• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارا ہیرو کون؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ہمارا ہیرو کون؟
ڈاکٹر علی اکبر حنفی

سندھ میں اسلام کی آمد سے پہلے چچ خاندان کی حکومت تھی۔
خلفائے راشدین کے دور میں جب اسلامی فتوحات کا دور دورہ تھا اور اسلامی فوجیں مشرق و مغرب کے ممالک کو فتح کر رہی تھیں اس زمانے میں سلطنت کسرٰی سے اسلامی فوجیں نبرد آزما تھیں۔

مکران کا علاقہ سلطنت کسرٰی کا حصہ تھا۔ جب یزد گرد (شاہ ایران) کی فوجوں کے خلاف قادسیہ کے میدان میں فیصلہ کن لڑائی جاری تھی، تو اس زمانے میں چچ خاندان کے راجاؤں نے ایرانیوں کی مدد کے لئے کمک روانہ کی تھی اسی طرح معرکہ نہاوند میں سندھ کے ہندو فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔ مگر ان دونوں معرکوں میں ذلت، رسوائی اورشکست بت پرستوں و آتش پرستوں کا مقدر ٹھہری۔

تسخیر ایران کے بعد سلطنت کسرٰی کے تمام علاقے اسلامی قلمرو کا حصہ بن گئے۔ مکران و سیستان سے کوہِ البرز،حیرہ سے آرمینیا، آذربائیجان اور ترکستان (خاقانی سلطنت کے بیشتر ممالک) ممالک محروسہ میں شامل ہو گئے۔

مکران چونکہ سرحدی صوبہ تھا اور مرکز خلافت سے دور تھا، اس لیے باغیوں اور شورشیوں کا مرکز بنتا جارہا تھا۔ بنو امیہ کے دور میں جب ولید بن عبدالملک خلیفہ بنے تو انہوں نے حجاج بن یوسف کو بصرہ (عراق) کا گورنر نامزد کیا، نیز حجاز، عراق، خراسان اور آس پاس کے دیگر علاقے اس کی نگرانی میں آگئے۔ حجاج بن یوسف نے نظام حکومت کو صحیح خطوط پر استوار کیا۔ شورشوں، بغاوتوں کو فرو کیا۔ گو کہ وہ تاریخ میں بہت ظالم لکھا گیا ہے،

مگر اس نے تمام مفتوحہ علاقوں میں امن قائم کردیا تھا۔ مکران جو کہ باغیوں کا مرکز بنتا جا رہا تھا۔ حجاج کے حکم پر تصفیہ کا آغاز ہوا اور سارے مکران کو خلافت اسلامیہ کے باغیوں سے پاک کر دیا گیا۔

سندھ کے ہندوؤں نے باغی سردار محمد علافی کی بھرپور مدد کی، مگر یہاں بھی سندھ کے ہندوؤں کو منہ کی کھانی پڑی۔ علافی 500 سواروں کے ساتھ سندھ آ پہنچا اور یہاں پناہ گزین ہو گیا، نیز اسلامی سلطنت کے خلاف سازشوں میں مصروف رہا۔ جنگ نہاوند، جنگ قادسیہ، جنگ مکران اور علافی جیسے باغیوں کو پناہ دینے کے جرم کے باوجود عربوں کی یہ وسیع ظرفی رہی کہ انہوں نے سندھ پر حملہ نہیں کیا۔

چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا۔ چند سالوں میں وہ فوت ہو گیا تو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنا اور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر۔ چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے داہر کے پاس بھیج دیا کہ اس کی شادی کر دی جائے۔ داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا ۔ جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔ یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔ داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرا دیا، بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔ گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کر کے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔

اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔ قزاقی ، لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔ غرض آج کی طرح 711ء میں بھی سندھ پر ڈاکو راج تھا اور داہر کی حکومت کی ڈاکوؤں کو سرپرستی حاصل تھی۔

اس زمانے میں بحری تجارت اور سمندروں پر عرب چھائے ہوئے تھے۔عرب تاجر مالدیپ ، لکادیپ، لنکا (سیلون ، سراندیپ) جاوا، سماٹرا، مالابار، ملایا اور فلپائنز کے جزائر میں تجارت کیا کرتے تھے۔ عربوں کے حسنِ اخلاق، دیانتداری اور امانت داری سے متاثر ہوکر ان ساحلی پٹیوں اور جزائر میں آباد لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول ک رلیا۔ مالابار(بھارت) کے ، سماٹرا، جاوا (انڈونیشیا)، ملایا (ملائیشیا)، جنوبی فلپائنز اور مالدیپ وسراندیپ (سری لنکا) کے لوگ بکثرت حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

سراندیپ (لنکا) کے راجا کے ساتھ اسلامی سلطنت کے نہایت خوشگوار تعلقات تھے۔ راجہ نے کچھ تحائف تاجروں کی بیوگان اور یتیم بچے، نیز حاجیوں کے ایک قافلے کو آٹھ جہازوں پر سوار کر کے بصرہ کی بندرگاہ کی طرف روانہ کیا۔ راستے میں طوفان کی شروعات ہو گئی، مجبوراً بحری کاروان نے دیبل (سندھ) کی راہ لی۔ دیبل داہر کی حکومت کا بحری اڈہ اور بندرگاہ تھی۔ بحری قزاقوں نے حملہ کیا اور بہت سے حاجیوں کو شہید کر ڈالا۔ عورتوں، بچوں کو قید کر لیا اور تمام تحفے تحائف و سازو سامان اپنے قبضے میں لے لیا۔ کچھ لوگ بڑی مشکلوں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ ان بچ جانے والوں میں ایک عورت بھی تھی، جس نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا تھا اور دہائی دی تھی، حجاج نے جواب میں کہا تھا کہ میں آرہا ہوں۔

حجاج نے داہر کو خط لکھا اور مغوی عورتوں، بچوں اور دیگر قیدیوں کی رہائی نیز بحری قزاقوں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔ جواب میں راجہ داہر نے لکھا کہ بحری قزاق اس کے ماتحت نہیں ہیں اور وہ ان کے خلاف کسی طرح کی کاروائی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر عربوں نے سندھ کے خلاف لڑائی چھیڑی تو ہم اتنی فوج مقابل لے آئیں گے جتنی کہ عرب کی آبادی بھی نہیں ہے۔ مجبوراً عربوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔
حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے اور داماد سترہ سالہ محمد بن قاسم کو روانہ کیا۔ 5000 سپاہیوں کے ساتھ محمد بن قاسم روانہ ہوا۔ پہلے مکران (بلوچستان) کے علاقے ارمن بیلہ کو فتح کیا، پھر سندھ کی مشہور بندرگاہ دیبل کا محاصرہ کرلیا۔ پیچھے سے مزید کمک آن پہنچی اور محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کردیا۔ منجنیق نصب کی گئی، جسے ایک وقت میں 500 سپاہی چلاتے تھے اور بڑے بڑے پتھروں کو فصیل اور قلعے کے دروازوں پر پھینکتے تھے۔ یہاں تک کہ دیبل فتح ہو گیا۔ حاکم شہر نے اطاعت قبول کر لی، محمد بن قاسم نے اسے اپنے منصب پر بحال رکھا۔ سندھ کے لوگ راجہ داہر کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے، چناں چہ سندھ کے سرداروں نے بھی محمد بن قاسم کے حسن ِ سلوک سے متاثر ہوکر اطاعت قبول کر لی اور دو ہزار سپاہیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔ دیبل کی فتح کے موقع پر تمام قیدی عورتیں، بچے اور ساز و سامان قلعے سے برآمد ہوئے۔ اب محمد بن قاسم نے دریائے سندھ (مہران) کے اس پار اروڑ اترنا تھا اور داہر کا مقابلہ کرنا تھا۔ محمد بن قاسم کے پاس 13 ہزار سپاہی تھے، جس میں دو ہزار سندھیوں کو ملا کر 15 ہزار بنتے ہیں۔

محمد بن قاسم نے دریائے سندھ پر کشتیوں کا پل باندھا اور برق رفتاری سے دریا کے پار جا اترا۔ پیچھے شکست کی صورت میں دریا کی بپھری موجیں تھیں اور سامنے داہر کے لاکھوں فوجی۔ جنگ شروع ہوئی اور مظلوم مسلمان بڑی بے جگری سے لڑے۔ عربوں کے پاس 900 نفت باز تھے، ایک سپاہی نے راجہ داہر کے ہاتھی کے ہودج کا نشانہ لے کر تیر چلایا، تیر ہودج پہ لگا اور ہاتھی بدحواس ہوکر دریا میں جاگرا۔ اسی ہاتھی پر راجہ داہر سوار تھا، وہ ہاتھی سے نیچے اتر گیا اور پیدل لڑنے لگا۔ راجہ داہر کے پاس دو لاکھ فوج تھی اور دوسو ہاتھی تھے اور اسے دیگر ریاستوں سے کمک پہنچنے کی قوی امید تھی۔جبکہ مسلمان اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے آئے تھے اور اپنے وطن سے ہزاروں میل دور تھے۔ ایک سپاہی نے راجہ داہر پر ایسی تلوار چلائی کہ وہ دو لخت ہو گیا۔ سندھی عربوں کے پے درپے وار برداشت نہ کرسکے اور شکست کھا گئے۔

محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا۔ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ سندھ کے تمام سرداروں نے اطاعت قبول کر لی۔ حاکموں کو ان کے منصب پر برقرار رکھا گیا۔ چند مہینوں میں سندھ کے اندر اصلاحات کا عمل شروع ہو گیا ظلم و استبداد کا دور ختم ہو گیا۔

ہندو پروہت، پنڈت، سادھو اب اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھنے لگے۔ محمد بن قاسم نے نہ کسی سے زمین چھینی نہ کسی پر ٹیکس لگایا اور نہ ہی کسی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا اور نہ لوگوں کو جبراً مسلمان بننے پر مجبور کیا۔ محمد بن قاسم بذات خود لوگوں سے ملاقاتیں کرتا تھا، ایک دفعہ ایک مندر میں گیا، وہاں پجاری پوجا میں مشغول تھے۔ محمد بن قاسم نے ایک مورتی کے بُندے اتار لیے اور پوچھا کہ ان کے بُندے (بالیاں) کس نے اتاری ہیں؟ تمام پجاری شرمندہ ہوئے کہ ہم جس کی عبادت کر رہے ہیں وہ اپنے بندے بالیاں گہنے نہیں بچا سکتا تو اوروں کی کیا رکھشا کرے گا؟

محمد بن قاسم نے آگے بڑھ کر برہمن آباد اور اوچ شریف یہاں تک کہ ملتان کا شہر بھی فتح کر لیا،اس طرح وادی مہران محمد بن قاسم کے زیر نگیں آ گئی۔

لوگوں نے محمد بن قاسم کی ہمدردی ، مہربانی اور احسان سے متاثر ہو کر لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کیا۔ جب محمد بن قاسم کو ولید بن عبد الملک کی موت اور سلیمان بن عبد الملک کی تخت نشینی کے بعد دربار خلافت حاضر ہونے کا حکم ملا تو اس نے دربار خلافت کے حضور سر تسلیم خم کر دیا، وہ چاہتا تو پورا سندھ اس کے ساتھ تھا، وہ بغاوت کر کے اپنی آزاد حکومت قائم کر سکتا تھا، جیسا کہ پہلے وقتوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس نے اقتدار و حکومت کے لیے قربانی نہیں دی تھی، بلکہ اسلام اور بنی نوع انسانی کے راحت و سکون کے لیے قربانی دی تھی۔ وہ ہمارا ہی نہیں، تمام مظلوم انسانوں کا ہیرو ہے۔

جب وہ دیبل فتح کر رہا تھا تو اسے ایک برہمن نے کہا کہ دیبل کے مندر پر لہراتے پرچم کو گرا دو۔ ہندوؤں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔ جب اس نے راجہ داہر کے پاس وفد بھیجا اوراسے دعوت دی تو وفد میں علاقے کا سب سے بڑا پروہت (پنڈت) ساتھ تھا۔ جس پر داہر نے کہا کہ اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ بہر کیف محمد بن قاسم نے سندھیوں پر احسان کیا اورانہیں ظالم راجہ سے نجات دلائی۔ یہی وجہ تھی کہ جب محمد بن قاسم واپس لوٹنے لگا تو سندھ کے لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اوراس کے بعد اس کی مورتیاں بناکر مندروں میں رکھ لیں۔گو کہ یہ ایک مشرکانہ عمل تھا، مگر اس سے محمد بن قاسم کے ساتھ بے پناہ محبت و ہمدردی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔

عربوں کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر سندھیوں نے نہ صرف عربوں جیسا رہن سہن ، بود وباش اختیار کیا، بلکہ آج سندھی زبان بھی عربی رسم الخط میں ہے۔

ہماری تاریخ اشوک یا راجہ داہر سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ محمد بن قاسم یا ہندوستان کے پہلے مسلمان سے شروع ہوتی ہے۔ بعض لوگ نہ صرف ہماری تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اسلامی معاشرے کو بگاڑنا یا ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ نہایت شد و مد کے ساتھ نہ صرف اشوک سے اپنی تاریخ شروع کرنا چاہتے ہیں، بلکہ راجہ داہر جیسے بدبخت کو اپنا ہیرو کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، مگر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے نام کے ساتھ حاجی کا سابقہ لگاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ خان کا لاحقہ بھی نہیں چھوڑتے۔ ایسے لوگ نہ صرف آئین سے اسلام نام کی ہر چیزکو مٹا دینا چاہتے ہیں، بلکہ حکومت کو حج و عمرہ پر ٹیکس لگانے کی تجویز دیتے ہیں۔ صدر پاکستان کے مسلمان ہونے کی شرط اور قرارداد مقاصد بھی ان کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔

1973ء کے آئین سے اسلامی دفعات بلکہ پاکستان سے اسلام و مسلمانوں کا خاتمہ ان کا ایجنڈا ہے۔ اٹھارویں ترمیم پر لکھے گئے اختلافی نوٹسان کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ محمد بن قاسم کو نہیں، راجہ داہر کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں ۔ عوام ان کا احتساب کریں۔
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
ماشاءاللہ۔زبردست بہت پہلے محمد بن قاسم کو پڑھا تھا
آج پھر آپ نے وہ یادیں تازہ کر دیں۔جزاک اللہ خیرا بھائی
 
Top