اس کالم کے آخری پیرا گراف کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ
گویا اس کالم میں ہمیں اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ ہم بھی اپنے ملک کا موحول ان جیسا کر لیں اور جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ یہاں بھی ہونا چاہیے، کیا ہمارے کالم نگاروں کے پاس لکھنے کے لیے کوئی اچھا موضوع نہیں ہے، کوئی ملکی مسئلہ یا امت مسلمہ کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے یہ لوگ اپنی قلم کو استعمال کیوں نہیں کرتے، آئے روز کوئی نہ سیکولر قسم کا کالم ہمارے اخبارات کی زینت بنا ہوتا ہے، گویا ان لوگوں کو یہ کام کرنے کے بدلے ڈالروں سے نوازا جاتا ہو ، ہمارے علماء اور قائدین کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیں اور اس کے سد باب پر غور و فکر کریں