- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
محترم بھائی اپنے حدیث لکھی ہے کہ جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں تو محترم بھائی یہ بات تو ٹھیک ہے مگر اسی طرح کی احادیث کا سہارا لے کر کچھ علماء نے ہماری جماعۃ الدعوۃ کو خارجی کہا ہوا ہے مجھے کسی نے کافی پہلے کسی عرب عالم کی ایک کتاب کا ترجمہ میل کیا تھا جس میں اسی طرح کے اعتراضات جماعۃ الدعوۃ پر کیے گئے تھے مثلا یہ کشمیر میں مسلمان سپاہیوں کو مارتے ہیں اور اس میں انھوں نے ایک وڈیو کا بھی حوالہ دیا ہوا تھا جس میں ہمارا مجاہد بھائی (اللہ اسکی شہادت قبول کرے) اکیلا کھڑا ہو کر لڑ رہا ہوتا ہے اور کشمیر کی پالیمنٹ کے مسلمان ارکان کو مارتا ہے
میں نے اس بھائی کو چند سوال لکھ کر بھیجے تو الحمد للہ اس کو سمجھ آ گیا کہ ہماری جماعت ہی اسوقت بہترین جماعت ہے وہ آپ کو بھی بتا دیتا ہوں
اوپر حدیث کے مطابق کسی بھی مسلمان پر حملے کرنے والے پر حکم لگانے کی صورتیں مندرجہ ذیل ترتیب سے چلیں گی
1-نمازیوں پر حملہ کرنے کے پیچھے وجوہات دیکھیں گے کہ اس نے نمازیوں پر حملہ کس وجہ سے کیا
2-ان وجوہات کو دیکھ کر نمازیوں پر حملہ کرنے والے پر حکم لگایا جائے گا
3-اگر ٹھوس شرعی دلائل (وجوہات) ہوں گے تو اس حملے پر کوئی حکم نہیں لگے گا جیسے آپ کے نزدیک پاکستان کی فوج جامعہ حفصہ کے نمازیوں پر حملہ میں ٹھوس شرعی دلائل رکھتی تھی پس پاکستان کی فوج پر کوئی حکم نہیں لگے گا
4-اگر ٹھوس شرعی دلائل (وجوہات) تو نہیں ہوں گی مگر اس حملہ کی جائز تاویل ممکن ہو گی تو پھر حکم تو لگے گا مگر اجتہادی غلطی کا لگے گا تکفیر یا گمراہی کا حکم نہیں لگے گا جیسے کچھ صحابہ کی لڑائیاں کیوں کہ ان میں کوئی ایک گروہ اگر ٹھوس دلیل رکھتا تھا تو لازمی دوسرا اجتہادی خطا پر تھا اسی طرح کچھ لوگ آج کے حکمرانوں کو اجتہادی خطا پر سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کا ساتھ دینے میں اجتہادی خطا پر ہیں یہاں پر میں صرف مثالوں کے لئے لکھ رہا ہوں میرا کسی قسم کا موقف یہاں نہیں لکھا ہوا
5-اگر جائز تاویل بھی نہیں ہو سکے گی تو پھر حکم تکفیر یا گمراہی یا بغاوت کا لگے گا جیسے آپ نے بیان کیا ہوا ہے یعنی خوارج والا حکم
پس مطلق ایسا لکھنا ٹھیک نہیں ہوتا
میں نے اس بھائی کو چند سوال لکھ کر بھیجے تو الحمد للہ اس کو سمجھ آ گیا کہ ہماری جماعت ہی اسوقت بہترین جماعت ہے وہ آپ کو بھی بتا دیتا ہوں
اوپر حدیث کے مطابق کسی بھی مسلمان پر حملے کرنے والے پر حکم لگانے کی صورتیں مندرجہ ذیل ترتیب سے چلیں گی
1-نمازیوں پر حملہ کرنے کے پیچھے وجوہات دیکھیں گے کہ اس نے نمازیوں پر حملہ کس وجہ سے کیا
2-ان وجوہات کو دیکھ کر نمازیوں پر حملہ کرنے والے پر حکم لگایا جائے گا
3-اگر ٹھوس شرعی دلائل (وجوہات) ہوں گے تو اس حملے پر کوئی حکم نہیں لگے گا جیسے آپ کے نزدیک پاکستان کی فوج جامعہ حفصہ کے نمازیوں پر حملہ میں ٹھوس شرعی دلائل رکھتی تھی پس پاکستان کی فوج پر کوئی حکم نہیں لگے گا
4-اگر ٹھوس شرعی دلائل (وجوہات) تو نہیں ہوں گی مگر اس حملہ کی جائز تاویل ممکن ہو گی تو پھر حکم تو لگے گا مگر اجتہادی غلطی کا لگے گا تکفیر یا گمراہی کا حکم نہیں لگے گا جیسے کچھ صحابہ کی لڑائیاں کیوں کہ ان میں کوئی ایک گروہ اگر ٹھوس دلیل رکھتا تھا تو لازمی دوسرا اجتہادی خطا پر تھا اسی طرح کچھ لوگ آج کے حکمرانوں کو اجتہادی خطا پر سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کا ساتھ دینے میں اجتہادی خطا پر ہیں یہاں پر میں صرف مثالوں کے لئے لکھ رہا ہوں میرا کسی قسم کا موقف یہاں نہیں لکھا ہوا
5-اگر جائز تاویل بھی نہیں ہو سکے گی تو پھر حکم تکفیر یا گمراہی یا بغاوت کا لگے گا جیسے آپ نے بیان کیا ہوا ہے یعنی خوارج والا حکم
پس مطلق ایسا لکھنا ٹھیک نہیں ہوتا