• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم جنس پرستی - تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
ہم جنس پرستی - تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
11/ دسمبر 2013 کو ہندوستانی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پی ساتھا شیوم [P Sathasivam] کی بنچ نےفیصلہ سناتے ہوئے "ہم جنس تعلقات" کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
سوشل میڈیا پر بڑی گرما گرم بحثیں جاری ہیں۔ سینکڑوں سماجی جہد کاروں ، تنظیموں ، سیاسی اور تفریحی ذرائع کی نامور و مقبول شخصیات نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو بدبختانہ قرار دیتے ہوئے اس کو شخصی آزادی کے مغائر قرار دیا ہے۔
فیس بک پر بحث کے دوران ہم نے کہا کہ اسٹیٹ کو یا عدالت عظمیٰ کو حق حاصل ہے کہ مہذب معاشروں میں بدامنی یا انارکی پھیلنے یا پھیلانے سے بچاؤ کے لیے قوانین بنائے۔
عرض ہوا کہ معاشرے کی بات نہیں ہو رہی ۔۔۔ behind the door کی بات ہو رہی ہے کہ آدمی کو حق حاصل ہے کہ جو اس کو پسند ہے وہ اپنی خلوت میں اسے اختیار کرے۔
عجیب بات ہے۔ اچھا بھائی اگر یہ "خلوت میں اپنی مرضی" ہی کی بات ہے تو دنیا کے بیشتر ممالک (بالخصوص مغربی ممالک) میں marital rape (ازدواجی عصمت ریزی) کا قانون تعزیری جرم کے طور پر کیوں نافذ ہے؟
اگر آپ "behind the door" کا نعرہ چھوڑ کر "شخصی آزادی" کے نعرے پر اتر آئیں تو بھائی صاحب! کوئی نوجوان جو دنیا سے اوب چکا ہے ، نوکری نہیں ملتی بیروزگار ہے ، فرسٹریشن کا شکار ہے ۔۔۔ اونچی عمارت سے چھلانگ لگا دیتا ہے ۔۔ جان سے بچ جائے تو پکڑا گیا اور "خودکشی کے جرم" میں جیل کے اندر!
آپ خودکشی کے اس "جرم" کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتے ۔۔ جبکہ اس معاملے میں نہ "باہمی رضامندی" کا سوال ہے اور نہ ہی کسی دوسرے تیسرے کو نقصان پہنچنے کا مسئلہ۔
اور یہ جو بار بار "شخصی آزادی" کے نعرے اچھالے جاتے ہیں۔ کبھی اس کی کچھ واضح تعریف بھی تو کیجیے۔ کیا جنگل کے قانون میں اور انسانوں کے مہذب معاشروں میں واقعتاً کوئی فرق نہیں؟
اگر آپ absolute freedom کے دعویدار ہیں تو اس کا دوسرا مطلب ہی "جنگل راج" ہوتا ہے پھر آپ اپنے "مہذب" ہونے کا دعویٰ قطعاً نہیں کر سکتے!
اور اگر آپ جنگل کے قانون اور انسانوں کے بنائے گئے مہذب معاشرے میں کوئی فرق نہیں کرتے تو پھر اسکول کالج اور جامعات میں یہ anthropology کے اسباق کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟ کیوں یہ سائنس پڑھاتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح تہذیب نے وحشی کو انسان بنایا؟
اسی انسانی تہذیب نے تو ہمیں بتایا ہے کہ "ہم جنسیت" ایک aberration ہے جس کے دور رس نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں ۔۔۔ اس قدر سنگین کہ قرآن (اور بائبل) نے لوط علیہ السلام کی قوم کا عبرت انگیز واقعہ سنا کر ساری انسانیت کو ہوشیار کر دیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود آپ شخصی آزادی پر مصر ہیں تو پھر ایک دن انسان کا لباس بھی اترے گا ، سڑکوں پر صرف مختصر زیر جامہ میں خواتین نظر آئیں گی اور ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ صرف ایک دہلی ریپ کیس نہیں ۔۔۔ ہر شہر گلی محلہ سے روزانہ سینکڑوں ایف آئی آر درج ہونگی تب آپ کو جو بھی فیصلے کرنے ہوں گے ضرور کیجیے گا حضور !
ہم تو اقبال کا یہ مصرع آپ کی خدمت میں پیش کر کے رخصت ہوتے ہیں :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ہم جنس پرستی - تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
11/ دسمبر 2013 کو ہندوستانی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پی ساتھا شیوم [P Sathasivam] کی بنچ نےفیصلہ سناتے ہوئے "ہم جنس تعلقات" کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
سوشل میڈیا پر بڑی گرما گرم بحثیں جاری ہیں۔ سینکڑوں سماجی جہد کاروں ، تنظیموں ، سیاسی اور تفریحی ذرائع کی نامور و مقبول شخصیات نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو بدبختانہ قرار دیتے ہوئے اس کو شخصی آزادی کے مغائر قرار دیا ہے۔
فیس بک پر بحث کے دوران ہم نے کہا کہ اسٹیٹ کو یا عدالت عظمیٰ کو حق حاصل ہے کہ مہذب معاشروں میں بدامنی یا انارکی پھیلنے یا پھیلانے سے بچاؤ کے لیے قوانین بنائے۔
عرض ہوا کہ معاشرے کی بات نہیں ہو رہی ۔۔۔ behind the door کی بات ہو رہی ہے کہ آدمی کو حق حاصل ہے کہ جو اس کو پسند ہے وہ اپنی خلوت میں اسے اختیار کرے۔
عجیب بات ہے۔ اچھا بھائی اگر یہ "خلوت میں اپنی مرضی" ہی کی بات ہے تو دنیا کے بیشتر ممالک (بالخصوص مغربی ممالک) میں marital rape (ازدواجی عصمت ریزی) کا قانون تعزیری جرم کے طور پر کیوں نافذ ہے؟
اگر آپ "behind the door" کا نعرہ چھوڑ کر "شخصی آزادی" کے نعرے پر اتر آئیں تو بھائی صاحب! کوئی نوجوان جو دنیا سے اوب چکا ہے ، نوکری نہیں ملتی بیروزگار ہے ، فرسٹریشن کا شکار ہے ۔۔۔ اونچی عمارت سے چھلانگ لگا دیتا ہے ۔۔ جان سے بچ جائے تو پکڑا گیا اور "خودکشی کے جرم" میں جیل کے اندر!
آپ خودکشی کے اس "جرم" کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتے ۔۔ جبکہ اس معاملے میں نہ "باہمی رضامندی" کا سوال ہے اور نہ ہی کسی دوسرے تیسرے کو نقصان پہنچنے کا مسئلہ۔
اور یہ جو بار بار "شخصی آزادی" کے نعرے اچھالے جاتے ہیں۔ کبھی اس کی کچھ واضح تعریف بھی تو کیجیے۔ کیا جنگل کے قانون میں اور انسانوں کے مہذب معاشروں میں واقعتاً کوئی فرق نہیں؟
اگر آپ absolute freedom کے دعویدار ہیں تو اس کا دوسرا مطلب ہی "جنگل راج" ہوتا ہے پھر آپ اپنے "مہذب" ہونے کا دعویٰ قطعاً نہیں کر سکتے!
اور اگر آپ جنگل کے قانون اور انسانوں کے بنائے گئے مہذب معاشرے میں کوئی فرق نہیں کرتے تو پھر اسکول کالج اور جامعات میں یہ anthropology کے اسباق کیوں پڑھائے جاتے ہیں؟ کیوں یہ سائنس پڑھاتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس طرح تہذیب نے وحشی کو انسان بنایا؟
اسی انسانی تہذیب نے تو ہمیں بتایا ہے کہ "ہم جنسیت" ایک aberration ہے جس کے دور رس نتائج بہت سنگین ہو سکتے ہیں ۔۔۔ اس قدر سنگین کہ قرآن (اور بائبل) نے لوط علیہ السلام کی قوم کا عبرت انگیز واقعہ سنا کر ساری انسانیت کو ہوشیار کر دیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود آپ شخصی آزادی پر مصر ہیں تو پھر ایک دن انسان کا لباس بھی اترے گا ، سڑکوں پر صرف مختصر زیر جامہ میں خواتین نظر آئیں گی اور ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ صرف ایک دہلی ریپ کیس نہیں ۔۔۔ ہر شہر گلی محلہ سے روزانہ سینکڑوں ایف آئی آر درج ہونگی تب آپ کو جو بھی فیصلے کرنے ہوں گے ضرور کیجیے گا حضور !
ہم تو اقبال کا یہ مصرع آپ کی خدمت میں پیش کر کے رخصت ہوتے ہیں :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جمعہ, 10 مئی 2013 01:35
برطانیہ میں دو پاکستانی ہم جنس پرست لڑکیوں کی شادی !!!
برطانیہ میں دو پاکستانی نژاد ہم جنس لڑکیوں نے آپس میں شادی کرلی۔ رجسٹریشن کے بعد دونوں قانونی طور پر جیون ساتھی بن گئیں۔ تفصیلات کے مطابق ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کومل ابتدائی طور پر جب کونسل آفس پہنچیں تو کونسل نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ دونوں مسلمان ہیں لہذا شادی رجسٹر نہیں ہوسکتی۔ ریحانہ اور ثوبیہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ بالغ ہیں اور برطانوی قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کیلئے آزاد ہیں۔ کونسل نے ان کا موقف سننے کے بعد انہیں رجسٹریشن کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا جو پورا ہوگیا۔ جس کے بعد دونوں لڑکیا ں دلہن کے سفید لباس میں رجسٹریشن آفس پہنچیں اور شادی کے رجسٹر پر دستخط کر کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ یادر رہے کہ ریحانہ کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے جبکہ ثوبیہ کا تعلق میر پور سے بتایا جاتا ہے۔ دونوں برسرروزگار ہیں ۔ ریحانہ نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔
اردو ٹائمز
شفقنا اردو

http://ur.shafaqna.com/index.php?option=com_k2&view=item&id=9271:برطانیہ-میں-دو-پاکستانی-ہم-جنس-پرست-لڑکیوں-کی-شادی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آسٹریلیا: ہم جنس پرست شادی کا قانون کالعدم قرار
آخری وقت اشاعت: جمعرات 12 دسمبر 2013 ,‭ 07:39 GMT 12:39 PST
آسٹریلیا کی ہائی کورٹ نے دارالحکومت کے دائرۂ اختیار میں آنے والے علاقوں اے سی ٹی میں ہم جنس پرست شادی کے قانون کوکالعدم قرار دیا ہے۔
پہلے اس قانون کے تحت ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادی کی اجازت دی گئی تھی۔
اکتوبر میں اے سی ٹی کی پارلیمان نے ہم جنس پرست شادی کے بل کو منظور کر کے اسے آسٹریلیا کا پہلا ایسا علاقہ بنا دیا تھا جہاں ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادیاں کرنے کی قانونی اجازت حاصل ہوگئی تھی۔
لیکن قومی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف یہ کہتے ہوئے اپیل کی تھی کہ یہ قانون وفاق کے قانون سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
گذشتہ ہفتے جب سے یہ قانون نافذالعمل ہوا تھا تو آسٹریلیا میں تقریباً 27 ہم جنس پرست جوڑوں نے شادی کی تھی لیکن اب ان کی شادی غیر قانونی قرار پائے گی۔
اس نئے قانون کے مطابق اے سی ٹی کے علاقے دارالحکومت کین بیرا میں ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادی کی اجازت تھی خواہ وہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں۔
بہر حال وفاقی قانون نے سنہ 2004 میں یہ واضح کر دیا تھا کہ شادی صرف ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ہی ہو سکتی ہے۔ تاہم آسٹریلیا کے بعض صوبوں میں عدالت میں کی گئی شادی کی اجازت ہے۔
کین بیرا کے ہائی کورٹ نے اے سی ٹی کے قانون کو جمعرات کو اتفاق رائے سے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ 'یہ قومی قانون سے ہم آہنگ نہیں ہے۔'
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ہم جنس پرست شادی کو قانونی جواز حاصل ہوگا یا نہیں اس بات کا فیصلہ صرف وفاقی حکومت کر سکتی ہے:
آسٹریلیا کی نئی نسل کے بہت سے لوگ ہم جنس پرست شادی کے حامی ہیں
کیا سے کیا ہو گیا۔۔۔
"ایک ہفتے سے کم مدت کے دوران ہماری شادی ہوئی بھی اور شادی ختم بھی ہو گئی کم از کم قانونی طور پر۔ہم اب بھی شادی شدہ ہیں۔ میں نے کرس سے عہد کیا ہے کہ ہم تاحیات اکٹھے زندگی گزاریں گے۔"
ایوان ہنٹن
'شادی کا قانون نہ تو کسی ہم جنس پرست شادی کی اجازت دے دیتا ہے اور نہ ہی منظوری۔ آسٹریلیا میں شادی کا قانون صرف مرد اور عورت کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے۔'
اٹارنی جنرل جار برینڈس نے اس سے قبل متنبہ کیا تھا کہ مقامی قانون کو قانونی چیلنج کا سامنا ہوگا کیونکہ یہ ملک کے شادی کے قانون سے متصادم ہے۔
آسٹریلوی شادی میں مساوات کے قومی ڈائریکٹر روڈنی کروم نے ایک بیان میں کہا کہ 'اس سے ان (ہم جنس پرست) جوڑوں اور ان کے اہل خانہ کو بہت صدمہ پہنچے گا جو گذشتہ ہفتے رشتۂ ازدواج میں بندھے ہیں۔'
ایوان ہنٹن جنھوں نے اپنے پارٹنر کرس ٹیو سے سنیچر کو شادی کی تھی، انھوں نے پرنم آنکھوں سے رپورٹروں کو بتایا: 'ایک ہفتے سے کم مدت کے دوران ہماری شادی ہوئی بھی اور ختم بھی ہو گئی، کم از کم قانونی طور پر۔'
انھون نے مزید کہا: 'ہم اب بھی شادی شدہ ہیں۔ میں نے کرس سے عہد کیا ہے کہ ہم تاحیات اس کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔'
دوسری جانب آسٹریلیا کی مسیحی لابی بھی ہم جنس پرست شادی کی مخالف ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'ایک مرد اور عورت کے درمیان شادی سماج کے لیے بہتر ہے حکومت کے لیے اس قانون کی پاسداری سود مند ہے۔'
واضح رہے کہ وزیر اعظم ٹونی ایبٹ لبرل نیشنل اتحاد کے سربراہ ہیں، اور وہ ہم جنس پرست شادی کے مخالف ہیں۔ گذشتہ سال آسٹریلیا کے دونوں ایوانوں میں اس کے متعلق بل کو نامنظور کر دیا گیا تھا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جمعہ, 10 مئی 2013 01:35
برطانیہ میں دو پاکستانی ہم جنس پرست لڑکیوں کی شادی !!!
برطانیہ میں دو پاکستانی نژاد ہم جنس لڑکیوں نے آپس میں شادی کرلی۔ رجسٹریشن کے بعد دونوں قانونی طور پر جیون ساتھی بن گئیں۔ تفصیلات کے مطابق ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کومل ابتدائی طور پر جب کونسل آفس پہنچیں تو کونسل نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ دونوں مسلمان ہیں لہذا شادی رجسٹر نہیں ہوسکتی۔ ریحانہ اور ثوبیہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ بالغ ہیں اور برطانوی قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کیلئے آزاد ہیں۔ کونسل نے ان کا موقف سننے کے بعد انہیں رجسٹریشن کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا جو پورا ہوگیا۔ جس کے بعد دونوں لڑکیا ں دلہن کے سفید لباس میں رجسٹریشن آفس پہنچیں اور شادی کے رجسٹر پر دستخط کر کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ یادر رہے کہ ریحانہ کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے جبکہ ثوبیہ کا تعلق میر پور سے بتایا جاتا ہے۔ دونوں برسرروزگار ہیں ۔ ریحانہ نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔
اردو ٹائمز
شفقنا اردو

http://ur.shafaqna.com/index.php?option=com_k2&view=item&id=9271:برطانیہ-میں-دو-پاکستانی-ہم-جنس-پرست-لڑکیوں-کی-شادی
جب اسلامی نظام نہیں ہے تب فطرت کی مخالفت ہی ہو گی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ممک
جمعہ, 10 مئی 2013 01:35
برطانیہ میں دو پاکستانی ہم جنس پرست لڑکیوں کی شادی !!!
برطانیہ میں دو پاکستانی نژاد ہم جنس لڑکیوں نے آپس میں شادی کرلی۔ رجسٹریشن کے بعد دونوں قانونی طور پر جیون ساتھی بن گئیں۔ تفصیلات کے مطابق ریحانہ کوثر اور ثوبیہ کومل ابتدائی طور پر جب کونسل آفس پہنچیں تو کونسل نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ دونوں مسلمان ہیں لہذا شادی رجسٹر نہیں ہوسکتی۔ ریحانہ اور ثوبیہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ بالغ ہیں اور برطانوی قوانین کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کیلئے آزاد ہیں۔ کونسل نے ان کا موقف سننے کے بعد انہیں رجسٹریشن کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا جو پورا ہوگیا۔ جس کے بعد دونوں لڑکیا ں دلہن کے سفید لباس میں رجسٹریشن آفس پہنچیں اور شادی کے رجسٹر پر دستخط کر کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ یادر رہے کہ ریحانہ کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے جبکہ ثوبیہ کا تعلق میر پور سے بتایا جاتا ہے۔ دونوں برسرروزگار ہیں ۔ ریحانہ نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔
اردو ٹائمز
شفقنا اردو

http://ur.shafaqna.com/index.php?option=com_k2&view=item&id=9271:برطانیہ-میں-دو-پاکستانی-ہم-جنس-پرست-لڑکیوں-کی-شادی
ممکن ہے یہ جھوٹ ہو؟؟؟
 
Top