السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اہم امور کی طرف محترم یوسف ثانی صاحب نے نشاندہی کردی ، فجزاہ اللہ تعالی خیراً
اس سلسلے میں ایک فتوی بھی ملاحظہ کریں :
سوال :
ما حدود العورة بين الأخت وأخيها ؟ وما العورة بين البنت وأمها أو أختها ؟ .
سوال :
بہن اور بھائى كا آپس ميں كيا ستر ہے، اور ماں بيٹى اور بہن ميں ستر كيا ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب ::
الحمد لله
أولا :
عورة المرأة أمام محارمها كالأب والأخ وابن الأخ هي بدنها كله إلا ما يظهر غالبا كالوجه والشعر والرقبة والذراعين والقدمين ، قال الله تعالى : ( وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ ) النور/31 .
اول:
عورت كا اپنے محرم مرد مثلا والد، بيٹا، اور بھائى كے سامنے مكمل بدن ستر ہے، صرف وہى ظاہر كر سكتى ہے جو غالبا ظاہر رہتى ہوں، مثلا چہرہ بال اور گردن، دونوں بازو، اور قدم.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور وہ اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے خسر كے، يا اپنے لڑكوں كے، يا اپنے خاوند كے لڑكوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل كى عورتوں كے.... ﴾النور ( 31 )
فأباح الله تعالى للمرأة أن تبدي زينتها أمام بعلها ( زوجها ) ومحارمها ، والمقصود بالزينة مواضعها ، فالخاتم موضعه الكف ، والسوار موضعه الذراع ، والقرط موضعه الأذن ، والقلادة موضعها العنق والصدر ، والخلخال موضعه الساق .
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كے ليے اپنى زينت كو اپنے خاوند، اور اپنے محرم مرد كے سامنے ظاہر كرنا مباح كي ہے، اور زينت سے مراد زينت والى جگہيں اور اعضاء ہيں، تو انگوٹھى كى جگہ ہتھيلى ہے، اور كنگن اور چوڑيوں كى جگہ بازو ہے، اور بالى كى جگہ كان ہيں، اور ہار كى جگہ گردن اور سينہ ہے، اور پازيب كى جگہ ٹخنے ہيں.
قال أبو بكر الجصاص رحمه الله في تفسيره : " ظاهره يقتضي إباحة إبداء الزينة للزوج ولمن ذكر معه من الآباء وغيرهم ، ومعلوم أن المراد موضع الزينة وهو الوجه واليد والذراع ...
فاقتضى ذلك إباحة النظر للمذكورين في الآية إلى هذه المواضع ، وهي مواضع الزينة الباطنة ؛ لأنه خص في أول الآية إباحة الزينة الظاهرة للأجنبيين ، وأباح للزوج وذوي المحارم النظر إلى الزينة الباطنة . وروي عن ابن مسعود والزبير : القرط والقلادة والسوار والخلخال ...
وقد سوى في ذلك بين الزوج وبين من ذكر معه ، فاقتضى عمومه إباحة النظر إلى مواضع الزينة لهؤلاء المذكورين كما اقتضى إباحتها للزوج " انتهى .
ابو بكر جصاص رحمہ اللہ اپنى تفسير ميں كہتے ہيں:
اس سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ خاوند اور اس كے ساتھ ذكر كردہ محرم مردوں كے سامنے زينت كا اظہار كرنا مباح ہے، يہ معلوم ہے كہ زينت والى جگہيں چہرہ اور ہاتھ اور بازو ہيں.۔۔۔۔۔۔۔
..... ا سكا تقاضہ يہ ہے كہ آيت ميں مذكور اشخاص كا ان جگہوں كو ديكھنا مباح ہے، جو كہ باطنى زينت كے مقام ہيں؛ كيونكہ آيت كے شروع ميں اجنبيوں كے ليے ظاہرى زينت كو مباح كيا ہے، اور خاوند اور محرم مردوں كے ليے باطنى زينت كو ديكھنا مباح كيا ہے، اور ابن مسعود اور زبير رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے كہ اس سے مراد بالياں، ہار، كنگن اور پازيب ہيں.....
اور اسميں خاوند اور اس كے ساتھ ذكر كردہ كو برابر كيا ہے، تو اس عموم كا تقاضہ ہے كہ اس زينت والى جگہوں كو ان مذكورين كے ليے ديكھنا بھى اسى طرح مباح ہے جس طرح خاوند كے ليے " انتہى.
اور امام محی السنہ بغوی
وقال البغوي رحمه الله : " قوله تعالى : ( ولا يبدين زينتهن ) أي لا يظهرن زينتهن لغير محرم ، وأراد بها الزينة الخفية ، وهما زينتان خفية وظاهرة ، فالخفية : مثل الخلخال ، والخضاب في الرِّجْل ، والسوار في المعصم ، والقرط والقلائد ، فلا يجوز لها إظهارها ، ولا للأجنبي النظر إليها ، والمراد من الزينة موضع الزينة " انتهى
اورامام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ تعالى:
﴿ اور وہ اپنى زينت ظاہر نہ كريں ﴾.
يعنى وہ اپنى زينت غير محرم كے ليے ظاہر نہ كريں، اور اس سے مراد خفيہ زينت ہے، ايك تو خفيہ زينت ہے، اور دوسرى ظاہرى، خفيہ زينت ميں پاؤں ميں پازيب، اور كلائى ميں كنگن، اور كانوں ميں بالياں، اور گردن ميں ہار شامل ہے، تو اجنبى شخص كے ليے يہ ظاہر كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اجنبى كے ليے ان مقامات كو ديكھنا مباح ہے، اور زينت سے مراد زينت والى جگہ ہے " انتہى.
وقال في "كشاف القناع" (5/11) : " ولرجل أيضا نظر وجه ورقبة ويد وقدم ورأس وساق ذات محارمه . قال القاضي على هذه الرواية : يباح ما يظهر غالبا كالرأس واليدين إلى المرفقين " انتهى
اور (فقہ حنبلی کی کتاب )كشاف القناع ميں لكھا ہے:
" اور محرم مرد كے ليے عورت كا چہرہ، گردن، ہاتھ، اور پاؤں، اور سر اور پنڈلى ديكھنى جائز ہے، قاضى رحمہ اللہ اس روايت پر كہتے ہيں: جو غالب ميں ظاہر ہوتا ہے مثلا سر، كہنيوں تك ہاتھ ديكھنا مباح ہيں " انتہى( كشاف القناع ( 5 / 11 ).
وهؤلاء المحارم متفاوتون في القرب وأمن الفتنة ، ولهذا تبدي المرأة لأبيها ما لا تبديه لولد زوجها ، قال القرطبي رحمه الله : " لما ذكر الله تعالى الأزواج وبدأ بهم ثنّى بذوي المحارم وسوى بينهم في إبداء الزينة ، ولكن تختلف مراتبهم بحسب ما في نفوس البشر ، فلا مرية أن كشف الأب والأخ على المرأة أحوط من كشف ولد زوجها . وتختلف مراتب ما يُبدى لهم ، فيبدى للأب ما لا يجوز إبداؤه لولد الزوج " انتهى .
ثانيا :
المقرر عند الفقهاء أن عورة المرأة مع المرأة هي ما بين السرة والركبة ، سواء كانت المرأة أما أو أختا أو أجنبية عنها ، فلا يحل لامرأة أن تنظر من أختها إلى ما بين السرة والركبة إلا عند الضرورة أو الحاجة الشديدة كالمداواة ونحوها .
وهذا لا يعني أن المرأة تجلس بين النساء كاشفة عن جميع بدنها إلا ما بين السرة والركبة ، فإن هذا لا تفعله إلا المتهتكات المستهترات ، أو الفاسقات الماجنات ، فلا ينبغي أن يساء فهم
قول الفقهاء : " العورة ما بين السرة والركبة " فإن كلامهم ليس فيه أن هذا هو لباس المرأة ، الذي تداوم عليه ، وتظهر به بين أخواتها وقريناتها ، فإن هذا لا يقره عقل ، ولا تدعو إليه فطرة .
بل لباسها مع أخواتها وبنات جنسها ينبغي أن يكون ساترا سابغا ، يدل على حيائها ووقارها ، فلا يبدو منه إلا ما يظهر عند الشغل والخدمة ، كالرأس والعنق والذراعين والقدمين ، على نحو ما ذكرنا في مسألة المحارم .
وللجنة الدائمة للإفتاء فتوى في بيان ما يجوز للمرأة كشفه أمام محارمها وأمام النساء ، سبق أن نقلناها في جواب السؤال رقم (34745) .
نسأل الله لنا ولك التوفيق والسداد
اور يہ محرم مرد قرب اور فتنہ سے امن كے متعلق ايك دوسرے سے فرق ركھتے ہيں، اسى ليے عورت اپنے والد كے ليے وہ كچھ ظاہر كرسكتى ہے جو اپنے خاوند كے بيٹے كے ليے ظاہر نہيں كرتى.
علامہ قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوندوں كا ذكر كيا اور ان سے ابتدا كى تو پھر اس كے بعد دوسرى چيز محرم مردوں كو ذكر كيا، اور ان سب كے سامنے زينت كے اظہار ميں برابرى بيان كى، ليكن نفس بشر ميں ان كے مختلف ہونے كى بنا پر ان كے مراتب بھى مختلف ہيں، اس ليے بلاشك عورت كا اپنے والد اور بھائى كے سامنے ان اعضاء كو ظاہر كرنا اپنے خاوند كے بيٹے كے سامنے ظاہر كرنے سے زيادہ محتاط ہے، اور ان كے ليے جو چيز ظاہر كى جائيگى اس كے مراتب مختلف ہيں، چنانچہ والد كے سامنے وہ كچھ ظاہر كرنا جائز ہے، جو اپنے خاوند كے بيٹے كے سامنے جائز نہيں " انتہى.
دوم:
فقھاء كے ہاں يہ بات مقرر كردہ ہے كہ عورت كا عورت كے سامنے ستر گھٹنے سے ليكر ناف تك ہے، چاہے وہ عورت بہن ہو يا كوئى اجنبى، اس ليے كسى بھى عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى بہن كے سامنے گھٹنے سے ليكر ناف تك كو ظاہر نہ كرے، ليكن شديد قسم كى ضرورت مثلا علاج معالجہ وغيرہ كے ليے ايسا كر سكتى ہے.
ا سكا يہ معنى نہيں كہ عورت دوسروں عورتوں كے سامنے گھٹنے اور ناف كے علاوہ باقى جسم ننگا كر كے بيٹھے، كيونكہ ایسا تو وہ عورتيں ہى كرتى ہے جو بے پرد اور عفت و عصمت نہيں ركھتيں، يا پھر فاسق فاجر اور فاحش عورتوں كا كام ہے، اس ليے غلط سمجھ اور مفہوم نہيں لينا چاہيے.
فقھاء كا يہ قول:
" گھٹنے سے ناف تك ستر ہے "
ا نكى اس كلام ميں يہ نہيں كہ يہ عورتوں كا لباس ہے، جس پر وہ عمل كرے، اور اپنى سہيليوں اور دوسرى عورتوں كے سامنے ظاہر كرے يہ ايسى چيز ہے جس كا كوئى بھى عقل اقرار نہيں كرتى، اور نہ ہى فطرت سليمہ اس كى طرف بلاتى ہے.
بلكہ عورت كا اپنى بہن اور اپنى جنس كى دوسرى عورتوں كے سامنے لباس پورا ساتر اور بدن چھپانے والا اور عزت و حشمت پرمشتمل ہو، جو اس كى شرم و حياء اور وقار كى دليل بنے، كام كاج اور خدمت كرتے وقت جو اعضاء ظاہر ہوتے ہيں، مثلا سر، گردن، بازو، اور قدم كے علاوہ كچھ اور ظاہر نہ ہو، جيسا كہ ہم محرم كے مسئلہ ميں ذكر كر چكے ہيں.
مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كا بھى محرم مرد اور عورتوں كے سامنے عورت كے ليے كيا ظاہر كرنا جائز ہے كے متعلق ايك فتوى جارى ہوا ہے جسے ہم سوال نمبر ( 34745 ) كے جواب ميں نقل كر چكے ہيں، آپ اس كا مطالعہ كريں.
ہم اللہ تعالى سے اپنے اور آپ كے ليے سيدھى راہ اور اس پر ثابت قدمى كى دعا كرتے ہيں.
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب