• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھانے والے کا حکم کیا اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا !!!

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا :

5: امینی صاحب نے عبد الحئی لکھنوی صاحب سے نقل کیا ہے کہ:

عن معاذ ان رسول اللہ ﷺ کان إذاقام فی االصلوۃ رفع یدیه معال أذنیه فاذا کبر ارسلھما (رواہ الطبرانی)

جناب معاذ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاکر بلند کرتے اور پھر انھیں کھلا چھوڑدیتے۔ “

(فتاویٰ شیخ عبد الحئی لکھنوی ج۱ ص۳۲۶ طبع اول، شیعیت کا مقدمہ ص ۲۳۶۔۲۳۷)

موضوع(من گھڑت):

یہ روایت طبرانی کی المعجم الکبیر (ج۲۰ص۷۴ح۱۳۹) میں خصیب بن حجدر کی سند سے موجود ہے اور اس روایت کے بارے میں:

٭حافظ ہیثمی نے کہا: "رواہ الطبراني فی الکبیر وفیه الخصیب بن حجدر وھو کذاب"

اسے طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا اور اس میں خصیب بن حجدر (راوی) ہے او روہ کذاب (جھوٹا) ہے۔ (مجمع الزوائد ج۲ص۱۰۲)

٭خصیب بن حجدر کے بارے میں امام یحییٰ بن سعید القطان نے فرمایا: "وہ جھوٹا تھا۔" (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: ۳۳۲۷)

٭امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: "الخصیب بن جحدر کذاب" (کتاب الجرح والتعدیل: ۳۹۷/۳ وسندہ صحیح)

تفصیل کیلئے اسماء والرجال کی اصل کتابوں کی طرف رجوع کریں۔

http://zaeefhadees.blogspot.com/2014/11/Hath-Chor-kr-Namaz-Parhna.html
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
assalam o alekum

mn alhamdulillah salafi hon or is waqat Masqat Oman mn hon yahan taqreeban har masjid mn imam nimaz mn hat band kar khara nahe hota or nimaz k akhir mn sirf ek salam kar k nimaz mukammal karte hen to kya in k peeche nimaz hoti he.

@خضر حیات بھائی
@اسحاق سلفی بھائی

کسی بھائی نے سوال پوچھا ہے فیس بک پر

https://www.facebook.com/profile.php?id=100002378601945
بھائی میرے علم کے مطابق صرف مشرک کی امامت میں نما ز نہیں ہوتی۔اور گنا ہ کرنے والے کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا امام مالک کا مسلک ہے۔شیخ زبیر علی زئی نے مقلدیں کے پیچھے
نماز کو درست کہا ہے۔(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم)
دلائل
(غیر مکفرہ )اہل بدعت کی اقتداء میں نماز کا حکم
فضیلہ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ سے جب بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم پوچھا گیا تو آپ نے فتویٰ دیا :۔
اہل بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔
1۔جن کی بدعتیں کفر تک پہنچانے والی ہیں
2۔جن کی بدعتیں کفر تک پہنچانے والی نہیں ہیں
ان میں سے پہلی قسم کے اہل بدعت کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی نماز صحیح نہیں، لہٰذا یہ بھی صحیح نہیں کہ وہ مسلمانوں کے اما م بنیں اور وہ اہل بدعت جن کی بدعتیں کفر تک نہیں پہنچاتیں تو ان کے پیچھے نماز کا حکم، علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ اہل فسق کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ، راجح بات یہ ہے کہ اہل فسق کے پیچھے نماز جائز ہے سوائے اس صورت کے کہ ان کے پیچھے نماز ترک کرنے میں مصلحت ہو مثلا ً نماز نہ پڑھنے کی صورت میں اگر ان کے لیئے تنبیہ ہو اور اس طرح وہ اپنے فسق و فجور کو ختم کر سکتے ہوں تو پھر اس مصلحت کی وجہ سے بہتر یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔(فتاویٰ اسلامیہ جلد اوّل ص: ۳۸۹)
مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’ علماء کے صحیح قول کے مطابق بدعتی ،کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے اور دیگر گناہگاروں کے پیچھے نماز صحیح ہے بشر طیکہ بدعت کفر تک پہنچانے والی نہ ہو اور اگر بدعت کفر تک پہنچانے والی ہو جیسے جہمیہ وغیرہ ایسے بدعتی ہیں جو اپنی کفریہ بدعات کے باعث دائرہ اسلام ہی سے خارج ہیں تو ان کے پیچھے نماز صحیح نہیں ، لیکن ذمہ دار اصحاب پر یہ واجب ہے کہ امامت کے لیئے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو بدعت ، فسق و فجور سے پاک ہوں اور اچھے سیرت و اخلاق کے مالک ہوں، کیونکہ امامت ایک عظیم امانت ہے ،امام مسلمانوں کا قائد ہوتا ہے لہذا اگر اچھے لوگوں کو امامت پر فائز کرنا ممکن ہو تو ایک بدعتی اور فاسق کو امام نہیں بنانا چاہیے ۔‘‘(فتاویٰ اسلامیہ جلد اوّل ص:۵۰۰)
شیخ ابن بازرحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
بدعات پر عمل کرنے والے علاقے میں مقیم شخص کے متعلق کیا حکم ہے ؟ اس شخص کا ان کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا، نماز جمعہ ادا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ یا اسے انفرادی طور پر اپنی نماز ادا کرنی چاہیے اور کیا اس سے نماز جمعہ ساقط ہو جائے گا ؟
شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ہر نیک یا فاجر امام کے پیچھے نماز جمعہ ادا کرنا واجب ہے ، اگر نماز جمعہ پڑھانے والے امام کی بدعت ایسی نہ ہو جو اسے اسلام سے خارج کردے تو اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے گی ۔
امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ونری الصلاۃ خلف کل بر وفاجر من أھل القبلۃ ومن مات منھم ‘‘( عقیدۃ طحاویۃ)
’’ہم اہل قبلہ میں ہر نیک و فاجر کے پیچھے نماز ادا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اسی طرح جو فوت ہو چکے، ان کے لیے دعائے مغفرت کو بھی درست جانتے ہیں ‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اگر مقتدی کو علم ہو کہ امام بدعتی ہے اور وہ اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہے یا وہ فاسق ہے اور اس کا فسق ظاہر ہے اور وہ مستقل امام ہے جس کے بغیر نماز پڑھنا ممکن نہیں ،مثلا جمعہ اور عیدین کی امامت وہی کرواتا ہے اور عرفات میں نماز حج وغیرہ کا بھی امام وہی ہے تو عام سلف و خلف کے ہاں مقتدی اس کے پیچھے نماز ادا کرے گا ،امام شافعی ،امام احمد، امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے ،اسی لیے وہ عقائد میں یہ بات ذکر کرتے ہیں :’’جمعہ اور عید کی نماز ہر نیک یا فاجر امام کے پیچھے پڑھے گا ۔اسی طرح اگر کسی بستی میں صرف ایک ہی امام ہو تو اس کے پیچھے نماز باجماعت ادا کی جائے گی ،کیونکہ نماز باجماعت ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے سے افضل ہے ،چاہے امام فاسق ہی ہو ۔
جمہور علماء کرام امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے ، بلکہ امام احمد کے مذہب میں نماز باجماعت ادا کرنا واجب ہے اور امام احمد وغیرہ کے ہاں جس نے فاجر امام کے پیچھے جمعہ اور نماز باجماعت ترک کی، وہ بدعتی ہے ،صحیح یہی ہے کہ وہ بدعتی کی اقتداء میں نماز ادا کرے گا اور اسے دھرائے گا نہیں ،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز جمعہ اور باجماعت نماز فاجر اماموں کے پیچھے ادا کرتے اور اسے لوٹاتے نہیں تھے ،جیسا کہ ابن عمررضی اللہ عنہ حجاج کے پیچھے اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور آپ کے علاوہ دیگر صحابہ ولید بن عقبہ (جو کہ شراب پیتا تھا )کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے ۔
فاسق اور بدعتی کی نماز فی نفسہ صحیح ہے ،چنانچہ جب اس کے پیچھے مقتدی نماز ادا کرے تو اس کی نماز باطل نہیں ، جن علماء نے بدعتی کے پیچھے نماز مکروہ سمجھی ہے تو وہ اس لیے کہ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا واجب ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو شخص بدعت یا فسق ظاہر کرتا ہو، اسے مسلمانوں کی امامت نہیں دینی چاہیے ،کیونکہ وہ تعزیر اور سزا کا مستحق ہے حتی کہ وہ اس سے توبہ کر لے ،اگر توبہ کرنے تک اس سے بائیکاٹ کرنا ممکن ہو تو یہ بہتر ہے ،(کیونکہ )کچھ لوگ جب اس کے پیچھے نماز ادا کرنا ترک کردیں گے اور کسی دوسرے کی پیچھے نماز پڑھیں گے تو یہ اس پر اثر انداز ہو گا، یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے یا پھر اسے امامت سے معزول کر دیا جائے یااس سزا کو دیکھتے ہوئے لوگ اس طرح کے گناہ سے باز آجائیں۔اس طرح (کی مصلحت حاصل ہوتی ہو تو)اس میں مصلحت ہے بشرطیکہ مقتدی کی نمازباجماعت اور جمعہ نہیں رہنا چاہیے ،لیکن اگر اس کے پیچھے نماز ترک کرنے سے مقتدی کا نماز جمعہ اور نماز باجماعت رہ جائے تو تب ان کے پیچھے نماز ترک نہیں کی جائے گی ‘‘(مجموع الفتاویٰ :351-356/23) (مجموع فتاویٰ شیخ ابن باز:303/4)
عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
سوال:فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :۔بدعتی فاسق و فاجر جو حد کفر کو نہ پہنچا ہو،اس کے پیچھے نماز تو ہو جاتی ہے مگر ایسے شخص کو امام بنانے والے مجرم ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے ۔اجعلو ا ائمتکم خیارکم (دارقطنی) اپنے امام بہتر لوگوں کو بنایا کرو ،ہاں اگر ایسا شخص جبراً امام بن جائے اور مقتدی ہٹانے پر قادر نہ ہوں تواس صورت میں مقتدی مجرم نہیں نہ ان کی نماز میں کوئی خلل ہے ۔(فتاویٰ اہلحدیث جلد اول :۵۶۳)(اہل سنت کا منہج تعامل)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
چند روز پہلے میری بھی ایک بھائی سے ملاقات ہوئی جو اس ملک سے واپس آیا ہے
اس نے بھی یہی صورتحال بتائی۔
بہرحال اتنا تو سب کو علم ہے کہ رکوع سے پہلے قیام میں ہاتھ باندھنا سنت رسول ﷺ سے ثابت ہے ،اس پر صحیح احادیث موجود ہیں
ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے والا اس سنت کا تارک ہے ۔یا۔ مخالف ہے ۔

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے والے دو فرقے ہیں ۔ایک مالکی مذہب کے مقلد ،اور دوسرے رافضی ۔
اور مسقط میں اباضی مسلک کے لوگ بھی آباد ہیں ۔۔ وہ بھی ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔
رافضی اور اباضی کے پیچھے تو کسی صورت نماز نہیں ہوتی ،یہ تو اتفاقی فتوی ہے ۔


ذیل میں علامہ ابن باز ؒ کا ایک فتوی پیش خدمت ہے ؛
جس خلاصہ یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنت ہے جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔لیکن اگر کسی نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی تو اس کی نماز ہو جائے گی،اور نماز میں ہاتھ باندھنا حکم رسول ﷺ ہے ۔اور حکم ۔وجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔لیکن علماء کا کہنا ہے اس مسئلہ میں
’‘ امر ‘‘ استحباب کیلئے ہے "

( هل يصح تسبيل الأيادي عند أداء الصلاة بدلاً من أن توضع اليد اليمنى على اليد اليسرى فوق الصدر؟
الجواب :
السنة الضم ، الذي عليه جمهور أهل العلم الضم ، وقد صحت بذلك الأحاديث عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ، لكن لو أرسل يديه صحت صلاته ، وفعل شيئاً مكروهاً لا يبطل الصلاة ، وإنما السنة أن يضم يديه إلى صدره ، ويضع اليمنى الكف اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد ؛ كما جاءت بذلك الأخبار عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ، ومن ذلك ما روى البخاري في الصحيح عن أبي حازم عن سهل بن سعد - رضي الله عنه - قال: لا أعلمه إلا ينميه إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: كان الرجل فينا يأمر إذا كان في الصلاة أن يضع يده اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة). وهذا يدل على وجوب الضم. ولكن الأفضل عند أهل العلم، ولكنه عند أهل العلم الأمر للاستحباب، ومعلوم أن محل اليدين في الصلاة معروف في الركوع توضع على ركبتيه ، وفي السجود على الأرض ، وفي الجلوس على الفخذين ، أو الركبتين ، فما بقي إلا القيام، في القيام توضع الكف اليمنى على الكف اليسرى أو ذراعيها على كفها وذراعيها، وهكذا في حديث قبيصة بن هلب الطائي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أمر المصلي أن يضع يده اليمنى على كفه اليسرى على صدره. وهكذا في حديث وائل ابن حجر عند أبي داود والنسائي كلها تدل على أن اليمنى توضع على اليسرى ، يوضع الكف الأيمن على الكف الأيسر والذراع.

http://www.binbaz.org.sa/mat/14944
ــــــــــــــــــــــــ
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ :
نماز میں ہاتھ باندھنا واجب یا تاکیدی سنت ہے ،جس کا ترک جائز نہیں ؛ دلیل یہ ہے کہ :
نماز ہاتھ باندھنے کا نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے
صحیح بخاری (حدیث نمبر740 ) اور مؤطا امام مالک اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ :
عن مالك، ‏‏‏‏‏‏عن ابي حازم، ‏‏‏‏‏‏عن سهل بن سعد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة"، ‏‏‏‏‏‏قال ابو حازم:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏اعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال إسماعيل:‏‏‏‏ ينمى ذلك ولم يقل ينمي.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔))
نماز میں ہاتھ باندھنے کا یہ حکم اتفاقی ہے اس میں مخالف کے پاس کوئی صحیح منقول دلیل نہیں ،حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
(قال ابن عبد البر لم يأت عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه خلاف وهو قول الجمهور من الصحابة والتابعين وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك بن المنذر وغيره عن مالك غيره ۔۔)
یعنی نماز میں ہاتھ باندھنے کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ، اور جمہورصحابہ و تابعین کا بھی یہی کہنا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سنت ہیں ، اور امام مالکؒ نے بھی مؤطا میں یہی بیان کیا ہے ، اور (مذاھب علماء نقل کرنے والے ) امام ابن المنذرؒ وغیرہ بھی امام مالک اور دیگر ائمہ فقہ کا اس کے علاوہ کوئی قول نقل نہیں کیا "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
حكم قبض اليدين في الصلاة
-------------------------------------------
ما حكم قبض اليدين في الصلاة ؟.

الحمد لله
أولاً : قبض اليدين في الصلاة يعني : وضع اليد اليمنى على اليسرى في حال القيام سنة من سنن الصلاة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وقال بها جماهير أهل العلم .
قال ابن قدامة رحمه الله :
" أما وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة : فمن سنتها في قول كثير من أهل العلم , يروى ذلك عن علي وأبي هريرة والنخعي وأبي مجلز وسعيد بن جبير والثوري والشافعي وأصحاب الرأي , وحكاه ابن المنذر عن مالك " انتهى .
"المغني" (1/281) .
وقال علماء اللجنة الدائمة :
" القبض في الصلاة وضع كف اليد اليمنى على اليد اليسرى ، والسدل في الصلاة إرسال اليدين مع الجانبين ، وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه وضع يده اليمنى على اليسرى في الصلاة حال القيام للقراءة ، وحال القيام بعد الرفع من الركوع ، وذلك فيما رواه أحمد ومسلم عن وائل بن حجر رضي الله عنه ( أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل في الصلاة وكبر ، ثم التحف بثوبه ، ثم وضع اليمنى على اليسرى ، فلما أراد أن يركع أخرج يديه ثم رفعهما وكبر فركع فلما قال سمع الله لمن حمده رفع يديه فلما سجد سجد بين كفيه ) وفي رواية لأحمد وأبي داود : ( ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد ) ، وفيما رواه أبو حازم عن سهل بن سعد الساعدي قال : ( كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ) ، وقال أبو حازم : لا أعلمه إلا ينمي – أي : رفعه وينسبه - ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم . رواه أحمد والبخاري .
ولم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم في حديثٍ أنه سدل يديه وأرسلهما مع جنبيه في القيام في الصلاة " انتهى .

"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366) .
ثانياً :
وأما مكان وضعهما فعلى الصدر .
روى ابن خزيمة (479) عن وائل بن حجر رضي الله عنه قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره .

صححه الألباني في "تحقيق صحيح ابن خزيمة" .
وقال الألباني في "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) :
" وضعهما على الصدر هو الذي ثبت في السنة ، وخلافه إما ضعيف أو
لا أصل له " انتهى .
وقال السندي في حاشية ابن ماجه :
" وَبِالْجُمْلَةِ فَكَمَا صَحَّ أَنَّ الْوَضْع هُوَ السُّنَّة دُون الإِرْسَال ثَبَتَ أَنَّ مَحَلّه الصَّدْر لا غَيْر ، وَأَمَّا حَدِيث : ( أَنَّ مِنْ السُّنَّة وَضْع الأَكُفّ عَلَى الأَكُفّ فِي الصَّلاة تَحْت السُّرَّة ) فَقَدْ اِتَّفَقُوا عَلَى ضَعْفه " انتهى .
وقال الشيخ ابن عثيمين :
" وهذه الصفة – أعني : وَضْع اليدين تحت السُّرَّة - هي المشروعة على المشهور مِن المذهب ، وفيها حديث علي رضي الله عنه أنه قال : ( مِن السُّنَّةِ وَضْعُ اليدِ اليُمنى على اليُسرى تحت السُّرَّةِ ) – رواه أبو داود وضعفه النووي وابن حجر وغيرهما - .
وذهب بعضُ العلماء : إلى أنه يضعها فوق السُّرة ، ونصَّ الإِمام أحمد على ذلك .
وذهب آخرون مِن أهل العِلم : إلى أنه يضعهما على الصَّدرِ ، وهذا هو أقرب الأقوال ، والوارد في ذلك فيه مقال ، لكن حديث سهل بن سعد الذي في البخاري ظاهرُه يؤيِّد أنَّ الوَضْعَ يكون على الصَّدرِ ، وأمثل الأحاديث الواردة على ما فيها من مقال حديث وائل بن حُجْر أن النبي صلى الله عليه وسلم : ( كان يضعُهما على صدرِه ) .
"الشرح الممتع" (3/36، 37) .
ثالثا ً :
وأما صفة وضعهما : فلذلك صفتان :
الأولى : أن يضع كفه اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد .
الثانية : أن يقبض بيده اليمنى على اليسرى
وانظر أدلة ذلك في جواب السؤال (41675) .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب

http://islamqa.info/ar/59957
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ترجمہ :
نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم
سوال: نماز میں ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجوابــــــــــــــــــ
الحمد للہ:

اول:

نماز میں ہاتھ باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ : قیام کے دوران دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھے، یہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ہے، اور جمہور اہل علم نماز میں ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا : بہت سے اہل علم کے مطابق نماز کے ثابت شدہ طریقے میں شامل ہے، یہ عمل علی ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کیساتھ ساتھ نخعی، ابو مجلز، سعید بن جبیر، ثوری، شافعی اور اصحاب الرائے سے مروی ہے، ابن المنذر نے اسے مالک سے بھی نقل کیا ہے" انتہی
"المغنی" (1/281)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے:
"نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ: دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، جبکہ "سدل" یہ ہے کہ ہاتھوں کو پہلوؤں کی طرف لٹکا دیا جائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں قراءت کے وقت اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، اور اسی طرح رکوع سے اٹھنے کے بعد قومہ کی حالت میں بھی اسی طرح ہاتھ باندھے، اس عمل نبوی کو احمد، اور مسلم نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
"انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نماز میں تکبیر کیساتھ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا، پھر آپ نے اپنا کپڑا [اوپر لی ہوئی چادر وغیرہ]سمیٹ کر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، اور جس وقت رکوع میں جانے لگے تو کپڑے کے اندر سے ہاتھ باہر نکال کر رفع الیدین کیساتھ تکبیر کہی ، اور رکوع میں چلے گئے، پھر جب "سمع اللہ لمن حمدہ" کہا تو پھر رفع الیدین کیا، اور جب آپ سجدے میں گئے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ فرمایا"
اور احمد و ابو داود کی حدیث میں الفاظ یوں ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]، کلائی پر رکھا"
اور ابو حازم سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: "لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے" ابو حازم یہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: مجھے اس عمل کے بارے میں یہی علم ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے" احمد ، بخاری
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو نماز میں قیام کے دوران نیچے لٹکایا ہو"
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366)

دوم:

دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینے پر ہے۔
چنانچہ ابن خزیمہ: (479) میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔
البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "تحقیق صحیح ابن خزیمہ " میں صحیح کہا ہے۔

نیز البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) میں کہتے ہیں:
"دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا ہی سنت میں ثابت ہے، جبکہ اس سے متصادم کوئی بھی عمل یا تو ضعیف ہے، یا پھر بے بنیاد ہے" انتہی

سندی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ پر اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں:
"مختصر یہ ہے کہ : جس طرح ہاتھوں کو چھوڑنے کی بجائے انہیں باندھنا ہی سنت ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، کوئی اور جگہ نہیں ہے، جبکہ یہ حدیث کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" تو اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب متفق ہیں" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی [حنبلی] مذہب میں مشروع عمل ہے اور یہی قول مشہور ہے، اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور نووی ،ابن حجر رحمہما اللہ سمیت دیگر ائمہ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو ناف سے اوپر باندھا جائے، اس بارے میں امام احمد نے واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔

جبکہ دیگر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے، اور یہی موقف صحیح ترین ہے، تاہم اس بارے میں صریح نصوص کے بارے میں کچھ نقد کیا گیا ہے، لیکن بخاری کی روایت سہل بن سعد والی سے اس بات کی واضح تائید ہوتی ہے کہ ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، نیز سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں سب سے اچھی حدیث -اگرچہ اس پر کچھ نہ کچھ نقطہ چینی کی گئی ہے- وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا کرتے تھے""
"الشرح الممتع" (3/36، 37)

سوم:
دونوں ہاتھوں کو باندھنے کا طریقہ دو طرح ہے:
1- اپنی دائیں ہتھیلی بائیں ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]اور کلائی پر رکھے۔
2- اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لے۔
ان دونوں کیفیات کے دلائل سوال نمبر: (41675) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.

اگر اس سلسلے میں مزید رہنمائ مل جاۓ تو بڑی مہربانی ہوگی.
ایک سوال اور کہ کیا ہاتھ باندھنا واجب ہے؟؟! اگر ہاں تو کیا دلیل ہے؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,591
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.

اگر اس سلسلے میں مزید رہنمائ مل جاۓ تو بڑی مہربانی ہوگی.
ایک سوال اور کہ کیا ہاتھ باندھنا واجب ہے؟؟! اگر ہاں تو کیا دلیل ہے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
صحیح بات یہ ہے کہ :
نماز میں ہاتھ باندھنا واجب یا تاکیدی سنت ہے ،جس کا ترک جائز نہیں ؛ دلیل یہ ہے کہ :
نماز ہاتھ باندھنے کا نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے
صحیح بخاری (حدیث نمبر740 ) اور مؤطا امام مالک اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ :
عن مالك، ‏‏‏‏‏‏عن ابي حازم، ‏‏‏‏‏‏عن سهل بن سعد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة"، ‏‏‏‏‏‏قال ابو حازم:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏اعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال إسماعيل:‏‏‏‏ ينمى ذلك ولم يقل ينمي.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔))
نماز میں ہاتھ باندھنے کا یہ حکم اتفاقی ہے اس میں مخالف کے پاس کوئی صحیح منقول دلیل نہیں ،حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
(قال ابن عبد البر لم يأت عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه خلاف وهو قول الجمهور من الصحابة والتابعين وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك بن المنذر وغيره عن مالك غيره ۔۔)
یعنی نماز میں ہاتھ باندھنے کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ، اور جمہورصحابہ و تابعین کا بھی یہی کہنا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سنت ہیں ، اور امام مالکؒ نے بھی مؤطا میں یہی بیان کیا ہے ، اور (مذاھب علماء نقل کرنے والے ) امام ابن المنذرؒ وغیرہ بھی امام مالک اور دیگر ائمہ فقہ کا اس کے علاوہ کوئی قول نقل نہیں کیا "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
@اسحاق سلفی

بھائی میرا ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا

جس میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے تھے ( مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے )

اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نماز سیکھی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے

تو وہ کہا یہ جاتا ہے کہ اب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی ہی تھی


تو اس کا کائی جواب عنایت فرمائیں

جزاکم اللہ خیرا
 

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
57
بھائی میرا ایک ویڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا

جس میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے تھے ( مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے )

اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے نماز سیکھی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے

تو وہ کہا یہ جاتا ہے کہ اب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی ہی تھی


تو اس کا کائی جواب عنایت فرمائیں

جزاکم اللہ خیرا

@اسحاق سلفی
محترم اس رہنمائی فرمائیں
مرا بہی یہی سوال ہے۔۔۔
 
Top