اگر کسی بھائی کو اس کی تصحیح سے اتفاق نہ ہو تو انتہائی جملے تو نہ بولیں کہ یہ حدیث نبی ﷺ سے ثابت ہی نہیں۔ بس یہ کہیں کہ آپ کی تحقیق میں یہ ضعیف ہے ۔
اور مجھے اس کے ضعف سے اتفاق نہیں ہوسکا ۔ بلکہ یہ صحیح ہے ۔
اس پر کئے گئے اعتراضات میں بہت سختی ہے ۔
بکر لم یوثقہ احد۔۔۔
یہ عجیب بات ہے ۔ بلکہ کہنا چاہیے ۔۔۔لم يضعفه احد
کیا حافظ ابن حجرؒ کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ۔
انہوں نے تقریب ۱۔۱۲۷ میں’’ صدوق عابد ‘‘ کہا ہے ۔
اور اس کے علاوہ حافظ ذہبیؒ نے تو بہت اونچے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جو یقیناََ شیخ معلمیؒ کی نظر میں نہیں آسکے۔
بَكْرُ بنُ عَمْرٍو المَعَافِرِيُّ المِصْرِيُّ ** (خَ، م، د، س، ت)
أَحَدُ الأَعْلاَمِ۔۔۔حَدَّثَ عَنْهُ ۔۔۔ يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ۔۔۔
وَكَانَ ثِقَةً، ثَبْتاً، فَاضِلاً، مُتَأَلِّهاً، كَبِيْرَ القَدْرِ، إِمَامَ جَامِعِ الفُسْطَاطِ.
سیراعلام النبلاء ۶۔۲۰۳
وليس له في البخاري إلا حديث واحد ( متابعة۔۔۔
وليس له عند مسلم إلا حديث واحد ... ، ثم أخرجه مسلم من وجه آخر، فروايته عن بكر في معنى المتابعة۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیامتابعات میں یہ شرط ہوتی ہے کہ وہ ضعیف ہی ہوتی ہے ۔
بلکہ صحیح مسلم کی صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روایت متابعت میں نہیں ہے ۔
کیونکہ اس باب میں دو ہی روایتیں ہیں ۔ اور بکر کی روایت پہلے نقل کی ہے ۔
بعد میں دوسری۔۔۔۔۔ جیسا کہ شیخ معلمیؒ کے الفاظ میں بھی ہے ۔
اسی لئے حافظ ذہبی ؒ میزان ۱۔۳۴۷ میں فرماتے ہیں۔
واحتج به الشيخان ۔۔۔
ويحيى بن أيوب تكلم فيه غير واحد من أهل العلم : منهم الإمام أحمد والنسائي والساجي وأبو أحمد الحاكم والدارقطني وغيرهم . وقال ابن سعد منكر الحديث .
یحیی بن ایوبؒ ثقہ ۔ بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔بعض کے خیال میں بخاری میں ان کی حدیث متابعت میں ہے ۔
حافظ ؒ نے امام بخاریؒ سے صراحتاََ بھی ان کا ثقہ ہونا نقل کیا ہے ۔
وقال الترمذي: عن البخاري ثقة
تھذیب ۱۱۔۱۸۷
بہر حال صحیح مسلم میں ان کی روایت اصول میں ہے ۔
اکثر ائمہ ان کی توثیق ہی کرتے ہیں ۔
جن بعض کا نام لیا گیا ہے کہ انہوں نے ان پر کلام کیا ہے ۔وہ بھی سخت نہیں ہے ۔۔۔امام احمدؒ ، امام نسائیؒ ، حافظ دارقطنیؒ کی آرا کو اگر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے نزدیک ضعیف پھر بھی نہیں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام احمدؒ نے ابو طالبؒ کی روایت میں ضعیف یخطیٔ کثیرا ۔۔۔کہا ہے ۔ لیکن یہ دوسری روایات کے خلاف ہے جس میں بہت نرم جرح ہے ۔
اور ان کے بیٹے کی روایت میں سی الحفظ کے الفاظ ہیں ۔ لیکن وضاحت ہے کہ ان سے تین راویوں کے بارے میں پوچھا گیا ۔
سُئِلَ أبي وَأَنا أسمع عَن حَيْوَة بن شُرَيْح وَسَعِيد بن أبي أَيُّوب وَيحيى بن أَيُّوب
فَقَالَ حَيْوَة أَعلَى الْقَوْم ثِقَة
۔۔۔۔۔۔۔سَعِيد بن أبي أَيُّوب لَيْسَ بِهِ بَأْس
وَيحيى بن أَيُّوب دونهم فِي الحَدِيث فِي الْحِفْظ
قَالَ أبي وَكَانَ يحيى بن أَيُّوب يجلس إِلَى اللَّيْث بن سعد وَكَانَ سيء الْحِفْظ وَهُوَ دون هَؤُلَاءِ وحيوة بن شُرَيْح بعد وَهُوَ أعلاهم
العلل۔ ابنہ ۳۔۵۲
اور یہ دونوں راوی جن سے موازنہ کیا گیا ہے بالکل ثقہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ کم درجہ حافظ ہیں۔
اسی طرح سیراعلام النبلا ۸۔۸ پہ بھی امام احمدؒ کی ایک روایت ہے ۔
سُئِلَ عَنْ يَحْيَى بنِ أَيُّوْبَ المِصْرِيِّ، فَقَالَ:
كَانَ يُحَدِّثُ مِنْ حِفْظِهِ، وَكَانَ لاَ بَأْسَ بِهِ،
وَكَأَنَّهُ ذَكَرَ الوَهْمَ فِي حِفْظِهِ، فَذَكَرتُ لَهُ مِنْ حَدِيْثِهِ عَنْ يَحْيَى بنِ سَعِيْدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:
أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كَانَ يَقْرَأُ فِي الوَتْرِ ... ، فَقَالَ: هَاء، مَنْ يَحْتَمِلُ هَذَا؟
قَالَ العُقَيْلِيُّ: وَهَذَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ العَلاَّفُ، حَدَّثَنَا سَعِيْدُ بنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ، عَنْ يَحْيَى بنِ سَعِيْدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:
كَانَ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الأُوْلَى مِنَ الوَتْرِ: بِـ {سَبِّحِ} ، وَفِي الثَّانِيَةِ: بِـ {قُلْ يَا أَيُّهَا الكَافِرُوْنَ} ، وَفِي الثَّالِثَةِ: بِـ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} ، وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الفَلَقِ} ، وَ {قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
یہ وتر والی حدیث حاکمؒ نے مستدرک ۲۔۵۶۶ پہ بھی روایت کی ہے
اور اسے علی شرط الشیخین فرمایا ہے ۔ ذہبیؒ نے موافقت کی ہے ۔ اور اس کا متابع بھی ہے ۔ یعنی یحیی کی یہ حدیث بھی صحیح ہے ۔
بہرحال امام احمدؒ کے نزدیک وہم بھی ہو تو پھر بھی راوی مطلق ضعیف نہیں ۔
اسی لئے لا باس بہ بھی فرمایا ہے ۔
اسی طرح حربؒ کی روایت میں صالح کہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام نسائی نے ان کے بارے میں لیس بذاک القوی فرمایا ہے ۔ جو لیس بالقوی کے مشابہ ہے ۔ اور حافظ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ بھی اس کو لیس بالقوی ہی نقل کرتے ہیں ۔ یہ کوئی قوی جرح نہیں ہے ۔ یہ تو بس یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ راوی کوئی بہت اونچے درجے کا نہیں ۔ یہ بات امام نسائی ؒ نے صراحتاََ بھی فرمائی ہے کہ ان کا لیس بالقوی کہنا جرح مفسد نہیں ہے ۔جیسا کہ الموقظہ الذہبی میں ہے ۔ اور حافظ ابن حجرؒ بھی اس کو نرم جرح کہتے ہیں۔
اور سنن نسائی میں ان کی کئی احادیث ہیں ۔ کہیں پر ان پر کوئی کلام نہیں کیا ۔
بلکہ ابواب کی صنیع سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی حدیث سے احتجاج ہی کرتے ہیں ۔
مثلاََ کتاب الجہاد میں کئی ابواب ہیں ان کے تحت احادیث ہیں ۔
سنن نسائی ۶۔۲۹ط حلب۔ کتاب الجہاد
ایک عنوان قائم کیا ہے
مَا يَقُولُ مَنْ يَطْعَنُهُ الْعَدُوُّ
جس وقت دشمن زخم لگائے تو کیا کہنا چاہیے؟
اس کے تحت صرف ایک ہی حدیث ہے اور وہ یحیی بن ایوب کی سند سے ہے ۔
ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَذَکَرَ آخَرَ قَبْلَهُ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ کی سند سے لمبی حدیث میں یہ الفاظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَقَاتَلَ طَلْحَةُ قِتَالَ الْأَحَدَ عَشَرَ حَتَّی ضُرِبَتْ يَدُهُ فَقُطِعَتْ أَصَابِعُهُ فَقَالَ حَسِّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللَّهِ لَرَفَعَتْکَ الْمَلَائِکَةُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ ثُمَّ رَدَّ اللَّهُ الْمُشْرِکِينَ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ حضرت طلحہؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ہاتھ پر ایک زبردست زخم لگا اور ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ انہوں نے کہا حش (یہ جملہ درد اور تکلیف کے وقت بولا جاتا ہے) رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہتے (جب تم کو زخم لگا تھا) تو تم کو فرشتے اٹھاتے اور تم کو لوگ دیکھتے رہتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا رخ موڑ دیا۔
اور اس روایت پر نہ تو ان کا کوئی کلام ہے ۔ اور نہ کوئی دوسری سند ہے کہ متابعت کا اندیشہ ہو۔
اسی لئے ذہبیؒ اور ابن حجرؒ نے جو نسائیؒ سے لیس بالقوی نقل کیا ہے جو بہت نرم جرح ہے اس کے ساتھ ہی لیس بہ باس بھی نقل کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ دار قطنیؒ نے سنن ۱۔۱۱۳ میں ان کے بارے میں فِي بَعْضِ أَحَادِيثِهِ اضْطِرَابٌ کہا ہے۔
لیکن ان سے بھی مختلف روایتیں ہیں ۔ انہوں نے ان کو صراحتاََ ثقہ بھی کہا ہے ۔دیکھیے العلل ۱۴۔۹۵
اور سنن۳۔۱۲۸ پہ ایک حدیث جس کی سند میں یحیی موجود ہیں۔۔ کے بارے میں یہ فرمایا ہے ۔
تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّادٍ , عَنِ الْمُفَضَّلِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ , وَكُلُّهُمْ ثِقَاتٌ
سنن ۳۔۱۷۵پہ ان کی روایت کے بارے میں فرمایا۔
هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ
لہذا۔۔حافظ دارقطنیؒ کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ان کے نزدیک ضعیف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شك بكر بن عمرو فيه
اول تو مسند الفردوس دیلمی میں یہ شک کے بغیر ہے ۔
يحيى بن أيوب ، عن بكر بن عمرو ، عن صفوان بن سليم ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرةؓ۔۔۔۔
(الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس مما ليس في الكتب المشهورة - مخطوط
المؤلف : حافظ ابن حجر العسقلاني ۱۔۳۳۳)
لیکن اگر ہو بھی تو حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں
حديث حسن ولولا شك بكر لكان على شرط الصحيح
(فیض القدیر المناوی۱۔۳۳۴۔۔۔۔اتحاف السادۃ المتقین الزبیدی ۔۳۔۴۶۵)
حافظ الھیثمیؒ نے مجمع الزوائد ۲۔۲۸۳،۲۸۴ پہ اس کے تمام رجال کی توثیق کی ہے ۔
اور حافظ ابن حجرؒ نے مختصر زوائد مسند البزار ۱۔۳۲۷ میں ان کی موافقت کی ہے ۔
ا س کتاب میں حافظ الھیثمیؒ سے کوئی اختلاف ہو تو وہ بیان کر دیتے ہیں ۔
پھر امام بیہقیؒ بھی شعب ۴۔۴۶۱میں اس کی تصحیح کی طرف مائل ہیں ۔
حافظ سیوطی ؒ نے جامع الصغیر میں حسن کی علامت لگائی ہے ۔ اور علامہ مناویؒ نے فیض القدیر ۱۔۳۳۴۔۔۔اور عزیزیؒ ۔۔۔نے السراج المنیر ۱۔۱۱۵۔۔۔ میں موافقت کی ہے ۔
عبد الحق الاشبیلیؒ ۵۸۱ھ نے کتاب التہجد۱۳۱ پہ اس روایت کو استحباب میں پیش کیا ہے ۔
ابن عراق ؒ نے بھی تنزيه الشريعة ۲۔۱۰۹،۱۱۰ پہ اس کی تحسین کی ہے ۔
حافظ مرتضی الزبیدیؒ ۔۔۔شرح احیا ء العلوم ۳۔۴۶۴،۴۶۵پہ اس کی تحسین کی طرف مائل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یہ عمل صحابہؓ ، تابعین ؒ سے بھی ثابت ہے ۔ مثلاََ
بدری صحابی ۔حضرت عبد اللہ بن رواحۃ ۔ رضی اللہ عنہ
اور الإِمَامُ، القُدْوَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ۔۔ تابعی ۔۔ثابت البنانیؒ
ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَةَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فَقَالَ لَهَا: تَدْرِينَ لِمَ تَزَوَّجْتُكِ؟ لِتُخْبِرِينِي عَنْ صَنِيعِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، فِي بَيْتِهِ، فَذَكَرَتْ لَهُ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهُ، غَيْرَ أَنَّهَا قَالَتْ: «كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ بَيْتِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا دَخَلَ دَارَهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَإِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَا يَدَعُ ذَلِكَ أَبَدًا» وَكَانَ ثَابِتٌ لَا يَدَعُ ذَلِكَ فِيمَا ذَكَرَ لَنَا بَعْضُ مَنْ يُخَالِطُ أَهْلَهُ، وَفِيمَا رَأَيْنَا مِنْهُ
(الزهد والرقائق لابن المبارك ۱۔۴۵۴)
یہ اعلی درجہ کی صحیح سند ہے ۔
حافظ ذہبیؒ نے بھی یہ واقعی سیر ۱۔۲۳۳ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کے ترجمہ میں نقل کیا ہے ۔
اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اصابۃ ۶۔۱۴۰ پہ ان کے ترجمہ میں نقل کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح بھی فرمایا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر شیخ صالح المنجدؒ نے اگرچہ روایت پر جرح کی ہے لیکن اس عمل کے بارے میں وہ بھی نرم رویہ ہی رکھتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے بعد میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ
ومع ضعف الأحاديث الواردة في شأن هذه الصلاة ، إلا أن كثيراً من العلماء قالوا بمشروعيتها ، ولعل سبب ذلك ، تعدد الأحاديث الواردة فيها ، مع ورود ذلك أيضاً عن بعض الصحابة رضي الله عنهم .
وقد بوب ابن أبي شيبة في "مصنفه" (2 / 81) :
" الرجل يريد السَّفَرَ ، مَنْ كَانَ يسْتَحبُّ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ قَبْلَ خُرُوجِهِ " .
وروى فيه حديث المطعم بن مقدام السابق . ثم روى هذه الصلاة عن علي وابن عمر والحارث بن أبي ربيعة رضي الله عنهم ، وذكر أن الحارث صلى هذه الصلاة ، وصلى معه نفر منهم الأسود بن يزيد .
وقد ذكر استحباب هذه الصلاة غير واحد من أهل العلم ، من المذاهب الأربعة
یعنی اس بارے میں احادیث میں ضعف ہونے کے باوجود علماء کی اکثریت اس کی مشروعیت کی قائل ہے ۔ شاید اس کا سبب اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں
اور بعض صحابہؓ سے بھی یہ مروی ہے ۔
جیسا کہ ابن ابی شیبہؒ نے اس عمل پر استحباب کا باب قائم کیا ہے اور اس میں صحابہؓ اور ائمہ کا عمل نقل کیا ہے ۔
اور اس کے استحباب کے مذاہب اربعہ کے کئی علما بھی قائل ہیں ۔ آگے انہوں نے مذاہب اربعہ کی کتب کے حوالے نقل کئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔