• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گھر اللہ اور رسول کو چھوڑ آیا ہوں

شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
48
ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کا آدھا سامان لے آئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر کا سارا سامان لے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گھر کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھر اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔

ایک دوست نے پوچھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاظر و ناظر اور حاجت روا ماننا جائز نہیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیوں کہا تھا کہ گھر اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑ آیا ہوں؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105

پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس​
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس!​

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم​
علامہ اقبال​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کا آدھا سامان لے آئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر کا سارا سامان لے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گھر کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھر اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔
ایک دوست نے پوچھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاظر و ناظر اور حاجت روا ماننا جائز نہیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیوں کہا تھا کہ گھر اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑ آیا ہوں؟
یہاں مراد ’’ اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشی ‘‘ ہے ، گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں گھر کا سارا مال خرچ کرنا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جب حضرت ابوبکر نے اپنا سب کچھ رسول اللہ کی بارگاہ میں پیش کرکے خود بوری کا چولا پہن لیا تھا اس ادا کی لاج رکھنے کے لیے کل فرشتوں نے بھی بوری کا لباس پہنا تھا​
 
Last edited by a moderator:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جب حضرت ابوبکر نے اپنا سب کچھ رسول اللہ کی بارگاہ میں پیش کرکے خود بوری کا چولا پہن لیا تھا اس ادا کی لاج رکھنے کے لیے کل فرشتوں نے بھی بوری کا لباس پہنا تھا​
یہ واقعہ سنن ابی داود ، سنن ترمذی ، سنن الدارمی وغیرہ کئی ایک کتابوں میں آیا ہے ، کہیں بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ یا فرشتوں کے بوریاں پہننے کا ذکر نہیں ملا ۔ واللہ اعلم ۔
عن زيد بن أسلم، عن أبيه، قال: سمعت عمر بن الخطاب، رضي الله عنه يقول: " أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما أن نتصدق، فوافق ذلك مالا عندي، فقلت: اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما، فجئت بنصف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أبقيت لأهلك؟»، قلت: مثله، قال: وأتى أبو بكر رضي الله عنه بكل ما عنده، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أبقيت لأهلك؟» قال: أبقيت لهم الله ورسوله، قلت: لا أسابقك إلى شيء أبدا ( سنن ابی داؤد رقم 1678 )
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس موقع پر میرے پاس مال بھی تھا ۔ چنانچہ میں نے ( دل میں ) کہا : اگر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لینا چاہوں تو آج لے سکتا ہوں ۔ چنانچہ میں اپنا آدھا مال ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) لے آیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ میں نے کہا : اسی قدر ( چھوڑ آیا ہوں ) اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کل مال ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ) لے آئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ کہا : میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے ۔ تب مجھے کہنا پڑا ، میں کسی شے میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا ۔
 
شمولیت
فروری 08، 2014
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
42
یہاں مراد ’’ اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشی ‘‘ ہے ، گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں گھر کا سارا مال خرچ کرنا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے ۔
یہ کس غزوے کا واقعہ ہے؟
 
شمولیت
فروری 08، 2014
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
42
یہاں مراد ’’ اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشی ‘‘ ہے ، گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں گھر کا سارا مال خرچ کرنا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے ۔

یہ واقعہ سنن ابی داود ، سنن ترمذی ، سنن الدارمی وغیرہ کئی ایک کتابوں میں آیا ہے ، کہیں بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ یا فرشتوں کے بوریاں پہننے کا ذکر نہیں ملا ۔ واللہ اعلم ۔
عن زيد بن أسلم، عن أبيه، قال: سمعت عمر بن الخطاب، رضي الله عنه يقول: " أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما أن نتصدق، فوافق ذلك مالا عندي، فقلت: اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما، فجئت بنصف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أبقيت لأهلك؟»، قلت: مثله، قال: وأتى أبو بكر رضي الله عنه بكل ما عنده، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أبقيت لأهلك؟» قال: أبقيت لهم الله ورسوله، قلت: لا أسابقك إلى شيء أبدا ( سنن ابی داؤد رقم 1678 )
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ اس موقع پر میرے پاس مال بھی تھا ۔ چنانچہ میں نے ( دل میں ) کہا : اگر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لینا چاہوں تو آج لے سکتا ہوں ۔ چنانچہ میں اپنا آدھا مال ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ) لے آیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ میں نے کہا : اسی قدر ( چھوڑ آیا ہوں ) اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا کل مال ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ) لے آئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا ” تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی چھوڑا ہے ؟ “ کہا : میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے ۔ تب مجھے کہنا پڑا ، میں کسی شے میں کبھی بھی ان سے نہیں بڑھ سکتا ۔

یہ کس غزوے کا واقعہ ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ کس غزوے کا واقعہ ہے؟
یہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آنے والا ایمان افروز تاریخی واقعہ ہے ؛
السؤال:

أسأل عن قصة أبي بكر الصديق رضي الله عنه حين وهب كل ما يملك لبيت مال الؤمنين، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ماذا تركت لأبنائك. إني أريد القصة كاملة وجازاكم الله خيرا.
ــــــــــــــــــــــــــــــ

الفتوى:

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإن القصة المشار إليها وقعت في غزوة تبوك كما في كتب السير، وروى أبو داود والترمذي وقال حسن صحيح والحاكم وقال: على شرط مسلم ولم يخرجاه وغيرهم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما أن نتصدق، فوافق ذلك مالا عندي، فقلت: اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما، فجئت بنصف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أبقيت لأهلك؟ فقلت: مثله، وأتى أبو بكر بكل ما عنده، فقال يا أبا بكر: ما أبقيت لأهلك؟ فقال: أبقيت لهم الله ورسوله، فقلت: لا أسابقك إلى شيء أبدا.

والله أعلم.
المفتـــي: مركز الفتوى

لنک فتوی
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
یہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیش آنے والا ایمان افروز تاریخی واقعہ ہے ؛
السؤال:

أسأل عن قصة أبي بكر الصديق رضي الله عنه حين وهب كل ما يملك لبيت مال الؤمنين، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ماذا تركت لأبنائك. إني أريد القصة كاملة وجازاكم الله خيرا.
ــــــــــــــــــــــــــــــ

الفتوى:

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإن القصة المشار إليها وقعت في غزوة تبوك كما في كتب السير، وروى أبو داود والترمذي وقال حسن صحيح والحاكم وقال: على شرط مسلم ولم يخرجاه وغيرهم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما أن نتصدق، فوافق ذلك مالا عندي، فقلت: اليوم أسبق أبا بكر إن سبقته يوما، فجئت بنصف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما أبقيت لأهلك؟ فقلت: مثله، وأتى أبو بكر بكل ما عنده، فقال يا أبا بكر: ما أبقيت لأهلك؟ فقال: أبقيت لهم الله ورسوله، فقلت: لا أسابقك إلى شيء أبدا.

والله أعلم.
المفتـــي: مركز الفتوى

لنک فتوی
محترم @اسحاق سلفی صاحب
میں اس سے پہلے بھی اس فورم پر یہ سوال پوچھ چکا ہوں ۔کہ غزوہ تبوک میں مسلمان اتنی کسمپرسی میں کیوں تھے ۔ غزوہ حنین میں مال غنیمت بہت زیادہ ملا تھا۔

ائف سے واپس ہوتے ہوئے حضور اکرم ﷺ مقام جعرانہ میں رکے جہاں حنین کی لڑائی کا مالِ غنیمت محفوظ کردیاگیاتھا، وہاں آپﷺ کئی روز تک مالِ غنیمت تقسیم کئے بغیر ٹھہرے رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کا مال اور قیدی واپس کئے جائیں ؛لیکن تاخیر کے باوجود آپﷺ کے پاس کوئی نہ آیاتو آپﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم شروع کردی جس میں چوبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی تھے، حضور اکرم ﷺنے اسلامی قانون کے مطابق کل مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے لڑنے والوں میں بانٹ دئیے اور ایک حصہ بیت المال کے لئے روک لیا، اس پانچویں حصہ میں سے آپﷺ نے مکّہ اور دوسرے مقامات کے نو مسلموں کو دل کھول کر حصے دئیے،
ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ چاندی اور ایک سو اونٹ عطاکئے، اس نے کہا ! میرا بیٹا یزید؟ آپﷺ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا، اس نے کہا! اورمیرا بیٹا معاویہ؟ آپﷺ نے اتنا ہی معاویہ کو بھی دیا(یعنی تنہا ابوسفیان کو اس کے بیٹوں سمیت تین سو اونٹ اور ایک سو بیس اوقیہ چاندی ملی)
حطیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا تو اسے پھر ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اسی طرح صفوان بن اُمیہ کو سو اونٹ ، پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ (یعنی تین سو اونٹ) دئیے گئے
حوالہ:http://islamichistory02.blogspot.com/2015/10/blog-post_14.html
 
Top