• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گھر میں داخل اور خارج ہوتے وقت دو رکعتیں ادا کرنا ۔ حدیث کی تحقیق

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ۔ جیسا کہ ذہبی زمان علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ نے اس پر جاندار نقد کیا ہے ، اسی طرح شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے
محترم بھائی :
علامہ معلمی اور علامہ ابن العثیمین کی اصل عبارتیں یہاں پیش کردیں ،تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو ۔
شکریہ
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا کلام اور علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ کا نقد دونوں ہی اس فتویٰ میں موجود ہیں۔
والأقرب – والله أعلم – أن الحديث لا يصح ؛ وذلك لثلاث علل فيه :
1 - بكر بن عمر لم يوثق توثيقا معتبرا ، قال أبو حاتم شيخ . وقال الحاكم سألت الدارقطني عنه فقال ينظر في أمره . وقال ابن القطان : لا نعلم عدالته . وذكره ابن حبان في الثقات .
"تهذيب التهذيب" (1 / 426)
2 - ويحيى بن أيوب تكلم فيه غير واحد من أهل العلم : منهم الإمام أحمد والنسائي والساجي وأبو أحمد الحاكم والدارقطني وغيرهم . وقال ابن سعد منكر الحديث .
"تهذيب التهذيب" (11 / 164)
3 – شك بكر بن عمرو فيه - مع ما فيه من الكلام – حيث قال : " حسبته عَن أبي سلمة ، عَن أبي هُرَيرة ، عَن النبي صلى الله عليه وسلم " .

وقد تعقب العلامة الشيخ عبد الرحمن المعلمي رحمه الله تحسين الحافظ ابن حجر لهذا الحديث ، فقال :
" بكر لم يوثقه أحد ، وليس له في البخاري إلا حديث واحد ( متابعة، وقد أخرجه البخاري من طريق أخرى ) كذا قال ابن حجر نفسه في مقدمة الفتح ص (391) وليس له عند مسلم إلا حديث واحد ... ، ثم أخرجه مسلم من وجه آخر، فروايته عن بكر في معنى المتابعة ، وليس له عند مسلم غيره ، كما يعلم من الجمع بين رجال الصحيحين ، ففي تحسين حديثه نظر، كيف وقد شك فيه ؟ مع أن الراوي عنه يحيى بن أيوب ، هو الغافقي . راجع ترجمته في مقدمة الفتح " انتهى من "تحقيق الفوائد المجموعة" (56-57) .


مکمل فتویٰ یہاں ہے

واللہ اعلم
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
اگر کسی بھائی کو اس کی تصحیح سے اتفاق نہ ہو تو انتہائی جملے تو نہ بولیں کہ یہ حدیث نبی ﷺ سے ثابت ہی نہیں۔ بس یہ کہیں کہ آپ کی تحقیق میں یہ ضعیف ہے ۔
اور مجھے اس کے ضعف سے اتفاق نہیں ہوسکا ۔ بلکہ یہ صحیح ہے ۔
اس پر کئے گئے اعتراضات میں بہت سختی ہے ۔

بکر لم یوثقہ احد۔۔۔
یہ عجیب بات ہے ۔ بلکہ کہنا چاہیے ۔۔۔لم يضعفه احد
کیا حافظ ابن حجرؒ کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ۔
انہوں نے تقریب ۱۔۱۲۷ میں’’ صدوق عابد ‘‘ کہا ہے ۔

اور اس کے علاوہ حافظ ذہبیؒ نے تو بہت اونچے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جو یقیناََ شیخ معلمیؒ کی نظر میں نہیں آسکے۔
بَكْرُ بنُ عَمْرٍو المَعَافِرِيُّ المِصْرِيُّ ** (خَ، م، د، س، ت)
أَحَدُ الأَعْلاَمِ
۔۔۔حَدَّثَ عَنْهُ ۔۔۔ يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ۔۔۔
وَكَانَ ثِقَةً، ثَبْتاً، فَاضِلاً، مُتَأَلِّهاً، كَبِيْرَ القَدْرِ، إِمَامَ جَامِعِ الفُسْطَاطِ.

سیراعلام النبلاء ۶۔۲۰۳

وليس له في البخاري إلا حديث واحد ( متابعة۔۔۔
وليس له عند مسلم إلا حديث واحد ... ، ثم أخرجه مسلم من وجه آخر، فروايته عن بكر في معنى المتابعة۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن کیامتابعات میں یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ ضعیف ہی ہوتی ہے ۔
بلکہ صحیح مسلم کی صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت متابعت میں نہیں ہے ۔
کیونکہ اس باب میں دو ہی روایتیں ہیں ۔ اور بکر کی روایت پہلے نقل کی ہے ۔
بعد میں دوسری۔۔۔۔۔ جیسا کہ شیخ معلمیؒ کے الفاظ میں بھی ہے ۔
اسی لئے حافظ ذہبی ؒ میزان ۱۔۳۴۷ میں فرماتے ہیں۔

واحتج به الشيخان ۔۔۔

ويحيى بن أيوب تكلم فيه غير واحد من أهل العلم : منهم الإمام أحمد والنسائي والساجي وأبو أحمد الحاكم والدارقطني وغيرهم . وقال ابن سعد منكر الحديث .

یحیی بن ایوبؒ ثقہ ۔ بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔بعض کے خیال میں بخاری میں ان کی حدیث متابعت میں ہے ۔
حافظ ؒ نے امام بخاریؒ سے صراحتاََ بھی ان کا ثقہ ہونا نقل کیا ہے ۔

وقال الترمذي: عن البخاري ثقة
تھذیب ۱۱۔۱۸۷
بہر حال صحیح مسلم میں ان کی روایت اصول میں ہے ۔
اکثر ائمہ ان کی توثیق ہی کرتے ہیں ۔
جن بعض کا نام لیا گیا ہے کہ انہوں نے ان پر کلام کیا ہے ۔وہ بھی سخت نہیں ہے ۔۔۔امام احمدؒ ، امام نسائیؒ ، حافظ دارقطنیؒ کی آرا کو اگر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے نزدیک ضعیف پھر بھی نہیں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام احمدؒ نے ابو طالبؒ کی روایت میں ضعیف یخطیٔ کثیرا ۔۔۔کہا ہے ۔ لیکن یہ دوسری روایات کے خلاف ہے جس میں بہت نرم جرح ہے ۔
اور ان کے بیٹے کی روایت میں سی الحفظ کے الفاظ ہیں ۔ لیکن وضاحت ہے کہ ان سے تین راویوں کے بارے میں پوچھا گیا ۔

سُئِلَ أبي وَأَنا أسمع عَن حَيْوَة بن شُرَيْح وَسَعِيد بن أبي أَيُّوب وَيحيى بن أَيُّوب
فَقَالَ حَيْوَة أَعلَى الْقَوْم ثِقَة

۔۔۔۔۔۔۔سَعِيد بن أبي أَيُّوب لَيْسَ بِهِ بَأْس
وَيحيى بن أَيُّوب دونهم فِي الحَدِيث فِي الْحِفْظ
قَالَ أبي وَكَانَ يحيى بن أَيُّوب يجلس إِلَى اللَّيْث بن سعد وَكَانَ سيء الْحِفْظ وَهُوَ دون هَؤُلَاءِ وحيوة بن شُرَيْح بعد وَهُوَ أعلاهم

العلل۔ ابنہ ۳۔۵۲
اور یہ دونوں راوی جن سے موازنہ کیا گیا ہے بالکل ثقہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ کم درجہ حافظ ہیں۔
اسی طرح سیراعلام النبلا ۸۔۸ پہ بھی امام احمدؒ کی ایک روایت ہے ۔

سُئِلَ عَنْ يَحْيَى بنِ أَيُّوْبَ المِصْرِيِّ، فَقَالَ:
كَانَ يُحَدِّثُ مِنْ حِفْظِهِ، وَكَانَ لاَ بَأْسَ بِهِ،
وَكَأَنَّهُ ذَكَرَ الوَهْمَ فِي حِفْظِهِ، فَذَكَرتُ لَهُ مِنْ حَدِيْثِهِ عَنْ يَحْيَى بنِ سَعِيْدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:
أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كَانَ يَقْرَأُ فِي الوَتْرِ ... ، فَقَالَ: هَاء، مَنْ يَحْتَمِلُ هَذَا؟
قَالَ العُقَيْلِيُّ: وَهَذَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَلاَّفُ، حَدَّثَنَا سَعِيْدُ بنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ، عَنْ يَحْيَى بنِ سَعِيْدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:
كَانَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الأُوْلَى مِنَ الوَتْرِ: بِـ {سَبِّحِ} ، وَفِي الثَّانِيَةِ: بِـ {قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُوْنَ} ، وَفِي الثَّالِثَةِ: بِـ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} ، وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الفَلَقِ} ، وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ

یہ وتر والی حدیث حاکمؒ نے مستدرک ۲۔۵۶۶ پہ بھی روایت کی ہے
اور اسے علی شرط الشیخین فرمایا ہے ۔ ذہبیؒ نے موافقت کی ہے ۔ اور اس کا متابع بھی ہے ۔ یعنی یحیی کی یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔
بہرحال امام احمدؒ کے نزدیک وہم بھی ہو تو پھر بھی راوی مطلق ضعیف نہیں ۔
اسی لئے لا باس بہ بھی فرمایا ہے ۔
اسی طرح حربؒ کی روایت میں صالح کہا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام نسائی نے ان کے بارے میں لیس بذاک القوی فرمایا ہے ۔ جو لیس بالقوی کے مشابہ ہے ۔ اور حافظ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ بھی اس کو لیس بالقوی ہی نقل کرتے ہیں ۔ یہ کوئی قوی جرح نہیں ہے ۔ یہ تو بس یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ راوی کوئی بہت اونچے درجے کا نہیں ۔ یہ بات امام نسائی ؒ نے صراحتاََ بھی فرمائی ہے کہ ان کا لیس بالقوی کہنا جرح مفسد نہیں ہے ۔جیسا کہ الموقظہ الذہبی میں ہے ۔ اور حافظ ابن حجرؒ بھی اس کو نرم جرح کہتے ہیں۔
اور سنن نسائی میں ان کی کئی احادیث ہیں ۔ کہیں پر ان پر کوئی کلام نہیں کیا ۔
بلکہ ابواب کی صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی حدیث سے احتجاج ہی کرتے ہیں ۔
مثلاََ کتاب الجہاد میں کئی ابواب ہیں ان کے تحت احادیث ہیں ۔

سنن نسائی ۶۔۲۹ط حلب۔ کتاب الجہاد
ایک عنوان قائم کیا ہے
مَا يَقُولُ مَنْ يَطْعَنُهُ الْعَدُوُّ
جس وقت دشمن زخم لگائے تو کیا کہنا چاہیے؟
اس کے تحت صرف ایک ہی حدیث ہے اور وہ یحیی بن ایوب کی سند سے ہے ۔

ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَذَکَرَ آخَرَ قَبْلَهُ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ کی سند سے لمبی حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَقَاتَلَ طَلْحَةُ قِتَالَ الْأَحَدَ عَشَرَ حَتَّی ضُرِبَتْ يَدُهُ فَقُطِعَتْ أَصَابِعُهُ فَقَالَ حَسِّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللَّهِ لَرَفَعَتْکَ الْمَلَائِکَةُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ ثُمَّ رَدَّ اللَّهُ الْمُشْرِکِينَ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ حضرت طلحہؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ہاتھ پر ایک زبردست زخم لگا اور ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ انہوں نے کہا حش (یہ جملہ درد اور تکلیف کے وقت بولا جاتا ہے) رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہتے (جب تم کو زخم لگا تھا) تو تم کو فرشتے اٹھاتے اور تم کو لوگ دیکھتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا رخ موڑ دیا۔


اور اس روایت پر نہ تو ان کا کوئی کلام ہے ۔ اور نہ کوئی دوسری سند ہے کہ متابعت کا اندیشہ ہو۔
اسی لئے ذہبیؒ اور ابن حجرؒ نے جو نسائیؒ سے لیس بالقوی نقل کیا ہے جو بہت نرم جرح ہے اس کے ساتھ ہی لیس بہ باس بھی نقل کیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ دار قطنیؒ نے سنن ۱۔۱۱۳ میں ان کے بارے میں
فِي بَعْضِ أَحَادِيثِهِ اضْطِرَابٌ کہا ہے۔
لیکن ان سے بھی مختلف روایتیں ہیں ۔ انہوں نے ان کو صراحتاََ ثقہ بھی کہا ہے ۔دیکھیے العلل ۱۴۔۹۵
اور سنن۳۔۱۲۸ پہ ایک حدیث جس کی سند میں یحیی موجود ہیں۔۔ کے بارے میں یہ فرمایا ہے ۔
تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّادٍ , عَنِ الْمُفَضَّلِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ , وَكُلُّهُمْ ثِقَاتٌ
سنن ۳۔۱۷۵پہ ان کی روایت کے بارے میں فرمایا۔
هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ
لہذا۔۔حافظ دارقطنیؒ کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ان کے نزدیک ضعیف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شك بكر بن عمرو فيه

اول تو مسند الفردوس دیلمی میں یہ شک کے بغیر ہے ۔
يحيى بن أيوب ، عن بكر بن عمرو ، عن صفوان بن سليم ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرةؓ۔۔۔۔
(الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس مما ليس في الكتب المشهورة - مخطوط

المؤلف : حافظ ابن حجر العسقلاني ۱۔۳۳۳)
لیکن اگر ہو بھی تو حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں

حديث حسن ولولا شك بكر لكان على شرط الصحيح
(فیض القدیر المناوی۱۔۳۳۴۔۔۔۔اتحاف السادۃ المتقین الزبیدی ۔۳۔۴۶۵)
حافظ الھیثمیؒ نے مجمع الزوائد ۲۔۲۸۳،۲۸۴ پہ اس کے تمام رجال کی توثیق کی ہے ۔
اور حافظ ابن حجرؒ نے
مختصر زوائد مسند البزار ۱۔۳۲۷ میں ان کی موافقت کی ہے ۔
ا س کتاب میں حافظ الھیثمیؒ سے کوئی اختلاف ہو تو وہ بیان کر دیتے ہیں ۔

پھر امام بیہقیؒ بھی شعب ۴۔۴۶۱میں اس کی تصحیح کی طرف مائل ہیں ۔

حافظ سیوطی ؒ نے جامع الصغیر میں حسن کی علامت لگائی ہے ۔ اور علامہ مناویؒ نے فیض القدیر ۱۔۳۳۴۔۔۔اور عزیزیؒ ۔۔۔نے السراج المنیر ۱۔۱۱۵۔۔۔ میں موافقت کی ہے ۔
عبد الحق الاشبیلیؒ ۵۸۱ھ نے کتاب التہجد۱۳۱ پہ اس روایت کو استحباب میں پیش کیا ہے ۔
ابن عراق ؒ نے بھی تنزيه الشريعة ۲۔۱۰۹،۱۱۰ پہ اس کی تحسین کی ہے ۔
حافظ مرتضی الزبیدیؒ ۔۔۔شرح احیا ء العلوم ۳۔۴۶۴،۴۶۵پہ اس کی تحسین کی طرف مائل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یہ عمل صحابہؓ ، تابعین ؒ سے بھی ثابت ہے ۔ مثلاََ
بدری صحابی ۔حضرت عبد اللہ بن رواحۃ ۔ رضی اللہ عنہ
اور
الإِمَامُ، القُدْوَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ۔۔ تابعی ۔۔ثابت البنانیؒ

ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فَقَالَ لَهَا: تَدْرِينَ لِمَ تَزَوَّجْتُكِ؟ لِتُخْبِرِينِي عَنْ صَنِيعِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فِي بَيْتِهِ، فَذَكَرَتْ لَهُ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهُ، غَيْرَ أَنَّهَا قَالَتْ: «
كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ بَيْتِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا دَخَلَ دَارَهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يَدَعُ ذَلِكَ أَبَدًا» وَكَانَ ثَابِتٌ لَا يَدَعُ ذَلِكَ فِيمَا ذَكَرَ لَنَا بَعْضُ مَنْ يُخَالِطُ أَهْلَهُ، وَفِيمَا رَأَيْنَا مِنْهُ
(الزهد والرقائق لابن المبارك
۱۔۴۵۴)
یہ اعلی درجہ کی صحیح سند ہے ۔
حافظ ذہبیؒ نے بھی یہ واقعی سیر ۱۔۲۳۳ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے ترجمہ میں نقل کیا ہے ۔
اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اصابۃ ۶۔۱۴۰ پہ ان کے ترجمہ میں نقل کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح بھی فرمایا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر شیخ صالح المنجدؒ نے اگرچہ روایت پر جرح کی ہے لیکن اس عمل کے بارے میں وہ بھی نرم رویہ ہی رکھتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے بعد میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ
ومع ضعف الأحاديث الواردة في شأن هذه الصلاة ، إلا أن كثيراً من العلماء قالوا بمشروعيتها ، ولعل سبب ذلك ، تعدد الأحاديث الواردة فيها ، مع ورود ذلك أيضاً عن بعض الصحابة رضي الله عنهم .
وقد بوب ابن أبي شيبة في "مصنفه" (2 / 81) :
" الرجل يريد السَّفَرَ ، مَنْ كَانَ يسْتَحبُّ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ خُرُوجِهِ " .
وروى فيه حديث المطعم بن مقدام السابق . ثم روى هذه الصلاة عن علي وابن عمر والحارث بن أبي ربيعة رضي الله عنهم ، وذكر أن الحارث صلى هذه الصلاة ، وصلى معه نفر منهم الأسود بن يزيد .
وقد ذكر استحباب هذه الصلاة غير واحد من أهل العلم ، من المذاهب الأربعة

یعنی اس بارے میں احادیث میں ضعف ہونے کے باوجود علماء کی اکثریت اس کی مشروعیت کی قائل ہے ۔ شاید اس کا سبب اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں
اور بعض صحابہؓ سے بھی یہ مروی ہے ۔
جیسا کہ ابن ابی شیبہؒ نے اس عمل پر استحباب کا باب قائم کیا ہے اور اس میں صحابہؓ اور ائمہ کا عمل نقل کیا ہے ۔
اور اس کے استحباب کے مذاہب اربعہ کے کئی علما بھی قائل ہیں ۔ آگے انہوں نے مذاہب اربعہ کی کتب کے حوالے نقل کئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
73
اگر کسی بھائی کو اس کی تصحیح سے اتفاق نہ ہو تو انتہائی جملے تو نہ بولیں کہ یہ حدیث نبی ﷺ سے ثابت ہی نہیں۔
محترم بھائی جملے کو انتہائی بنانے سے پہلے دوبارہ پڑھ لیں ، آپ کے باقی اعتراضات کا جواب وقت فرصت پہ اٹھا رکھتے ہیں ۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
محترم بھائی جملے کو انتہائی بنانے سے پہلے دوبارہ پڑھ لیں ،
محترم بھائی اس حدیث کی صحت و ضعف میں اہل علم کا اختلاف ہے ، راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ۔ جیسا کہ ذہبی زمان علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ نے اس پر جاندار نقد کیا ہے ، اسی طرح شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ یہ لائق عمل نہیں ، شیخ محمد بن صالح المنجد رحمہ اللہ نے تین علتوں کی بنیاد پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
بات آپ كی ٹھیک ہے ۔ میں معذرت خواہ ہوں ۔
اصل میں سیاق و سباق سے ساری وضاحت ہو جاتی ہے ۔
لیکن میں چونکہ عامی آدمی ہوں ۔۔ اس لئے ایک ایسی حدیث جس میں بقول آپ کے اہل علم کا اختلاف ہے ۔ اس لئے وہم سا ہوجا تا ہے کہ یہ حدیث نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ۔۔الفاظ سے موضوع کا گمان ہو جاتا ہے کیونکہ یہ الفاظ موضوع کے لئے ہی زیادہ تر بولے جاتے ہیں ۔ اگرچہ ضعیف کے لئے بھی بعض بولتے ہیں۔
صرف ضعیف کہنے سے یہ گمان مجھ جیسے اور دوسرے اردو پڑھنے والے عامی کو نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
اس لئے اگر آپ یوں کہہ دیتے تو آپ کے سیاق و سباق سے بھی موافقت ہو جاتی ۔۔میرے خیال میں ۔۔
’’ اس حدیث کی صحت و ضعف میں اہل علم کا اختلاف ہے ، راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ جیسا کہ ذہبی زمان علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ نے اس پر جاندار نقد کیا ہے ، اسی طرح شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ یہ لائق عمل نہیں ، شیخ محمد بن صالح المنجد رحمہ اللہ نے تین علتوں کی بنیاد پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے‘‘ ۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 07، 2011
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
57
پوائنٹ
73
بات آپ كی ٹھیک ہے ۔ میں معذرت خواہ ہوں ۔
پیارے بھائی ! معذرت والی کوئی بات نہیں ، باری تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے ، بس ہم سب کو (بشمول میرے) اپنے رویوں کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے ۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
آپ کے باقی اعتراضات کا جواب ۔
احسان بھائی۔
یہ تحریر کوئی دوسرے پر اعتراضات نہیں ۔۔۔بلکہ اپنے موقف کی وضاحت اور اس پر سے اعتراض دور کرنا ہیں۔
میری کوئی تحریر قابل جواب بالکل نہیں ہوتی ۔البتہ چونکہ میں عامی ناقل ہوں ۔ اس لئے کہیں اپنی رائے یا تاویل ، یا زبردستی، زیادتی ، کمی اورغلطی کا بہت اندیشہ ہے ۔ اس لئے یہ قابل اصلاح بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
بیشک ہم سب کو اصلاح کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔
 
Last edited:
Top