وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جمہور اہل علم کے نزدیک جماعت کے ساتھ نماز لازم ہے نہ کہ کسی خاص مسجد میں اور اس کی دلیل یہ روایت بیان کی جاتی ہے:
أعطيت خمساً لم يعطهن أحد قبلي: جعلت لي الأرض طيبة وطهوراً ومسجداً، فأيما رجل أدركته الصلاة صلى حيث كان. (متفق عليه.)
مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو بھی نہیں دی گئی ہیں۔ میرے لیے تمام زمین کو طیب، پاک اور مسجد بنا دیا گیا ہے۔ پس جس شخص کو بھی نماز کا وقت کہیں داخل ہو تو جہاں ہے وہاں ہی نماز پڑھ لے۔صحیح بخاری وصحیح مسلم
پس اگر آپ کے لیے گھر میں جماعت کے ساتھ نماز ممکن ہو یعنی دو یا زائد مرد حضرات مل کر جماعت کی نماز کروا سکتے ہوں تو پھر جماعت کی فرضیت کا حکم ادا ہو جائے گا اگرچہ اس صورت میں بھی مستحب اور پسندیدہ عمل مسجد ہی میں جا کر نماز پڑھنا ہے کیونکہ جو شخص جتنی دور سے نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آتا ہے اس کا اجر و ثواب اس کے قدموں کی تعداد کے اعتبار سے بڑھتا رہتا ہے۔لیکن ایسایعنی گھر میں جماعت کروا لینا اگر کبھی کبھار ہو تو اس کی اجازت ہے مستقل طرز عمل درست نہیں ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنن الھدی کی تعلیم دی اور سنن الھدی میں سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ اس مسجد میں نماز پڑھی جائے کہ جس میں اذان ہوتی ہو۔
علاوہ ازیں جو شخص نماز کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو اس کے ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے۔صحیح بخاری