کیا اوپر گھر میں کوڑا لٹکانے والی روایات صحیح ہیں ان کی تحقیق مطلوب ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
پیارے بھائی !
پہلی بات تو یہ کہ آپ عنوان غلط لکھا ۔۔۔آپ نے ۔۔کوڑا کرکٹ ۔۔لکھ دیا ۔۔اور اردو میں ۔۔کوڑا کرکٹ ۔۔کچرے کو کہا جاتا ہے ؛
یہاں مارنے کیلئے استعمال ہونے والا ’’ کوڑا ‘‘ مراد ہے ،یعنی لاٹھی ۔
بہرحال آپ کی پوچھی گئی پہلی روایت مسند احمد میں (حدیث نمبر : 22075 )ہے :
عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة وإياك والمعصية فإن بالمعصية حل سخط الله عز وجل وإياك والفرار من الزحف وإن هلك الناس وإذا أصاب الناس موتان وأنت فيهم فاثبت وأنفق على عيالك من طولك ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله. رواه أحمد
" سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، چنانچہ فرمایا : (١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے اور جلا دیا جائے (٢) اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اور مال چھوڑ دینے کا حکم دیں (٣ ) جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑو کیونکہ جو آدمی عمداً نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں (٤) شراب مت پیو کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے (٥) اللہ کی نافرمانی اور گناہ سے بچو کیونکہ نافرمانی کرنے سے اللہ کا غصہ اتر آتا ہے۔ (٦) جہاد میں دشمنوں کو ہرگز پیٹھ نہ دکھلاؤ اگرچہ تمہارے ساتھ کے تمام لوگ ہلاک ہو جائیں۔ (٧) جب لوگوں میں موت (وباء کی صورت میں) پھیل جائے اور تم ان میں موجود ہو تو ثابت قدم رہو یعنی ان کے درمیان سے بھاگو مت (٨) اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔ (٩) اور اپنے گھر والوں پر سے اپنا عصا نہ ہٹاؤ (١٠) اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہو ‘‘ انتہی
(مسند احمد بن حنبل: 22075 )
یعنی اہل و عیال میں سے کسی کو سزاء ضروری ہو تو اس سے پہلو تہی نہ کرو اور ان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہا کرو اور دین کے احکام و مسائل کی تعلیم دیا کرو اور ان کو بری باتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔"
لیکن ادب کیلئے کوڑا نہ ہٹانے کا مطلب یہ بھی حسب موقع ان کی تربیت و اصلاح سے غفلت نہ کرو ۔یہ مراد نہیں کہ ہر وقت کوڑا اٹھائے مارنے کیلئے آمادہ رہو ۔
ــــــــــــــــــــــــــ
یہ حدیث اس سند اور متن سے ضعیف ہے ۔ اس کی تخریج میں علامہ شعیب ارنؤط و اصحابہ لکھتے ہیں :
إسناده ضعيف لانقطاعه، عبد الرحمن بن جبير بن نفير لم يدرك معاذاً.
وأخرجه بنحوه الطبراني في "الكبير" 20/ (156) ، وفي "الشاميين" (2204) من طريق عمرو بن واقد، عن يونس بن ميسرة بن حلبس، عن أبي إدريس الخولاني، عن معاذ. وعمرو بن واقد متروك الحديث.
وأخرجه بنحوه البخاري في "الأدب المفرد" (18) ، وابن ماجه (3371) و (4034) من طريق شهر بن حوشب، عن أم الدرداء، عن أبي الدرداء. وشهر ضعيف.
وأخرج ابن حبان (524) ، والطبراني في "الكبير" 20/ (58) ، والحاكم 1/54 و4/244، والبيهقي في "الشعب" (8027) و (8028) من طريق سعيد ابن أبي سعيد المهري، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن معاذ بن جبل أراد سفراً فقال: يا نبي الله أوصني. قال: "اعبدِ الله لا تشرك به شيئاً" قال: يا نبي الله زدني. قال: "إذا أسأت فأحسن" قال: يا رسول الله زدني. قال: "استقم، وليحسن خلقك". وإسناده محتمل للتحسين.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کہ کوڑا ایسی جگہ لٹکاؤ کہ گهر والے دیکهتے رہیں,
»عبدالرزاق، طبرانی کبیر، سیوطی«
اک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالی اس بندے پر رحم فرمائیں جس نے اہل و عیال کی دینی تربیت کےلۓ اپنے گهر میں کوڑا لٹکایا,
»ابن عدی، مناوی، سیوطی«
جب بچے گهر میں داخل ہوں تو سب سے پہلے کوڑے پر نظر پڑے، گهر میں آتے جاتے ، کهیلتے کودتے کوڑا نظر آتا رہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں ۔
گھر میں ادب کا کوڑا لٹکانے کی حدیث چار صحابہ کرام ؓ سے مختلف کتابوں میں مختلف سندوں سے مروی ہے ، (جن کی تفصیل کیلئے وقت نہیں )
علامہ البانی رحمہ اللہ ( سلسلة الأحاديث الصحيحة ) میں اس کی ایک سندکو حسن کہا ہے، لکھتے ہیں ۔:
" علقوا السوط حيث يراه أهل البيت فإنه لهم أدب ".
أخرجه الطبراني في الكبير (3 / 92 / 2) من طريق سلام بن سليمان أخبرنا عيسى
وعبد الصمد أنبأنا علي بن عبد الله بن عباس عن أبيهما عن ابن عباس مرفوعا
. وسلام هذا هو أبو العباس المدائني الدمشقي قال أبو حاتم: ليس بالقوي. لكن
تابعه المهدي والد هارون الرشيد عن عبد الصمد وحده. أخرجه الخطيب (12 / 203
) وابن عساكر في " التاريخ " أيضا (13 / 307 / 2) فالحديث حسن إن شاء الله.
وقال الحافظ الهيثمي (8 / 106) : " رواه الطبراني في الكبير والأوسط
والبزار وإسناد الطبراني فيهما حسن ".
قلت: وهو عند البزار في " مسنده " (ص 249 - زوائده) من طريق مندل عن ابن
أبي ليلى عن داود بن علي بإسناده المتقدم عن ابن عباس بلفظ: " ضعوا السوط حيث
يراه الخادم ". وابن أبي ليلى سيىء الحفظ ومندل وهو ابن علي العنزي ضعيف.
(انظر الاستدراك رقم 432 / 19) .
لیکن کچھ اہل علم کے بقول اس کی ساری اسانید ضعیف ہیں ؛