محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
گمراہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے !
شیخ محترم @رفیق طاھر حفظہ اللہ
شیخ سلیمان الرحیلی حفظه الله فرماتے ہیں :
" گمراہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے - یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک انسان کو رلا دیتا ہے-
میرے بھائیو! یہ عمل بذات خود گمراہ کن ہے اور یہی عمل گمراہی کا سبب بھی بنتا ہے- گمراہی اور اسکی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علماء کی بے عزتی کرتی ہے؛ اور یہ نوجوان نسل ان علماء کی تضحیک کرتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن ؤ سنت سیکھنے اور سکھانے میں لگا دی؛ یہ وہ لوگ ہیں جنکی امانت داری اور سچائی کی گواہی تقوی دار لوگوں کے زبان زد عام ہے اور انہی کے ذمہ علم کی تدریس اور فتوے دینا ہے- لیکن ان سب کے باوجود یہ نوجوان نسل انہی علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکو گالیاں دیتی ہیں- انکا یہی عمل انکو انسانی شیطانوں کے لئے ایک آسان شکار بنا دیتی ہے اور جسکا نتیجہ گالی گلوچ، شکوک و شبہات اور اپنے رائے و خواہشات کی پیروی کی شکل میں ابھر آتا ہے-
اے اللہ کے بندو ! آپکو افسوس ہو گا، جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہو , جو اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کے حوالے سے بالکل غفلت میں ہے؛ وہ فرائض کو ترک کرتا ہے اور ممنوعہ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے؛ لیکن پھر بھی اسکے منہ سے علماء کے لئے گالی نکلتی ہے- وہ کہتا ہے:
" ہمیں ان علماء کی ضرورت نہیں- انکے پاس فلاں فلاں ہے . یہ وہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں- ہم ان علماء کو سننا چاہتے ہیں جو ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز حرام ہے"، وہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز فرائض میں سے ہے"،- وہ کہتے ہیں جن اکابر علماء کی آپ بات کر رہے ہو ہمیں انسے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انکو سننا چاہتے ہیں- انکے بیانات میں تو صرف نصیحت،غصہ اور ڈرانا ہی ہوتا ہے جو کہ ہماری نسل کو ذمہ دار بنانے کے لئے کافی نہیں-"
جب آپ ایک ایسےنوجوان کو دیکھتے ہیں ، جس میں آپکو اچھائی نظر آئیگی، اسمیں آپکو سنت کی جھلک نظر آئیگی، اسکے عمل میں نیکی نظر آئیگی، لیکن ان سب کے باوجود آپکا دل خفا ہوگا اور روئے گا , جب آپ اس نوجوان کو ان مجمعوں میں دیکھیں گے جہاں علماء کی بے عزتی ہوتی ہے انکو گالیاں دی جاتی ہیں، انکو حقیر سمجھا جاتا اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے-
میرے بھائیو ! یہ گمراہ عمل گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے- اسکا حل یہ ہے کہ نوجوان نسل میں علماء کی عزت، انکے حقوق، انکے مرتبے، انکے علم وغیرہ کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان مجمعوں سے انکو درس و تدریس اور آگاہی کے ذریعے سے بچایا جائے جہاں علماء کی تضحیک ہوتی ہے .
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
" مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں- انکی تضحیک انکے منصب کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے- انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمہ داری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے-
اگر علماء کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو پھر کس کو ؟ اگر علماء پر سے لوگ اپنا یقین اٹھا لیں تو پھر امت اپنے مسائل اور بنیادی اصولوں سے آگاہی کے لئے کن کی طرف رجوع کرینگے؟ امت تباہ ہو جائے گی اور ہر طرف انتشار پھیل جایگا-
شیخ، اللہ انکی حفاظت کرے، نے بالکل سچ بولا- اور جو شیخ نے بولا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نمودار ہو چکا ہے (یعنی تباہی و انتشار)- ہم دیکھتے ہیں کہ کسطرح ہم میں بہتوں نے اکابر علماء کے علم و فہم کو چھوڑ دیا اور ان لوگوں کی رائے کے پیچھے دوڑتے چلے جا رہے ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے مگر تھوڑا سا-
ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور حق کو قائم اور ان امور کو کرنے میں، جو ہم پر لازم ہیں، ہماری مدد کرے، آمین .
علماء سے برتاؤ کے حوالے سے کچھ باتیں :
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"آج کی نوجوان نسل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جونہی وہ کچھ سیکھ لیتے ہیں وہ سمجھ بھیٹتے کہ وہ عالم بن گئے-
[الحدا والنور ٨٦١]
شیخ البانی مزید فرماتے ہیں:
" میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے آپ کو ہماری دعوت کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، وہ کچھ وقت کے بعد اپنے آپ سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں اور دھوکے میں پڑ جاتے ہیں-
چند ایک کتابیں پڑھنے کے بعد تم دیکھو گے کہ وہ اپنے آپ کو (دین کے معاملے میں) خود مختار سمجھنے لگتے ہیں- اگر کوئی شخص ان کو نشاندھی کرائے کہ شیخ کی رائے اس مسئلے میں یہ ہے تو آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ "شیخ کی اپنی رائے ہے اور میری اپنی"-
[الحدا النور ٢٥٦]
ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہالت ایک بیماری ہے اور اسکا علاج علماء سے پوچھنا ہے –
[الداء والدواء صفحہ ٨،]
عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" یہ بات درست ہے کہ ایک عقلمند شخص تین طرح کے لوگوں کی بے قدری نہ کرے:
علماء کی، حکمرانوں کی اور اپنے مسلمان بھائی کی-
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا-
[الذہبی، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]
عون بن عبد اللہ نے فرماتے ہیں :
" میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
" کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو , عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو-"
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
" سبحان اللہ ! اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے-"
[ابو ہیثمہ فصوی، معرفة التاریخ ٣/٣٩٨،٣٩٩، ابن عبدالبر جامع بيان العلم وفضله ، ١.١٤٢-١٤٣]
الشعبی رحمه الله فرماتے ہیں :
" زید بن ثابت رضی اللہ عنہما ایک دفعہ اپنے ( گھوڑے یا اونٹ) پر چڑھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لگام کو پکڑ لیا ( تا کہ سواری کو روانہ کر سکیں)، اس پر زید بن ثابت نے (ابن عباس کے احترام میں) کہا:
" اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے بھائی ! ایسا مت کرو"-
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:
" ہمیں اپنے علماء کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کرنے کو کہا گیا ہے (کہ انکی عزت اور احترام کی جائے) "-
زید بن ثابت نے کہا:
" مجھے اپنا ہاتھ دکھاؤ "- ابن عباس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور زید بن ثابت نے اسے چوما اور کہا:
" ہمیں اہل بیت کے ساتھ یہی برتاؤ کرنے کا کہا گیا ہے"-
[ابو بکر الدینوری، جواہر العلم ٤:١٤٦]
اپنے شیخ (جس سے آپ علم حاصل کرتے ہو) سے حسن سلوک :
علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا؛ علم کے حصول کے لئے ایک شیخ کا ہونا لازم ہے، جس پر آپکا یقین ہو ،جو کہ آپ کے لئے علم کے بند دروازے کھولے اور جب آپ غلطی کرو تو وہ آپ کی رہنمائی کرے-
آپ پر لازم ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ، کیونکے یہی فلاح اور علم میں ثابت قدمی کا راستہ ہے –
آپ اپنے شیخ کو عزت دو، اسکی قدر کرو اور اس سے نرمی کا برتاؤ کرو-
جب آپ اپنے شیخ کی صحبت میں ہو , اور جب انسے ہمکلام ہو تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرو- مناسب طریقے سے سوالات پوچھو اور ادب کے ساتھ انکو سنو- ان کےساتھ بحث کی کوشش مت کرو، نہ ہی گفتگو میں انسے آگے بڑھو اور نہ ہی انکی موجودگی میں حد سے زیادہ باتیں کرو-
کثرت سوالات سے پرہیز کرو اور انکو اس بات پر مجبور مت کرو کہ وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیں .
خاص طور پر جب آپ لوگوں کے سامنے ہوں کیونکہ لوگ سمجھیں گے کہ آپ دکھاوا کر رہے ہو اور آپکا شیخ بھی آپ کے سوالات سے بیزار ہو جائے گا-
انکو انکے نام یا کنیت سے مت بلاؤ ، بلکہ کہو : "اے شیخ"، یا "اے میرے شیخ" یا " اے ہمارے شیخ" –
اگر آپکے خیال میں شیخ نے غلطی کی ہے ، تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپکی نگاہ میں شیخ کی قدر و عزت کم ہو جاۓ , کیونکہ یہ حرکت آپکو انکے علم سے محروم کر دیگی- کون ہے جو غلطی سے پاک ہے؟ کون ہے جو غلطی نہیں کرتا؟
تمام اچھائی اللہ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے- اللہ ہم سب پر رحم کرے- آمین .
شیخ محترم @رفیق طاھر حفظہ اللہ
شیخ سلیمان الرحیلی حفظه الله فرماتے ہیں :
" گمراہ ہونے کی وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے - یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک انسان کو رلا دیتا ہے-
میرے بھائیو! یہ عمل بذات خود گمراہ کن ہے اور یہی عمل گمراہی کا سبب بھی بنتا ہے- گمراہی اور اسکی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علماء کی بے عزتی کرتی ہے؛ اور یہ نوجوان نسل ان علماء کی تضحیک کرتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن ؤ سنت سیکھنے اور سکھانے میں لگا دی؛ یہ وہ لوگ ہیں جنکی امانت داری اور سچائی کی گواہی تقوی دار لوگوں کے زبان زد عام ہے اور انہی کے ذمہ علم کی تدریس اور فتوے دینا ہے- لیکن ان سب کے باوجود یہ نوجوان نسل انہی علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکو گالیاں دیتی ہیں- انکا یہی عمل انکو انسانی شیطانوں کے لئے ایک آسان شکار بنا دیتی ہے اور جسکا نتیجہ گالی گلوچ، شکوک و شبہات اور اپنے رائے و خواہشات کی پیروی کی شکل میں ابھر آتا ہے-
اے اللہ کے بندو ! آپکو افسوس ہو گا، جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہو , جو اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کے حوالے سے بالکل غفلت میں ہے؛ وہ فرائض کو ترک کرتا ہے اور ممنوعہ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے؛ لیکن پھر بھی اسکے منہ سے علماء کے لئے گالی نکلتی ہے- وہ کہتا ہے:
" ہمیں ان علماء کی ضرورت نہیں- انکے پاس فلاں فلاں ہے . یہ وہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں- ہم ان علماء کو سننا چاہتے ہیں جو ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز حرام ہے"، وہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز فرائض میں سے ہے"،- وہ کہتے ہیں جن اکابر علماء کی آپ بات کر رہے ہو ہمیں انسے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انکو سننا چاہتے ہیں- انکے بیانات میں تو صرف نصیحت،غصہ اور ڈرانا ہی ہوتا ہے جو کہ ہماری نسل کو ذمہ دار بنانے کے لئے کافی نہیں-"
جب آپ ایک ایسےنوجوان کو دیکھتے ہیں ، جس میں آپکو اچھائی نظر آئیگی، اسمیں آپکو سنت کی جھلک نظر آئیگی، اسکے عمل میں نیکی نظر آئیگی، لیکن ان سب کے باوجود آپکا دل خفا ہوگا اور روئے گا , جب آپ اس نوجوان کو ان مجمعوں میں دیکھیں گے جہاں علماء کی بے عزتی ہوتی ہے انکو گالیاں دی جاتی ہیں، انکو حقیر سمجھا جاتا اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے-
میرے بھائیو ! یہ گمراہ عمل گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے- اسکا حل یہ ہے کہ نوجوان نسل میں علماء کی عزت، انکے حقوق، انکے مرتبے، انکے علم وغیرہ کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان مجمعوں سے انکو درس و تدریس اور آگاہی کے ذریعے سے بچایا جائے جہاں علماء کی تضحیک ہوتی ہے .
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
" مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں- انکی تضحیک انکے منصب کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے- انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمہ داری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے-
اگر علماء کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو پھر کس کو ؟ اگر علماء پر سے لوگ اپنا یقین اٹھا لیں تو پھر امت اپنے مسائل اور بنیادی اصولوں سے آگاہی کے لئے کن کی طرف رجوع کرینگے؟ امت تباہ ہو جائے گی اور ہر طرف انتشار پھیل جایگا-
شیخ، اللہ انکی حفاظت کرے، نے بالکل سچ بولا- اور جو شیخ نے بولا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نمودار ہو چکا ہے (یعنی تباہی و انتشار)- ہم دیکھتے ہیں کہ کسطرح ہم میں بہتوں نے اکابر علماء کے علم و فہم کو چھوڑ دیا اور ان لوگوں کی رائے کے پیچھے دوڑتے چلے جا رہے ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے مگر تھوڑا سا-
ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور حق کو قائم اور ان امور کو کرنے میں، جو ہم پر لازم ہیں، ہماری مدد کرے، آمین .
علماء سے برتاؤ کے حوالے سے کچھ باتیں :
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"آج کی نوجوان نسل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جونہی وہ کچھ سیکھ لیتے ہیں وہ سمجھ بھیٹتے کہ وہ عالم بن گئے-
[الحدا والنور ٨٦١]
شیخ البانی مزید فرماتے ہیں:
" میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے آپ کو ہماری دعوت کے ساتھ منسلک کرتے ہیں، وہ کچھ وقت کے بعد اپنے آپ سے بہت متاثر ہو جاتے ہیں اور دھوکے میں پڑ جاتے ہیں-
چند ایک کتابیں پڑھنے کے بعد تم دیکھو گے کہ وہ اپنے آپ کو (دین کے معاملے میں) خود مختار سمجھنے لگتے ہیں- اگر کوئی شخص ان کو نشاندھی کرائے کہ شیخ کی رائے اس مسئلے میں یہ ہے تو آگے سے کہہ دیتے ہیں کہ "شیخ کی اپنی رائے ہے اور میری اپنی"-
[الحدا النور ٢٥٦]
ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہالت ایک بیماری ہے اور اسکا علاج علماء سے پوچھنا ہے –
[الداء والدواء صفحہ ٨،]
عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" یہ بات درست ہے کہ ایک عقلمند شخص تین طرح کے لوگوں کی بے قدری نہ کرے:
علماء کی، حکمرانوں کی اور اپنے مسلمان بھائی کی-
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا-
[الذہبی، سير أعلام النبلاء ١٧:٢٥١]
عون بن عبد اللہ نے فرماتے ہیں :
" میں نے امیر المومنین عمر بن عبد العزیز سے عرض کیا:
" کہا جاتا ہے کہ اگر تم میں ایک عالم بننے کی صلاحیت ہو تو جہاں تک ممکن ہو , عالم بننے کی کوشش کرو، اور اگر تم عالم نہیں بن سکتے تو پھر ایک طالب علم بنو، اور اگر طالب علم بننے کی بھی صلاحیت نہیں ہے تو پھر ان سے (علماء و طالب علم) سے محبت کرو، اگر تم ان سے محبت کے قابل بھی نہیں ہو تو پھر (کم از کم) ان سے نفرت مت کرو-"
عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا:
" سبحان اللہ ! اللہ نے اس (آخری ) بندے کو بھی مہلت دی ہے-"
[ابو ہیثمہ فصوی، معرفة التاریخ ٣/٣٩٨،٣٩٩، ابن عبدالبر جامع بيان العلم وفضله ، ١.١٤٢-١٤٣]
الشعبی رحمه الله فرماتے ہیں :
" زید بن ثابت رضی اللہ عنہما ایک دفعہ اپنے ( گھوڑے یا اونٹ) پر چڑھے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لگام کو پکڑ لیا ( تا کہ سواری کو روانہ کر سکیں)، اس پر زید بن ثابت نے (ابن عباس کے احترام میں) کہا:
" اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے بھائی ! ایسا مت کرو"-
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:
" ہمیں اپنے علماء کے ساتھ اسی طرح برتاؤ کرنے کو کہا گیا ہے (کہ انکی عزت اور احترام کی جائے) "-
زید بن ثابت نے کہا:
" مجھے اپنا ہاتھ دکھاؤ "- ابن عباس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا اور زید بن ثابت نے اسے چوما اور کہا:
" ہمیں اہل بیت کے ساتھ یہی برتاؤ کرنے کا کہا گیا ہے"-
[ابو بکر الدینوری، جواہر العلم ٤:١٤٦]
اپنے شیخ (جس سے آپ علم حاصل کرتے ہو) سے حسن سلوک :
علم صرف کتابوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا؛ علم کے حصول کے لئے ایک شیخ کا ہونا لازم ہے، جس پر آپکا یقین ہو ،جو کہ آپ کے لئے علم کے بند دروازے کھولے اور جب آپ غلطی کرو تو وہ آپ کی رہنمائی کرے-
آپ پر لازم ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ، کیونکے یہی فلاح اور علم میں ثابت قدمی کا راستہ ہے –
آپ اپنے شیخ کو عزت دو، اسکی قدر کرو اور اس سے نرمی کا برتاؤ کرو-
جب آپ اپنے شیخ کی صحبت میں ہو , اور جب انسے ہمکلام ہو تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرو- مناسب طریقے سے سوالات پوچھو اور ادب کے ساتھ انکو سنو- ان کےساتھ بحث کی کوشش مت کرو، نہ ہی گفتگو میں انسے آگے بڑھو اور نہ ہی انکی موجودگی میں حد سے زیادہ باتیں کرو-
کثرت سوالات سے پرہیز کرو اور انکو اس بات پر مجبور مت کرو کہ وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیں .
خاص طور پر جب آپ لوگوں کے سامنے ہوں کیونکہ لوگ سمجھیں گے کہ آپ دکھاوا کر رہے ہو اور آپکا شیخ بھی آپ کے سوالات سے بیزار ہو جائے گا-
انکو انکے نام یا کنیت سے مت بلاؤ ، بلکہ کہو : "اے شیخ"، یا "اے میرے شیخ" یا " اے ہمارے شیخ" –
اگر آپکے خیال میں شیخ نے غلطی کی ہے ، تو اسکا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپکی نگاہ میں شیخ کی قدر و عزت کم ہو جاۓ , کیونکہ یہ حرکت آپکو انکے علم سے محروم کر دیگی- کون ہے جو غلطی سے پاک ہے؟ کون ہے جو غلطی نہیں کرتا؟
تمام اچھائی اللہ کی طرف سے ہے اور تمام غلطیاں میری طرف سے- اللہ ہم سب پر رحم کرے- آمین .
Last edited: