ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 578
- ری ایکشن اسکور
- 186
- پوائنٹ
- 77
ہم رمضان کا استقبال ایسے کریں گے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مومنین رمضان کے آنے پر خوش ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ
جب رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۳۲۷۷]
یہ ان لوگوں کے لیے ایک موقع ہے جو اپنی نیکیاں بڑھانا، اپنے گناہوں کی گندگی دھو دینا اور قیامت کے دن نجات پانا چاہتے ہیں، اس لیے آخرت کے خواہاں بندے کو لازماً اس کی تیاری کرنی چاہیے، اس کا اچھی طرح استقبال کرنا چاہیے اور اس کے لیے اپنے دل اور اعضاء کو تیار کر لینا چاہیے۔ یہاں ان شاء اللہ تعالیٰ ہم رمضان المبارک کے استقبال کے لیے کی جانے والی چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔
- سچی توبہ
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے سچی توبہ کے ساتھ توبہ کرو، ممکن ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ مٹا دے اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ دن جب اللہ نبی کو اور ان کے ہمراہ ایمان داروں کو رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں بائیں دوڑ رہا ہو گا، وہ دعائیں کرتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے تو ہر چیز پر قادر ہے۔ [سورة التحریم، آیت : ۸]
امام محمد بن جرير الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يقولُ تعالى ذكرُه: يأيُّها الذين صدَّقوا اللَّهَ ﴿تُوبُوا إِلَى اللَّهِ﴾. يقولُ: ارْجِعوا من ذنوبِكم إلى طاعةِ اللَّهِ، وإلى ما يُرضِيه عنكم، ﴿تَوْبَةً نَصُوحًا﴾. يقولُ: رجُوعًا لا تعودون فيه أبدًا.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے وہ لوگو جنہوں نے اللہ کی تصدیق کی ہے، (اللہ سے توبہ کرو) فرماتا ہے: اپنے گناہوں سے اللہ کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ اور اس چیز کی طرف جو اسے تم سے راضی کر دے (سچی توبہ) فرماتا ہے: ایسا پلٹنا جس میں پھر دوبارہ گناہوں کی طرف واہسی نہ ہو۔ [جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج: ٢٣، ص: ١٠٦]
بندہ اس سچی پُر خلوص توبہ کے ذریعے کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیں اور اس کے بعد وہ امید رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ہمراہی اس مومن گروہ کے ساتھ ہو، جن کا نور ان کے سامنے اور دائیں بائیں دوڑ رہا ہو گا، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے بنا دے۔
- دعاء
بندے کو اطاعت کا عزم کرتے ہوئے خود پر بھروسہ نہ کرنا چاہیے، بلکہ اسے اپنی طاقت و قدرت سے براءت کر کے اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قدرت کا اقرار کرنا چاہیے، نیز اسے اللہ تعالیٰ سے اس کے ذکر و شکر اور اس کی عمدہ عبادت کرنے کے لیے کثرت سے دعاء کے ذریعے مدد مانگنی چاہیے،
اس لیے کہ دلوں کے حالات بدلتے رہتے ہیں، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ وہ انکے دل کو اللہ کی اطاعت کی طرف پھیر دے، جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ كَقَلْبٍ وَاحِدٍ يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ.
بنی آدم کے سارے دل ایک دل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے اسے (ان سب کو) گھماتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔ [صحیح مسلم، حدیث نمبر: ٦٧٥٠]
- زیادتیوں (کے بوجھ) سے چھٹکارا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهَا، فَإِنَّهُ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُؤْخَذَ لِأَخِيهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَخِيهِ، فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ.
جس نے اپنے بھائی پر اس کی عزت یا کسی چیز کے بارے میں ظلم کیا ہے، وہ آج اس سے معاف کرا لے، اس دن سے پہلے جب نہ دینار ہوگا نہ درہم، بلکہ اگر اس کے پاس کوئی نیکی ہوگی تو اس سے اس کے ظلم کے حساب میں لے لی جائے گی اور اگر اس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوئی تو اس کے ساتھی کی برائیوں سے لے کر اس پر ڈال دی جائے گی۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: ٦٥٣٤]
- ارادہ اور عزم
اس مقدس مہینے سے فائدہ اٹھانے کی نیت ہونے کے ساتھ ساتھ کام کرنے کا پکا عزم بھی ہونا چاہیے، یعنی وہ اپنی مصروفیات تاگ کر اور دنیا کے معاملات سے فارغ ہو کر آخرت کے کاموں کی طرف متوجہ ہو جائے، کیونکہ آخرت ہی اصل ہے اور دنیا تو فقط اس کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا
اور اللہ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر تلاش کرو اور اپنے دنیا کے حصے کو مت بھولو۔ [سورۃ القصص، آیت: ۷۷]
اطاعت کے اس پکے عزم کے ساتھ گناہوں اور برائیوں کو چھوڑنے کا عزم بھی ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ روزہ صرف کھانے پینے سے ہی پرہیز نہیں ہے بلکہ روزہ تو اعضاء کو نافرمانی سے روک لینا بھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ
اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: ۱۹۰۳]
- منصوبہ بندی اور اوقات کی ترتیب سازی
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بندے کو عبادات میں تنوع پیدا کرنے کا شوق ہونا چاہیے، اور بہترین اور زیادہ ثواب والی چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، اور ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں جہاد، رات کی نماز، قرآن کی تلاوت، اور صدقات کی کثرت بھی ہیں خصوصا اس کے آخری عشرہ میں۔
مسلمان اپنے اوقات کی ترتیب سازی کی اور دنیا کی مصروفیات سے بچنے کی فکر کرتا ہے، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: ٢٠٢٤]
اور ان تمام اعمال میں نیت کو اخلاص رکھنا چاہیے، اس لیے کہ عمل کا دار و مدار نیتوں پر ہی ہے اور اللہ تعالیٰ بندے سے ایسا کچھ نہیں قبول کرتا جس میں ریاکاری داخل ہو جائے، ہم اللہ تعالیٰ سے قول و فعل میں اخلاص مانگتے ہیں۔
- اس کے احکامات میں سمجھ بوجھ پیدا کرنا
لہذا مسلمان پر واجب ہے کہ روزے کے احکام میں سے جن چیزوں کے سیکھنے کی اسے ضرورت ہے، مثلاً روزہ توڑنے والی چیزیں، مباح چیزیں اور دیگر چیزیں سب اپنے حال اور ضرورت کے مطابق سیکھ لے، اور یہ مجاہد کے لیے زیادہ تاکیدی اصول ہے، کیونکہ وہ جہاد کی مشقت کا سامنا کرتا ہے جو اسے بعض اوقات روزہ توڑنے تک پر مجبور کر دیتا ہے۔
نیز مسلمان کو اس ماہ مقدس کی فضیلت کے بارے میں بھی جاننا چاہیے، کیونکہ ان کا علم اسے عمل پر ابھارتا ہے، سو اسے اس ماہ مبارک میں روزے، نماز، قرآن پڑھنے، جہاد اور دیگر عبادات کے فضائل جان لینے چاہئیں۔ ان سب چیزوں پر عمل کرنے میں مدد گار چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی معرفت اور سلف صالحین رحمہم اللہ کے حالات کا علم، اور ان کی اقتداء کرنا ہے۔
- مسلمانوں کی خبر گیری کرنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ الْقَائِمِ اللَّيْلَ الصَّائِمِ النَّهَارَ.
بیواؤں اور مسکینوں کے کام آنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، یا رات بھر عبادت اور دن کو روزے رکھنے والے کی طرح ہے۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: ٥٣٥٣]
اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَقَالَ: بِإِصْبَعَيْهِ السَّبابةِ وَالْوُسْطَى
میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں یوں ہوں گے اور آپ نے شہادت اور درمیانی انگلیوں کے اشارہ سے (قرب کو) بتایا۔ [صحيح البخاري، حدیث نمبر: ٦٠٠٥]
ہم اللہ کریم سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں شعبان کے ان آخری ایام میں برکت عطا فرمائے، ہمیں رمضان تک پہنچا دے، اور ذکر و شکر کرنے اور عمدہ عبادت کرنے میں ہمارا مددگار ہو جائے، وہ سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
Last edited: