محمد سعود مقصود
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 04، 2025
- پیغامات
- 3
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 2
قارئین کرام!
اسلام میں انسان کو ایک ایسی زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو۔ انسانی زندگی کی راہ میں گناہ ایک بڑی رکاوٹ ہے جو انسان کے روحانی ارتقا اور اللہ کے قریب جانے میں مانع بنتی ہے۔
گناہ دراصل وہ اعمال ہیں جو انسان کے دل اور ذہن پر منفی اثرات ڈالتے ہیں، اور ان کا ارتکاب انسان کی دینی اور اخلاقی ترقی کو متأثر کرتا ہے اور گناہ انسان کی طرف سے کی جانے والی وہ نافرمانی ہے جو اللہ کی ہدایت کے خلاف ہوتی ہے۔
گناہوں کے اقسام
کبائر اور صغائر: دلائل اور نصوص کی روشنی میں؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا {النساء: ٣١} ترجمہ: اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔
وقال سبحانه: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [النجم: ۳۲]
ترجمہ: اور ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے گناہ کے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الصَّلَاةُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ، مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ [مسلم: ۵۵۰]
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں اور ہر جمعہ دوسرے جمعہ تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ (ان کو مٹانے والے) ہیں جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیاجائے۔‘‘
ولهذا قال ابن القيم رحمه الله: الذنوب تنقسم إلى صغائر وکبائر بنص القران والسنة، واجماع السلف وبالإعتبار۔
اور اسی لیے ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: کتاب وسنت کے نصوص، اجماع سلف اور اعتبار کے لحاظ سے گناہوں کی تقسیم صغائر و کبائر کی طرف ہوتی ہے۔
[مدارج السالکین: ٣٢٤/١]
گناہ كبيره کے دو درجات ہیں؛
پہلا: جو دین اسلام سے خارج کر دیتا ہے، جیسے شرک اکبر ہے یعنی اللہ رب العالمین کے علاوہ دوسرے کو سجدہ کرنا
دوسرا: جو اسلام پر باقی رہتا ہے اور اس سے خارج نہیں ہوتا ہے، جیسے زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا وغیرہ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ؟» ثَلاَثًا، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ - وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ - أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ»، قَالَ: فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَت
[بخاری: ۲۶۵۴]
ترجمہ: کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتاوں؟
تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا، صحابہ کرام نے عرض کیا، ہاں اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ خاموش ہوجاتے۔
کبیرہ اور صغیرہ گناہ کے درمیان فرق
پہلا: تعریف کے اعتبار سے
ان دونوں کی تعریف میں اختلاف کیا گیا ہے لیکن راجح قول یہ ہے کہ کبیرہ ہر وہ گناہ کو کہتے ہیں جس پر حد قائم ہو چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔
اور صغیرہ گناہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اس پر کوئی حد نہ ہو۔
دوسرا: تعداد کے اعتبار سے۔
کبیرہ گناہ کی تعداد میں اختلاف ہے۔
1۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ وہ چار ہیں۔
2۔ ابن عمر نے کا کہنا ہے کہ وہ سات ہیں۔
3۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ وہ نو ہیں۔
4۔ قال سعيد بن زبير سال رجل ابن عباس عن الکبائر أسبع هن؟ قال: هن إلى سبع مائة أقرب، وهذا على سبيل التكثير والمبالغة لا الحصر، ويدل على ذلك قوله: "كل شيء عصي الله به فهو كبيرة " قال الامام ابن ابي العز: فان من قال: سبع، أو سبع عشرة، او إلى السبعين أقرب، مجرد دعوة [شرح الطحاویہ: ۵۲۷] ترجمہ: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کبائر کی تعداد 700 کے قریب ہے۔
یہ تعداد بطور مبالغہ ہے، نہ کہ کسی خاص تعداد کے طور پر۔
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 'جو بھی چیز اللہ کی نافرمانی ہو، وہ کبیرہ گناہ ہے۔
"امام ابن ابی العز نے فرماتے ہیں کہ جو شخص کہے کہ کبائر سات ہیں یا سترہ یا ستر کے قریب ہیں، تو یہ صرف ایک دعویٰ ہے۔"
صحیح بات یہ ہے کہ کبائر اور صغائر کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے۔
تیسرا: حکم کے اعتبار سے.
جو صغیرہ گناہ ہے وہ نماز روزہ وضو صدقہ اور تسبیح وغیرہ سے مٹ جاتے ہیں اور جو کبیرہ گناہ ہے اس کے لیے توبہ شرط ہے یعنی ضروری ہے کہ مرتکب کبیرہ توبہ کرے۔
نیک اعمال سے صغیرہ گناہ کے مٹ جانے کی دلیل:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ [ھود: ۱۱۴]
دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔
حدیث رسولﷺ:
الصَّلَوَاتِ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ [مسلم: ۲۳۳]
انسان جب تک کبیرہ گناہوں سےاجتناب کرتا رہے تو پانچوں نمازیں، ہر جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئےگی ان شاء اللہ ۔
چوتھا: اثر کے اعتبار سے.
جو کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ عدالت کے دائرے سے خارج ہو کر کے فسق کے دائرے میں چلا جاتا ہے یعنی جو کبیرہ گناہ کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا وہ فاسق ہو جاتا ہے، اس کے برعکس جو صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا وہ عدالت کے دائرے سے فسق کے دائرے میں نہیں جاتا البتہ اگر وہ اس پر اصرار کرے تو وہ چلا جاتا ہے۔
[ شرح العقیدہ السفارینیۃ: ۵۰۷-۵۰۶]
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ نہ کوئی بڑا گناہ استغفار سے بڑا ہوتا ہے اور نہ کوئی چھوٹا گناہ اصرار سے چھوٹا ہوتا ہے، جیسا کہ امام ابن ابی العز نے فرمایا:
تاہم ایک اہم بات ہے جس پر توجہ دینی چاہیے: وہ یہ ہے کہ بڑے گناہ کے ساتھ اگر شرم، خوف اور اس کی عظمت کا احساس ہو، تو وہ اسے چھوٹے گناہوں کے مترادف بنا سکتا ہے، اور اسی طرح چھوٹے گناہ کے ساتھ اگر بے حیائی، بے پرواہی، خوف کا نہ ہو اور اس کو ہلکا سمجھا جائے، تو وہ اس گناہ کو بڑے گناہوں میں شامل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ دل کی حالت پر منحصر ہے، جو صرف عمل تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس میں اضافی احساسات بھی شامل ہوتے ہیں، اور انسان خود اپنی حالت اور دل کی کیفیت سے یہ جان سکتا ہے۔
[شرح الطحاویۃ: ۴۵۱]
جاری۔۔۔۔
از قلم: محمد سعود مقصود
اسلام میں انسان کو ایک ایسی زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو۔ انسانی زندگی کی راہ میں گناہ ایک بڑی رکاوٹ ہے جو انسان کے روحانی ارتقا اور اللہ کے قریب جانے میں مانع بنتی ہے۔
گناہ دراصل وہ اعمال ہیں جو انسان کے دل اور ذہن پر منفی اثرات ڈالتے ہیں، اور ان کا ارتکاب انسان کی دینی اور اخلاقی ترقی کو متأثر کرتا ہے اور گناہ انسان کی طرف سے کی جانے والی وہ نافرمانی ہے جو اللہ کی ہدایت کے خلاف ہوتی ہے۔
گناہوں کے اقسام
کبائر اور صغائر: دلائل اور نصوص کی روشنی میں؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا {النساء: ٣١} ترجمہ: اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔
وقال سبحانه: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [النجم: ۳۲]
ترجمہ: اور ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے کسی چھوٹے گناہ کے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الصَّلَاةُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ، مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ [مسلم: ۵۵۰]
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں اور ہر جمعہ دوسرے جمعہ تک درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ (ان کو مٹانے والے) ہیں جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیاجائے۔‘‘
ولهذا قال ابن القيم رحمه الله: الذنوب تنقسم إلى صغائر وکبائر بنص القران والسنة، واجماع السلف وبالإعتبار۔
اور اسی لیے ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: کتاب وسنت کے نصوص، اجماع سلف اور اعتبار کے لحاظ سے گناہوں کی تقسیم صغائر و کبائر کی طرف ہوتی ہے۔
[مدارج السالکین: ٣٢٤/١]
گناہ كبيره کے دو درجات ہیں؛
پہلا: جو دین اسلام سے خارج کر دیتا ہے، جیسے شرک اکبر ہے یعنی اللہ رب العالمین کے علاوہ دوسرے کو سجدہ کرنا
دوسرا: جو اسلام پر باقی رہتا ہے اور اس سے خارج نہیں ہوتا ہے، جیسے زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا وغیرہ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ؟» ثَلاَثًا، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ - وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ - أَلاَ وَقَوْلُ الزُّورِ»، قَالَ: فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا: لَيْتَهُ سَكَت
[بخاری: ۲۶۵۴]
ترجمہ: کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑے گناہ کے متعلق نہ بتاوں؟
تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا، صحابہ کرام نے عرض کیا، ہاں اے اللہ کے رسول، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ہاں اور جھوٹی گواہی بھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ ہم کہنے لگے کاش! آپ خاموش ہوجاتے۔
کبیرہ اور صغیرہ گناہ کے درمیان فرق
پہلا: تعریف کے اعتبار سے
ان دونوں کی تعریف میں اختلاف کیا گیا ہے لیکن راجح قول یہ ہے کہ کبیرہ ہر وہ گناہ کو کہتے ہیں جس پر حد قائم ہو چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔
اور صغیرہ گناہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اس پر کوئی حد نہ ہو۔
دوسرا: تعداد کے اعتبار سے۔
کبیرہ گناہ کی تعداد میں اختلاف ہے۔
1۔ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ وہ چار ہیں۔
2۔ ابن عمر نے کا کہنا ہے کہ وہ سات ہیں۔
3۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ وہ نو ہیں۔
4۔ قال سعيد بن زبير سال رجل ابن عباس عن الکبائر أسبع هن؟ قال: هن إلى سبع مائة أقرب، وهذا على سبيل التكثير والمبالغة لا الحصر، ويدل على ذلك قوله: "كل شيء عصي الله به فهو كبيرة " قال الامام ابن ابي العز: فان من قال: سبع، أو سبع عشرة، او إلى السبعين أقرب، مجرد دعوة [شرح الطحاویہ: ۵۲۷] ترجمہ: سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ابن عباس سے کبائر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کبائر کی تعداد 700 کے قریب ہے۔
یہ تعداد بطور مبالغہ ہے، نہ کہ کسی خاص تعداد کے طور پر۔
اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 'جو بھی چیز اللہ کی نافرمانی ہو، وہ کبیرہ گناہ ہے۔
"امام ابن ابی العز نے فرماتے ہیں کہ جو شخص کہے کہ کبائر سات ہیں یا سترہ یا ستر کے قریب ہیں، تو یہ صرف ایک دعویٰ ہے۔"
صحیح بات یہ ہے کہ کبائر اور صغائر کی کوئی تعداد متعین نہیں ہے۔
تیسرا: حکم کے اعتبار سے.
جو صغیرہ گناہ ہے وہ نماز روزہ وضو صدقہ اور تسبیح وغیرہ سے مٹ جاتے ہیں اور جو کبیرہ گناہ ہے اس کے لیے توبہ شرط ہے یعنی ضروری ہے کہ مرتکب کبیرہ توبہ کرے۔
نیک اعمال سے صغیرہ گناہ کے مٹ جانے کی دلیل:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ [ھود: ۱۱۴]
دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔
حدیث رسولﷺ:
الصَّلَوَاتِ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَتِ الْكَبَائِرُ [مسلم: ۲۳۳]
انسان جب تک کبیرہ گناہوں سےاجتناب کرتا رہے تو پانچوں نمازیں، ہر جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، درمیانی مدت کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئےگی ان شاء اللہ ۔
چوتھا: اثر کے اعتبار سے.
جو کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ عدالت کے دائرے سے خارج ہو کر کے فسق کے دائرے میں چلا جاتا ہے یعنی جو کبیرہ گناہ کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا وہ فاسق ہو جاتا ہے، اس کے برعکس جو صغیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا وہ عدالت کے دائرے سے فسق کے دائرے میں نہیں جاتا البتہ اگر وہ اس پر اصرار کرے تو وہ چلا جاتا ہے۔
[ شرح العقیدہ السفارینیۃ: ۵۰۷-۵۰۶]
یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ نہ کوئی بڑا گناہ استغفار سے بڑا ہوتا ہے اور نہ کوئی چھوٹا گناہ اصرار سے چھوٹا ہوتا ہے، جیسا کہ امام ابن ابی العز نے فرمایا:
تاہم ایک اہم بات ہے جس پر توجہ دینی چاہیے: وہ یہ ہے کہ بڑے گناہ کے ساتھ اگر شرم، خوف اور اس کی عظمت کا احساس ہو، تو وہ اسے چھوٹے گناہوں کے مترادف بنا سکتا ہے، اور اسی طرح چھوٹے گناہ کے ساتھ اگر بے حیائی، بے پرواہی، خوف کا نہ ہو اور اس کو ہلکا سمجھا جائے، تو وہ اس گناہ کو بڑے گناہوں میں شامل کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ دل کی حالت پر منحصر ہے، جو صرف عمل تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس میں اضافی احساسات بھی شامل ہوتے ہیں، اور انسان خود اپنی حالت اور دل کی کیفیت سے یہ جان سکتا ہے۔
[شرح الطحاویۃ: ۴۵۱]
جاری۔۔۔۔
از قلم: محمد سعود مقصود