السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے پاس زمین ہے جس پر میں کچھ سالوں تک گھر بنا کر کرائے پر دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ کیا میری اس زمین پر زکاۃ ہے۔
یہ سوال میں نے فتویٰ سائیٹ پر بھی ڈالا تھا مگر ایک ماہ بعد بھی اس کا جواب نہیں دیا گیا۔۔ فتویٰ نمبر ٢٨١
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی، جس زمین پر آپ گھر بنا کر اس میں رہنے یا اسے کرائے پر چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس میں آپ پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں البتہ جب آپ اپنی زمین کو کرائے پر چڑھا دیں تو جو منافع آپ کو کرائے کی صورت میں حاصل ہوگا اس میں سے زکوٰۃ نکالنا آپ پر واجب ہوگا بشرطیکہ وہ منافع نصاب کو پہنچتا ہو اور اس پر پورا ایک ہجری سال گزر چکا ہو۔
تفصیل کیلئے شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ کی ویب سائٹ کے یہ فتاوی دیکھ لیں:
سوال: ہمارى ايك تجارتى ماركيٹ ہے جو ہم نے ( 72 ) ہزار سالانہ پر كرايہ ميں دے ركھى ہے كيا اس ميں ہم پر زكاۃ ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ يہ كرايہ ہم يكمشت حاصل كرتے ہيں، اور سال گزرنے سے قبل ہى خرچ كر ڈالتے ہيں ؟
جواب: الحمد للہ:
كرايہ كے ليے بنائى گئى جائداد پر زكاۃ نہيں ہے، بلكہ زكاۃ تو اس كرايہ پر ہے جبكہ اس ميں دو شرطيں پائى جائيں:
پہلى شرط: وہ كرايہ نصاب تك پہنچ جائے.
دوسرى شرط: اس پر سال گزر جائے.
اور يہ سال كرايہ كا معاہدہ ہو جانے سے شروع ہو گا، چاہے كرايہ پيشگى ليا جائے يا پھر سال كے آخر ميں.
اگر اس نے سال كے شروع ميں ہى كرايہ حاصل كر ليا اور اس پر سال گزر جائے تو اس ميں زكاۃ واجب ہے، يا پھر اگر اس ميں سے كچھ خرچ كر ليا اور باقى بچنے والى رقم پر زكاۃ واجب ہو گى.
اور اگر اس نے سال كے آخر ميں كرايہ وصول كيا تو اس پر زكاۃ واجب ہے كيونكہ معاہدہ سے ليكر اس پر سال گزر چكا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور اگر اس نے گھر دو برس كے ليے چاليس دينار ميں كرايہ پر ديا، تو وہ معاہدہ كے وقت سے ہى اس كرايہ كا مالك بن گيا ہے، سال گزرنے پر اس كى زكاۃ واجب ہے. اھـ
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 4 / 271 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس نے جائدہ كرايہ پر دى اور ايك سال كا كرايہ پيشگى وصول كر ليا اور اس كے ساتھ اپنا كچھ قرض ادا كيا تو كيا اس كے ذمہ اس كرايہ كى زكاۃ واجب ہو گى؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اس طرح كے كرايہ ميں جو كرايہ دار سے پيشگى لے كر اس كے ساتھ اپنا قرض ادا كيا گيا ہو اس ميں كوئى زكاۃ نہيں، كيونكہ اس پر آپ كى ملكيت ميں سال نہيں گزرا، اور اس ميں كرايہ كے معاہدہ كے وقت سے ليكر آخر سال تك كا اعتبار ہو گا، اور اگر آپ سال ختم ہونے سے قبل كرايہ وصول كريں اور اس سے اپنا قرض ادا كر ديا يا اسے گھريلو ضروريات ميں صرف كر ديا تو اس ميں كوئى زكاۃ نہيں ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 177 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا كرايہ كے ليے تيار كى گئى جائداد اور عمارتوں ميں زكاۃ ہے؟
تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اس پر اس جائداد ميں كوئى زكاۃ نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان پر اس كے غلام اور نہ ہى اس كے گھوڑے ميں كوئى صدقہ ہے "
بلكہ اس كے كرايہ اور اجرت پر جب معاہدے سے سال گزر جائے تو اس ميں زكاۃ ہو گى.
اس كى مثال يہ ہے كہ:
اس نے اس گھر كو دس ہزار ميں كرايہ پر ديا، اور سال بعد دس ہزار وصول كيا، تو اس دس ہزار ميں اس پر زكاۃ واجب ہوگى كيونكہ اس كے معاہدہ پر سال گزر گيا ہے.
اور ايك دوسرے شخص نے اپنا گھر دس ہزار ميں كرايہ پر ديا، اور اس ميں سے پانچ ہزار معاہدہ كرتے وقت پيشگى وصول كر ليا اور اسے دو ماہ ميں ہى خرچ كر ديا، اور باقى پانچ ہزار نصف سال گزرنے كے بعد وصول كيا اور اسے بھى دو ماہ ميں خرچ كر ديا، اور سال گزرنے پر اس كے پاس كرايہ ميں سے كچھ بھى نہيں تو اس كے ذمہ زكاۃ نہيں ہو گى، كيونكہ اس پر سال پورا نہيں ہوا، اور زكاۃ كے ليے سال پورا ہونا ضرورى ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 208 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
سوال: ايك شخص كے پاس اراضى اور املاك ہے، جس پر كوئى آمدنى نہيں كيا اس پر زكاۃ ہو گى ؟
جواب: الحمد للہ :
اس اراضى اور املاك پر زكاۃ نہيں ہے، ليكن اگر اس نے يہ سب كچھ فروخت اور تجارت كے ليے ركھا ہو تو پھر زكاۃ ہو گى.
اور اس كى زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا: سال مكمل ہونے پر اس اراضى اور املاك كى ماركيٹ ويليو كے مطابق قيمت لگا كر اس ميں سے دس كا چوتھائى حصہ يعنى اڑھائى فيصد زكاۃ ادا كى جائے گى.
ليكن اگر يہ املاك آدمى كے استعمال اور خدمت يا پھر اس نے اپنے كام ميں استعمال كے ليے ركھى ہو مثلا اسے كرايہ پر دے ركھا ہو، يا اس طرح كسى اور كام ميں اور وہ اس املاك كى بعينہ تجارت نہ كرتا ہو تو اس حالت ميں اس پر زكاۃ نہيں ہو گى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ـ تجارتى سامان كى زكاۃ ميں تفصيل بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
العروض: عرض راء پر زبر يا عرض راء پر سكون كى جمع ہے، اور يہ وہ مال اور سامان ہے جو تجارت كے ليے تيار كيا گيا ہو، اور اسے يہ نام اس ليے ديا گيا ہے كيونكہ يہ مستقر نہيں رہتا، پيش كيا جاتا ہے، اور پھر زائل ہو جاتا ہے كيونكہ تجارت كرنے والا بعينہ يہ سامان نہيں چاہتا، بلكہ وہ تو اس كا منافع حاصل كرنا چاہتا ہے، اس ليے ہم نے اس كى قيمت ميں زكاۃ واجب كى ہے، نہ كہ بعينہ اس چيز ميں.
لہذا عروض يعنى تجارتى سامان اس وقت ہر وہ چيز ہو گى جو تجارت كے ليے تيار ہوئى ہو، چاہے وہ كسى بھى نوع اور قسم سے تعلق ركھے، اور يہ زكاۃ كے اموال كو عام اور شامل ہے؛ كيونكہ يہ جائداد ميں بھى داخل ہے، اور كپڑے ميں بھى، اور برتنوں ميں بھى، اور حيوانات ميں، بلكہ ہر چيز ميں.
اور تجارتى سامان ميں زكاۃ واجب ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
اول:
مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم ميں داخل ہونا:
﴿اور ان كے مالوں ميں سائل اور محروم كا حق ہے ﴾الذاريات ( 19 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ كو يمن روانہ كيا تو انہيں فرمايا:
" انہيں بتانا كہ اللہ تعالى نے ان كے مالوں ميں ان پر صدقہ فرض كيا ہے جو ان كے مالدار لوگوں سے حاصل كر كے ان كے فقرا كو واپس كيا جائے گا"
اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ تجارتى سامان مال ہے.
اور اگر كوئى قائل يہ كہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہ فرمايا ہے: مسلمان پر اس كے غلام اور گھوڑے ميں صدقہ نہيں ہے"
ہم كہيں گے: جى ہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں كہا: اس سامان جو بعينہ نہ چاہا گيا ہو اس ميں نہيں، بلكہ اس كى قيمت چاہى گئى ہو اس ميں زكاۃ نہيں ہے.
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان: " اس كے غلام اور گھوڑے " يہ كلمہ انسان كى طرف بطور اختصاص مضاف ہے، يعنى جس نے اسے خاص كر ليا، اور وہ اسےاستعمال كرے اور اس سے نفع حاصل كرے، جيسا كہ گھوڑا اور غلام اور كپڑا، اور گھر جس ميں رہتا ہے، اور استعمال كے ليے گاڑى چاہے وہ اجرت كے ليے ہى ہو، ان سب ميں زكاۃ نہيں ہے؛ كيونكہ انسان نے يہ اپنے ليے ركھى ہيں، نہ كہ وہ اس سے تجارت كرتا ہے، ايك دن خريد لے اور پھر دوسرے دن اسے فروخت كردے.
تو اس بنا پر جس نے بھى اس حديث سے سامان ميں زكاۃ نہ ہونے پر استدلال كيا وہ بہت دور نكل گيا.
دوم:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر آدمى كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى "
اگر ہم تاجر كو پوچھيں كہ وہ ان اموال سے كيا چاہتا ہے ؟ تو وہ جواب دے گا ميں سونا اور چاندى چاہتا ہوں، ميں دونوں نقدياں چاہتا ہوں.
جب ميں نے آج سامان خريدا اور وہ مجھے نفع دے يا ايك دن بعد تو ميں اسے فروخت كر دونگا، ميرا اس ميں كى ذات مطلقا ارادہ نہيں ہے، تو اس بنا پر ہم كہتے ہيں: نص اور قياس كى بنا پر سامان كى زكاۃ واجب ہے، اگرچہ نص خاص نہيں بلكہ عام ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 141 - 142 ).
پھر شيخ رحمہ اللہ تعالى اس كى مثال بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
ايك شخص نے منافع حاصل كرنے كے ليے گاڑى خريدى ( يعنى وہ اسے فروخت كر كے منافع حاصل كرے گا ) تو يہ تجارتى سامان ہے، جب اس كى قيمت نصاب كو پہنچ جائے اور اس نے خريدتے وقت اس كى نيت كى لى.
اور اگر كوئى شخص استعمال كے ليے گاڑى خريدتا ہے، اور پھر بعد ميں وہ اسے فروخت كرنے كى نيت كر لے تو اس پر زكاۃ نہيں كيونكہ اس نے خريدتے وقت تجارت كى نيت نہيں كى تھى، اس ليے اسے ملكيت ميں ليتے وقت تجارت كى نيت ضرورى ہے، اور اگر كوئى چيز تجارت كے ليے خريدے اور اس كى قيمت نصاب كو نہ پہنچتى ہو، اور نہ ہى اس كے پاس اتنى رقم ہے جو اس كے ساتھ ملائى جاسكے، تو اس پر زكاۃ نہيں، كيونكہ زكاۃ واجب ہونے كى شروط ميں نصاب تك پہنچنا ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 142 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
تجارت كے ليے لى گئى اراضى ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے، اس كى دليل وہ مشہور حديث ہے جو سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں اس كا صدقہ دينے كا حكم ديا جو ہم فروخت كرنے كے ليے تيار كرتے " انتہى
اس حديث ميں صدقہ سے مراد زكاۃ ہے.
ليكن اگر زمين اپنے ليے خاص ہو نہ كہ فروخت كرنے كے ليے، چاہے اس نے كاشت كارى كے مقصد سے حاصل كى ہو يا رہائش يا اجرت (کرائے) پر دينے كے ليے تو اس ميں زكاۃ نہيں ہو گى، كيونكہ وہ فروخت كے ليے نہيں ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى ہى زيادہ علم ركھنے والا ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 14 / 160 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب