- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
میں نے اپنی گاڑی پارکنگ میں لگانے کی کوشش کی۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے آیا تھا۔ پارکنگ میں گاڑی لگاتے ہوئے احساس ہوا کہ دائیں طرف ایک بائیک کھڑی ہے اور درمیان میں فاصلہ بہت کم ہے لہذا بہت احتیاط سے گاڑی پارک کرنی ہو گی۔ اچانک نظر پڑی کہ پارکنگ مین کھڑی بائیک پر 30 یا 32 سال کی عمر کا ایک شخص بیٹھا۔
وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ بائیک اس کی نہیں ہے۔ ایک طرف تو یہ دل کیا کہ ہارن دے کر اسے متنبہ کروں کہ بائیک تھوڑی ادھر کر لے پھر یہ سوچا کہ میں خود ہی کچھ ہمت کر کے گاڑی جیسے تیسے پارک کر لوں، اس بیچارے کو تکلیف نہ ہی دوں تو اچھا ہے۔ معلوم نہیں کس پریشانی میں ہے۔
بہر حال گاڑی پارک کر کے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ کھانے کا آڈر دیا اور کھانا سرو ہونے سے پہلے اس شخص کو میں نے دوبارہ ریسٹورنٹ کے ایک کونے میں ایک ٹیبل پر کسی گہری سوچ میں نظریں جھکائے بیٹھے دیکھا۔ اس کے ہاتھ اس کی گود میں تھے۔ سر جھکا ہوا تھا۔ کپڑے بس مناسب سے تھے جیسے کسی درمیانے درجے کے ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ملازمین کے ہوتے ہیں۔ چہرے پر پریشانی بلکہ کرب کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ اپنی پوزیشن میں ساکت تھا جیسے اس کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے حلیے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس کی طرف بار بار دیکھوں۔ اسی دوران میں نے غور کیا کہ ریسٹورنٹ میں سرو کرنے والوں میں سے ایک دو نے ایک دو دفعہ اسے مخاطب کر کے کچھ کہا بھی۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ یہاں ملازم ہو لیکن وہ سرو نہیں کر رہا تھا۔
کھانا کھانے کے دوران اس نے ایک آدھ بار نظریں اٹھا کر ہماری طرف شاید کھانے کی طرف دیکھا۔ اس سے احساس پیدا ہوا کہ شاید اسے بھوک لگ رہی ہے۔ چونکہ اس ریسٹورنٹ میں پردے کے کچھ بہتر انتظامات ہونے کی وجہ سے فیملی کے ساتھ اکثر آنا جانا رہتا تھا لہذا اس کے عملے سے میں بخوبی واقف تھا۔ اس لیے اگر اس شخص کا تعلق ریسٹورنٹ کے عملے سے بھی تھا تو یہ ایک نیا اضافہ تھا۔ اب دل میں یہ خیال آیا کہ اس کا تعلق ریسٹورنٹ کے عملے سے معلوم ہوتا ہے لہذا کھانا تو اسے یہاں سے مل ہی جاتا ہو گا، چاہے کسٹمرز کا بچا کچھا ہو۔ اس کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ کیا ہو سکتا ہے؟ دھیان کھانے سے زیادہ اس کے بارے غور کرنے میں مصروف تھا۔
اچانک ذہن میں یہ بات آئی ہم میں ہر دوسرے شخص کا مسئلہ پیسہ ہے یا اگر پیسہ نہیں بھی ہے تو پیسہ ایک ایسی چیز ہے جو اس کا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ اس سوچ کے ذہن میں آتے ہی خوشی ہوئی کہ میں اس کا مسئلہ جان لیا ہے۔ اب اس پر غور کرنے لگا کہ اسے پیسے کیسے دوں۔ ایک دفعہ ذہن میں آیا کہ کھانا کھا کر فارغ ہوتے یعنی جاتے ہوئے چپکے سے اس کے ہاتھ میں کچھ رقم پکڑا دوں گا۔ پھر معا یہ خیال ذہن میں آیا کہ اگر اس کا مسئلہ پیسہ نہ ہوا تو اس طرح اسے رقم دینے سے اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے گی۔ اب تو نفس میں گویا ایک کشمکش سی شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اسے کچھ رقم دینے کے لیے آمادہ کرتا تھا اور اس کے احترام کا جذبہ اس میں رکاوٹ بن جاتا تھا کیونکہ وہ سوالی بہر حال نہیں تھا۔ بہر حال ہم نے کھانا کھایا اور میں اسی کشمکش کے ساتھ ریسٹورنٹ سے گھر کی طرف روانہ ہوا اور کافی دیر یہی سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے لیکن کوئی جواب نہ بن پڑا۔
ایک مہینے بعد پھر اسی رہسٹورنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پھر اسی شخص کو اسی کیفیت میں اسی ٹیبل پر اسی انداز میں بیٹھے دیکھا تو ہمدردی کا جذبہ ایک دفعہ پھر شدت سے بیدار ہو گیا۔ لیکن احترام کے جذبے نے کوشش کے باوجود ہمت نہیں پڑنے دی کہ میں اسے کچھ رقم دے سکتا۔ ریسٹورنٹ سے کھانے کھا کر باہر نکلے، گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے میں نے اپنے بیٹے، جو کہ آٹھ سال کا ہے، کے ہاتھ میں کچھ رقم رکھی اور کہا کہ چپکے سے اندر جا کر اس شخص کے ہاتھ میں رکھ کر واپس آ جاو۔ میں ابھی اپنے بیٹے کو اس کام سے بھیج ہی رہا تھا کہ اہلیہ نے یہ بات سن لی جو گاڑی میں ابھی بیٹھ ہی رہی تھیں۔ وہ کہنے لگیں: کیا کرتے ہیں، اسی طرح کیوں کسی کو ہرٹ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کس پریشانی میں ہے؟ اس طرح پیسے دینا اسے اچھا بھی لگے یا نہیں؟ اہلیہ کی یہ بات سن کر میں ایک دفعہ پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔ اس کی ہمدردی کا جذبہ جو غالب آ چکا تھا وہ اس بات پھر مغلوب ہو گیا اور اس کے احترام کا جذبہ غالب آ گیا۔
ابھی بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ایسے حالات میں انسان کو کیا کرنا چاہیے لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ایک ہی شخص کے بارے بعض اوقات ہم ایک سے زائد قسم کی سوچ اور جذبات رکھتے ہیں یا ان میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا اثر اس کے ذات کے لیے ہمارے اعضاء سے جنم لینے والے رویوں پر پڑتا ہے۔
وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ بائیک اس کی نہیں ہے۔ ایک طرف تو یہ دل کیا کہ ہارن دے کر اسے متنبہ کروں کہ بائیک تھوڑی ادھر کر لے پھر یہ سوچا کہ میں خود ہی کچھ ہمت کر کے گاڑی جیسے تیسے پارک کر لوں، اس بیچارے کو تکلیف نہ ہی دوں تو اچھا ہے۔ معلوم نہیں کس پریشانی میں ہے۔
بہر حال گاڑی پارک کر کے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ کھانے کا آڈر دیا اور کھانا سرو ہونے سے پہلے اس شخص کو میں نے دوبارہ ریسٹورنٹ کے ایک کونے میں ایک ٹیبل پر کسی گہری سوچ میں نظریں جھکائے بیٹھے دیکھا۔ اس کے ہاتھ اس کی گود میں تھے۔ سر جھکا ہوا تھا۔ کپڑے بس مناسب سے تھے جیسے کسی درمیانے درجے کے ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے ملازمین کے ہوتے ہیں۔ چہرے پر پریشانی بلکہ کرب کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ اپنی پوزیشن میں ساکت تھا جیسے اس کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے حلیے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس کی طرف بار بار دیکھوں۔ اسی دوران میں نے غور کیا کہ ریسٹورنٹ میں سرو کرنے والوں میں سے ایک دو نے ایک دو دفعہ اسے مخاطب کر کے کچھ کہا بھی۔ جس سے یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ یہاں ملازم ہو لیکن وہ سرو نہیں کر رہا تھا۔
کھانا کھانے کے دوران اس نے ایک آدھ بار نظریں اٹھا کر ہماری طرف شاید کھانے کی طرف دیکھا۔ اس سے احساس پیدا ہوا کہ شاید اسے بھوک لگ رہی ہے۔ چونکہ اس ریسٹورنٹ میں پردے کے کچھ بہتر انتظامات ہونے کی وجہ سے فیملی کے ساتھ اکثر آنا جانا رہتا تھا لہذا اس کے عملے سے میں بخوبی واقف تھا۔ اس لیے اگر اس شخص کا تعلق ریسٹورنٹ کے عملے سے بھی تھا تو یہ ایک نیا اضافہ تھا۔ اب دل میں یہ خیال آیا کہ اس کا تعلق ریسٹورنٹ کے عملے سے معلوم ہوتا ہے لہذا کھانا تو اسے یہاں سے مل ہی جاتا ہو گا، چاہے کسٹمرز کا بچا کچھا ہو۔ اس کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ کیا ہو سکتا ہے؟ دھیان کھانے سے زیادہ اس کے بارے غور کرنے میں مصروف تھا۔
اچانک ذہن میں یہ بات آئی ہم میں ہر دوسرے شخص کا مسئلہ پیسہ ہے یا اگر پیسہ نہیں بھی ہے تو پیسہ ایک ایسی چیز ہے جو اس کا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔ اس سوچ کے ذہن میں آتے ہی خوشی ہوئی کہ میں اس کا مسئلہ جان لیا ہے۔ اب اس پر غور کرنے لگا کہ اسے پیسے کیسے دوں۔ ایک دفعہ ذہن میں آیا کہ کھانا کھا کر فارغ ہوتے یعنی جاتے ہوئے چپکے سے اس کے ہاتھ میں کچھ رقم پکڑا دوں گا۔ پھر معا یہ خیال ذہن میں آیا کہ اگر اس کا مسئلہ پیسہ نہ ہوا تو اس طرح اسے رقم دینے سے اس کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے گی۔ اب تو نفس میں گویا ایک کشمکش سی شروع ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اسے کچھ رقم دینے کے لیے آمادہ کرتا تھا اور اس کے احترام کا جذبہ اس میں رکاوٹ بن جاتا تھا کیونکہ وہ سوالی بہر حال نہیں تھا۔ بہر حال ہم نے کھانا کھایا اور میں اسی کشمکش کے ساتھ ریسٹورنٹ سے گھر کی طرف روانہ ہوا اور کافی دیر یہی سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے لیکن کوئی جواب نہ بن پڑا۔
ایک مہینے بعد پھر اسی رہسٹورنٹ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پھر اسی شخص کو اسی کیفیت میں اسی ٹیبل پر اسی انداز میں بیٹھے دیکھا تو ہمدردی کا جذبہ ایک دفعہ پھر شدت سے بیدار ہو گیا۔ لیکن احترام کے جذبے نے کوشش کے باوجود ہمت نہیں پڑنے دی کہ میں اسے کچھ رقم دے سکتا۔ ریسٹورنٹ سے کھانے کھا کر باہر نکلے، گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی اسٹارٹ کرنے سے پہلے میں نے اپنے بیٹے، جو کہ آٹھ سال کا ہے، کے ہاتھ میں کچھ رقم رکھی اور کہا کہ چپکے سے اندر جا کر اس شخص کے ہاتھ میں رکھ کر واپس آ جاو۔ میں ابھی اپنے بیٹے کو اس کام سے بھیج ہی رہا تھا کہ اہلیہ نے یہ بات سن لی جو گاڑی میں ابھی بیٹھ ہی رہی تھیں۔ وہ کہنے لگیں: کیا کرتے ہیں، اسی طرح کیوں کسی کو ہرٹ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کس پریشانی میں ہے؟ اس طرح پیسے دینا اسے اچھا بھی لگے یا نہیں؟ اہلیہ کی یہ بات سن کر میں ایک دفعہ پھر سوچوں میں گم ہو گیا۔ اس کی ہمدردی کا جذبہ جو غالب آ چکا تھا وہ اس بات پھر مغلوب ہو گیا اور اس کے احترام کا جذبہ غالب آ گیا۔
ابھی بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ایسے حالات میں انسان کو کیا کرنا چاہیے لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ایک ہی شخص کے بارے بعض اوقات ہم ایک سے زائد قسم کی سوچ اور جذبات رکھتے ہیں یا ان میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا اثر اس کے ذات کے لیے ہمارے اعضاء سے جنم لینے والے رویوں پر پڑتا ہے۔