• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اپنی دعاؤں کو کیسے قبول کرائیں؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

ہم اپنی دعاؤں کو کیسے قبول کرائیں؟


ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

بینی پٹی ۔مدھوبنی۔بہار



الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،اما بعد:

برادران اسلام!

جب ہم لوگ اللہ کے اس وعدے کو سنتے یاپھر پڑھتے ہیں کہ ’’ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ‘‘ اورتمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا)ہے کہ مجھ سے دعاکرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔(المؤمن:60)توبہت سارے لوگ اس بات کولے کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے تو دعائیں بہت کی مگر ان کی دعائیں قبول نہیں ہوئی،آخر وہ کیاکرے کی ان کی دعائیں قبول ہوجائے؟سوچنے والی بات ہے کہ ایک طرف اللہ رب العزت کا یہ وعدہ ہےکہ میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا اوردوسری طرف ہماری یہ حالت کہ ہم دعائیں کرکرتھک چکے ہیں مگرہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہے!آخرکیوں؟تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں دعا کرنا تو معلوم ہے مگراپنے رب اللہ رب العزت سے مانگنے کا ڈھنگ وطریقہ معلوم نہیں ہے،ہم تو بس رسماًوعادتاًدعاؤں کے لئے اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورگراتےہیں،ہمیں نہ تو اس بات کا احساس ہوتاہے کہ ہم شہنشاہوں کے شہنشاہ سے مانگ رہے ہیں اورنہ ہی ہمیں اس بات کی خبرہے کہ ہمارارب ہماری دعاؤں کو کیسے قبول کرتاہے!بس ہم میں سے ہرانسان کی یہی چاہت اورآرزوہوتی ہے کہ اللہ اس کی ہردعاؤں کوقبول کرلے،اس کی ہرمرادپوری ہوجائے اوروہ جومانگے اسے فورا مل جائے،میرے دوستو!اگرآپ بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ آپ کی دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں توآج سے آپ پریشان ہونا چھوڑدیں اورآج کے خطبۂ جمعہ میں جوجوباتیں میں بتانے والاہوں اس پر عمل کرکے دیکھیں ،ان شاء اللہ آپ کی ہرمرادپوری ہوگی اورآپ کی ہردعا قبول کی جائے گی!

(1) رات کے آخری حصے میں دعائیں کیا کریں:

میرے دوستو اورپیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو!

اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تو پھر رات کے آخری حصے میں اٹھ کردعائیں کیاکریں کیونکہ یہ لمحہ ایک ایسالمحہ ہوتاہے جس میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں جیسا کہ سیدنا ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ ’’ أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ ‘‘ كس وقت سب سے زیادہ دعائیں قبول کی جاتی ہیں؟تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ ‘‘رات کے آخری حصے میں سب سے زیادہ دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔(ترمذی:3499وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)اورتو اورہے اس لمحے کے بارے میں رب العزت کا یہ وعدہ ہے کہ جو انسان بھی اس وقت میں دعائیں کرے گا تومیں اس کی دعاؤں کو قبول کروں گااوراس کی فریاد رسی کروں گاجیساکہ حبیب کائناتﷺ کا یہ فرمان ہے کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتاہے تو اللہ رب العزت اپنی شان کے مطابق آسمان دنیاپر نزول فرماتاہے اورپھر صبح صادق تک یہ اعلان کرتارہتاہے کہ ’’ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ ‘‘ ہے کوئی جو مجھ سے دعائیں کریں اور میں اس کی دعاؤں کو قبول کرلوں ،ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے عطاکردوں،ہے کوئی مجھ سے معافی کا طلبگار کہ میں اسے معاف کردوں ۔ (بخاری:1145،مسلم:757)

(2) رات میں آنکھ کھلتے ہی دعائیں کیا کریں:

میرے دوستو!اگرآپ اپنی دعاؤں کوقبول کراناچاہتے ہیں توپھررات میں سونے سے پہلے وضوکرکے ذکرواذکارکرتے ہوئےسو جایاکریں اورپھررات میں جب بھی آپ کی آنکھ کھلے تو اپنے رب سے کچھ نہ کچھ ضرورمانگ لیاکریں کیونکہ ایساکرکے سونے سے اس وقت بھی دعائیں قبول کی جاتی ہیں جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ’’ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَبِيتُ عَلَى ذِكْرٍ طَاهِرًا فَيَتَعَارُّ مِنَ اللَّيْلِ فَيَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ ‘‘جوشخص بھی باوضوہوکراللہ کا ذکرکرتے ہوئے سوجائےاورپھررات کو کسی وقت جب اس کی آنکھ کھلے تووہ انسان اللہ سے دنیاوآخرت کی جوبھی بھلائی مانگے گا تو اللہ اسے عطاکردے گا۔(ابوداؤد:5042،وقال الألبانیؒ :اسنادہ صحیح)اسی طرح سے اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تو رات میں ایک اورآسان عمل کرلیاکریں کیونکہ یہ ایک ایسا آسان عمل ہے جس سے آپ کی ہرمراد پوری ہوگی اورآپ کی ہردعاقبول کی جائے گی جیسا کہ عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ ‘‘کہ جس انسان کی رات کے وقت آنکھ کھل جائے اورفورا اپنے زبان سے یہ کلمات’’ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ‘‘ ادا کرےاورپھر یہ کہے کہ ’’ أَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ‘‘اے اللہ مجھے بخش دے،یافرمایا کہ’’ أَوْ دَعَا أُسْتُجِيبَ لَهُ ‘‘ اگر وہ دعاکرے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی اور اگروضوکرکے نمازپڑھے گا تو اس کی نماز بھی قبول کی جائے گی۔ (بخاری:1154،ترمذی:3414،ابوداؤد:5060)

(3) اذان اوراقامت کے درمیان دعائیں کیا کریں:

میرے دوستو!اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کرانا چاہتے ہیں تو آپ اذان اوراقامت کے درمیان میں دعائیں کیاکریں کیونکہ اذان اوراقامت کے درمیان جو 15/20 منٹ کا وقفہ ہوتا ہے یہ ایک ایسا قیمتی لمحہ ہوتا ہے جس میں دعائیں قبول کی جاتی ہیں جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ أَلدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ ‘‘کہ اذان اوراقامت کے درمیان کی جانے والی دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتاہے۔(ترمذی:212 وقال الألبانیؒ:اسنادہ صحیح) مگر افسوس صد افسوس لوگوں کی حرماں نصیبی دیکھئے کہ اس قیمتی لمحے کو بہت شوق سے ضائع وبرباد کرتے نظر آتے ہیں،دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ ان اوقات میں باتوں میں مشغول ہوتے ہیں یا پھر اپنے موبائل میں گھسے ہوتے ہیں یا پھر جان بوجھ کر تاخیرسے آتے ہیں۔

(4)اسم اعظم اورتوحیدی کلمات کے وسیلے سے دعائیں کیا کریں:

برادران اسلام!اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تو پھر اسم اعظم اورتوحیدی کلمات اورتوحیدی جملوں کے وسیلے سےدعائیں مانگاکریں کیونکہ ان جملوں کے ذریعے اگر کوئی اپنے رب سے فریاد کرتاہے تو اس کی دعائیں فورا قبول کرلی جاتی ہےجیسا کہ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ آپﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے نماز ادا کی اورپھر یہ کہتے ہوئے دعاکرنے لگا کہ ’’ أَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ، بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ إِنِّي أَسْأَلُكَ ‘‘(اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتاہوں اس لئے کہ ہرطرح کی تعریف تیرے لئے ہی ہے،تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں،توبے انتہااحسان کرنے والا ہے،آسمان وزمین کو بغیرنمونے کے پیداکرنےوالا توہی ہے،اے جاہ وجلال اورعزت وبزرگی والے،اے ہمیشہ زندہ رہنے والےاورسب کی نگرانی کرنے والے،میں تجھ سے سوال کررہاہوں)توآپﷺ نےصحابۂ کرام سے پوچھا کہ ’’ تَدْرُونَ بِمَا دَعَا ‘‘کیاتم جانتے ہوکہ اس انسان کے کس چیز کے وسیلے سے دعاکی ہے تو صحابۂ کرام نے کہاکہ اللہ اوراس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں،توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ، الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےتحقیق کہ اس نے اللہ سے اس کے اس عظیم نام کے وسیلے سے دعاکی ہے کہ جس کے وسیلے سے اگردعاکی جائے تو وہ قبول کرتاہے،اوراگرمانگا جائے تو عطا کردیتاہے۔(ابوداؤد:1495،نسائی :1300،وقال الألبانیؒ:اسنادہ صحیح)اسی طرح سے ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ آپﷺ نے ایک آدمی کو ان الفاظ میں دعاکرتے ہوئے سنا کہ ’’ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ، وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ‘‘(اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتاہوں اس بناپر کہ میں گواہی دیتاہوں کہ توہی اللہ ہے،تیرے سواکوئی معبود برحق نہیں،تواکیلاہے،توبے نیاز ہے،تجھ سے نہ توکوئی پیداہواہے اورنہ ہی تو کسی سے پیداہواہےاورنہ ہی تیری برابری کرنے والاکوئی ہے)توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ بِالِاسْمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ ‘‘تونے اللہ سے اس کے اس نام سے سوال کیاہے کہ جب اس سے اس نام سے مانگاجائے تو وہ عنایت فرماتاہے،دعاکی جائے تو دعابھی قبول کرتاہے۔(ابوداؤد:1493،وقال الألبانیؒ:اسنادہ صحیح)اسی طرح سے اگرکوئی انسان اللہ کے اسم اعظم کے وسیلے سے اگردعائیں کرتاہے تو اس کی دعائیں بھی فورا قبول کرلی جاتی ہےجیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ اسْمُ اللَّهِ الْأَعْظَمُ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ ‘‘کہ اللہ کے اسم اعظم کے وسیلے سے اگردعائیں کی جائے تو اللہ دعاؤں کو قبول کرلیتاہےاوراسم اعظم قرآن مجید کی تین سورتوں میں مذکور ہے نمبر ایک ’’ وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ ‘‘(البقرۃ:163)نمبر دو’’ الم أَللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ ‘‘ اورنمبر تین’’ وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ‘‘ (طہ:111)اوربعض روایتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آیت الکرسی کےا ندر بھی اسم اعظم ہے۔(ابن ماجہ:3855،3856،ترمذی:3478،ابوداؤد:1496،الصحیحۃ:746)پتہ یہ چلاکہ جوانسان بھی اسم اعظم اور اس طرح کے توحیدی جملوں کے ذریعہ دعائیں کرتاہے تو رب العزت اس کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے ضرور بالضرورنوازتاہے،اس لئے آپ جب بھی دعائیں کیا کریں تو ان آیتوں اوردعاؤں کو ضروربالضرور پڑھاکریں۔

(5)یارب یا پھر ربنا کے الفاظ سے دعائیں مانگاکریں:

میرے دوستو! اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کرانا چاہتے ہیں توپھرآپ اپنے رب سے ربوبیت کا واسطہ اورحوالہ دے کر مانگا کریں وہ اس طرح سے کہ آپ اپنی دعاؤں کا آغاز یاربی یاپھر ربنا سے کیا کریں کیونکہ رب العزت کو اس الفاظ سے مانگنا اورپکارنا بہت بہت پسند ہےاوراللہ رب العزت عطابھی کردیتاہے اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہو تو آپ قرآن مجید اٹھائیں اورپھر نبیوں اوررسولوں کی دعاؤں کو تلاش کیجئے وہاں پر آپ کو ہرجگہ یہی الفاظ نظر آئے گا کہ تمام نبیوں اوررسولوں نے جب بھی اللہ سے مانگاتو ربوبیت کاوسیلہ لیا اوراللہ نے ان سب کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا بھی ،یہ لیجئے مشتے نمونہ از خروارے کےطورپرمیں کچھ دعائیں آپ کے سامنے بیان کر دیتاہوں تاکہ آپ کو کامل یقین ہوجائےکہ جب بھی اللہ سے اس الفاظ کے حوالے سے دعائیں کی جاتی ہے تو اللہ رب العزت دعاؤں کو شرف قبولیت سے ضرورنوازتا ہے:

(1)باباآدم نے ربوبیت کے وسیلے سے دعامانگی اورکہا کہ ’’ رَبَّنا ظَلَمْنا أَنْفُسَنا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنا وَتَرْحَمْنا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخاسِرِينَ ‘‘اے ہمارے رب!ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اوراگرتوہماری مغفرت نہ کرے گا اورہم پر رحم نہ کرتے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔(الاعراف:23)تو رب نے معاف فرمادیا۔

(2)سیدناموسی علیہ الصلاۃ والسلام بے یارومددگار اوربے روزگار تھے اورپھر رب کی ربوبیت کا واسطہ دے کرکہا کہ ’’ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ‘‘اے پروردگار!توجوکچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ (القصص:24)تواللہ نے دعاقبول کرتے ہوئے رہنے کو مکان بھی دلادیا،نوکری بھی دلادی اوربیوی بھی عطاکردی۔

(3) سیدناابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے رب کی ربوبیت کے وسیلے سے دعاکرتے ہوئے کہا کہ’’ رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ ‘‘ اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما۔(الصفات:100)تو اللہ نے اسماعیل بیٹا عطاکردیا۔

(4) سیدنازکریاعلیہ الصلاۃ والسلام نے بھی رب کی ربوبیت کا حوالہ دے کر اپنے لئے ایک وارث مانگا اوركها كه ’’ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ ‘‘ اے میرے پروردگار!مجھے تنہا نہ چھوڑ،توسب سے بہتروارث ہے۔(الانبیاء:89)تو رب نے یحیٰ بیٹا عطاکردیا۔

(5)سيدنا سليمان عليه الصلاة والسلام نے بھی اللہ رب العزت سے اسی ربوبیت کے وسیلے سے ہی بادشاہت کا سوال کیا تھا اوردعامانگی تھی کہ’’ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ‘‘اے میرے رب !مجھے بخش دے اورمجھے ایسا ملک عطافرما جومیرے سواکسی (شخص) کے لائق نہ ہو،توبڑاہی دینے والاہے۔(ص:35)تو رب العزت نے ان کی دعاکوشرف قبولیت سے نوازتے ہوئےایسی بادشاہت سے نوازا جونہ تو ان سے پہلے کسی کو ملی تھی اورنہ ہی تاقیامت کسی کو مل سکتی ہے۔

(6) خودآپﷺ بھی اسی ربنا والی دعاکواکثروبیشتر پڑھا کرتے تھےجيسا كه سيدنا انسؓ بیان کرتاہے کہ ’’ كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘ آپﷺ کثرت سے یہ دعاپڑھا کرتے تھے کہ ’’ أَللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ‘‘اے ہمارے پروردگا! توہمیں دنیا وآخرت میں خیروبھلائی عطا فرما اورہمیں عذاب جہنم سے محفوظ رکھ۔(بخاری:6389)

(7)صرف انبیاء ورسل ہی نہیں بلکہ اصحاب کہف نے بھی اپنی ایمان کی حفاظت کے لئے اسی رب کی ربوبیت کے حوالے سے ہی دعامانگی تھی کہ ’’ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ‘‘اے ہمارے پروردگار!ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطافرما اورہمارے کام میں ہمارے لئے راہ یابی کو آسان کر۔(الکہف:10) اوررب العزت نے انہیں اپنارحمت عطاکیا بھی اوران کے دین وایمان کی حفاظت بھی کی،صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجیدکے اندررب العزت نے اہل ایمان کو جوجودعائیں بتائی اورسکھائی ہیں وہ سب دعائیں ربنا سے شروع ہوتی ہیں اوریہ اس بات کی دلیل ہے کہ رب العزت کو ربنا کے ذریعے دعاکرنا بہت پسند ہے غالباانہیں سب برکات کی وجہ سے سیدناابودرداءؓ اورسیدنا ابن عباسؓ کہاکرتے تھے کہ ’’ اسْمُ اللَّهِ الْأَكْبَرُ رَبِّ رَبِّ ‘‘اللہ کا سب سے بڑا نام رب ہے۔(طبرانی:119،مصنف ابن ابی شیبہ:29365،موسوعۃ الألبانی فی العقیدہ:860)

(6) اسمائے حسنیٰ کے وسیلے سے دعائیں کیا کریں:

میرے دوستو!اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کرانا چاہتے ہیں تو پھر اللہ رب العزت کے جتنے بھی نام ہیں ان کے وسیلے سے دعائیں کیاکریں کیونکہ یہ اللہ رب العزت کا حکم ہے کہ اے لوگوں تم اپنے رب کو اس کے اچھے اچھے ناموں کے ساتھ دہائی دیاکرو جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ‘‘اوراچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں سوان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیاکرو۔(الاعراف:180)اللہ کو اچھے اچھے ناموں کے ساتھ پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ رب العزت کو اس کے اچھے اچھے ناموں کے ساتھ دہائی دیں مثلاآپ اس طرح سے دعائیں کیاکریں کہ یاحی یا قیوم ،یا ذالجلال والاکرام تومیری فلاں ضرورت کوپوری کردے،یاغفار تو میری مغفرت فرمادے،یاستار تو میرے عیوب پر پردہ ڈال دے،یاتواب تو میری توبہ کو قبول کرلے،یارحمان یا رحیم تو میرے اوپر رحم وکرم فرماوغیرہ وغیرہ،بالخصوص یاحی یاقیوم اوریا ذوالجلال والاکرام کےذریعے آپ ضروردعائیں کیا کریں کیونکہ یہ آپﷺکا فرمان ہے کہ ان کلمات کے ذریعے دعائیں قبول کی جاتی ہے جیسا کہ ہم نےابھی ابھی اوپر توحیدی کلمات کے ذریعے دعاکرنے کے بیان میں آپ کے سامنے میں دوحدیثیں پیش کردی ہیں،اسی طرح سے آپﷺ کا یہ حکم بھی موجود ہے کہ اے لوگوں تم یا ذوالجلال والاکرام کواپنی دعاؤں میں لازم پکڑلو جیسا کہ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ أَلِظُّوْا بِـيَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ‘‘ کہ تم اپنی دعاؤں میں یا ذوالجلال والاکرام (اے عظمت وکبریائی کے مالک)کے الفاظ کو لازم پکڑو۔(الصحیحۃ:1536)علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس پر ثابت رہواوراپنی دعاؤں میں اسے بکثرت استعمال کرواورشیخ ابن جبرینؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس نام کے ساتھ اللہ تعالی سے سوال کرو اوراس سے دعائیں مانگو۔(فضائل قرآن کی کتاب:ص103)

(7)دعائے یونس پڑھ کردعائیں کیاکریں:

میرے دوستو!اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تو پھردعاکرنے سے پہلے ایک آسان عمل کیاکریں کہ جب بھی آپ اپنے رب کے حضوراپنے ہاتھوں کو اٹھائیں تو سیدنایونس علیہ الصلاۃ والسلام کی دعاکوپڑھ کر دعائیں مانگاکریں کیونکہ جوانسان بھی دعائے یونس علیہ الصلاۃ والسلام پڑھ کردعائیں مانگتاہے تو اس کی دعائیں قبول کرلی جاتی ہیں جیسا کہ سیدنا سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الحُوتِ ‘‘ کہ مچھلی والے پیغمر سیدنایونس علیہ الصلاۃ والسلام کی دعاجو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی کہ ’’ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‘‘تیرے سواکوئی معبودبرحق نہیں،توپاک ہے ،بیشک میں ہی قصوروار ہوں،’’ فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ ‘‘توجومسلمان بھی اپنے رب سے کسی بھی چیز کے بارے میں دعاکرے گا تو اللہ رب العزت اس کی دعاکو ضرورشرف قبولیت سے نوازے گا۔(ترمذی:3505،وقال الألبانیؒ:اسنادہ صحیح)اسی طرح سے ایک دوسری روایت کے اندر ہے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ مَنْ دَعَا بِدُعَاءِ يُونُسَ اسْتُجِيبَ لَهُ ‘‘ جوانسان بھی سیدنایونس علیہ الصلاۃ والسلام کی دعا کے ذریعے دعاکرے گا تو اس کی دعاضرور قبول کی جائے گی۔ (مسندابویعلی:707،حاکم:4127،اسنادہ حسن)

(8) سورۃ فاتحہ پڑھ کردعائیں کیاکریں:

برادران اسلام!اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تو پھر ایک اورآسان عمل کے ذریعے دعائیں مانگا کریں آپ کی دعاضروربالضرورقبول کی جائے گی کیونکہ یہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ جوبندہ بھی ایساکرے گا میں اس کو ہرچیز عطاکردوں گا۔سبحان اللہ۔اوروہ آسان عمل ہے سورہ فاتحہ پڑھ کردعائیں مانگنا،اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہورہاہوتوپھر اٹھائیے صحیح مسلم حدیث نمبر395 پڑھئے اوردیکھئے کہ اس کے اندرآپﷺ نے کیابیان فرمایاہے ،سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ الله رب العزت كا يه فرمان ہے’’ قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ ‘‘میں نے نماز(یہاں نماز سے مراد سورۃ فاتحہ ہے)کویعنی سورۃ فاتحہ کو اپنے اوراپنے بندوں کے درمیان دوحصو ںمیں تقسیم کردیاہے اورآدھا میرے لئے ہے اورآدھا میرے بندے کے لئے ہے ’’ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‘‘ اورمیرے بندے کے لئے وہ سب کچھ ہے جس کا وہ سوال کرے گا،بندہ جب کہتاہے ’’ أَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‘‘ سب تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ،تورب العزت جواب دیتے ہوئے فرماتاہے کہ ’’ حَمِدَنِي عَبْدِي ‘‘ میرے بندے نےمیری تعریف بیان کی،پھرجب بندہ ’’ أَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ‘‘ (بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ) کہتاہے تواللہ جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتاہے کہ ’’ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي ‘‘میرے بندے نے میری ثنا کی ہے،پھر جب بندہ ’’ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ‘‘ (بدلے کے دن(یعنی قیامت)کامالک ہے)کہتاہے تو اللہ رب العزت جواب دیتے ہوئے فرماتاہے کہ ’’ مَجَّدَنِي عَبْدِي ‘‘میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہےاورایک مرتبہ آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ یہ کہتاہے کہ ’’ فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي ‘‘میرے بندے نے اپنا سب معاملہ میرے سپرد کردیا ہے ،پھر بندہ جب یہ کہتا ہے ’’ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ‘‘(ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورصرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) تو اللہ رب العزت یہ فرماتا ہے کہ ’’ هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‘‘یہ میرے اورمیرے بندے کے درمیان ہے اورمیرے بندے کے لئے وہ سب کچھ ہے جس کا وہ سوال کرے گا،پھر جب بندہ یہ کہتاہے ’’ إِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‘‘(ہمیں سیدھی (اورسچی)راہ دکھا،ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا ان کی نہیں جن پرغضب کیا گیا اورنہ گمراہوں کی)تواللہ تعالی فرماتاہے کہ ’’ هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‘‘یہ میرے بندے کے لئے ہے اورمیرے بندے کے لئے وہ سب کچھ ہے جس کا وہ سوال کرے گا۔ (مسلم:395،ابوداؤد:821،ترمذی:2953)میرے دوستو!دیکھا اورسناآپ نے کہ سورہ فاتحہ پڑھنے والے کو اللہ رب العزت کس طرح سے نوازنے کا وعدہ کرتاہے توآپ جب بھی دعائیں مانگاکریں تو سب سے پہلے سورہ فاتحہ ضروربالضرورپڑھا کریں ۔

(9) اللہ کی تعریف کرکے دعائیں مانگاکریں:

(10) اپنے نبیﷺ پر درود بھیج کردعائیں کیاکریں:

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اوربہنو!

اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تویہ بات اچھی طرح سے یادرکھ لیں کہ جب کبھی بھی آپ دعائیں کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو اٹھائیں تو سب سے پہلے اللہ کی تعریف وحمدوثنا بیان کیاکریں پھر اپنے نبیﷺ پردورد بھیجے اس کے بعدآپ کو اپنے لئے جوسوال کرناہے کیجئے ، جومانگنا ہے مانگئے،اللہ آپ کو ضرورعطاکرے گا،اللہ کی حمدوثنا بیان کرنے کے لئے آپ سورۃ فاتحہ،آیت الکرسی،سورۃ حشر کی آخری تین آیات،سورۃ اخلاص وغیرہ اورذکرواذکار کے جو کلمات آپ کو یاد ہوں ہیں وہ پڑھ سکتے ہیں،اس کے بعدآپ درودابراہیمی پڑھئے اورپھر سوال کیجئے،یہ آپﷺ کا وعدہ ہے کہ ایساکرنے سے دعائیں قبول ہوتی ہے جیسا کہ سیدنا فَضالہ بن عبیدؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم آپﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اورنماز پڑھی اورپھر سلام پھیرتے ہی یہ دعا کرنے لگا کہ ’’ أَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي ‘‘ اے اللہ مجھے بخش دے اورمیرے اوپر رحم فرما،ایسا دیکھ کرآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ عَجِلْتَ أَيُّهَا المُصَلِّي إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَصَلِّ عَلَيَّ ثُمَّ ادْعُهُ ‘‘اے نماز ی انسان تم نے بہت جلدی کی ہے، جب تم نماز پڑھو اورپھر دعاکرنے کے لئے بیٹھو تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد وثنا بیان کرو اورمجھ پر درود بھیجو پھر تم دعا کرو،حضرت فضالہ بیان کرتے ہیں کہ پھر کچھ دیر کے بعدایک دوسرا آدمی مسجد میں آیا اورنماز اداکرکے اس نے اس طرح سے دعا کی شروعات کی کہ پہلے اس نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اورنبیﷺ پردرود بھیجا تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ’’ أَيُّهَا المُصَلِّي ادْعُ تُجَبْ ‘‘اے نمازی !دعاکر قبول کی جائے گی، ایک دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا کہ دعاکرو تمہاری دعا قبول کی جائے گی ’’وَسَلْ تُعْطَ ‘‘ اورمانگو تمہاری مراد پوری کی جائے گی۔ (ترمذی:3476،نسائی:1284،وقال الألبانیؒ اسنادہ صحیح)دیکھا اورسنا آپ نے کہ اللہ کی تعریف وحمدوثنابیان کرنےاور اپنے نبیﷺ پر درود بھیجنے والے سے آپﷺ نے کیا کہا کہ جومانگناہے مانگو تمہیں دیا جائے گا،اوریہ بات بھی آپ اچھی طرح سے جان لیں کہ بغیردرود پڑھے کوئی دعاقبول نہیں ہوتی ہے جیسا کہ امیر المومنین سیدنا عمربن خطابؓ نے کہا کہ ’’ إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘بے شک کہ دعا آسمان وزمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے ،وہ دعا اس سے کچھ بھی اوپرنہیں چڑھتی ہے جب تک کہ تم اپنے نبیﷺ پر درود نہ بھیج لو۔(ترمذی:486،وقال الألبانیؒ اسنادہ حسن)اسی طرح سے آپﷺ کا بھی فرمان ہے کہ ’’ كُلُّ دُعَاءٍ مَحْجُوبٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صلى اللهُ عليه وسلَّم ‘‘ جب تک آپﷺ پر درود نہ بھیجی جائے تب تک ہردعا کو روک لیا جاتاہے یعنی کہ دعاؤں کو قبول نہیں کی جاتی ہے۔(الصحیحۃ:2035) میرے دوستو!جولوگ بھی سلام پھیرتے ہی جلدی جلدی اللہ کی حمدوثنا اوردرود شریف پڑھےبغیر ہی دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں توایسے لوگ یہ بات یاد رکھ لیں کہ وہ زندگی سارا اس طرح سے دعائیں کرتے رہیں گے مگر ان کی دعائیں زمین وآسمان کے بیچ میں لٹکی ہوئی رہ جائے گی،اسی لئے اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں توپھر جیسا آپﷺ نے کہا ہے ویساہی عمل کیا کریں۔





(11)چار لوگوں سے دعائیں کرنے کی درخواست کریں:

میرے دوستو!اگرآپ اپنی دعاؤں کو قبول کرانا چاہتے ہیں تو پھرچارقسم کے لوگوں سے اپنے لئے دعاکرنے کی درخواست کیاکریں کیونکہ یہ چارقسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی دعائیں فورا قبول کرلی جاتی ہیں،نمبرایک جب آپ سفر کی حالت میں ہوں تو اپنے لئے دعائیں کیاکریں یاپھرکوئی سفرپرروانہ ہونے والاہے تو آپ اس سے درخواست کریں کہ وہ آپ کے لئے دعاکریں کیونکہ مسافر کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں،اسی طرح سے اگرآپ اپنی دعاؤں کوقبول کراناچاہتے ہیں توپھر اپنے ابوجان سے دعائیں کرنے کی درخواست کیاکریں کیونکہ ایک انسان کے والدمحترم کی دعائیں اس کے حق میں قبول کی جاتی ہیں جیساکہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ، لَا شَكَّ فِيهِنَّ ‘‘ تین آدمی کی دعاؤں کی قبولیت میں کوئی شک ہی نہیں ہے،’’ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ ‘‘ نمبر ایک مظلوم کی دعا،نمبر دو مسافرکی دعا اورنمبر تین والدکی اپنی اولاد کے حق میں دعا۔(ابن ماجہ:3862 وقال الألبانیؒ: اسنادہ حسن)ذرا غورسے سنئے کہ آپﷺ کیا کہاہے کہ ایک باپ کی دعا اولاد کے حق میں ضرورقبول ہوتی ہے مگرافسوس ہے آج کے نوجوانوں پر جو اپنے والدین سے دوری اختیارکئے ہوتے ہیں،اپنے والدین سے کبھی درخواست نہیں کرتے کہ آپ ہمارے حق میں دعائیں کرو مگر کسی ایرے غیرے اورنتھوخیرے کویہ ضرورکہتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کرو،حدیث کی روشنی میں آپ یہ بات اچھی طرح سے جان لیں کہ اگرکوئی غیرآپ کے حق میں دعائیں کرے گا تو اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس کی دعائیں قبول کی جائے گی لیکن اگرآپ کے حق میں آپ کے والد دعائیں کریں گے تو ان کی دعائیں ضرورقبول کی جائیں گی اسی لئے اے نوجوانوں جاؤ اوراپنے والدین سے درخواست کروکہ وہ تمہارے حق میں دعائیں کریں،اگروہ تم سے ناراض ہیں تو انہیں راضی کرلو ورنہ دردرکی ٹھوکریں کھاتے رہوگےنہ دنیا میں کامیاب ہوسکوگے اورنہ ہی آخرت میں کامیابی ملے گی۔

اسی طرح سے اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں قبول کی جائے تو آپ اگر حج وعمرہ پر گئے تواپنے لئے خوب دعائیں کیا کریں یا پھر اگرکوئی حج وعمرہ کےلئے جارہاہوتوآپ اس سے درخواست کریں کہ وہ آپ کے حق میں دعائیں کریں کیونکہ حج وعمرہ کرنے والوں کی دعائیں بھی قبول کی جاتی ہیں جیسا کہ سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ‘‘کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا،حاجی اورعمرہ کرنے والے اللہ تعالی کے مہمان ہوتے ہیں،اللہ تعالی نے انہیں بلایا توانہوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا اورپھر انہوں نے اللہ تعالی سے مانگا تو اللہ نے انہیں عطا کردیا۔(ابن ماجہ:2893 وقال الألبانیؒ:2893)



(12) دوسروں کے لئے دعائیں مانگاکریں:

برادران اسلام!اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں قبول کی جائے توپھر آپ اپنی دعاؤں میں دوسروں کو یادرکھئے آپ کی ہردعاقبول کی جائے گی،جوکچھ بھی آپ اللہ سے مانگناچاہتے ہیں وہی سب کچھ آپ اپنے کسی رشتے دارکے لئے مانگئے ،اللہ وہی سب کچھ آپ کو عطاکردے گا ،آج کل لوگ توبس ایک دوسرے سے حسد وجلن کرنے میں لگے رہتے ہیں،ہرکس وناکس ایک دوسرے کو بربادکرنے کی دعائیں کرتارہتاہے مگر کوئی کسی کے لئے بھلائی اورترقی کی دعائیں نہیں کرتا ہے،انسان یہ سمجھتاہے کہ میں اس کے حق میں دعائیں کیوں کروں؟انسان یہ سوچتاہے کہ اگر میں اس کے حق میں دعائیں کروں گا تو وہ میری دعاسے اچھا ہوجائے گامگراسے اس بات کا احساس وعلم نہیں ہے کہ دوسروں کے حق میں دعائیں کرنے سےنورانی مخلوق اس کے حق میں دعائیں کریں گےاوراس کی اپنی دعائیں ہی قبول ہوں گی،اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ آرہاہوتوپھر یہ حدیث سن لیجئےکہ سیدناابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا ’’ دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ ‘‘ايك مسلمان كي دوسرے مسلمان کے حق میں اس کے پیٹھ پیچھے یعنی اس کی غیرحاضری میں کی گئی دعاقبول ہوتی ہے،’’ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ ‘‘ دعاکرنے والے شخص کے سرکے پاس ایک فرشتہ مقررہوتاہے اورجب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے خیروبرکت کی دعائیں کرتاہے تو مقررفرشتہ ہردعاپرآمین کہتاہے اوریہ کہتاہے کہ تجھے بھی اسی کی مثل حاصل ہو۔(مسلم:2733)اس حدیث کے راوی سیدنا ابودرداءؓ کے بارے میں ان کی بیوی محترمہ سیدہ ام درداءؓ کہتی ہیں کہ سیدنا ابودرداءؓ کے 360/ دوست واحباب تھے اوروہ تہجدکے وقت میں ان سب کا نام لے کردعائیں کیاکرتے تھے ،جب میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توانہوں نے کہا کہ فرمان رسولﷺ کے مطابق اگرکوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کے حق میں اس کے پیٹھ پیچھے دعائیں کرتاہے تو فرشتے اس کے حق میں دعائیں کرتے ہیں اور ’’ أَفَلاَ أَرْغَبُ أَنْ تَدْعُوَ لِيَ المَلائِكَةُ ‘‘مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں تنہائی میں ان کے لئے دعائیں کروں اورمیرے لئے رحمت کے فرشتے دعائیں کیاکریں۔(حیاۃ السلف بین القول والعمل:1/793،سیراعلام النبلاء:2/351)

(13) اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعائیں مانگا کریں:

میرے دوستو!اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں فوراقبول کرلی جائے تو پھرآپ ایک بہت ہی اہم کام کرکے رکھیں اوروہ یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کچھ ایسی نیکیاں بھی کرکے رکھیں جو آپ کے اورآپ کے رب کے علاوہ اس کائنات میں کسی کو بھی معلوم نہ ہو،نہ ہی آپ کی بیوی کو اورنہ ہی آپ کے آل واولاد کو اس کی خبر ہوبلکہ آپ کے اس نیکی کے بارے میں کسی کوبھی کانوں کان خبرنہ ہو،میں ایسااس لئے کہہ رہاہوں کہ اگرآپ کے پاس ایسی نیکیاں ہوں گی توآپ اپنے رب سے اس کا حوالہ اوراس کا واسطہ دے کرجوکچھ بھی مانگیں گےتو آپ کارب آپ کوعطاکردے گا،اگرآپ کو میری اس بات پریقین نہ ہورہاہوتوپھر آپ وہ مشہور ومعروف واقعے کو ذرا یادکیجئے کہ بنی اسرائیل کے تین آدمی جب مصیبت میں پھنس گئے اورانہیں جب اپنی موت نظرآنے لگی تو ان تینوں نے اپنے اپنے خاص خاص نیکیوں کے وسیلے سے دعائیں مانگی تھی اوررب العزت نے ان کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا بھی تھا،ایک نے اپنے رب سے کہا کہ اے میرے رب توجانتاہے کہ میں صرف تیری رضاوخوشنودی کے لئے ہی اپنے والدین کی خدمت کیاکرتاتھا،وقت پڑاتومیں نے اپنے بیوی بچوں پر اپنے والدین ہی ترجیح دیاتھا،’’ أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ ‘‘ اے اللہ!اگرمیں نے یہ کام تجھے خوش کرنے کےلئے کیاتھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹادے اوراس غارکے دہانے کو اتنا توکھول دے کہ آسمان نظرآنے لگے ،آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی دعاقبول ہوئی اور’’ فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لاَ يَسْتَطِيعُونَ الخُرُوجَ ‘‘بھاری بھرکم چٹان اپنے آپ ہی کھسک گیا مگروہاں سے نکلنا اب بھی ناممکن تھا ،اب دوسرے نے کہاکہ اے میرے رب!میرے چچا کی ایک لڑکی تھی،جومجھے بہت محبوب تھی،میں نے اس کے ساتھ براکام کرنا چاہا مگر وہ راضی نہ ہوئی ،اسی زمانے میں ایک سال قحط پڑا ،اب وہ میرے پاس قرضے لینے آگئی تومیں نے اسے ایک سوبیس دینااس شرط پردئے کہ وہ تنہائی میں میرے ساتھ براکام کرےاوروہ راضی بھی ہوگئی،اب جب میں اس پر قابوپاچکاتھا تواس نے کہا کہ اے انسان!اللہ سے ڈر اوریہ حرام کام نہ کر ،یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے بازآگیا اوروہاں سے چلا آیا اوراپنا پیسہ بھی اس سے واپس نہیں لیا، ’’ أَللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ ‘‘اے اللہ!اگریہ کام میں نے صرف تیری رضاکے لئے کیاتھا تو توہماری اس مصیبت کو دورکردے،چنانچہ ’’ فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لاَ يَسْتَطِيعُونَ الخُرُوجَ مِنْهَا ‘‘ چٹان ذراسی اورکھسکی لیکن اب بھی ان کے لئے وہاں سے باہرنکلناممکن نہ تھا،اب تیسرے انسان نے دعاکی کہ اے اللہ میں نے چندمزدورکواجرت پررکھے تھے،سب مزدورکومیں نے اجرت دے دی تھی مگران میں ایک ایسامزدوربھی تھا جو اپنی اجرت ہی چھوڑگیاتھا، پھرمیں نے اس کی مزدوری کی رقم کوکاروبارمیں لگادیا اوربہت کچھ نفع بھی حاصل ہوگیا،پھرکچھ دنوں کے بعد وہی مزدورمیرےپاس آیا اورکہا کہ اے اللہ کے بندے میری مزدوری دے دے،میں نے اس سے کہا کہ یہ جوکچھ تودیکھ رہاہے،اونٹ،گائے،بکری اورغلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے،یہ سب لے جاؤ چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اوراپنے ساتھ لے گیا اوران میں سے ایک چیز بھی اس نے باقی نہیں چھوڑی ،’’ أَللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ ‘‘تواے اللہ!اگرمیں نے یہ سب کچھ تیری رضامندی حاصل کرنے کے لئے کیاتھا توہماری اس مصیبت کو دورکردے،جیسے ہی ان تینوں افراد کی دعائیں مکمل ہوئی تو پھر کیا ہوا آئیے سنتے ہیں صادق مصدوق ﷺ کی زبانی آپ نے فرمایا کہ ’’ فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ فَخَرَجُوا يَمْشُونَ ‘‘وہ چٹان ہٹ گئی اوروہ سب باہرنکل کرخراماں خراماں چلتے بنے۔(بخاری:2272،2215) سبحان اللہ!دیکھا اورسنا آپ نے کہ جو نیک عمل صرف اورصرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لئے کی جائے تو اس کے وسیلے سے دعائیں بھی قبو ل ہوتی ہے اوربڑی سی بڑی مصیبتوں سے بھی چھٹکارا حاصل ہوتاہےاسی لئے آپ بھی دعاکرنے سے پہلے اپنے خاص نیکیوں کا حوالہ دے کر اپنے رب سے مانگا کریں۔

(14)دورکعت نماز پڑھ کردعائیں مانگاکریں:

میرے دوستو!اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ دعائیں فورا قبول کرلی جائے تو پھرآپ کامل وضوبناکرسیدھے نماز کے لئے کھڑے ہوجائیں اور دوران نماز سجدوں میں یاپھربعدازنماز ہاتھ اٹھاکرعاجزی وانکساری کے ساتھ دعائیں کیاکیجئے کیونکہ جوانسان بھی اس طرح سے عمل کرتاہے تو اس کی دعائیں ضرورقبول کی جاتی ہے ،آئیے اس بارے میں میں آپ کوایک پیارا اورسچا واقعہ سناتاہوں ،سیدناابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے بیوی سیدہ سارہ علیھاالسلام کے ساتھ سفرہجرت پرتھے توایک ایسے شہرمیں جاپہنچے جہاں ایک ظالم بادشاہ رہتاتھا،اس ظالم بادشاہ کوجب اس بات کی خبرہوئی کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت ہے تو وہ بری نیت کے ارادے سے سیدہ سارہ علیھاالسلام کے پاس گیا،اس وقت سیدہ سارہ وضوکرکے نماز پڑھنے میں مشغول ہوگئی تھی اوریہ دعا کررہی تھے کہ ’’ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي فَلاَ تُسَلِّطْ عَلَيَّ الكَافِرَ ‘‘اے اللہ! اگرمیں تجھ پر اورتیرے رسول(ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام) پر ایمان رکھتی ہوں اوراگرمیں نے اپنے شوہرکے سوا ہمیشہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر،آپ ﷺ نے فرمایا کہ سیدہ سارہ علیھا السلام کا یہ دعاکرناتھا کہ ’’ فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ ‘‘وہ بادشاہ تھرتھرکانپنے لگا اوراس کاپاؤں زمین میں دھنس گیا،یہ دیکھ کرسیدہ سارہ علیھاالسلام نے یہ دعا کی کہ اے اللہ!اگریہ ظالم بادشاہ مرگیاتو لوگ کہیں گے کہ میں نے ہی مارا ہے اس لئے تو اسے موت نہ دے،چنانچہ وہ بادشاہ چھوٹ گیا،مگرپھربھی وہ اپنی اس بری حرکت سے باز نہ آیا ،پھرسیدہ سارہ علیھاالسلام نے یہی دعا کی پھر وہ تھرتھرکانپتے ہوئے زمین میں دھنس گیا،پھرسیدہ سارہ علیھاالسلام نے یہی کہا کے اے اللہ اگریہ مرگیاتو الزام میرے سرآئے گا اسی لئے تو اسے موت نہ دے،دوسے تین مرتبہ ایساہوا آخروہ مردود وظالم بادشاہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے تو میرے پاس ایک شیطان کو بھیج دیاہے،اس عورت کو ابراہیم کے پاس لے جاؤ اورانہیں ہاجرہ بھی دے دو،پھرسیدہ سارہ علیھاالسلام اپنے شوہرکے پاس خوشی خوشی باعزت لوٹیں اوران سے کہا کہ دیکھتے نہیں کہ اللہ نے کافرکو کس طرح سے ذلیل ورسواکردیااورساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوادی۔(بخاری:2217،3357) دیکھا اورسناآپ نے کہ وضوبناکرنمازپڑھ کردعاکرنے سے کس طرح سے اللہ نے فورا دعاکو شرف قبولیت سے نوازالہذا آپ بھی اگراپنی دعاؤں کو قبول کراناچاہتے ہیں تو اس پر ضرورعمل کیاکریں۔

(15)اللہ کا ذکرزیادہ کیاکریں:

میرے دوستو!اگرآپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعائیں فوراقبول کرلی جائے تو پھرآپ ہمیشہ اپنے زبان پر ذکرالٰہی کوجاری رکھیں کیونکہ جوانسان بھی ہمیشہ اپنے زبان سے ذکرواذکارکے کلمات کواداکرتا رہتاہے تو اس کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا جاتاہےجیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا’’ ثَلَاثَةٌ لَا يَرُدُّ اللهُ دُعَاءَهُمُ ‘‘ تین آدمی کی دعائیں رد نہیں کی جاتی ہیں،نمبر ایک ’’ أَلذَّاكِرُ اللهَ كَثِيرًا ‘‘جو بہت زیادہ اللہ کا ذکرکرتاہو،نمبر دو ’’ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ ‘‘ مظلوم کی آہ اور نمبر تین ’’ وَالْإِمَامُ الْمُقْسِطُ ‘‘انصاف کرنےوالا بادشاہ۔(الصحیحۃ:3374)

الغرض میرے دوستو!ہماری ہردعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازنے کے لئے خودہمارے رب اورہمارے رسول ﷺ نے نےدعاکرنے کے طوروطریقے وآداب اوردعاکی قبولیت کے اوقات یہ سب واضح طورپر بیان کردیاہے اب ہمارے ہاتھوں میں ہے کہ ہم ان باتوں پر کتنا عمل کرتے ہیں۔

اب آخرمیں رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو ہم سب کی ہردعاؤں کو شرف قبولیت سے نواز۔آمین ثم آمین یارب العالمین۔





کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 

اٹیچمنٹس

Top