نیکی کے متعلق دریافت کرنے پر آپﷺ نے فرمایا نیکی حسنِ خلق ہے
ہمارے ہاں عموماً حسنِ خلق سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔۔۔کھلے چہرے اور میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ ملاقات کی جائے۔۔سختی اور درشتی سے پرہیز کیا جائے۔۔بالفاظِ دیگر اسے اخلاقیات ‘ ایٹی کیٹس اور ادب آداب کا نام دیا جاتا ہے۔۔اور یہ بھی باور کرایا جاتا ہے کہ اللہ تعالی حقوق اپنے حقوق تو معاف کر سکتے ہیں لیکن حقوق العبادکی معافی نہیں۔۔لہذا حقوق اللہ سے جیسے چاہو کھیلو لیکن لوگوں سے مصنوعی تکلفات سے ملنا ہی اصل دین ہے۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ حسنِ خلق کا ایک نہایت محدود تصور ہے جو مغربی عیسائی معاشرے سے مرغوب ہو کر ہمارے ہاں اختیار کر لیا گیا ہے۔۔۔دراصل حسنِ خلق اللہ تعالی کے تمام احکام کو اس طرح اوڑھنا بچھونا بنا لینے کا نام ہے کہ وہ انسان کی فطرتِ ثانیہ بن جائیں اور کسی مشقت کے بغیر خو دبخود ادا ہوتے چلے جائیں۔
اللہ تعالی نے آپﷺ کے بارے میں فرمایا
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾
اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے (4)
سعد بن ہشام بن عامر نے حضرت عائشہ سے آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب دیا
کیا تم قرآن نہیں پڑھتے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا
فان خلق نبی اللہ کان القرآن
آپﷺ کا خلق قرآن ہی تھا
یعنی آپﷺ نے قرآن کے آداب اس طرح اختیار کر لیے تھے اس کے احکام پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب اس طرح تھا کہ قرآن کی ہر بات آپﷺ کی طبعی عادت بن گئی تھی
گویا حسنِ خلق کے مفہوم میں آپﷺ کی نماز‘ روزہ ‘ حج‘ زکاۃ‘ حقوق اللہ ‘ حقوق العباد ‘ صبر‘شکر‘وفائے عہد‘ آپﷺ کا صدق ‘ امانت ‘عدل ‘ احسان اور حتّی کہ جہاد بھی شامل ہے۔۔
اس کی جامع آیات یہ ہیں
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿١٧٧﴾
ترجمہ:ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منھ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وه شخص ہے جو اللہ تعالی پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے واﻻ ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰة کی ادائیگی کرے، جب وعده کرے تب اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں (177)
وَعِبَادُ الرَّحْمَـٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ﴿٦٣﴾ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا ﴿٦٤﴾ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ﴿٦٥﴾ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ﴿٦٦﴾ وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ﴿٦٨﴾ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا ﴿٦٩﴾ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا ﴿٧١﴾ وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا ﴿٧٢﴾ وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣﴾ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾
ترجمہ:رحمٰن کے (سچے) بندے وه ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے (63) اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں (64) اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے واﻻ ہے (65) بے شک وه ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے (66) اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں (67)اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا (68) اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا (69) سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے (70) اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے (71) اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں (72) اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وه اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے۔ (73) اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اوﻻد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (74)