• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہدایت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ + مستحق کون ہے ؟۔ تفسیر السراج۔ پارہ:3

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝۲۷۲ لِلْفُقَرَاۗءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ ضَرْبًا فِي الْاَرْضِ۝۰ۡيَحْسَبُھُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِيَاۗءَ مِنَ التَّعَفُّفِ۝۰ۚ تَعْرِفُھُمْ بِسِيْمٰھُمْ۝۰ۚ لَا يَسَْٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا۝۰ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۝۲۷۳ۧ
ان کی ہدایت۱؎ تیرا ذمہ نہیں لیکن جس کو اللہ چاہتا ہے، ہدایت کرتا ہے اور جو کچھ مال تم خرچ کروگے وہ تمہارے اپنے ہی لیے ہے اور تم تو فقط اللہ ہی کی خوشی کی طلب میں خرچ کروگے۔ تم کو وہ پورا ملے گا اور تمہارا بالکل نہ رہے گا۔۲؎ (۲۷۲)خیرات ان محتاجوں کے لیے ہے جو خدا کی راہ میں رکے پڑے ہیں۔ ملک میں چل پھر نہیں سکتے۔ بے خبر آدمی ان کی بے سوالی کے سبب ان کو غنی گمان کرتا ہے تو ان کو ان کے چہروں سے پہچانے گا۔ وہ آدمیوں سے لپٹ۳؎ کر سوال نہیں کرتے اور جو کچھ تم خرچ کروگے خدا کو وہ خوب معلوم ہے۔(۲۷۳)
ہدایت خدا کے ہاتھ میں ہے
۱؎ پیغمبر یا رسول کا کام صرف اعلان حق ہے ۔ ماننا یا نہ ماننا لوگوں کا اختیار ہے ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب یہ توفیق صحیح سے محروم ہیں تو تیرے احاطہ ٔ اختیار سے باہر ہے کہ تو انھیں ہدایت دے دے۔ راہنمائی وراسموئی تو فرائض نبوت میں ہے مگرشرح صدر اور توفیق یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ اس کو عطا ہوتی ہے جو اس کے حصول کی کوشش کرے۔

۲؎ ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ تمہارا ہرصدقہ قبول ہے اور تمھیں پورا پورا اجر دے گا۔ چاہے وہ فعل موزوں پر خرچ ہوا ہے اور چاہے غیر موزوں پر، اس لیے کہ تمہارا مقصد بہرحال اصلاح ہے ۔ ممکن ہے تمہاری نیک نیتی کا اثر اس کے اعمال پر بھی پڑے اور وہ ان کاموں کو چھوڑدے البتہ زکوٰۃ صرف مسلمانوں کا حصہ ہے ۔اپنی طرف سے کوشش کرنی چاہیے کہ بفحوائے لاَ یَاکُلُ طَعَامَکَ اِلاَّ تَقِیٌّ عام صدقات سے مسلمانوں کی امانت ہے ۔
مستحق کون ہے ؟
۳؎ ان آیات میں فقراء ومجاہدین کا ذکر ہے ۔ جو مجاہدانہ مشاغل کی وجہ سے کسب معاش سے محروم ہیں۔ ان میں عفت اور پاس عزت اس قدر ہے کہ بظاہر غنی معلوم ہوتے ہیں۔ مگر وہ ہیں اعانت کے مستحق۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کی بالخصوص اعانت کرو۔رسالت مآبﷺ کے زمانہ میں ایک گروہ اصحاب صفہ کا تھا جس کا کام صحبت نبویﷺ سے شرف استفادہ کرنا تھا۔ وہ دن رات ارشاد نبویﷺ سے اکتساب ضو میں مصروف رہتے اور ایک لمحہ غفلت ان کے نزدیک ناقابل تلافی محرومی کے حصول کا مترادف تھا۔ وہ مسجد نبویﷺمیں رہتے۔ ذرائع معاش کو بررورہتے۔ ذرائع معاش کو برروئے کار لانے کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ ان لوگوں کے لیے عام مسلمانوں میں اعلان کیا کہ وہ انھیںاپنی اعانتوں کا سب سے زیادہ مستحق سمجھیں مگر آیت کا عموم باوجودخصوص محل کے باقی ہے ۔ اس میں بتایا ہے کہ پیشہ ور گداگر جنھوں نے بھیک مانگنے کو ایک فن بنالیا ہے اور وہ ہرطرح سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ہرگز اعانت کے مستحق نہیں۔ اعانت کے مستحق وہ باوضع مجاہدین اور خدام دین ہیں جن کا کوئی ذریعہ ٔ معاش نہیں اور وہ رات دن خدمت دین میں مصروف ہیں۔ قوم کو چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور انھیں بے نیاز بنادیں، تاکہ وہ اپنا پورا وقت خدا کی راہ میں صرف کرسکیں اور پورے طریق پر دین کی خدمت بجالاسکیں۔ اسلام بھیک مانگنے کے حق میں نہیں ہے ۔ وہ کہتا ہے جو بھیک مانگتا ہے قیامت کے دن اس کا چہرہ بے رونق ہوگا اور محروم ہوگا، اس لیے کہ دنیا میں اس نے اپنی عزت کی پروا نہیں کی اور شرف انسانیت کی توہین کی، اس لیے قیامت کے دن بالکل اس کے مساوی اور متبادل سزادی جائے گی۔ اس کا چہرہ بے آب اور زخم خوردہ ہوگا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝۲۷۴ؔ
جو لوگ رات کو اور دن کو اپنے مال چھپے اور ظاہر خرچ کرتے ہیں، ان کو ان کے رب کے پاس بدلہ ملے گا اور نہ انھیں کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔۱؎(۲۷۴)
۱؎ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس سے مقصود ارباب خیل ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو جہاد کے لیے گھوڑے رکھتے ہیں اور دن رات ان کی خدمت کرتے ہیں تاکہ جہاد کے لیے تیار ہوجائیں۔ حضرت سعید بن مسیب ؒفرماتے ہیں کہ یہ آیت جناب عثمان رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف کے حق میں نازل ہوئی، اس لیے کہ انھوں نے جیش عسرت کی تیاری میں مدد دی مگر آیت کا مفہوم عام ہے ۔اس میں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ انفاق فی سبیل اللہ جن کی عادت ثانیہ ہوگیا ہے اور وہ مسلسل دن رات جب ضرورت محسوس ہو خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اللہ کی حقیقی نعمتوں کے سزاوار ہیں اور یہ کہ اعلان واخفاء دونوں حالتوں میں ان کے دل میں ریا وشہرت کے جذبات نہیں ہوتے بلکہ دوطریق ہیں ادا کے، جسے حالات کے موافق تصور کرنے میں اختیار کرتے ہیں اس لیے یہ بحث کہ دونوں طریقوں میں سے افضل کونسا طریق ہے ۔ غیر ضروری ہے ۔ بعض لوگ اخفاء کی صورت میں بھی ریاکاری کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اعلان میں بھی ان کا دل ملوث نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنی اپنی طبیعت اور موقع ومحل پر موقوف ہے ۔ کبھی اخفاء افضل ہے اور کبھی اعلان۔
 
Top