وعلیکم السلاممحترم جواد صاحب
السلام علیکم
غلاف کعبہ پر بھی سونے کا کام اور آیتوں کا لکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے اس کے بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے۔
بھائی جان اس پر تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ کلام اللہ زیادہ احترام کی چیز ہے یا بیت اللہ جو کلام اللہ کو بیت اللہ کا زیور بنایا جا رہا ہے؟ نیز کیا اسلاف نے کعبہ کی اس طریقے سے تعظیم کی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا عمل کیا ہے؟وعلیکم السلام
غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔
::::: جواب ::::: اِس کام کے بارے میں عُلماء کا اختلاف ہے جِس میں سے صحیح یہ ہے کہ صرف کعبہ شریفہ کے غِلاف پر آیات مُبارکہ لکھنا ، لیکن سونے چاندی سے نہیں بلکہ عام مواد سے جائز ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے (((وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ::: اور جو کوئی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ادب کرنے والی چیزوں اور مُقامات کی تعظیم کرتا ہے تو ایسا کرنا یقیناً دِلوں کے تقوے کا ثبوت ہے )))سُورت الحج (22)/آیت32،
کعبہ شریفہ، شعائر اللہ میں سے اول و افضل ترین ہے ، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہی کلام ، یعنی قران کریم کی آیات شریفہ لکھی جانا دُرست ہے ، بشرطیکہ اُنہیں لکھنے میں کوئی اسراف ، یعنی فضول خرچی نہ کی جائے ، لہذا ، سونے چاندی اور دیگر قیمتی مواد کا اِستعمال نہیں کیا جانا چاہیے ، عام مواد سے لکھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
حوالہ
جی مذکورہ آیت سے احتجاج ہو سکتا ہے. باقی تو شیوخ حضرات بتا سکیں گے. بندہ اس تعلق سے زیادہ علم نہیں رکھتا. کبھی محترم شیخ @عادل سہیل حفظہ اللہ کے بلاگ پر پڑھا تھا سوچا بطور فائدہ نقل کر دیتا ہوں.بھائی جان اس پر تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ کلام اللہ زیادہ احترام کی چیز ہے یا بیت اللہ جو کلام اللہ کو بیت اللہ کا زیور بنایا جا رہا ہے؟ نیز کیا اسلاف نے کعبہ کی اس طریقے سے تعظیم کی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمارا عمل کیا ہے؟
صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن چونکہ اسے کوئی عبادت نہیں سمجھا جاتا اس لیے اس کے لیے ثبوت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ و اللہ اعلم
محترم نسیم صاحب -محترم جواد بھائی
یعنی جس چیز کا اب رواج ہو اس کے کرنے میں کوئ حرج نہیں ۔
ابتسامہمحترم نسیم صاحب -
میں اس معاملے میں مزید بحث میں نہیں پڑنا چاہتا -اب ایک چیز کے جواز کو سامنے رکھ کر دوسرے کو جائز یا نا جائز قرار دینا میرے خیال میں کوئی مثبت سوپچ نہیں -قرآنی آیات لکھنا ایک فن ہے اس کو ایک فن کی حیثیت سے دیکھنا ٹھیک ہے - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم یا صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے دور میں مقابلہ حسن قراءت یا ختم احادیث شریف کی محافل وغیرہ کا رواج نہیں تھا - اب آج کے دور میں ہم اس کو دینی حیثیت دیں یا نہ دیں ؟؟ ان مباحث میں پڑنے کا فائدہ ؟ علماء دین کے بھی اس معاملے میں اپنے اپنے مختلف نظریات ہیں -
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہمحترم خضر صاحب
السلام علیکم
آپ کے علم میں یقیناً ہوگا کہ کعبے کی تزئین و آرائش بادشاہت کے دور میں شروع ہوئی۔ اور اس میں بے جا اسراف ہوتا تھا۔ سونے کے تاروں سے کشیدہ کاری بھی اسراف ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سادگی کا درس دیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا آئینہ دار تھی۔نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اس تزئین و آرائش کا سوچا۔
یہ بدعت بادشاہت کے دور میں شروع ہوئی جو تا حال قائم ہے ۔ چونکہ مملکت سعودی عربیہ اب بھی بادشاہی نظام کے تحت چل رہا ہے ۔