محمد ثاقب صدیقی
رکن
- شمولیت
- مئی 20، 2011
- پیغامات
- 182
- ری ایکشن اسکور
- 522
- پوائنٹ
- 90
گستاخ کون؟ جناب ابو القاسم محمد اسماعیل کی تحریر کردہ مختصر کتاب ہے اس کتاب پر جناب محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا نہایت علمی مقدمہ ہے ۔ اس فکر انگیز مقدمے کو یہاں کتاب و سنت کے قارئین کے لئے شیئر کر رہا ہوں ۔
اسلام اپنی شکل میں کامل ہے ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ) کا فیصلۂ ربّانی یوم حجة الوداع کو نافذ ہوچکا ہے ۔ نبی کریمۖ نے( بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ رَبِّکَ ) کا تقاضا بخوبی نبھادیا اب کتاب و سنّت کے بعد اسلام میں علمِ سینہ بسینہ کے کسی شگوفے کی کوئی گنجائش نہیں۔
احادیث میں جسے احسان و سلوک کہا گیا اگر اسے عجمی اثرات کے زیرِ تغلّب ''تصوف '' کہہ دیا جائے تو شاید کوئی مضائقہ نہ ہو۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ آج اربابِ تصوّف نے پیر و مشیخیت کی جو دُکان کھول رکھی ہے اس میں '' نص '' سے کہیں زیادہ '' فص'' کو اور ''سنّت '' سے کہیں زیادہ '' بدعت '' کو مقام حاصل ہے ۔
یہ بات ہرگز فراموش نہیں کی جاسکتی کہ عہدِ نبوّت و عہدِ صحابہ میں کوئی فرد صوفی کے لقب سے معروف نہیں ہوا۔ جبکہ زہد وتقویٰ جس قدر اس دور میں تھا بعدکے ادوار میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہ رہا۔
اللہ ربّ العزت نے ایک مسلمان کو '' توحیدِ خالص '' پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے لیکن صوفیاء نے وجود و شہود کے جھمیلوں میں الجھاکر قرآنی توحید کی سادہ و فطری تعلیمات کو تکلفات و تصنع سے پُر کردیا ہے ۔
اگر صرف قربِ الٰہی کا تصور ، سیرت مقدسہ سے اُنسیت ، اخلاق و کردار کی پاکیزگی ، ایثار فی النّفس اور رُخصت کی بجائے عزیمت پر عمل کرنے کا نام تصوف ہوتا تو گو یہ اصطلاح جدید ہوتی لیکن مقصودِ اصلی کے واضح ہوجانے کے بعد'' لا مشاحة فی الاصطلاح ۔''
رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ تصوف انہیں اعمالِ خیر پر قانع نہ رہ سکا ۔ فلسفۂ یونان کی آمیزش ، ویدانی فلسفہ کی دَر اندازی ، راہبانہ عیسائیت اور بدھ سمنیت کی واقفیت نے مسلمان صوفیوں کو بھی کتاب و سنّت پر قانع نہ رہنے دیا اور اس بات سے کون ذِی علم انکار کر سکتا ہے کہ بدعات کو اخذ کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت '' تصوّف '' ہی میں ہے ۔ چنانچہ اہلِ سنّت و الجماعت کے عقائد و اعمال پر جتنی دَر اندازی باطنیت نے تصوف کی راہ سے کی ، کسی دوسری راہ سے نہ کرسکا۔
تصوف کا یہ نفسیاتی پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اگر ایک شخص مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے تو مسلم معاشرے میں انتہائی مطعون قرار پائے اس کے بَرعکس تصوف کے دائرے میں داخل ہوکر جی چاہے تو انا الحق کی صدا لگائے خود کو مرتبۂ اُلوہیت پر فائز کرلے ۔ اس کی بارگاہِ عقیدت میں ''جبینِ نیاز منداں '' کی کوئی کمی نہ ہوگی۔
اس گورکھ دھندے میں پھنسے عقیدت مندوں نے اپنے اپنے ممدوحین کی طرف ایسی کرامتوں اور خوارق کا انتساب کیا جس سے خود ان ممدوحین کی شخصیتیں بُری طرح متاثر ہوئیں۔ سیّد الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ ،سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ، امام غزالی رحمہ اللہ، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمہ اللہ وغیرہم پاکیزہ کردار صلحاء و اتقیاء تھے ۔ گو ان بزرگانِ عالمی مرتبت کا شمار اہلِ تصوف میں کیاجاتا ہے ۔ ان رفیع القدر اصحاب کی طرف کیسے کیسے واہمے منسوب نہیں کیے گئے لیکن ظاہر ہے کہ ان کا دامن ہر قسم کی خرافات سے پاک تھا۔
مشہور صوفی ابنِ عربی جس کا نظریہ وحدت الوجود آج تصوّف کی اَساس بن گیا ہے ، سے متعلق '' اردو دائرہ معارف اسلامیہ '' میں ہے :
''ابنِ عربی کے عِلاوہ ہمیں ایسے کسی اور شخص کا علم نہیں جس کی وجہ سے پوری ملّت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق پیدا ہوگیا ہو۔'']١/٦٠٦[
وحدت الوجود کی تعریف کرتے ہوئے ابنِ عربی نے '' فتوحات مکیہ '' میں لکھا ہے :
'' بزرگ و برتر ہے وہ ذات جس نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور جو خود ان کا جوہرِ اصلی ( اعیانہا) ہے ۔'']١/٦٠٩[
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ '' مذہب الاتحادیین '' میں ابنِ عربی سے متعلق لکھتے ہیں :
'' و ھی مع کونھا فھو اقربھم الیٰ الاسلام لما یوجد فی کلامہ من الکلام الجید کثیراً و لانّة لا یثبت علی الاتحاد ثبات غیرہ بل ھو کثیر الاضطراب فیہ ۔۔۔۔۔۔و اللّٰہ اعلم بما مات علیہ ۔''] بحوا لہ ہفت روزہ
'' الاعتصام '' لاہور اشاعتِ خاص مولانا عطاء اللّٰہ حنیف بھوجیانی نمبر ص ٣١٤[
ترجمہ : ''ابنِ عربی کا نظریہ اگرچہ کفر ہے تاہم وہ خود دوسرے متصوفین کی نسبت اسلام سے سب سے زیادہ قریب ہے ۔ کیونکہ اس کے کلام میں اچھی باتیں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ۔ نیز وہ اپنے نظریۂ وحدت الوجود پر مضبوطی سے قائم بھی نہیں رہتا ........اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی موت کس حالت پر واقع ہوئی ۔''
یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ ابنِ عربی فقہی مذہب کے اعتبار سے ظاہری ( اہلِ حدیث ) اور شرعی اعمال کی ادائیگی کے پابند تھے ۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی تحقیق کے مطابق ابنِ عربی کی تصانیف تحریف و تدسیس سے محفوظ نہیں رہیں ۔ چنانچہ وہ امام شعرانی کا ایک اقتباس '' الیواقیت و الجواہر '' سے اپنی تائید میں نقل کرتے ہیں ، ملاحظہ ہو:
'' حضرت شیخ کتاب اور سنت کے پابند تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ایک لحظے کے لیے بھی میزانِ شرع کو اپنے ہاتھ سے پھینک دے گا وہ یقینا ہلاک ہوجائے گا ۔ ان کی تصانیف میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے معارض ہیں وہ سب مدسوس ہیں ( دوسروں نے داخل کردی ہیں)۔مجھے اس حقیقت سے سیدی ابو الطاہر المغربی نے آگاہ کیا جو اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے ۔ انہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں شیخ اکبر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے کیا تھا۔ اس نسخے میں وہ فقرے نہیں تھے جو میرے نسخے میں تھے اور میں نے ان فقروں میں توقف ( ان کی صحت میں شک ) کیا تھا جب میں فتوحات کا اختصار کررہا تھا۔'' ] اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش : ٦٦[
قصۂ مختصر ابنِ عربی کے بارے میں صحیح روّیہ وہی ہے جسے شیخ محمد بن شاکر الکتبی نے بیان کیا ہے کہ
'' شیخ محی الدین ابنِ عربی کے کلام میں جو کچھ قابلِ فہم ہے بہتر ہے اور جو مشکل ہے اس کے علم کو ہم خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔ نہ ہم ان کی اتباع کے لیے مکلف ہیں اور نہ ان کے اقوال پر عمل کرنا ہمارے لیے لازمی ہے ۔'' ]تاریخ فلاسفةُ الاسلام : ٢٨٣[
اسی طرح بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ کی تقسیم نے بھی عقائد و نظریات کی گمراہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جناب رسالتمآب ۖ سے یہ واضح ترین ارشاد منقول ہے :
'' کل محدثة بدعة ، کل بدعة ضلالة ، و کل ضلالة فی النّار ۔'']سنن النسائی ، کتاب صلاة العیدین ، باب : کیف الخطبة [
ترجمہ :''(دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے ، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی ۔''
اس کے بعد بدعت کی کسی تقسیم کا جواز ہی کہاں رہتا ہے ؟ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا یہ ارشاد ملاحظہ فرمایے :
''گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض امور کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فرد کو حسنہ نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسلام کے اس ضعفت و غربت کے زمانہ میں سلامتی سنت کے بجالانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے سے وابستہ ہے ۔فقیر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جانتا ہے جو بنیادِ اسلام کو گرارہی ہے اور سنّت کو چمکنے والے ستارہ کی طرح دیکھتا ہے جو گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت فرما ہے ۔'' ]کشف المعارف : ٢٠٧ ، مرتبة عنایت عارف مطبوعہ الفیصل ناشران کتب لاہور ٢٠٠٦ء [
تصوف کے علاوہ ایک اور جذبہ ہے جو انسان کو فکر و عمل کی گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے ، اور وہ ہے فقہی مسلک کو کتاب وسنّت پر فوقیت دینے کا جذبہ ۔ معروف حنفی عالم حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اسی جذبے کے قبیح اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں :
'' اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اوّل قلب میں استنکار پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے ، خواہ کتنی ہی بعید ہے اور خواہ دوسری قوی دلیل اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت ِ مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں ۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر صحیح و صریح حدیث پر عمل کرلیں۔'' ] تذکرة الرشید : ١/١ ١٣ [
شاہ اسماعیل شہید '' تنویر العنین'' میں فرماتے ہیں:
''تقلید کے معاملہ میں لوگوں نے غلو کیا ہے اور متعین شخص(امام)کی تقلید کے التزام میں ہٹ دھرمی کی ہے ۔یہاں تک کہ اجتہاد اور جزوی مسائل میں اپنے امام کے ماسو ادو سرے کی تقلید سے منع کیاہے ۔یہ وہ سخت بیماری ہے جس نے شیعوں کا بیڑا غرق کیا اور ان (مقلدین)کا بیڑا غرق ہونے کو ہے ۔شیعہ اور مقلد ین میں صرف اتنا فرق ہے کہ شیعہ امام کے قول کے مقابلے میں نصوص کو رد کر دیتے ہیں اور مقلدین مشہور روایات میں تاویل کرکے امام کے قول کی طرف پھیر پھار کر لاتے ہیں ۔ حالانکہ ہونا اس کے بر عکس چاہیئے تھا۔'']تنویر العینین:٢٥۔اصل عبارت میں عربی میں تھی ، یہ اردو ترجمہ مولانا عزیز زبیدی رحمہ اللّٰہ کے رشحات قلم سے ہے ملا حظہ ہو :''الاعتصام''(لاہور) ٢٨، جون ١٩٨٥ئ[
ائمہ اربعہ کے یہ مسالک درحقیقت نظریاتی ادارے تھے جن کا مقصد کتاب و سنت کی تشریح و توضیح تھا اسے مستقل دین کا درجہ نہیں دینا چاہیے تھامگر افسوس جامد مقلدین نے اس حقیقت کو فراموش کردیا۔ اپنے فقہی مذہب کے بَرخلاف اگر کوئی صحیح حدیث مل جائے تو اسے رد کرنے کے اصول وضع کیے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی زبانِ طعن دراز کیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ، حضرت انس اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' و من قال انّہ ] ابو ھریرة رضی اللّٰہ عنہ[ لیس بفقیہ فقد أخطا ، ان لم یکن ابو ھریرة فقیھاً فمن یکون فقیھاً ؟۔'' ] غایة المقصود : ١/١٠٣[
ترجمہ : ''اور جو یہ کہتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے ، بلا شبہ اس نے خطا کی ۔ اگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے تو پھر کون فقیہ ہوسکتا ہے ؟۔''
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر '' گستاخی '' کیا ہے ؟ کن کن امور پر اس کا اطلاق ہوتا ہے؟
ایک مسلمان گائے کی قربانی کرتا ہے اور اس کے گوشت کو بلا تکلف کھاتا ہے اور اس کا یہ عمل ہندوئوں کے نزدیک مہاپاپ اور صریح گستاخی ہے ۔ کیا آپ ہندوئوں کے اس نظریے کو درست مان کر اسے گستاخی قرار دیں گے ؟
ایک مسلمان سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور برگزیدہ رسول سمجھتا ہے ، اس کا یہ سمجھنا عیسائیوں کے نزدیک عین گستاخی ہے ۔کیا آپ عیسائیوں کے مؤقف کو درست مان کر اسے گستاخی سمجھیں گے ؟
اہلِ سنّت و الجماعت کا ہرفرد جنابِ صدّیقِ اکبررضی اللہ عنہ کو خلیفۂ رسول اللہ ۖ مانتا ہے ،لیکن اہلِ تشیّع کے نزدیک اس کا یہی ماننا عین ضلالت و گمراہی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی ہے ۔کیا آپ شیعوں کے موقف کو مبنی بَر صحت قرار دے کر اسے گستاخی قرار دیں گے ؟
راقم نے اپنی کتاب '' حکمتِ اسلام کے منافی موضوع روایات '']غیر مطبوعہ[میں ایک موضوع روایت کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے :
''جہاں تک نبی کریمۖ کے مرتبے کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ اللہ رب العزت کے نزدیک نہایت بلند وبرتر مقام پر فائز ہیں اور اس کے لیے انہیں قطعاً کسی موضوع روایت سے اثبات کی ضرورت نہیں۔اس روایت کو موضوع اس لیے قرار دیا جارہا ہے کہ یہ موضوع ہے نہ کہ اس لیے کہ خدانخواستہ کوئی جاہِ رسول عربی فداہ امی و ابی ۖ کا منکر ہے۔خود اللہ رب العزت نے فرمایاہے:
( و رفعنا لک ذکرک )
ترجمہ :'' اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔''
یہ نبی کریم ۖ ہی ہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کے مقدس گروہ کے سردار،خیر الامم کے ہادی،روزِ جزا میں مومنین کی شفاعت کرنے والے اورجنت میں قافلۂ رحمانی کے قائد ہوں گے۔''
خلاصۂ کلام !ہمیں گستاخی کا صرف وہی ایک پیمانہ بنانا چاہیے جو پیمانۂ الٰہی کے مطابق ہو ۔ کتاب و سنّت کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کیا سعادت ہے اور کیا شقاوت۔
زیر نظر کتاب کے مولف اپنی ابتدائی احوال میں انہی عقائد و نظریات کے حامل تھے ، لیکن ان کی روشن ضمیری نے حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے بعد کتاب و سنّت سے انحراف گوارا نہ کیااور یہ کتاب ان کی اسی روشن ضمیری کی عکّاس ہے ۔ مولف نے اس موضوع پر نہایت وسیع تر مواد اکٹھا کر رکھا ہے ،جس کی ترتیب و تکمیل میں وہ مصروف ہیں ۔تاہم بعض احباب کے اصرار پر اس کا اختصار زیر نظر کتابچے کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے ۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ اللہ انہیں مزید دینی و علمی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین )
اس کتاب کو آپ ظاہر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایے ۔ ان میں ایسے حقائق ہیں جن تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کے تعصبّات سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔ ایک عدالت دنیا کی ہے جہاں انسان اپنی چرب زبانی اور ہٹ دھرمی سے کامیاب ہوسکتا ہے لیکن ایک عدالت الٰہ لم یزل کی ہے جہاں تمام حقائق آشکار ہوجاتے ہیں اور کسی میں جرأت اندازی نہیں ہوتی ۔ جہاں کسی سے اس کے گناہوں عوض نہیں لیا جائے گا ، نہ اسے کسی طرح کی کوئی سفارش نفع دے سکے گی اور نہ ہی کوئی ذریعۂ امداد و مغفرت ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
( و اتّقوا یوماً لا تجزی نفس عن نفس شیئاً و لا یقبل منھا عدل وّ لا تنفعھا شفاعة وّ لا ھم ینصرون ) ]البقرة : ١٢٣[
دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
محمّد تنزیل الصدیقی الحسینی
٧ اکتوبر ٢٠٠٧ء ، کراچی
سخن ہائے گفتنی
اسلام اپنی شکل میں کامل ہے ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ) کا فیصلۂ ربّانی یوم حجة الوداع کو نافذ ہوچکا ہے ۔ نبی کریمۖ نے( بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ رَبِّکَ ) کا تقاضا بخوبی نبھادیا اب کتاب و سنّت کے بعد اسلام میں علمِ سینہ بسینہ کے کسی شگوفے کی کوئی گنجائش نہیں۔
احادیث میں جسے احسان و سلوک کہا گیا اگر اسے عجمی اثرات کے زیرِ تغلّب ''تصوف '' کہہ دیا جائے تو شاید کوئی مضائقہ نہ ہو۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ آج اربابِ تصوّف نے پیر و مشیخیت کی جو دُکان کھول رکھی ہے اس میں '' نص '' سے کہیں زیادہ '' فص'' کو اور ''سنّت '' سے کہیں زیادہ '' بدعت '' کو مقام حاصل ہے ۔
یہ بات ہرگز فراموش نہیں کی جاسکتی کہ عہدِ نبوّت و عہدِ صحابہ میں کوئی فرد صوفی کے لقب سے معروف نہیں ہوا۔ جبکہ زہد وتقویٰ جس قدر اس دور میں تھا بعدکے ادوار میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہ رہا۔
اللہ ربّ العزت نے ایک مسلمان کو '' توحیدِ خالص '' پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے لیکن صوفیاء نے وجود و شہود کے جھمیلوں میں الجھاکر قرآنی توحید کی سادہ و فطری تعلیمات کو تکلفات و تصنع سے پُر کردیا ہے ۔
اگر صرف قربِ الٰہی کا تصور ، سیرت مقدسہ سے اُنسیت ، اخلاق و کردار کی پاکیزگی ، ایثار فی النّفس اور رُخصت کی بجائے عزیمت پر عمل کرنے کا نام تصوف ہوتا تو گو یہ اصطلاح جدید ہوتی لیکن مقصودِ اصلی کے واضح ہوجانے کے بعد'' لا مشاحة فی الاصطلاح ۔''
رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ تصوف انہیں اعمالِ خیر پر قانع نہ رہ سکا ۔ فلسفۂ یونان کی آمیزش ، ویدانی فلسفہ کی دَر اندازی ، راہبانہ عیسائیت اور بدھ سمنیت کی واقفیت نے مسلمان صوفیوں کو بھی کتاب و سنّت پر قانع نہ رہنے دیا اور اس بات سے کون ذِی علم انکار کر سکتا ہے کہ بدعات کو اخذ کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت '' تصوّف '' ہی میں ہے ۔ چنانچہ اہلِ سنّت و الجماعت کے عقائد و اعمال پر جتنی دَر اندازی باطنیت نے تصوف کی راہ سے کی ، کسی دوسری راہ سے نہ کرسکا۔
تصوف کا یہ نفسیاتی پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اگر ایک شخص مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے تو مسلم معاشرے میں انتہائی مطعون قرار پائے اس کے بَرعکس تصوف کے دائرے میں داخل ہوکر جی چاہے تو انا الحق کی صدا لگائے خود کو مرتبۂ اُلوہیت پر فائز کرلے ۔ اس کی بارگاہِ عقیدت میں ''جبینِ نیاز منداں '' کی کوئی کمی نہ ہوگی۔
اس گورکھ دھندے میں پھنسے عقیدت مندوں نے اپنے اپنے ممدوحین کی طرف ایسی کرامتوں اور خوارق کا انتساب کیا جس سے خود ان ممدوحین کی شخصیتیں بُری طرح متاثر ہوئیں۔ سیّد الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ ،سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ، امام غزالی رحمہ اللہ، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی رحمہ اللہ وغیرہم پاکیزہ کردار صلحاء و اتقیاء تھے ۔ گو ان بزرگانِ عالمی مرتبت کا شمار اہلِ تصوف میں کیاجاتا ہے ۔ ان رفیع القدر اصحاب کی طرف کیسے کیسے واہمے منسوب نہیں کیے گئے لیکن ظاہر ہے کہ ان کا دامن ہر قسم کی خرافات سے پاک تھا۔
٭…٭…٭…٭…٭مشہور صوفی ابنِ عربی جس کا نظریہ وحدت الوجود آج تصوّف کی اَساس بن گیا ہے ، سے متعلق '' اردو دائرہ معارف اسلامیہ '' میں ہے :
''ابنِ عربی کے عِلاوہ ہمیں ایسے کسی اور شخص کا علم نہیں جس کی وجہ سے پوری ملّت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق پیدا ہوگیا ہو۔'']١/٦٠٦[
وحدت الوجود کی تعریف کرتے ہوئے ابنِ عربی نے '' فتوحات مکیہ '' میں لکھا ہے :
'' بزرگ و برتر ہے وہ ذات جس نے سب اشیاء کو پیدا کیا اور جو خود ان کا جوہرِ اصلی ( اعیانہا) ہے ۔'']١/٦٠٩[
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ '' مذہب الاتحادیین '' میں ابنِ عربی سے متعلق لکھتے ہیں :
'' و ھی مع کونھا فھو اقربھم الیٰ الاسلام لما یوجد فی کلامہ من الکلام الجید کثیراً و لانّة لا یثبت علی الاتحاد ثبات غیرہ بل ھو کثیر الاضطراب فیہ ۔۔۔۔۔۔و اللّٰہ اعلم بما مات علیہ ۔''] بحوا لہ ہفت روزہ
'' الاعتصام '' لاہور اشاعتِ خاص مولانا عطاء اللّٰہ حنیف بھوجیانی نمبر ص ٣١٤[
ترجمہ : ''ابنِ عربی کا نظریہ اگرچہ کفر ہے تاہم وہ خود دوسرے متصوفین کی نسبت اسلام سے سب سے زیادہ قریب ہے ۔ کیونکہ اس کے کلام میں اچھی باتیں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ۔ نیز وہ اپنے نظریۂ وحدت الوجود پر مضبوطی سے قائم بھی نہیں رہتا ........اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی موت کس حالت پر واقع ہوئی ۔''
یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیں کہ ابنِ عربی فقہی مذہب کے اعتبار سے ظاہری ( اہلِ حدیث ) اور شرعی اعمال کی ادائیگی کے پابند تھے ۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتی کی تحقیق کے مطابق ابنِ عربی کی تصانیف تحریف و تدسیس سے محفوظ نہیں رہیں ۔ چنانچہ وہ امام شعرانی کا ایک اقتباس '' الیواقیت و الجواہر '' سے اپنی تائید میں نقل کرتے ہیں ، ملاحظہ ہو:
'' حضرت شیخ کتاب اور سنت کے پابند تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ایک لحظے کے لیے بھی میزانِ شرع کو اپنے ہاتھ سے پھینک دے گا وہ یقینا ہلاک ہوجائے گا ۔ ان کی تصانیف میں جو عبارتیں ظاہر شریعت سے معارض ہیں وہ سب مدسوس ہیں ( دوسروں نے داخل کردی ہیں)۔مجھے اس حقیقت سے سیدی ابو الطاہر المغربی نے آگاہ کیا جو اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے ۔ انہوں نے مجھے فتوحات کا وہ نسخہ دکھایا جس کا مقابلہ انہوں نے قونیہ میں شیخ اکبر کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے کیا تھا۔ اس نسخے میں وہ فقرے نہیں تھے جو میرے نسخے میں تھے اور میں نے ان فقروں میں توقف ( ان کی صحت میں شک ) کیا تھا جب میں فتوحات کا اختصار کررہا تھا۔'' ] اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش : ٦٦[
قصۂ مختصر ابنِ عربی کے بارے میں صحیح روّیہ وہی ہے جسے شیخ محمد بن شاکر الکتبی نے بیان کیا ہے کہ
'' شیخ محی الدین ابنِ عربی کے کلام میں جو کچھ قابلِ فہم ہے بہتر ہے اور جو مشکل ہے اس کے علم کو ہم خدا کے سپرد کرتے ہیں ۔ نہ ہم ان کی اتباع کے لیے مکلف ہیں اور نہ ان کے اقوال پر عمل کرنا ہمارے لیے لازمی ہے ۔'' ]تاریخ فلاسفةُ الاسلام : ٢٨٣[
٭…٭…٭…٭…٭اسی طرح بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ کی تقسیم نے بھی عقائد و نظریات کی گمراہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جناب رسالتمآب ۖ سے یہ واضح ترین ارشاد منقول ہے :
'' کل محدثة بدعة ، کل بدعة ضلالة ، و کل ضلالة فی النّار ۔'']سنن النسائی ، کتاب صلاة العیدین ، باب : کیف الخطبة [
ترجمہ :''(دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے ، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی ۔''
اس کے بعد بدعت کی کسی تقسیم کا جواز ہی کہاں رہتا ہے ؟ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا یہ ارشاد ملاحظہ فرمایے :
''گزشتہ لوگوں نے شاید بدعت میں کچھ حسن دیکھا ہوگا جو بدعت کے بعض امور کو مستحسن اور پسندیدہ سمجھا ہے لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافق نہیں ہے اور بدعت کے کسی فرد کو حسنہ نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ اسلام کے اس ضعفت و غربت کے زمانہ میں سلامتی سنت کے بجالانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے حاصل کرنے سے وابستہ ہے ۔فقیر بدعت کو کلہاڑی کی طرح جانتا ہے جو بنیادِ اسلام کو گرارہی ہے اور سنّت کو چمکنے والے ستارہ کی طرح دیکھتا ہے جو گمراہی کی سیاہ رات میں ہدایت فرما ہے ۔'' ]کشف المعارف : ٢٠٧ ، مرتبة عنایت عارف مطبوعہ الفیصل ناشران کتب لاہور ٢٠٠٦ء [
٭…٭…٭…٭…٭تصوف کے علاوہ ایک اور جذبہ ہے جو انسان کو فکر و عمل کی گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے ، اور وہ ہے فقہی مسلک کو کتاب وسنّت پر فوقیت دینے کا جذبہ ۔ معروف حنفی عالم حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اسی جذبے کے قبیح اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں :
'' اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قولِ مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اوّل قلب میں استنکار پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے ، خواہ کتنی ہی بعید ہے اور خواہ دوسری قوی دلیل اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو مگر نصرت ِ مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں ۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر صحیح و صریح حدیث پر عمل کرلیں۔'' ] تذکرة الرشید : ١/١ ١٣ [
شاہ اسماعیل شہید '' تنویر العنین'' میں فرماتے ہیں:
''تقلید کے معاملہ میں لوگوں نے غلو کیا ہے اور متعین شخص(امام)کی تقلید کے التزام میں ہٹ دھرمی کی ہے ۔یہاں تک کہ اجتہاد اور جزوی مسائل میں اپنے امام کے ماسو ادو سرے کی تقلید سے منع کیاہے ۔یہ وہ سخت بیماری ہے جس نے شیعوں کا بیڑا غرق کیا اور ان (مقلدین)کا بیڑا غرق ہونے کو ہے ۔شیعہ اور مقلد ین میں صرف اتنا فرق ہے کہ شیعہ امام کے قول کے مقابلے میں نصوص کو رد کر دیتے ہیں اور مقلدین مشہور روایات میں تاویل کرکے امام کے قول کی طرف پھیر پھار کر لاتے ہیں ۔ حالانکہ ہونا اس کے بر عکس چاہیئے تھا۔'']تنویر العینین:٢٥۔اصل عبارت میں عربی میں تھی ، یہ اردو ترجمہ مولانا عزیز زبیدی رحمہ اللّٰہ کے رشحات قلم سے ہے ملا حظہ ہو :''الاعتصام''(لاہور) ٢٨، جون ١٩٨٥ئ[
ائمہ اربعہ کے یہ مسالک درحقیقت نظریاتی ادارے تھے جن کا مقصد کتاب و سنت کی تشریح و توضیح تھا اسے مستقل دین کا درجہ نہیں دینا چاہیے تھامگر افسوس جامد مقلدین نے اس حقیقت کو فراموش کردیا۔ اپنے فقہی مذہب کے بَرخلاف اگر کوئی صحیح حدیث مل جائے تو اسے رد کرنے کے اصول وضع کیے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی زبانِ طعن دراز کیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ، حضرت انس اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' و من قال انّہ ] ابو ھریرة رضی اللّٰہ عنہ[ لیس بفقیہ فقد أخطا ، ان لم یکن ابو ھریرة فقیھاً فمن یکون فقیھاً ؟۔'' ] غایة المقصود : ١/١٠٣[
ترجمہ : ''اور جو یہ کہتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے ، بلا شبہ اس نے خطا کی ۔ اگر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہیں تھے تو پھر کون فقیہ ہوسکتا ہے ؟۔''
٭…٭…٭…٭…٭یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر '' گستاخی '' کیا ہے ؟ کن کن امور پر اس کا اطلاق ہوتا ہے؟
ایک مسلمان گائے کی قربانی کرتا ہے اور اس کے گوشت کو بلا تکلف کھاتا ہے اور اس کا یہ عمل ہندوئوں کے نزدیک مہاپاپ اور صریح گستاخی ہے ۔ کیا آپ ہندوئوں کے اس نظریے کو درست مان کر اسے گستاخی قرار دیں گے ؟
ایک مسلمان سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ اور برگزیدہ رسول سمجھتا ہے ، اس کا یہ سمجھنا عیسائیوں کے نزدیک عین گستاخی ہے ۔کیا آپ عیسائیوں کے مؤقف کو درست مان کر اسے گستاخی سمجھیں گے ؟
اہلِ سنّت و الجماعت کا ہرفرد جنابِ صدّیقِ اکبررضی اللہ عنہ کو خلیفۂ رسول اللہ ۖ مانتا ہے ،لیکن اہلِ تشیّع کے نزدیک اس کا یہی ماننا عین ضلالت و گمراہی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی ہے ۔کیا آپ شیعوں کے موقف کو مبنی بَر صحت قرار دے کر اسے گستاخی قرار دیں گے ؟
راقم نے اپنی کتاب '' حکمتِ اسلام کے منافی موضوع روایات '']غیر مطبوعہ[میں ایک موضوع روایت کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے :
''جہاں تک نبی کریمۖ کے مرتبے کا تعلق ہے تو بلاشبہ وہ اللہ رب العزت کے نزدیک نہایت بلند وبرتر مقام پر فائز ہیں اور اس کے لیے انہیں قطعاً کسی موضوع روایت سے اثبات کی ضرورت نہیں۔اس روایت کو موضوع اس لیے قرار دیا جارہا ہے کہ یہ موضوع ہے نہ کہ اس لیے کہ خدانخواستہ کوئی جاہِ رسول عربی فداہ امی و ابی ۖ کا منکر ہے۔خود اللہ رب العزت نے فرمایاہے:
( و رفعنا لک ذکرک )
ترجمہ :'' اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔''
یہ نبی کریم ۖ ہی ہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام کے مقدس گروہ کے سردار،خیر الامم کے ہادی،روزِ جزا میں مومنین کی شفاعت کرنے والے اورجنت میں قافلۂ رحمانی کے قائد ہوں گے۔''
خلاصۂ کلام !ہمیں گستاخی کا صرف وہی ایک پیمانہ بنانا چاہیے جو پیمانۂ الٰہی کے مطابق ہو ۔ کتاب و سنّت کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کیا سعادت ہے اور کیا شقاوت۔
٭…٭…٭…٭…٭زیر نظر کتاب کے مولف اپنی ابتدائی احوال میں انہی عقائد و نظریات کے حامل تھے ، لیکن ان کی روشن ضمیری نے حقیقتِ حال سے آگاہ ہوجانے کے بعد کتاب و سنّت سے انحراف گوارا نہ کیااور یہ کتاب ان کی اسی روشن ضمیری کی عکّاس ہے ۔ مولف نے اس موضوع پر نہایت وسیع تر مواد اکٹھا کر رکھا ہے ،جس کی ترتیب و تکمیل میں وہ مصروف ہیں ۔تاہم بعض احباب کے اصرار پر اس کا اختصار زیر نظر کتابچے کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے ۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ اللہ انہیں مزید دینی و علمی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین )
اس کتاب کو آپ ظاہر کی آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایے ۔ ان میں ایسے حقائق ہیں جن تک پہنچنے کے لیے ہر طرح کے تعصبّات سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔ ایک عدالت دنیا کی ہے جہاں انسان اپنی چرب زبانی اور ہٹ دھرمی سے کامیاب ہوسکتا ہے لیکن ایک عدالت الٰہ لم یزل کی ہے جہاں تمام حقائق آشکار ہوجاتے ہیں اور کسی میں جرأت اندازی نہیں ہوتی ۔ جہاں کسی سے اس کے گناہوں عوض نہیں لیا جائے گا ، نہ اسے کسی طرح کی کوئی سفارش نفع دے سکے گی اور نہ ہی کوئی ذریعۂ امداد و مغفرت ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
( و اتّقوا یوماً لا تجزی نفس عن نفس شیئاً و لا یقبل منھا عدل وّ لا تنفعھا شفاعة وّ لا ھم ینصرون ) ]البقرة : ١٢٣[
دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
محمّد تنزیل الصدیقی الحسینی
٧ اکتوبر ٢٠٠٧ء ، کراچی