ایم اسلم اوڈ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 298
- ری ایکشن اسکور
- 965
- پوائنٹ
- 125
علامہ اقبالؒ تعلیم کی اسلامی تشکیل نو کیلئے محبت رسولﷺ کو بہت بڑا محرک قرار دیتے تھے اور ان کے نظام تربیت کو نظام تعلیم کی روح سمجھتے تھے۔ تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ لوگ اندھیروں سے اجالوں، جہالت سے علم اور شرک سے نکل کر توحید کی طرف آئے۔
توحید و رسالت کی تعلیم ہی بلند ترین نصب العین ہے، جس پر اسلامی تہذیب کی عمارت استوار ہے، صحیح اسلامی نظام تعلیم وہ ہے جس میں کلمہ کی روح شامل ہے۔ ہم نے نصب العین کو نظرانداز کر کے اور پس پشت ڈال کر اپنی تہذیب کو خود اپنے ہاتھوں ختم کر دیا ہے۔ ہمارے پاس نظام اور نصاب تعلیم موجود ہے مگر بغیر روح کے بدن کی مانند۔
علامہ اقبال کے تعلیمی فلسفہ کا نچوڑ! حقیقت اصلیہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ کائنات اس ذات پاک نے بامقصد بنائی ہے، انسان کی زندگی کا مقصد بندگی رب العزت ہے، علم کا دائمی اور بالاتر چشمہ علم وحی الٰہی ہے۔ باقی تمام ذرائع اس کے تابع ہیں۔ ہم تو حقیقت اصلیہ سے بہت دور اور مقصد حیات سے بعید ہو چکے ہیں اور علم کے حقیقی اور اصلی چشمہ سے فیض یاب ہونے کے بجائے جوہڑوں کا رخ کر رہے ہیں جس سے نسل نو کی تعلیمی صلاحیتوں اور تخلیقی خوبیوں میں نکھار پیدا نہیں ہو سکتا۔ تعلیم کی تعمیر نو کے عمل میں اسلامی مقصد حیات سے وابستگی کو اقبالؒ اساسی مکتبہ قرار دیتے ہیں اور تعلیم کی اصل غایت انسان کی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لانا اور جمودسے نکل کر تحرک کی صلاحیت کو اپنانا ہے۔ جس تعلیم کی غایت اتنی عظیم ہے اس کا مقصد کتنا بلند ہو گا؟ مقصد تعلیم پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں: ایمان و عمل کی صالح تربیت، امت واحدہ کی تشکیل، عسکری و مادی قوت کا حصول، تحقیقی و اجتہادی صلاحیت پیدا کرنا، تسخیر کائنات اور امامت عالم (خلافت اسلامیہ) کیلئے منظم جدوجہد کرنا ہے۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ!
O نصاب تعلیم کی اسلامی تشکیل کیلئے قرآن و حدیث کو
اصل سرچشمہ تسلیم کریں۔
O کیوں کہ اسلام ہر زمانے اور ہر علاقے کیلئے ایک
زندہ دین ہے جس کے اصول واضح اور روشن ہیں،
اس لئے نظام تعلیم کی تشکیل میں دین و دنیا کی
تفریق کے مغربی تصور کو روکا اور رد کیا جانا ضروری ہے۔
O طلباء کیلئے ایسی بنیادی تعلیم کا ہونا ضروری ہے جس سے دین و دنیا کے تقاضوں کا شعور پیدا ہو۔
O اس عظیم مقصد کیلئے قرآن و حدیث پر مشتمل نصاب کا ہونا لازمی ہے، اگر ایسا نہیں ہو گا تو نوجوان نسل ذہنی انتشار کا شکار ہو کر بے راہ روی میں مبتلا ہو جائے گی۔
جب سے دینی و عصری علوم الگ الگ ہوئے روحِ علم، معیار تربیت ختم ہو کر رہ گیا، انگریزوں نے علم و تعلیم کو تقسیم کر دیا، ادارے الگ بن گئے۔ خوش پوش، خوش غذا، رئیس اور امراء کیلئے عصری علوم و فنون (انجینئرنگ، میڈیکل، سائنس) کے ادارے اور غرباء کیلئے دینی درسگاہیں۔ مسلمانوں کیلئے غلامی و محکومی کی یہ بنیادیں انگریزوں نے اس لئے رکھی تھیں کہ مدارس کو بے اثر اور علماء کو اپنے زیراثر کر سکیں۔ دینی مدارس کو بے اثر کرنے کے لئے انگریزوں نے انگلش کو لازمی کر کے اردو، فارسی اور عربی کو ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کی تاکہ لوگ بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دلوائیں اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھیں۔ عصری تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم معزز روزگار حاصل کر پائے اور مدرسہ کا مولوی صاحب نکاح و طلاق اور امامت تک محدود ہو کر رہ جائے۔ فرعون کے طرز عمل اور انگریزوں کے طرز تعلیم پر اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
انگریز نے ہماری نسل کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ ہمارا نظام تعلیم تبدیل کر کے اعتقادی، نظریاتی اور اخلاقی قتل کر دیا۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
الحاد آ گیا، بے حمیتی چھا گئی، بے حیائی و فحاشی کا دور دورہ ہو گیا۔ نئے نظام تعلیم کا کرشمہ دیکھیں کہ علم جدا جدا ہو گیا اور طلباء و طالبات ایک کلاس روم میں اکٹھے ہو گئے، علم و ادب کے نام پر اس مخلوط ماحول نے اخلاقیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب صرف تعلیم ہی ایک ساتھ نہیں ہوتی بلکہ میوزیکل پریڈ، رقص کی کلاسز، فن فیئر شو میں جو بے ہودگی تفریح کے نام پر ہوتی ہے وہ ہمارے وقار پر سیاہ داغ ہے۔ اس کے نتیجہ میں دختران ملت کے حیاء کا جنازہ نکل رہا ہے۔
تعلیم دختران سے یہ امید ہے ضرور
کہ ناچے خوشی سے دلہن اپنی بارات میں
ہماری فلاح و نجات اور روشن مستقبل کی ضمانت اس میں ہے کہ ہم پہلے سبق ’’اقرا‘‘ پہلے مدرسے صفہ اور پہلے معلم و مربی محمد رسول اللہﷺ کے نظام تعلیم و تربیت کی طرف پلٹ جائیں۔ اسلام کا پہلا مدرسہ (مدرسہ صفہ) ہے جس کا قیام خود محمدﷺ نے ہجرت کے بعد فرمایا تھا، مہاجر و انصار صحابہ کی کثیر تعداد اس میں زیر تعلیم تھی۔ سیدنا ابوہریرۃ کو اسی مدرسہ سے شہرت حاصل ہوئی، اسی مدرسہ میں دینی تعلیم اور دنیوی امور کیلئے ہدایات دی جاتی تھیں۔ قرآن و حدیث کا علم اور جہاد فی سبیل اللہ کے پریکٹیکل اور عملی مظاہرے ہوتے تھے، صفہ کے طلباء صبروثبات کا پیکر اور استقامت کے پہاڑ تھے۔ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنے والے یہی صفہ کے طالب علم تھے۔
رسول کریم کی حیات طیبہ میں جاں نثاری کی تاریخ رقم کرنے والے اور تیس سالہ دور خلافت میں حکومت و سیاست، علم و حکمت، عدل و انصاف اور غلبہ اسلام کا پرچم سر بلند کرنے والے یہی صفہ کے فارغ التحصیل تھے۔
آج ہمیں مدرسہ سے نفرت ہے، مولوی کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں، دینی مدارس کو دہشت گردوں کی آماجگاہیں تصور کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسجد سے بھی دوری ہے اور تو اور موجودہ دور کی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت جو علم دوستی کے عنوان سے معروف ہے، ذرا غور کریں کہ پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے ضلع میں خاندان کے افراد اور صوبائی کابینہ دوڑ دوڑ کر لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں، کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے، اس قسم کے اقدامات سے طلباء میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے، لگن میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دینی مدارس جہاں قال اللہ اور قال الرسول کی تعلیم دی جاتی ہے، قرآن و سنت کے ساتھ منطق و فلسفہ، فقہ و اصول فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے، کیا ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں؟ ہر ایک مدرسہ میں جا کر لیپ ٹاپ تقسیم کرنا مشکل تھا تو پانچ وفاق المدارس بورڈ موجود ہیں ان سے ریکارڈ طلب کر کے پوزیشن ہولڈر، قابل و لائق طلباء کو انعامات دیئے جاتے، حوصلہ افزائی کی جاتی تو فاصلے کم ہونے تھے، محبتوں اور قربتوں میں اضافہ ہونا تھا۔ مدارس سے نظر پھیر کر پنجاب حکومت دینی جماعتوں اور اسلامی قوتوں کو کیا پیغام دے رہی ہیں؟ کیا یہ یورپ کو خوش کرنے اور امریکہ کو راضی کرنے کے لئے تو سب کچھ نہیں ہو رہا؟ انگریز جس نے تعلیم میں دو رنگی کی بنیاد رکھی تھی، دینی و عصری علوم کی درسگاہوں کو الگ الگ کیا تھا، جس نے نظام میں تفریق ڈال کر انسانیت کو تفرقہ میں ڈالا وہ اس بات پر ضرور خوش ہے کہ دینی مدارس کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں، یہ ادارے پہلے بھی اللہ کے سہارے چلتے رہے اب بھی اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و محافظ ہے۔ بہرحال ان کو اپنی ادائوں پہ غور کرنا چاہئے ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
بشکریہ۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
توحید و رسالت کی تعلیم ہی بلند ترین نصب العین ہے، جس پر اسلامی تہذیب کی عمارت استوار ہے، صحیح اسلامی نظام تعلیم وہ ہے جس میں کلمہ کی روح شامل ہے۔ ہم نے نصب العین کو نظرانداز کر کے اور پس پشت ڈال کر اپنی تہذیب کو خود اپنے ہاتھوں ختم کر دیا ہے۔ ہمارے پاس نظام اور نصاب تعلیم موجود ہے مگر بغیر روح کے بدن کی مانند۔
علامہ اقبال کے تعلیمی فلسفہ کا نچوڑ! حقیقت اصلیہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ کائنات اس ذات پاک نے بامقصد بنائی ہے، انسان کی زندگی کا مقصد بندگی رب العزت ہے، علم کا دائمی اور بالاتر چشمہ علم وحی الٰہی ہے۔ باقی تمام ذرائع اس کے تابع ہیں۔ ہم تو حقیقت اصلیہ سے بہت دور اور مقصد حیات سے بعید ہو چکے ہیں اور علم کے حقیقی اور اصلی چشمہ سے فیض یاب ہونے کے بجائے جوہڑوں کا رخ کر رہے ہیں جس سے نسل نو کی تعلیمی صلاحیتوں اور تخلیقی خوبیوں میں نکھار پیدا نہیں ہو سکتا۔ تعلیم کی تعمیر نو کے عمل میں اسلامی مقصد حیات سے وابستگی کو اقبالؒ اساسی مکتبہ قرار دیتے ہیں اور تعلیم کی اصل غایت انسان کی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار لانا اور جمودسے نکل کر تحرک کی صلاحیت کو اپنانا ہے۔ جس تعلیم کی غایت اتنی عظیم ہے اس کا مقصد کتنا بلند ہو گا؟ مقصد تعلیم پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں: ایمان و عمل کی صالح تربیت، امت واحدہ کی تشکیل، عسکری و مادی قوت کا حصول، تحقیقی و اجتہادی صلاحیت پیدا کرنا، تسخیر کائنات اور امامت عالم (خلافت اسلامیہ) کیلئے منظم جدوجہد کرنا ہے۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ!
O نصاب تعلیم کی اسلامی تشکیل کیلئے قرآن و حدیث کو
اصل سرچشمہ تسلیم کریں۔
O کیوں کہ اسلام ہر زمانے اور ہر علاقے کیلئے ایک
زندہ دین ہے جس کے اصول واضح اور روشن ہیں،
اس لئے نظام تعلیم کی تشکیل میں دین و دنیا کی
تفریق کے مغربی تصور کو روکا اور رد کیا جانا ضروری ہے۔
O طلباء کیلئے ایسی بنیادی تعلیم کا ہونا ضروری ہے جس سے دین و دنیا کے تقاضوں کا شعور پیدا ہو۔
O اس عظیم مقصد کیلئے قرآن و حدیث پر مشتمل نصاب کا ہونا لازمی ہے، اگر ایسا نہیں ہو گا تو نوجوان نسل ذہنی انتشار کا شکار ہو کر بے راہ روی میں مبتلا ہو جائے گی۔
جب سے دینی و عصری علوم الگ الگ ہوئے روحِ علم، معیار تربیت ختم ہو کر رہ گیا، انگریزوں نے علم و تعلیم کو تقسیم کر دیا، ادارے الگ بن گئے۔ خوش پوش، خوش غذا، رئیس اور امراء کیلئے عصری علوم و فنون (انجینئرنگ، میڈیکل، سائنس) کے ادارے اور غرباء کیلئے دینی درسگاہیں۔ مسلمانوں کیلئے غلامی و محکومی کی یہ بنیادیں انگریزوں نے اس لئے رکھی تھیں کہ مدارس کو بے اثر اور علماء کو اپنے زیراثر کر سکیں۔ دینی مدارس کو بے اثر کرنے کے لئے انگریزوں نے انگلش کو لازمی کر کے اردو، فارسی اور عربی کو ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کی تاکہ لوگ بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دلوائیں اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھیں۔ عصری تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم معزز روزگار حاصل کر پائے اور مدرسہ کا مولوی صاحب نکاح و طلاق اور امامت تک محدود ہو کر رہ جائے۔ فرعون کے طرز عمل اور انگریزوں کے طرز تعلیم پر اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
انگریز نے ہماری نسل کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ ہمارا نظام تعلیم تبدیل کر کے اعتقادی، نظریاتی اور اخلاقی قتل کر دیا۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
الحاد آ گیا، بے حمیتی چھا گئی، بے حیائی و فحاشی کا دور دورہ ہو گیا۔ نئے نظام تعلیم کا کرشمہ دیکھیں کہ علم جدا جدا ہو گیا اور طلباء و طالبات ایک کلاس روم میں اکٹھے ہو گئے، علم و ادب کے نام پر اس مخلوط ماحول نے اخلاقیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب صرف تعلیم ہی ایک ساتھ نہیں ہوتی بلکہ میوزیکل پریڈ، رقص کی کلاسز، فن فیئر شو میں جو بے ہودگی تفریح کے نام پر ہوتی ہے وہ ہمارے وقار پر سیاہ داغ ہے۔ اس کے نتیجہ میں دختران ملت کے حیاء کا جنازہ نکل رہا ہے۔
تعلیم دختران سے یہ امید ہے ضرور
کہ ناچے خوشی سے دلہن اپنی بارات میں
ہماری فلاح و نجات اور روشن مستقبل کی ضمانت اس میں ہے کہ ہم پہلے سبق ’’اقرا‘‘ پہلے مدرسے صفہ اور پہلے معلم و مربی محمد رسول اللہﷺ کے نظام تعلیم و تربیت کی طرف پلٹ جائیں۔ اسلام کا پہلا مدرسہ (مدرسہ صفہ) ہے جس کا قیام خود محمدﷺ نے ہجرت کے بعد فرمایا تھا، مہاجر و انصار صحابہ کی کثیر تعداد اس میں زیر تعلیم تھی۔ سیدنا ابوہریرۃ کو اسی مدرسہ سے شہرت حاصل ہوئی، اسی مدرسہ میں دینی تعلیم اور دنیوی امور کیلئے ہدایات دی جاتی تھیں۔ قرآن و حدیث کا علم اور جہاد فی سبیل اللہ کے پریکٹیکل اور عملی مظاہرے ہوتے تھے، صفہ کے طلباء صبروثبات کا پیکر اور استقامت کے پہاڑ تھے۔ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنے والے یہی صفہ کے طالب علم تھے۔
رسول کریم کی حیات طیبہ میں جاں نثاری کی تاریخ رقم کرنے والے اور تیس سالہ دور خلافت میں حکومت و سیاست، علم و حکمت، عدل و انصاف اور غلبہ اسلام کا پرچم سر بلند کرنے والے یہی صفہ کے فارغ التحصیل تھے۔
آج ہمیں مدرسہ سے نفرت ہے، مولوی کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں، دینی مدارس کو دہشت گردوں کی آماجگاہیں تصور کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسجد سے بھی دوری ہے اور تو اور موجودہ دور کی وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت جو علم دوستی کے عنوان سے معروف ہے، ذرا غور کریں کہ پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے ضلع میں خاندان کے افراد اور صوبائی کابینہ دوڑ دوڑ کر لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں، کالج اور یونیورسٹی کی سطح کے طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے، اس قسم کے اقدامات سے طلباء میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے، لگن میں اضافہ ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دینی مدارس جہاں قال اللہ اور قال الرسول کی تعلیم دی جاتی ہے، قرآن و سنت کے ساتھ منطق و فلسفہ، فقہ و اصول فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے، کیا ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں؟ ہر ایک مدرسہ میں جا کر لیپ ٹاپ تقسیم کرنا مشکل تھا تو پانچ وفاق المدارس بورڈ موجود ہیں ان سے ریکارڈ طلب کر کے پوزیشن ہولڈر، قابل و لائق طلباء کو انعامات دیئے جاتے، حوصلہ افزائی کی جاتی تو فاصلے کم ہونے تھے، محبتوں اور قربتوں میں اضافہ ہونا تھا۔ مدارس سے نظر پھیر کر پنجاب حکومت دینی جماعتوں اور اسلامی قوتوں کو کیا پیغام دے رہی ہیں؟ کیا یہ یورپ کو خوش کرنے اور امریکہ کو راضی کرنے کے لئے تو سب کچھ نہیں ہو رہا؟ انگریز جس نے تعلیم میں دو رنگی کی بنیاد رکھی تھی، دینی و عصری علوم کی درسگاہوں کو الگ الگ کیا تھا، جس نے نظام میں تفریق ڈال کر انسانیت کو تفرقہ میں ڈالا وہ اس بات پر ضرور خوش ہے کہ دینی مدارس کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں، یہ ادارے پہلے بھی اللہ کے سہارے چلتے رہے اب بھی اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و محافظ ہے۔ بہرحال ان کو اپنی ادائوں پہ غور کرنا چاہئے ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
بشکریہ۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام،،،،علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput