آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا أَنَّہَا قَالَتْ کَانَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حَصِیرٌ، وَکَانَ یُحَجِّرُہٗ مِنَ اللَّیْلِ فَیُصَلِّیْ فِیہِ، فَجَعَلَ النَّاسُ یُصَلُّونَ بِصَلٰوتِہٖ، وَیَبْسُطُہٗ بِالنَّہَارِ فَثَابُوا ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ عَلَیْکُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِیقُونَ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوا وَإِنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ مَا دُووِمَ عَلَیْہِ وَإِنْ قَلَّ۔))1
’’ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی تھی کہ جسے آپ رات کے وقت سمٹا کر بچھا لیتے اور اس پر نماز پڑھتے۔ لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن کے وقت اس چٹائی کو کھول کر بچھالیتے۔ لوگوں نے ایک رات نماز کے لیے ہجوم کردیا۔ جب آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا: اے لوگو! اتنا عمل کرو جتنی تم طاقت رکھتے ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا تم (عمل سے) تھک جاؤ گے اور اللہ کی طرف سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس کو ہمیشہ کیا گیا ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔ ‘‘
یعنی بغیر تنگی اور تکلیف کے جتنی تمہارے اندر ہمیشگی کرنے کی طاقت ہے اس کے مطابق عمل کرو۔ اس حدیث میں عبادات میں گہرائی سے منع کیا گیا اور میانہ روی اختیار کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ یہ حدیث صرف نماز کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام نیک اعمال کے متعلق ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ بہت پیار اور لگاؤ ہے کیونکہ ان کی ایسی چیز کی طرف رہنمائی کی جو ان کی اصلاح کردے یعنی جو انہیں بغیر ضرر اور تکلیف کے ہمیشگی کرنے کا موقع دے۔ چنانچہ طبیعت ہشاش بشاش اور دل مطمئن ہوجائے گا جس کی بناء پر عبادت مکمل ہوجائے گی۔
اس کے برخلاف وہ انسان جو مشقت والے عمل میں منہمک ہو، وہ اسے مکمل چھوڑنے یا اس کا کچھ حصہ چھوڑنے کی راہ پر چلا، یا اسے مشقت کے ساتھ یا دل کے اطمینان کے بغیر اسے کرنے کے درپے ہوا چنانچہ اس سے خیر عظیم فوت ہوجائے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے انسان کی مذمت کی ہے جس نے عبادت کی عادت ڈال کر پھر اس میں حد سے تجاوز کیا۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا گیا ہو اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ حدیث کے اس جملہ میں اعمال کی ہمیشگی پر ابھارا گیا ہے اور یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ قلیل عمل لیکن ہمیشگی والا، اس زیادہ عمل سے بہتر ہے جو بعد میں ترک کردیا جائے کیونکہ قلیل کی ہمیشگی کے ساتھ فرمانبرداری، ذکر، مراقبہ، سے اخلاصِ نیت اور خالق کی طرف توجہ ہمیشہ رہتی ہے اور ہمیشگی والا قلیل عمل اس حیثیت سے پھل دیتا ہے کہ چھوڑے ہوئے زیادہ عمل سے ثواب میں کئی گناہ بڑھ جاتا ہے۔2
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب: فضیلۃ العمل الدائم، رقم : ۱۸۲۷۔
2- فتح الباری، ص: ۲۹۸، ۲۹۹؍۱۱۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند