم بچوں کو مفلوج ومعذور بناکر بھیک منگواتا ہے اور کچھ لوگ تو بڑے ہی کمال کی اداکاری سے اپنے آپ کو لاچار ومجبور ظاہر کرتے ہوئے گداگری کرتے ہیں،دیکھا یہ جارہاہے کہ ان گداگروں کی گداگری کے نت نئے طریقوں کی ایجاد دن بدن عروج پر ہے،کوئی اپنے آپ کو مہلک بیماری کا شکار بتلاتاہے تو کوئی اپنے آپ کو کثیر العیال ظاہرکرتے ہوئے اپنی غربت وافلاس کا روناروتاہے تو کوئی مصنوعی معذوری کا ڈھونگ رچ لیتاہے تو کوئی جعلی دوائیوں اور ٹیسٹوں کی پرچی دکھاتے پھرتاہے تو کوئی مسجد ومدرسے کی رسید لئے پھرتاہے تو کوئی اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات کے لئے بھیک مانگتے نظر آتا ہےاور لوگ ان کی حالتوں پر ترس کھا کران کوبھیک بھی خوب دیتے ہیں جب کہ ان میںلاچارومجبور بہت کم اکثرفراڈاور پیشہ ورگداگرہوتے ہیں۔
محترم سامعین!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ گداگری بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور لوگ اس کو ایک پیشہ کے طور پراپناتے جارہے ہیں تواس کی روک تھام کے لئے اسلام نے کیا کیا تدابیر بتائے ہیں تو آئیےاس بارے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کچھ اہم اہم تدابیر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس ناسور بد سے ہم اپنی قوم وملت کو دور رکھ سکیں:۔
1۔بیت المال کا قیام:
برادران اسلام!اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ سماج ومعاشرے سےاس گداگری کا خاتمہ ہو تو اس کے لئے اسلام کے بتائے گئے ایک اصول کو اپنانا ہوگا اور وہ یہ ہے کہ جگہ جگہ ،گاؤں گا ؤں اور شہرشہر بیت المال قائم کئے جائیں اور پھران سے لاچارومجبور لوگوں کی اس بیت المال سے حتی المقدور مدد کی جائے،اگر اس اسلامی نظام بیت المال کا قیام عمل میں آیا تو آپ یقین جانئے کہ بہت تیزی کے ساتھ گداگروں کی تعداد میں کمی آئے گی ۔ان شاء اللہ۔ اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دور دور تک آپ کوکوئی بھیک مانگنے والا نہ ملے گا،اگر آپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہو تو ذرا تاریخ کی ورق گردانی کیجئے اور پھر دیکھئے کہ اس کے بہترین نتائج کیا کیا ہیں ،یاد کیجئے خلفائےراشدین اور پھر بعد کے چند ادوار کو کہ جب تک بیت المال کا نظام قائم ودائم رہا تب تک مسلم ممالک میں کوئی بھیک مانگنے والا نہ تھا بلکہ گداگری کو ایک عیب سمجھاجاتا تھا،مگر افسوس صد افسوس جب سے اسلام کے اس نظام میں خلل آیا تبھی سے اس گداگری کا رواج ظہور پذیر ہوا اور دن بدن اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے،اگرآپ کو اس بیت المال کے اہمیت و افادیت میں ذرہ بھر بھی شک ہورہاہو تو پھر ذرا تاریخ کی ورق گردانی کیجئے اورسیدنا عمربن عبدالعزیزؒ کےدور خلافت کا مطالعہ کیجئے ،آپ کو یہ بات لکھی ہوئی ملے گی کہ ان کے دورخلافت میں بیت المال کا اتنا مستحکم نظام تھا کہ لوگ زکاۃ وصدقات اور عطیات کو دینے کے لئے ہاتھ میں چراغ لے کر مستحق لوگوں کی تلاش کیا کرتے تھے مگر دوردور تک کوئی زکاۃ وصدقات کو قبول کرنے والا نہ ملتاتھا۔سبحان اللہ۔ تو ہم بھی اس بیت المال کے نظام کو عام کریں اور اس اسلامی نظام کو مضبوط ومستحکم کریں اور سماج ومعاشرے سے اس ناسور کو ختم کریں۔
2۔گداگروں کو نصیحت کریں:
میرے بھائیو!سماج ومعاشرے سے گداگری جیسے اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے ہمارے سامنے آپﷺ کا اسوۂ حسنہ موجود ہیں جن کواپنا کر ہم اس ناسور کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور وہ ہے گداگروں کو نصیحت کرتے ہوئے اس گداگری کے برے انجام ونتائج سے روشناس کرانا،اب دیکھئے پیارے حبیبﷺ کا طرز عمل یہ تھاکہ اگر کوئی آپ سے مانگنے آتا تو اسے آپ طرح طرح سے نصیحتیں کیاکرتے تھے،کسی کو اس گداگری کے نقصان سے ڈراتے تو کسی کو کسی سے نہ مانگنے کی نصیحت کرتے تو کسی کو نہ مانگنے پر جنت کی بشارت سناتےجیسے کہ آپﷺ نے ایک مرتبہ سیدنا ثوبانؓ سے کہا کہ تم کسی سے کبھی کچھ نہ مانگنا تمہارے لئے جنت ہے۔(ابوداؤد:1643 صححہ الألبانیؒ)اسی طرح یک مرتبہ آپﷺ نے سیدنا حکیم بن حزامؓ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے حکیم ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ اوپر کا ہاتھ یعنی دینے والے کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ یعنی لینے والے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔(بخاری:1472)حدیث کی کتابوں کے اندر یہ بات مذکور ہے کہ آپﷺ کی نصیحت کا ان دونوں صحابی پر ایسا اثر ہوا کہ ان دونوں صحابی نے کبھی کسی سے کچھ نہ مانگا،اسی طرح سے ایک مرتبه آپﷺ نے آٹھ یا نو افراد پر مشتمل صحابۂ کرام کی ایک جماعت کو یہ نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ’’ وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا ‘‘ تم لوگ کبھی کسی سے کچھ نہ مانگنا ،پھر کیاتھا اس نصیحت نبوی کا ان سب پر ایسا اثرہوا کہ ان میں سے کسی کا اگر کوڑا گرجاتا تو وہ کسی اور کو یہ نہ کہتے کہ یہ اٹھا کر مجھے دے دو۔(ابوداؤد:1642 صححہ الألبانیؒ) آپ نے سناکہ آپﷺ کی نصیحتوں نے ان کے اوپر کتنا گہرا اثر ڈالا ،اسی طرح ایک مرتبہ آپﷺ سے انصاری صحابیوں نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ دیکھو ’’ وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ‘‘ جو شخص سوال کرنے سے بچتاہے تو اللہ تعالی بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتاہے اور جوشخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالی اسے بے نیاز بنادیتاہے۔ (بخاری:1469،مسلم:1053)تو ہم بھی ایسے ہی کریں کہ ان گداگروں کو وقتاً فوقتاً موقع دیکھ کر انہیں نصیحت کریں اور اس گداگری سے دوررہنے کی تلقین کرتے ہوئے اس کے انجام بد سے ڈرائیں ،کیامعلوم کہ آپ کی نصیحتوں سے وہ انسان اس گداگری سے دور ہوجائے اور وہ دنیا وآخرت کی ذلت وحقارت سے محفوظ ہوجائے اور خاص کر ان تندرست وتواناپیشہ ورگداگروں کوتوضرور بالضرور نصیحت کیا کریں جو یہ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ گداگری ہمارا خاندانی پیشہ ہے اور هربھکاری کو آپﷺ کا یہ فرمان ضرور بالضرور سنادیا کریں کہ ’’ وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ ‘‘ جو انسان بھی گداگری کرنے اور بھیک مانگنے لگ جاتاہے تو اللہ اس پر فقروفاقہ کا دروازہ کھول دیتاہے۔(ترمذی:2325 ،الصحیحۃ:2543)
3۔روزی روٹی کمانے کا راستہ بتائیں:
محترم سامعین!
اسلام نے اس گداگری کو ختم کرنے کے لئے ہمیں ایک اصول یہ بھی بتا یا ہےکہ اگر ہم سماج ومعاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنا چاہتے ہیں توجولوگ بھیک مانگتے ہیں ہم ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان کو محنت ومزدوری کرنے کی طرف راغب کریں،ہم انہیں بھیک دینے کے بجائے بھیک مانگنے سے نجات دلائیں، اگر ممکن ہو تو ہم انہیں کوئی ایسا ذریعہ فراہم کریں جس سے وہ سوال کرنے کے بجائے اپنی محنت ومزدوری سے کما سکے، ہم انہیں محنت ومزدوری کرنے کے طور وطریقے بتائیں ،ایک چینی کہاوت ہے کہ کسی کو روز مچھلی کھلانے سےبہترہے کہ اسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھادیا جائے،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
بھیک تو سب ہی بھکاری کو دیا کرتے ہیں
توسخی ہے تو میرے ہاتھ سے کشکول گرا
توسخی ہے تو میرے ہاتھ سے کشکول گرا
قربان جائے پیارے حبیبﷺ کے اس طرز عمل پر کہ آپﷺ نے ایک سائل انسان کو محنت ومزدوری کی طرف رہنمائی کرکے اسے غنی بنادیا ،جیسا کہ ابوداؤد میں یہ حدیث مذکور ہے کہ ایک انصاری صحابی آپﷺ سے کچھ مانگنے کے لئے آئے تو آپ نے ان سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کچھ ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو ایک چادر ہے جو اوڑھنے اوربچھانے کے کام آتا ہے اور ایک پیالہ ہےتو آپﷺ نے فرمایاکہ جاؤ اسی کو لے آؤ ،پھرآپﷺنے ان دونوں چیزوں کو دودرہم میں فروخت کروا کر ایک درہم سے گھروالوں کو غلہ واناج پہنچانے کا حکم دیا اور دوسرے درہم کا مصرف یہ بتایا کہ جاؤ اس سے ایک کلہاڑی خرید کرمیرے پاس آؤ چنانچہ جب وہ انصاری صحابی بازار سےکلہاڑی خرید کرلائے تو آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگایا اور کہا کہ جاؤ محنت کرو،اس سےلکڑیاں کاٹو اور بیچو ،چنانچہ وہ صحابی گئے لکڑیاں کاٹتے اور بیچتے رہے یہاں تک کہ انہوں نےاس سے دس درہم کمائے اور اس سےکپڑے وکھانے پینے کی چیز لے کر آپﷺ کے حضور حاضرہوئے توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ الْمَسْأَلَةُ نُكْتَةً فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘‘ اس طرح سے کمائی کرنا اور محنت مزدوری کرنا یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں۔(ابوداؤد:1641،نسائی:4512،ابن ماجہ:2198،زبیرعلی زئیؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)دیکھئے کہ آپﷺ نے کس طرح سے ایک مانگنے والے شخص کی صحیح رہنمائی کی اور اسے مالدار بنادیا۔ اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سماج ومعاشرے سے گداگری ختم ہوتو ہم انفرادی اور اجتماعی طورپر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں اور بالخصوص رفاہی وملی تنظیموں اورسوسائٹی چلانے والوں کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرام ترتیب دیں اور پیش کریں کہ جن سے لوگ ہنر مند بن کر برسرروزگار ہوسکے کیونکہ بے روزگاری کو ختم کئے بغیر اس گداگری کو ختم کرنا محال ہے۔
4۔ تندرست وتوانےشخص کو بھیک نہ دیں:
میرے بھائیو!سماج ومعاشرے میں اس گداگری کو بڑھاوا دینے میں کہیں نہ کہیں ہم سب کا ہاتھ ضرور ہے کہ ہم ہر ایک کو اپنے رب کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے کی خاطریاپھردینی جذبہ کے تحت صدقہ وخیرات دے دیتے ہیں ۔یہی عمل اس گداگری میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے ، جب کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم تندرست وتوانے شخص کو بھیک دینے سے پرہیز کریں اورخودآپﷺ نے تندرست وتوانا شخص کو مانگنے پر بھی نہ دیااور فرمایا کہ دیکھو اگر تم چاہو(اوراگر تمہیں اس گداگری کی ذلت پسند ہے) تو میں تمہیں صدقہ دےدیتاہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’ وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ ‘‘ اس میں مالدار اور طاقتور اور کمائی ومحنت ومزدوری کرسکنے والوں کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے۔(ابوداؤد:1633،نسائی:2599،صححہ الألبانیؒ)اسی طرح سے آپﷺ کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ ’’ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ‘‘ یعنی کہ صدقہ کسی مالدار اور تندرست وتوانا شخص ،کمانے کی طاقت رکھنے والے اور صحیح الاعضاء شخص کے لئے حلال نہیں ہے۔(ابوداؤد:1634،ابن ماجہ:1839،ترمذی:652 صححہ الألبانیؒ) جب خودآپﷺ نےیہ اعلان کردیا ہے کہ تندرست وتوانا شخص کے لئے صدقہ وخیرات حلال نہیں ہے تو ہم انہیں بھیک کیوں دیں؟اور آپ بھی اس بات سے غالبا واقف ہوں گے کہ یہ گداگر حضرات بہت مالدار ہوتے ہیں بلکہ یہ لوگ گداگری کرکے سود پر پیسہ بھی لوگوں کو دیتے ہیں ،ہرطرح کی دنیاوی عیش وآرام انہیں میسر ہوتی ہے، یہ لوگ زمین وجائداد کے مالک ہوتے ہیں ،ان کے پاس مہنگی سے مہنگی گاڑیاں بھی ہوتی ہیں اوریہ لوگ روزانہ کسی بھی عام انسان سے بہت زیادہ کمائی کرتے ہیں۔اگر ہم اس صورت میں ایسے لوگوں کو بھیک دیتے ہیں تو ہم خود اس گداگری کو بڑھاوا دے رہے ہیں،لہذا میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کرتاہوں کہ اگرآپ اپنے سماج ومعاشرے اور اپنی قوم وملت سے اس ناسور کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کو ہرگزہرگز بھیک نہ دیا کریں بلکہ غیر مستحق لوگوں کو بھیک دینا بالکل ہی بند کردیں اور یہ قوم کےاوپر بہت بڑا احسان ہوگا ،جب تک ہم اس طرح کے لوگوں کو بھیک دیتے رہیں گے تب تک ان کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا، ایک بات یاد رکھ لیں کہ رحم وترس کھاکربھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کو مزیدفروغ ملتاہے۔
5۔اپنے صدقات وخیرات کو مستحق لوگوں تک پہنچائیں:
میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ابھی آپ نے یہ سنا کہ ہم تندرست وتوانا لوگوں کو بھیک نہ دیاکریں تو پھراب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم اپنے صدقات وخیرات کا کیا کریں؟تو دیکھئے آج ہم نے اس معاملے میں بھی شریعت کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سےہی اس گداگری میں دن بدن اضافہ ہوتا چلاآرہاہے ،اب ذرا دیکھئے کہ اسلامی تعلیم اورنظام یہ ہے کہ ہم صدقات وخیرات کودینے کے لئے خود سے غریب ولاچار اور مجبور لوگوں کو تلاش کریں اور پھر جو مستحق ہوں اسے عطا کریں،مگر ہم ایسا کرتے نہیں ہیں جو سامنے آتاہے اسے اٹھاکردے دیتے ہیں ،مزید اس بارے میں اسلامی تعلیم یہ بھی ہے کہ ہم اپنے صدقات وخیرات پہلے اپنے کنبے وقبیلے اور قریبی رشتے داروں میں تقسیم کیا کریں اور یہی اصل اسلامی تعلیم ہے اب جیسے کہ دیکھئے ایک بار سیدنا ابوطلحہؓ نے اپنے باغ کو صدقہ کرنا چاہا تو آپﷺ نے ان کی تعریف کی اور کہا کہ جاؤ اسے تم اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردو اور انہوں نے ایساہی کیا۔(بخاری:2318،مسلم:998)اسی طرح آپﷺ نے اپنی امت کو اپنے رشتے داروں کو ترجیح دینے پر دوہرے اجروثواب کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ ‘‘مسکین کو اگر کچھ دیا جائے تو وہ صرف صدقہ ہوتاہے اور اگر رشتے داروں کو دیا جائے تو صدقہ اور صلہ رحمی یہ دونوں ہوتے ہیں۔(نسائی:2582،ترمذی:658 صححہ الألبانیؒ)لہذا میرے بھائیو اگر ہم اپنی قوم کو اس ذلت بھرے پیشے سے نکالنا چاہتے ہیں توپھر ہم سب کو اپنے اپنے زکاۃ وصدقات اور عطیات دینے کے معاملے میں اپنے اپنےرشتے داروں اور کنبے وقبیلے والوں کو ترجیح دینی پڑے گی،میں یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اگر ہم نے ایسا کرنا شروع کردیااور اپنے غریب وناتواں رشتے داروں کی خبرگیری وسرپرستی کرنی شروع کردی تو ان پیشہ ورگداگروں کومنہ کی کھانی پڑے گی اور لاچاروبے بس ہوکر خود بخود اس سے دور ہوجائیں گے،بنابریں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ سماج ومعاشرے سے یہ ناسور ختم ہوں تو اسلام نے صدقات وخیرات دینے کے جو اصول وضوابط بتائے ہیں ان پر ہم عمل کریں۔
6۔گداگروں کوفلاحی و رفاہی اداروں تک پہنچادیں:
میرے دوستو!لاچار ومجبور لوگوں کے لئے ایک اسلامی نظام یہ بھی هے کہ حکومت غریبوں ومفلسوں کا وظیفہ مقرر کریں اور الحمدللہ اس پر شروع زمانے سے ہی عمل درآمد ہوتا رہا ہے جیسا کہ تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ خلیفۂ ثانی سیدنا عمربن خطابؓ نے سب کے وظیفے مقرر کررکھے تھےجس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی کو کسی سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہ پڑتی تھی بلکہ ایک زمانے تک اسلامی مملکت میں گداگری کرنا ہی معیوب سمجھا جاتاتھامگر جب وقت کی حکومتوں نے اس میں غفلت ولاپرواہی برتی تولوگ گداگری کرنے پر مجبور ہوگئے ،اب تو ایسی صورت ہمارے سامنےموجود نہیں ہے مگر الحمدللہ اسی طرح کی ایک اور بہترین صورت ہمارے زمانے میں موجود ہے کہ آج کل بہت سارےسرکاری وغیرسرکاری ایسے رفاہی وفلاحی ادارے وٹرسٹ اور ین جی او ہیں جیسے کہ اولڈ ایج ہوم اورغریب خانے ویتیم خانےوغیرہ جو اس طرح کے لوگوں کی خبرگیری وکفالت کرتے ہیں تواگر ہم سماج ومعاشرےسے اس گداگری کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ان گداگروں کو بھیک دینے کے بجائے اپنی قوم پر اوران پر ایک احسان یہ کریں کہ ان لاچار ومجبورگداگروں کو ان سرکاری وغیرسرکاری رفاہی وفلاحی اداروں تک ضرور بالضرورپہنچادیں تاکہ وہ اس گداگری سے دور رہ سکے۔
7۔’’ گداگری قوم وملت کے لئے ایک ناسورہے ‘‘اس مہم کا آغاز کریں:
برادران اسلام! اگر ہم اپنی قوم کو اس گداگری جیسے معیوب پیشےسے بچاناچاہتے ہیں تو پھر ہم سب کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا،اس کے خلاف ہم اسلامی تعلیمات کو گھرگھر پہنچائیں اور اس کے برے نتائج اور قوم وملت کے حق میں بھیانک نتائج کے بارے میں سماج ومعاشرے میں لوگوں کو آگاہ کریں،پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا ہرایک پلیٹ فارم پر اس کے خلاف لوگوں کو جاگ رک کریں،بیدار کریں،لوگوں کو اس بات کی جانکاری دیں کہ اسلام لینا نہیں دینا سکھاتاہے،لوگوں کو باربارتنبیہ کریں کہ تندرست وتوانا کو بھیک دینا نیکی نہیں بلکہ اپنی قوم کو بھکاری بنانا ہے،یقین مانئے کہ اگر ہم ایساکرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کسی حد تک مسلم قوم میں گداگری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکتاہے۔
9۔ جہالت کو ختم کریں:
میرے دوستو!اگرہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سماج ومعاشرےسے یہ گداگری ختم ہو توہم سب کو اپنے سماج ومعاشرے سے جہالت کو ختم کرنی پڑے گی کیونکہ یہ جہالت اس گداگری کے پھلنے وپھولنےمیں سب سے بڑا کردار اداکررہاہے،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے ؟تودیکھئے ہمارے سماج ومعاشرے میں لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے اور یقین کامل کررکھا ہے کہ ان بھکاریوں کی دعا یا پھر بددعا لگ جاتی ہے،جو یہ کہتے ہیں وہ سچ ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ،اور یہ بھکاری حضرات بھی بڑے ماہر،چالاک و عیار اورچرب زبان بھی ہوتے ہیں لوگوں کے یا پھر گھر کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے گھروالوں کو ایک دوباتیں سنا دیتے ہیں ،اب گھر والے ان کی عیارانہ ومکارانہ باتوں کے جھانسے میں آکر ان کو خوب بھیک دیتے ہیں،ان پر رحم وکرم کرتے ہوئے اپنے گھر کے اندر بلالیتے ہیں یا پھر بسا اوقات یہ بھکاری حضرات کسی بہانے سے گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں اور پھر لوٹ پاٹ کرتے ہوئے جانی ومالی نقصان کرگذرتے ہیں،اسی لئے عوام کے دلوں سےان بھکاریوں کے تئیں رحم وترس کھانے کے جذبے کو سرد کیا جائے اور اس طرح کی جہالت بھری سوچ وفکر سے لوگوں کو آزاد کیا جائے،آپ یقین مانئے کہ یہی وہ سب سے بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے ان بھکاریوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بن رہاہے اسی لئے ہم لوگوں کو اور بالخصوص خواتین کو یہ علم دیں کہ ان بھکاریوں کی دعا اور بددعا سے کچھ نہیں ہوتاہے بلکہ یہ لوگ تو خود اللہ کے غضب کے شکار رہتے ہیں کیونکہ مانگنا یہ اللہ کو پسند ہی نہیں ہے(بخاری:1477،مسلم:1715)مزید یہ کہ یہ لوگ حرام کمائی بھی تو کررہے ہیں (مسلم:1044،ابوداؤد:1640) تو پھر ان کی دعا یا بددعاکیسے قبول ہوگی، لوگوں کوہم بتائیں کہ سب کو بھیک دینا جائز نہیں ہے او رسب کے لئے مانگنا بھی جائز نہیں ہے،لوگوں کو ہم اس گداگری کے نقصانات کے بارے میں بتائیں کہ کس طرح سے یہ لوگ ہمیں بیوقوف بناتے ہیں اور پھر ہمارے دئے گئے پیسہ سےجوابازی اور نشہ خوری کرتے ہیں ، شراب وکباب کی محفلیں سجاتے ہیں، لوگوں کو ہم بتائیں کہ بے شک صدقہ وخیرات کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے او ربہت بڑے اجروثواب کا کام ہے مگر اس کا مطلب ہرگزیہ نہیں ہے کہ ہم صدقہ وخیرات غیرمستحق او ر ہٹے کٹے اور پیشہ ور بھکاریوں کو دے دیں،الغرض جب تک ہم اپنے سماج اور اپنی قوم وملت سے جہالت کو ختم نہیں کریں گے تب تک اس گداگری میں اضافہ ہوتا رہے گا،لوگوں کو ہم باخبرکریں کہ ان پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینا بے شمار گناہوں کے کاموں میں ان کی مددکرنا ہے اور اللہ کا یہ حکم ہے کہ ’’ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ‘‘ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو۔(المائدۃ:2)
10۔علماء وخطباء اور مساجد کے ذمہ داروں سے ایک اپیل:
سب سے آخر میں اورسب سے اہم پیغام یہ ہے اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سماج ومعاشرے سے اس گداگری کا خاتمہ کیا جائے تو ہم سب کو ایک کام کرنے کی سخت ضرور ت ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام علماء وخطباء جو منبر ومحراب سے منسلک ہیں وہ اپنے اپنے خطبات ودروس اور بیانات میں اس گداگری کے بارے میں لوگوں کو جاگ رک کریں،بیدار کریں،اور اس کے برے انجام سے لوگوں کو ڈرائیں ،اس گداگری سے قوم وملت کا جو خسارہ ہورہاہے اس کو بیان کریں اور لوگوں کو اس بات سے منع کریں کہ وہ تندرست وتوانے شخص کو بھیک دیں،اسی طرح سے مساجد کے ذمہ داروں سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ گداگروں کو عیدین وجمعہ اور دیگر مواقع پر مسجدوں کے دروازوں پر بیٹھنے سے منع کریں،ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان کو بھیک مانگنے سے منع کریں،ان پر رحم وترس نہ کھائیں،یاد رکھ لیں!ایک روپیہ اور دوروپیہ جو آپ ان کو دیتے ہیں یہی چیز ان کو گداگری کا عادی بناتی ہےاسی لئے اگر ہم اپنی قوم کا بھلا چاہتے ہیں اور اپنی قوم کو اس لعنت سے بچاکرسربلندکرنا چاہتے ہیں توپھر براہ کرم اس مشورے پر اور بتائے گئے تمام مذکورہ بالااسلامی اصول وضوابط پرضرور بالضرور عمل کریں۔
آخر میں رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہماری قوم کو اس گداگری پیشے سے نجات دے اور ہم سب کو اس کی روک تھام کرنے میں کوشش کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ثم آمین۔
کتبہ
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
اٹیچمنٹس
-
1 MB مناظر: 3