حكم قبض اليدين في الصلاة
-------------------------------------------
ما حكم قبض اليدين في الصلاة ؟.
الحمد لله
أولاً : قبض اليدين في الصلاة يعني : وضع اليد اليمنى على اليسرى في حال القيام سنة من سنن الصلاة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وقال بها جماهير أهل العلم .
قال ابن قدامة رحمه الله :
" أما وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة : فمن سنتها في قول كثير من أهل العلم , يروى ذلك عن علي وأبي هريرة والنخعي وأبي مجلز وسعيد بن جبير والثوري والشافعي وأصحاب الرأي , وحكاه ابن المنذر عن مالك " انتهى .
"المغني" (1/281) .
وقال علماء اللجنة الدائمة :
" القبض في الصلاة وضع كف اليد اليمنى على اليد اليسرى ، والسدل في الصلاة إرسال اليدين مع الجانبين ، وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه وضع يده اليمنى على اليسرى في الصلاة حال القيام للقراءة ، وحال القيام بعد الرفع من الركوع ، وذلك فيما رواه أحمد ومسلم عن وائل بن حجر رضي الله عنه ( أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل في الصلاة وكبر ، ثم التحف بثوبه ، ثم وضع اليمنى على اليسرى ، فلما أراد أن يركع أخرج يديه ثم رفعهما وكبر فركع فلما قال سمع الله لمن حمده رفع يديه فلما سجد سجد بين كفيه ) وفي رواية لأحمد وأبي داود : ( ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد ) ، وفيما رواه أبو حازم عن سهل بن سعد الساعدي قال : ( كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ) ، وقال أبو حازم : لا أعلمه إلا ينمي – أي : رفعه وينسبه - ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم . رواه أحمد والبخاري .
ولم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم في حديثٍ أنه سدل يديه وأرسلهما مع جنبيه في القيام في الصلاة " انتهى .
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366) .
ثانياً :
وأما مكان وضعهما فعلى الصدر .
روى ابن خزيمة (479) عن وائل بن حجر رضي الله عنه قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره .
صححه الألباني في "تحقيق صحيح ابن خزيمة" .
وقال الألباني في "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) :
" وضعهما على الصدر هو الذي ثبت في السنة ، وخلافه إما ضعيف أو
لا أصل له " انتهى .
وقال السندي في حاشية ابن ماجه :
" وَبِالْجُمْلَةِ فَكَمَا صَحَّ أَنَّ الْوَضْع هُوَ السُّنَّة دُون الإِرْسَال ثَبَتَ أَنَّ مَحَلّه الصَّدْر لا غَيْر ، وَأَمَّا حَدِيث : ( أَنَّ مِنْ السُّنَّة وَضْع الأَكُفّ عَلَى الأَكُفّ فِي الصَّلاة تَحْت السُّرَّة ) فَقَدْ اِتَّفَقُوا عَلَى ضَعْفه " انتهى .
وقال الشيخ ابن عثيمين :
" وهذه الصفة – أعني : وَضْع اليدين تحت السُّرَّة - هي المشروعة على المشهور مِن المذهب ، وفيها حديث علي رضي الله عنه أنه قال : ( مِن السُّنَّةِ وَضْعُ اليدِ اليُمنى على اليُسرى تحت السُّرَّةِ ) – رواه أبو داود وضعفه النووي وابن حجر وغيرهما - .
وذهب بعضُ العلماء : إلى أنه يضعها فوق السُّرة ، ونصَّ الإِمام أحمد على ذلك .
وذهب آخرون مِن أهل العِلم : إلى أنه يضعهما على الصَّدرِ ، وهذا هو أقرب الأقوال ، والوارد في ذلك فيه مقال ، لكن حديث سهل بن سعد الذي في البخاري ظاهرُه يؤيِّد أنَّ الوَضْعَ يكون على الصَّدرِ ، وأمثل الأحاديث الواردة على ما فيها من مقال حديث وائل بن حُجْر أن النبي صلى الله عليه وسلم : ( كان يضعُهما على صدرِه ) .
"الشرح الممتع" (3/36، 37) .
ثالثا ً :
وأما صفة وضعهما : فلذلك صفتان :
الأولى : أن يضع كفه اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد .
الثانية : أن يقبض بيده اليمنى على اليسرى
وانظر أدلة ذلك في جواب السؤال (41675) .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
http://islamqa.info/ar/59957
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم
سوال: نماز میں ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجوابــــــــــــــــــ
الحمد للہ:
اول:
نماز میں ہاتھ باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ : قیام کے دوران دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھے، یہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ہے، اور جمہور اہل علم نماز میں ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا : بہت سے اہل علم کے مطابق نماز کے ثابت شدہ طریقے میں شامل ہے، یہ عمل علی ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کیساتھ ساتھ نخعی، ابو مجلز، سعید بن جبیر، ثوری، شافعی اور اصحاب الرائے سے مروی ہے، ابن المنذر نے اسے مالک سے بھی نقل کیا ہے" انتہی
"المغنی" (1/281)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے:
"نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ: دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، جبکہ "سدل" یہ ہے کہ ہاتھوں کو پہلوؤں کی طرف لٹکا دیا جائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں قراءت کے وقت اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، اور اسی طرح رکوع سے اٹھنے کے بعد قومہ کی حالت میں بھی اسی طرح ہاتھ باندھے، اس عمل نبوی کو احمد، اور مسلم نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
"انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نماز میں تکبیر کیساتھ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا، پھر آپ نے اپنا کپڑا [اوپر لی ہوئی چادر وغیرہ]سمیٹ کر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، اور جس وقت رکوع میں جانے لگے تو کپڑے کے اندر سے ہاتھ باہر نکال کر رفع الیدین کیساتھ تکبیر کہی ، اور رکوع میں چلے گئے، پھر جب "سمع اللہ لمن حمدہ" کہا تو پھر رفع الیدین کیا، اور جب آپ سجدے میں گئے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ فرمایا"
اور احمد و ابو داود کی حدیث میں الفاظ یوں ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]، کلائی پر رکھا"
اور ابو حازم سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: "لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے" ابو حازم یہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: مجھے اس عمل کے بارے میں یہی علم ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے" احمد ، بخاری
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو نماز میں قیام کے دوران نیچے لٹکایا ہو"
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366)
دوم:
دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینے پر ہے۔
چنانچہ ابن خزیمہ: (479) میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔
البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "تحقیق صحیح ابن خزیمہ " میں صحیح کہا ہے۔
نیز البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) میں کہتے ہیں:
"دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا ہی سنت میں ثابت ہے، جبکہ اس سے متصادم کوئی بھی عمل یا تو ضعیف ہے، یا پھر بے بنیاد ہے" انتہی
سندی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ پر اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں:
"مختصر یہ ہے کہ : جس طرح ہاتھوں کو چھوڑنے کی بجائے انہیں باندھنا ہی سنت ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، کوئی اور جگہ نہیں ہے، جبکہ یہ حدیث کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" تو اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب متفق ہیں" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی [حنبلی] مذہب میں مشروع عمل ہے اور یہی قول مشہور ہے، اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور نووی ،ابن حجر رحمہما اللہ سمیت دیگر ائمہ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو ناف سے اوپر باندھا جائے، اس بارے میں امام احمد نے واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔
جبکہ دیگر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے، اور یہی موقف صحیح ترین ہے، تاہم اس بارے میں صریح نصوص کے بارے میں کچھ نقد کیا گیا ہے، لیکن بخاری کی روایت سہل بن سعد والی سے اس بات کی واضح تائید ہوتی ہے کہ ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، نیز سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں سب سے اچھی حدیث -اگرچہ اس پر کچھ نہ کچھ نقطہ چینی کی گئی ہے- وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا کرتے تھے""
"الشرح الممتع" (3/36، 37)
سوم:
دونوں ہاتھوں کو باندھنے کا طریقہ دو طرح ہے:
1- اپنی دائیں ہتھیلی بائیں ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]اور کلائی پر رکھے۔
2- اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لے۔
ان دونوں کیفیات کے دلائل سوال نمبر: (41675) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب