عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
ہمارے اکابر علما کی تواضع اور باہمی رواداری۰۰۰!
مولانا ابو المکارم محمد علی مئوی ( وفات : 1933ء ) کا تعلق صوبہ اتر پردیش ( ہندوستان) کے معروف شہر مئو سے تھا۔ آپ کے والد ماجد مولانا فیض اللہ مئوی (وفات : 1889ء) بھی اہنے عہد کے بڑے نامور عالم اور مئو و گرد و نواح میں توحید و سنت کی آبیاری کرنے والے اولین اصحابِ عزیمت میں شامل تھے۔
مولانا ابو المکارم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ بعد ازاں استاذ الاساتذہ حافظ محمد عبد اللہ غازی پوری ( وفات : 1918 ء) اور شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی ( وفات: 1902ء) سے تحصیلِ علم کی۔ مولانا مئوی کو اللہ تعالی نے گوناگوں علمی و عملی کمالات سے نوازا تھا۔ مولانا ابو المکارم مرحوم ان معدودے چند علما میں شامل تھے جن کی لیاقت و قابلیت کی بنا پر نواب صدیق حسن خان مرحوم ( وفات : 1889ء) نے ریاست بھوپال کی طرف سے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا جس کے لیے بھوپال شہر ان کی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔
چنانچہ مولانا محمد علی مئوی اپنی بھوپال آمد اور وہاں قیام پذیر اکابر علما کے حسن سلوک اور تواضع و فروتنی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں جب بھوپال جاتا تو جناب مولانا محمد سلامت ﷲ صاحب جیراجپوری (وفات:1904ء) کے ہاں قیام کرتا۔ کھانے پینے میں جو کچھ آپ میرا خیال رکھتے، میں اس کی تشریح نہیں کر سکتا اور نہ یہ موقع اس کی تشریح کا ہے۔ میں جب کبھی بازار سے آتا اور آپ احیاناً چارپائی کے سرہانے بیٹھے ہوتے، مجھے دیکھ کر جھٹ چارپائی کے سرہانے سے پاینتی ہو جاتے اور خواہ مخواہ مجھ کو اپنی جگہ پر بٹھا دیتے۔ میں بہتیرا انکار کرتا، لیکن آپ ایک نہ سنتے۔ اسی طرح جب میں جناب مولانا محمد بشیر صاحب سہسوانی ( وفات : 1908ء) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ مجھے دیکھ کر کھڑے ہونے کا تہیا کرتے، لیکن میں جلد بیٹھ جاتا، تاکہ آپ کھڑے نہ ہو سکیں۔ آپ نے ایک دفعہ میری دعوت کی اور فرمایا کہ دعوت دونوں وقت کی ہے، کیونکہ یہاں دستور دونوں وقت کی دعوت کا ہے۔ میں نے کہا کہ میں آج شام کی گاڑی سے گھر جانے والا ہوں، لہٰذا شام کی دعوت معاف فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تو میری دعوت خداج غیر تمام ٹھہرے گی۔ مولانا ممدوح کے اس جملے سے دل تو باغ باغ ہو گیا، لیکن میرے شدید اصرار پر آپ نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔
ایک دفعہ میں جناب شیخ حسین بن محسن یمانی (وفات: 1910ء) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے گرد بہت سے لوگ مجتمع تھے۔ آپ مجھ کو دیکھ کر اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور زبردستی مجھ کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ میں نے کہا: میں اس لائق نہیں، مجھ کو بہت شرم محسوس ہو رہی ہے۔ لیکن آپ نہ مانے اور اپنی جگہ پر بٹھا ہی دیا۔
یہ تو ان حضرات کی انکساری ہے، ایک ہم لوگ ہیں کہ اپنے بڑوں کے ساتھ انکساری کرنے کو عار سمجھتے ہیں، چہ جائیکہ چھوٹوں کے ساتھ! ﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کی حالت پر رحم فرمائے۔
یہاں میں جناب مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی ( وفات : 1886ء) کا بھی ذکرِ خیر کیے بغیر نہیں رہ سکتا، کیونکہ آپ میں بھی ہمدردی اور انکساری کی کوئی حد نہ تھی۔ زمانہ قیامِ لکھنو میں میں گاہ بہ گاہ آپ کی خدمت میں جایا کرتا تھا۔ اگرچہ جناب مولانا ممدوح سے مجھے کسی فن میں تلمذ نہ تھا، لیکن آپ اپنے طلبا سے بھی زیادہ مجھ پر مہربان رہتے تھے۔ چنانچہ جب کوئی تقریب ہوتی تو مجھے بلا بھیجتے اور جس کتاب کی ضرورت ہوتی بلا تامل آپ مجھے عنایت فرماتے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد میں اور مولانا عبدالوہاب صاحب بہاری دونوں اکٹھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم دونوں کو کتاب کی ضرورت تھی۔ پہلے مولانا عبدالوہاب صاحب نے وہ کتاب طلب کی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ آپ نے فرمایا: کسی دوسرے وقت ملے گی۔ اس کے بعد میں نے امام حازمی کی کتاب ''الناسخ والمنسوخ'' طلب کی، آپ نے اسی وقت اٹھ کر الماری سے نکال کر میرے حوالے کی۔ جب ہم دونوں مولانا ممدوح کے پاس سے اٹھ کر باہر آئے تو مولانا عبدالوہاب صاحب رشک کھا کر مجھ سے کہتے ہیں کہ بھائی یہ کیا بات ہے! تم کو تو کتاب مولانا نے فوراً دے دی اور مجھ کو دوسرے وقت پر ٹال دیا، حالانکہ میں مولانا کا شاگرد ہوں اور تم ان کے شاگرد نہیں۔ میں نے اس کے جواب میں کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے ان کی تشفی ہو گئی۔ مولانا ممدوح جب تک زندہ رہے، ہمارے اور آپ کے درمیان خط کتابت جاری رہی۔ آپ گاہ بہ گاہ اپنے صرع (مرگی) کی حالت سے بھی آگاہ فرماتے رہے، چنانچہ ایک خط آپ کا یہاں درج کرتا ہوں:
*بخدمت مولوی صاحب مکرم عنایت ملزم مولوی محمد علی صاحب دام لطفہ از محمد عبدالحی عفا عنہ سلام مسنون۔ ناسازیِ طبع کی بنا پر خط کا جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی اور اسی بنا پر آپ کی طلب کردہ حدیث کی تحقیق نہ دیکھ سکا۔ اپنا حال کیا لکھوں، گذشتہ ماہ صحیحین اور توضیح و تلویح کے چند سبق شروع کیے تھے، مگر ان کی تکمیل نہ کر سکا اور دوراتِ صرع کی بنا پر طبیعت میں کمزوری زیادہ ہو گئی۔ دعائے خیر فرمائیں کہ ﷲ تعالیٰ تمام امراض سے نجات دے اور علمی مشاغل میں ہمیشہ مصروفِ کار رکھے۔ والسلام*
اگرچہ خاکسار آپ کے شاگردوں کی طرح ہے، لیکن آپ ہمیشہ مجھ کو بڑے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ کبھی اس طرح لکھتے اور کبھی مکرمی مشفقی کر کے مخاطب کیا کرتے۔ یہیں سے آپ ان کی تواضع اور انکساری ملاحظہ کر لیجیے۔ دعا کرتا ہوں کہ ﷲ تعالیٰ آپ کی قبر پر نور برسائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔
حقیقت میں یہ لوگ اخلاقِ محمدی کے سچے نمونے تھے۔ افسوس کہ ایسے ایسے لائق اور بے نفس علما سے دنیا خالی ہو گئی، لیکن ابھی تک دنیا ایسے لوگوں سے بالکل خالی بھی نہیں ہوئی۔ ایسے ہی بلند مرتبت لوگوں میں سے جناب شیخنا مولانا حافظ محمد عبد ﷲ صاحب غازی پوری ( 1918ء) ہیں۔ علمی قابلیت کے علاوہ آپ میں عملی صلاحیت اس قدر ہے کہ شاید آپ کا کوئی نظیر نہیں۔ تہجد کے آپ ایسے پابند ہیں کہ سفر میں بھی آپ ترک نہیں فرماتے۔ ریل چلتی جاتی ہے اور آپ تہجد پڑھتے جاتے ہیں۔ فروتنی اور انکساری کی حالت یہ ہے کہ مہمان جب آپ کے یہاں سے رخصت ہوتا ہے تو اسٹیشن تک آپ اس کا ساتھ دیتے ہیں اور جو کچھ اسباب اس مہمان کا ہوتا ہے آپ خود اس کو اٹھا لیتے ہیں۔ مہمان ہزار کوشش کرتا ہے کہ آپ تکلیف نہ کریں لیکن آپ اپنے کام سے باز نہیں آتے۔ خیر مہمان تو مہمان خاکسار تو آپ کا شاگرد ہے، لیکن میرے ساتھ بھی آپ بارہا ایسا کر چکے ہیں۔ بہرکیف آپ کی فروتنی اور انکساری کی حکایتیں اس قدر ہیں کہ ان کا احصا و بیان دشوار ہے۔ خلاصہ یہ کہ ''نہد شاخ پُر میوہ سر بر زمین'' (برسرِ زمین پھل سے لدی ہوئی ٹہنی) کے آپ پورے مصداق ہیں۔ ﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کو آپ کی تاسی کی توفیق بخشے۔
(مصدر: الروض الازہر، ص: ٨۔١٠۔ تالیف: مولانا محمد علی مئوی)
انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حافظ شاہد رفیق
مولانا ابو المکارم محمد علی مئوی ( وفات : 1933ء ) کا تعلق صوبہ اتر پردیش ( ہندوستان) کے معروف شہر مئو سے تھا۔ آپ کے والد ماجد مولانا فیض اللہ مئوی (وفات : 1889ء) بھی اہنے عہد کے بڑے نامور عالم اور مئو و گرد و نواح میں توحید و سنت کی آبیاری کرنے والے اولین اصحابِ عزیمت میں شامل تھے۔
مولانا ابو المکارم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ بعد ازاں استاذ الاساتذہ حافظ محمد عبد اللہ غازی پوری ( وفات : 1918 ء) اور شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی ( وفات: 1902ء) سے تحصیلِ علم کی۔ مولانا مئوی کو اللہ تعالی نے گوناگوں علمی و عملی کمالات سے نوازا تھا۔ مولانا ابو المکارم مرحوم ان معدودے چند علما میں شامل تھے جن کی لیاقت و قابلیت کی بنا پر نواب صدیق حسن خان مرحوم ( وفات : 1889ء) نے ریاست بھوپال کی طرف سے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا ہوا تھا جس کے لیے بھوپال شہر ان کی آمد و رفت رہا کرتی تھی۔
چنانچہ مولانا محمد علی مئوی اپنی بھوپال آمد اور وہاں قیام پذیر اکابر علما کے حسن سلوک اور تواضع و فروتنی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں جب بھوپال جاتا تو جناب مولانا محمد سلامت ﷲ صاحب جیراجپوری (وفات:1904ء) کے ہاں قیام کرتا۔ کھانے پینے میں جو کچھ آپ میرا خیال رکھتے، میں اس کی تشریح نہیں کر سکتا اور نہ یہ موقع اس کی تشریح کا ہے۔ میں جب کبھی بازار سے آتا اور آپ احیاناً چارپائی کے سرہانے بیٹھے ہوتے، مجھے دیکھ کر جھٹ چارپائی کے سرہانے سے پاینتی ہو جاتے اور خواہ مخواہ مجھ کو اپنی جگہ پر بٹھا دیتے۔ میں بہتیرا انکار کرتا، لیکن آپ ایک نہ سنتے۔ اسی طرح جب میں جناب مولانا محمد بشیر صاحب سہسوانی ( وفات : 1908ء) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ مجھے دیکھ کر کھڑے ہونے کا تہیا کرتے، لیکن میں جلد بیٹھ جاتا، تاکہ آپ کھڑے نہ ہو سکیں۔ آپ نے ایک دفعہ میری دعوت کی اور فرمایا کہ دعوت دونوں وقت کی ہے، کیونکہ یہاں دستور دونوں وقت کی دعوت کا ہے۔ میں نے کہا کہ میں آج شام کی گاڑی سے گھر جانے والا ہوں، لہٰذا شام کی دعوت معاف فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تو میری دعوت خداج غیر تمام ٹھہرے گی۔ مولانا ممدوح کے اس جملے سے دل تو باغ باغ ہو گیا، لیکن میرے شدید اصرار پر آپ نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔
ایک دفعہ میں جناب شیخ حسین بن محسن یمانی (وفات: 1910ء) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے گرد بہت سے لوگ مجتمع تھے۔ آپ مجھ کو دیکھ کر اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور زبردستی مجھ کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ میں نے کہا: میں اس لائق نہیں، مجھ کو بہت شرم محسوس ہو رہی ہے۔ لیکن آپ نہ مانے اور اپنی جگہ پر بٹھا ہی دیا۔
یہ تو ان حضرات کی انکساری ہے، ایک ہم لوگ ہیں کہ اپنے بڑوں کے ساتھ انکساری کرنے کو عار سمجھتے ہیں، چہ جائیکہ چھوٹوں کے ساتھ! ﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کی حالت پر رحم فرمائے۔
یہاں میں جناب مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی ( وفات : 1886ء) کا بھی ذکرِ خیر کیے بغیر نہیں رہ سکتا، کیونکہ آپ میں بھی ہمدردی اور انکساری کی کوئی حد نہ تھی۔ زمانہ قیامِ لکھنو میں میں گاہ بہ گاہ آپ کی خدمت میں جایا کرتا تھا۔ اگرچہ جناب مولانا ممدوح سے مجھے کسی فن میں تلمذ نہ تھا، لیکن آپ اپنے طلبا سے بھی زیادہ مجھ پر مہربان رہتے تھے۔ چنانچہ جب کوئی تقریب ہوتی تو مجھے بلا بھیجتے اور جس کتاب کی ضرورت ہوتی بلا تامل آپ مجھے عنایت فرماتے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد میں اور مولانا عبدالوہاب صاحب بہاری دونوں اکٹھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم دونوں کو کتاب کی ضرورت تھی۔ پہلے مولانا عبدالوہاب صاحب نے وہ کتاب طلب کی جس کی ان کو ضرورت تھی۔ آپ نے فرمایا: کسی دوسرے وقت ملے گی۔ اس کے بعد میں نے امام حازمی کی کتاب ''الناسخ والمنسوخ'' طلب کی، آپ نے اسی وقت اٹھ کر الماری سے نکال کر میرے حوالے کی۔ جب ہم دونوں مولانا ممدوح کے پاس سے اٹھ کر باہر آئے تو مولانا عبدالوہاب صاحب رشک کھا کر مجھ سے کہتے ہیں کہ بھائی یہ کیا بات ہے! تم کو تو کتاب مولانا نے فوراً دے دی اور مجھ کو دوسرے وقت پر ٹال دیا، حالانکہ میں مولانا کا شاگرد ہوں اور تم ان کے شاگرد نہیں۔ میں نے اس کے جواب میں کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے ان کی تشفی ہو گئی۔ مولانا ممدوح جب تک زندہ رہے، ہمارے اور آپ کے درمیان خط کتابت جاری رہی۔ آپ گاہ بہ گاہ اپنے صرع (مرگی) کی حالت سے بھی آگاہ فرماتے رہے، چنانچہ ایک خط آپ کا یہاں درج کرتا ہوں:
*بخدمت مولوی صاحب مکرم عنایت ملزم مولوی محمد علی صاحب دام لطفہ از محمد عبدالحی عفا عنہ سلام مسنون۔ ناسازیِ طبع کی بنا پر خط کا جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی اور اسی بنا پر آپ کی طلب کردہ حدیث کی تحقیق نہ دیکھ سکا۔ اپنا حال کیا لکھوں، گذشتہ ماہ صحیحین اور توضیح و تلویح کے چند سبق شروع کیے تھے، مگر ان کی تکمیل نہ کر سکا اور دوراتِ صرع کی بنا پر طبیعت میں کمزوری زیادہ ہو گئی۔ دعائے خیر فرمائیں کہ ﷲ تعالیٰ تمام امراض سے نجات دے اور علمی مشاغل میں ہمیشہ مصروفِ کار رکھے۔ والسلام*
اگرچہ خاکسار آپ کے شاگردوں کی طرح ہے، لیکن آپ ہمیشہ مجھ کو بڑے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ کبھی اس طرح لکھتے اور کبھی مکرمی مشفقی کر کے مخاطب کیا کرتے۔ یہیں سے آپ ان کی تواضع اور انکساری ملاحظہ کر لیجیے۔ دعا کرتا ہوں کہ ﷲ تعالیٰ آپ کی قبر پر نور برسائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔
حقیقت میں یہ لوگ اخلاقِ محمدی کے سچے نمونے تھے۔ افسوس کہ ایسے ایسے لائق اور بے نفس علما سے دنیا خالی ہو گئی، لیکن ابھی تک دنیا ایسے لوگوں سے بالکل خالی بھی نہیں ہوئی۔ ایسے ہی بلند مرتبت لوگوں میں سے جناب شیخنا مولانا حافظ محمد عبد ﷲ صاحب غازی پوری ( 1918ء) ہیں۔ علمی قابلیت کے علاوہ آپ میں عملی صلاحیت اس قدر ہے کہ شاید آپ کا کوئی نظیر نہیں۔ تہجد کے آپ ایسے پابند ہیں کہ سفر میں بھی آپ ترک نہیں فرماتے۔ ریل چلتی جاتی ہے اور آپ تہجد پڑھتے جاتے ہیں۔ فروتنی اور انکساری کی حالت یہ ہے کہ مہمان جب آپ کے یہاں سے رخصت ہوتا ہے تو اسٹیشن تک آپ اس کا ساتھ دیتے ہیں اور جو کچھ اسباب اس مہمان کا ہوتا ہے آپ خود اس کو اٹھا لیتے ہیں۔ مہمان ہزار کوشش کرتا ہے کہ آپ تکلیف نہ کریں لیکن آپ اپنے کام سے باز نہیں آتے۔ خیر مہمان تو مہمان خاکسار تو آپ کا شاگرد ہے، لیکن میرے ساتھ بھی آپ بارہا ایسا کر چکے ہیں۔ بہرکیف آپ کی فروتنی اور انکساری کی حکایتیں اس قدر ہیں کہ ان کا احصا و بیان دشوار ہے۔ خلاصہ یہ کہ ''نہد شاخ پُر میوہ سر بر زمین'' (برسرِ زمین پھل سے لدی ہوئی ٹہنی) کے آپ پورے مصداق ہیں۔ ﷲ تعالیٰ ہم لوگوں کو آپ کی تاسی کی توفیق بخشے۔
(مصدر: الروض الازہر، ص: ٨۔١٠۔ تالیف: مولانا محمد علی مئوی)
انتخاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حافظ شاہد رفیق