- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
ہاتھوں کی محنت والی کمائی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( مَا أَکَلَ أَحَدٌ مِنْکُمْ طَعَامًا أَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ۔ ))1
'' تم میں سے کسی نے بھی ایسا کھانا نہیں کھایا جو رب تعالیٰ کو اس کی ہاتھوں کی کمائی سے زیادہ محبوب ہو۔ ''
شرح...: اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کھانا وہ پسند ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔
اسلام نے کام پر رغبت دلائی اور لوگوں سے مانگنا منع کیا ہے۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( لَأَنْ یَّأْخُذَ أَحَدَکُمْ حَبْلَہُ فَیَأْتِيْ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ عَلَی ظَھْرِہِ فَیَبِیْعَھَا فَیَکُفَّ اللّٰہُ بِھَا وَجْھَہُ، خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطُوْہُ أَوْ مَنَعُوْہُ۔))2
'' اگر کوئی اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس کو بیچے اور اللہ اس کے ذریعے اس کی آبرو بچائے رکھے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے کہ وہ دیں یا نہ دیں۔ ''
اس حدیث میں مانگنے سے بچنے پر ابھارا گیا ہے، گو انسان طلب معاش میں اپنے آپ کو حقیر سمجھتا رہے اور مشقت اٹھاتا رہے کیونکہ کمائی کی وجہ سے کام کرنے میں کوئی عار نہیں، نیز اس حدیث سے ہاتھ کے کام کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے اور کسی سے کام کروانے کی بجائے براہ راست خود کام کرنے کا مقدم ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
امام المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود محنت کرتے اور اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے تھے یہاں تک کہ مکہ والوں کی بکریاں بھی چراتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم :
(( مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا إِلاَّ رَعٰی الْغَنَمَ )) فَقَالَ أَصْحَابُہُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ، کُنْتُ أَرْعَاھَا عَلیٰ قَرَارِیْطَ لِأَھْلِ مَکَّۃَ۔ ))3
'' اللہ تعالیٰ نے کوئی پیغمبر ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چرائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں چند قیراط اجرت پر مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1مسند أحمد، رقم: ۱۷۱۱۵، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ صحیح۔
2 أخرجہ البخاري في کتاب الزکوٰۃ، باب: الاستعفاف عن المسألۃ، رقم: ۱۴۷۱۔
3 أخرجہ البخاري في کتاب الإجارۃ، باب: رعي الغنم علی قراریط، رقم: ۲۲۶۲۔