• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم صحابہ کرام سے محبت کیوں کرتے ہیں

شمولیت
فروری 07، 2016
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
20
ہم صحابہ کرام سے محبت کیوں کرتے ہیں
بسم اللہ والحمدللہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ!
حضراتِ صحابہ کرام سے محبت اہلسنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنی نوع انسان کے برگزیدہ و منتخب افراد میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسولﷺ کی مصاحبت و نصرت اور دین کی دعوت و اشاعت کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین اُمت کا وہ طبقہ ہے جس نے حفاظت دین اور اگلی نسلوں تک اس کی تبلیغ کی اہم اور سنگین ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کر چکا ہے۔ اگر یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہو جاتی۔ اب اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی صلاحیت وراست گوئی اور امانتداری کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے تو دراصل وہ قرآن وسنت کی حقانیت پر طعن کرتا ہے اور ان مآخذ و منابع کو مشکوک بناتا ہے جو صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی فضیلت میں موجود متعدد آیات و احادیث ان کی محبت کو ہم پر واجب بناتی ہیں، نیز جو افراد صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان سے دشمنی و بغض کا سبق بھی ہمیں انہی قرآنی آیات و احادیث نبوی سے ملتا ہے۔ ہم صحابہ کرام سے بے پناہ محبت کرتے ہیں چونکہ:
1۔ اللہ تعالی اُن سے راضی ہوا، ارشادربانی ہے:
{لَقَدْ رَضِیَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِینَةَ عَلَیْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیبًا} (الفتح/ 18).

(بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں ) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا)
2۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے انہیں ایمان کی صفت سے متصف کرکے یاد کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَإِن یُرِیدُواْ أَن یَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِی أَیَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِینَ} (الانفال/ 62)
(اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی)
3۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے اس لئے محبت ہے چونکہ اللہ تعالی نے ان کی تصدیق کرکے انہیں کامیاب قرار دیا ہے اور انہیں جنت کا وعدہ بھی دیا ہے،
ارشاد باری ہے:
{لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُواْ مَعَهُ جَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَأُوْلَئِكَ لَهُمُ الْخَیْرَاتُ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ* أَعَدَّ اللّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ} (التوبہ/89-88).

(لیکن رسول(ﷺ) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں * اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے.)
4۔ ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یوں مخاطب کیا ہے:

{كُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران/110)؛
(تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، ) ابن عباس فرماتے ہیں : یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔
5۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی بھی صحابہ کرام سے محبت کرتا ہے،
چنانچہ فرماتا ہے:
{فَسَوْفَ یَأْتِی اللّهُ بِقَوْمٍ یُحِبُّهُمْ } (المائدہ؛ 54)
(عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے). حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم یہ آیت “حروراء” کے لوگوں کے بارے میں نازل نہیں ہوئی بلکہ حضرت ابوبکر و عمر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

6۔ ہم صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی نے انہیں سچے مومن قرار دیا ہے، ارشاد ربانی ہے:

(وَالَّذِینَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِی سَبِیلِ اللّهِ وَالَّذِینَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیمٌ} (الانفال/ 74)؛
(اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے.

7۔ نبی کریمﷺ نے ان سے محبت کرنے کو ایمان کی علامت اور بغض صحابہ کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔
آپﷺ کا ارشاد ہے:
«آیَةُ الایمان: حب الانصار، وآیَةُ النفاق بغض الانصار»؛متفق علیہ.
ترجمہ: “انصار سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے”۔

8۔ ہمیں صحابہ کرام سے پیار ہے چونکہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کے تعلق سے بُرا کہنے سے منع کیا ہے
ارشاد نبوی ہے: -:
«إذا ذُكِر أصحابی فأمسكوا، و إذا ذُكِرتِ النُّجوم فأمسكوا، و إذا ذُكِرَ القدر فأمسكوا ] صحَّحه الألبانی 545 فی صحیح الجامع
(جب بھی میرے صحابہ کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو خاموش رہو، جب بھی ستاروں سے متعلق بات ہوہی ہو تو خاموش رہو، اور جب بھی قدر سے متعلق بات ہوہی ہو تو خاموش رہو)
9۔ صحابہ کرام سے ہمیں محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امت مسلمہ کے امن و قرار کا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

{النجوم أمنة للسماء، فإذا ذهبت النجوم أتی السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابی فإذا ذهبتُ أتی أصحابی ما یوعدون، وأصحابی أمنة لأمتی، فإذا ذهب أصحابی أتی أمتی ما یوعدون}؛ (مسلم:2531)۔
(ترجمہ: ستارے آسمان کے لئے امان ہیں جب ستاروں کا نکلنا بند ہو جائے گا تو پھر آسمان پر وہی آ جائے گا جس کا وعدہ کیا گیا میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں پھر جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے
10۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس امت کے بہترین افراد قرار دیا ہے اسی لیے ہمیں ان سے محبت ہے، چنانچہ فرماتے ہیں :

{ خیر أمَّتی القرن الّذین یلونی ثمَّ الَّذین یلونهم ثمَّ الَّذین یلونهم (مسلم: 2532)۔
ترجمہ: میری امت کے بہترین اشخاص وہ ہیں جن کے درمیان میری بعثت ہوئی (صحابہ کرام)، پھر (وہ نسل) جو ان کے بعد آئے (تابعین)، پھر (سب سے بہترین افراد وہ ہیں ) جو ان کے بعد آئیں (تبع تابعین)۔
11۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے ہمیں صحابہ کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا ہے،
فرمان نبوی ہے:
{لا تسبوا أصحابی، فوالذی نفسی بیده لو أنَّ أحدكم أنفق مثل أحد ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نصیفه}۔ (مسلم: 2540.)؛
ترجمہ: میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو، اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد( مٹھی) غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔
12۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ہر اس شخص پر جو صحابہ رضی الله تعالی عنهم أجمعین کو گالی دیتا ہے،
فرماتے ہیں : “لعن الله من سبَّ أصحابی” [حسَّنه الألبانی 5111 فی صحیح الجامع[
( ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہے۔ )
13۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان کے ذریعے دین پھیلے گا اور اسلام کی نصرت ہو گی۔ امر واقع بھی یہی ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
{یأتی علی الناس زمان، یغزو فئام من الناس، فیقال: فیكم من صاحب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم، ثم یأتی علی الناس زمان، فیغزو فئام من الناس، فیقال لهم: فیكم من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم، ثم یأتی علی الناس زمان، فیغزو فئام من الناس، فیقال لهم: هل فیكم من صاحب من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فیقولون: نعم، فیفتح لهم}۔ (بخاری ومسلم)؛
ترجمہ: ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ جہاد کریں گے، ان سے پوچھا جائے گا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو نبی کریمﷺ کا ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی ہاں، اس طرح (مقابلے کے بعد) وہ لوگ فتح یاب ہوں گے۔ پھر کسی اور زمانے میں مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کرنے جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا بندہ ہے جو صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کے ساتھ رہا ہو؟ جواب آئے گا کہ جی ہاں، پھر مجاہدین کا وہ گروہ فتح یاب ہو گا۔ ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ بعض لوگ جہاد کے لیے نکلیں گے تو ان سے سوال ہو گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو صحابہ کرام کے ساتھیوں کے ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی، تو کامیاب ہوں گے۔
14۔ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے چونکہ وہ نبی کریمﷺ کے وزیر اور مدد گار ساتھی تھے،
اس بارے میں آپﷺ نے فرمایا:
{ان الله تبارك وتعالی اختارنی، واختار لی أصحاباً، فجعل لی منهم وزراء وأنصاراً وأصهاراً، فمن سبهم فعلیه لعنة الله والملائكة والناس أجمعین، لا یقبل منه یوم القیامة صرف ولا عدل}۔ (رواہ حاکم وصحّحہ)۔
ترجمہ: حضور اکرم نے فرمایا: اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے اور میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب کیا ان کو میرا وزیر‘ مددگار اور رشتہ دار بنایا جو ان کو برا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کی‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض اور کوئی کفارہ قبول نہ کرے گا.
15۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ان سے محبت کرنا نبی کریمﷺ سے محبت کرنا ہے اور صحابہ سے نفرت آپﷺ سے نفرت کی دلیل و علامت ہے،
اسی بارے میں فرمان نبوی ہے:
{الله الله فی أصحابی، لا تتخذوهم غرضاً بعدی، فمن أحبهم فبحبی أحبهم، ومن أبغضهم فببغضی أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذانی، ومن آذانی فقد آذی الله، ومن آذی الله أوشك أن یأخذه} (رواہ احمد وترمذی وجعلہ حسناً)؛
ترجمہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا (یاد رکھو) جس نے اِن سے محبت کی، پس میری محبت کی وجہ سے اِس نے اُن سے محبت کی۔ جس نے اُن سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو اذیت دی پس اس نے مجھے اَذیت دی جس نے مجھے اَذیت دی، اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، پس قریب ہے کہ وہ اس کو گرفت کر لے.
16۔ ہمیں صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت ہے چونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے احترام و عزت کو اپنے ہی احترام کے مترادف قرار دیا ہے،
چنانچہ فرماتے ہیں :
{احفظونی فی أصحابی، ثم الذین یلونهم، ثم الذین یلونهم}۔ (ابن ماجہ: 1927، وصححہ الالبانی)؛
ترجمہ: میری منزلت و عزت کی حفاظت کے لیے میرے صحابہ اور ان کے بعد آنے والے دو صدیوں کے لوگوں کی منزلت و عزت کا خیال رکھو۔
18۔ ہم صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ وہ اہل علم و فضیلت، اخلاق اور سچائی والے تھے، ارشاد نبویﷺ ہے:

{أرأف أمتی بأمتی أبوبكر، وأشدهم فی دین الله عمر، وأصدقهم حیاء عثمان، وأقضاهم علی، وأفرضهم زید بن ثابت، وأقرؤهم أبیّ، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، ألا وإن لكل أمة أمیناً، وأمین هذه الأمة أبوعبیدة بن الجراح}۔ (حاکم، صحَّحه الألبانی 868 فی صحیح الجامع.)
ترجمہ: میری امت پرسب سے زیادہ رحیم ابوبکر ہے، دین پر سختی سے عمل کرنے والا عمر ہے، سب سے زیادہ سچے با حیا عثمان ہے، عدل میں سب سے آگے علی ہے، ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کے صفات عالیہ کے ذکر میں کہتے ہیں : جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو بہترین پایا۔ تو انہیں منتخب کر کے اپنا نبی بنایا۔ پھر اللہ تعالی نے سارے قلوب پر نظر ڈالی تو صحابہ کرام کے دلوں کو بہترین پایا سو انہیں اپنے برگزیدہ پیغمبر کی صحبت کے لیے منتخب کر کے آپﷺ کے وزیر بنا دیا تا کہ اس کے دین کی راہ میں لڑیں۔
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو ان کی پیروی کرے جن کا انتقال ہو چکا ہے، چونکہ جو زندہ ہیں معلوم نہیں فتنے کا شکار ہوں گے کہ نہیں۔ جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں وہ نبی کریمﷺ کے صحابہ ہیں جو امت میں عقائد کے اعتبار مضبوط ترین اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، دین میں وہ بہت کم تکلف کرنے والے تھے۔ صحابہ کرام وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کے مصاحبت اور دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ان کی جاہ و مقام کو پہچانو اور ان کے طریقے پر چلو اس لیے کہ وہ ہدایت اور راہ راست پر تھے۔ [رواه ابن عبد البرّ)
صحابہ کرام کے حوالے سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : واضح اور آشکار مسائل میں سے ایک صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین کی تمام خوبیوں کو بیان کرنا، ان کی غلطیوں اور آپس کے اختلافات کو بیان کرنے سے گزیر کرنا ہے۔ لہٰذا جو شخص کسی بھی صحابی کی شاں میں گستاخی کرے، برا بھلا کہے اور طعنہ زنی کرے یا کسی صحابی کی عیب جوئی کرے تو وہ شخص بدعتی، ناپاک، رافضی او اہل سنت کا مخالف ہے۔ اللہ تعالی (قیامت کے دن) نہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا نہ کوئی فدیہ و کفارہ اس کی جان چھڑا سکے گا۔ اس کے برعکس صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم أجمعین سے محبت سنت اور ضروری ہے، ان کے لیے نیک دعاء کرنا قرب الہی کا باعث ہے۔ ان کی پیروی باعث نجات ہے اور ان کی راہ پر چلنا فضیلت شمار ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سب سے اچھے لوگ تھے، کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ انہیں گالیاں دے یا عیب جوئی کر کے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں گندی زبان سے یاد کرے۔ [كتاب السُّنَّة ص78[

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت ہے

آزاد
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم ایسا مسئلہ نہیں کہ اس سے بے اعتنائی برتی جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے بلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا مسئلہ ہے اور اصول دین کا ایک اہم اصول ہے، چنانچہ ائمہ سلف نے عقیدہ واصول پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ان کی صداقت و عدالت کو دین کا اصل الاصول قرار دیا ہے۔

٭چنانچہ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی کتاب السنۃ، امام ابوبکر احمد بن محمد الخلال رحمہ اللہ کی السنۃ، امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ کی کتاب الشریعۃ، امام محمد بن اسحاق بن مندہ رحمہ اللہ کی الایمان، امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ کی السنۃ، امام ابوالقاسم اللالکائی رحمہ اللہ کی شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، امام طحاوی رحمہ اللہ کی العقیدۃ الطحاویۃ ، امام ابومحمد الحسن بن علی البربہاری رحمہ اللہ کی شرح السنۃ، امام ابن بطہ رحمہ اللہ کی کتاب الشرح والابانۃ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی العقیدۃ الواسطیۃ، امام ابوعثمان اسماعیل بن عبدالرحمن الصابونی رحمہ اللہ کی عقیدۃ السلف واصحاب الحدیث، علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کی المسامرۃ بشرح المسایرۃ، امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی لمعۃ الاعتقاد الہادی الی سبیل الرشاد، امام ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری رحمہ اللہ کی الابانۃ عن اصول الدیانۃ، علامہ محمد بن احمد السفارینی رحمہ اللہ کی شرح الفقہ الاکبر، علامہ تفتازانی رحمہ اللہ کی شرح العقائد اور حضرت نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی قطف الثمر فی بیان عقیدۃ اہل الاثر میں اس مسلمہ اصول کو دیکھا جاسکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی الجامع الصحیح میں کتاب الایمان کے تحت باب قائم کیا ہے: ’’علامۃ الایمان حب الانصار‘‘ کہ انصار صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت ہے۔ جس کے تحت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ «آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ» ‘‘ (صحیح البخاری: 17)
ایمان کی علامت انصار رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی علامت انصار رضی ا للہ عنہم سے بغض رکھنا ہے۔
انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اس بنا پر ہے کہ انہوں نے بڑے مشکل وقت میں رسول اللہﷺ کی بیعت کی، اپنی جان پر کھیل کر آپﷺ کو مدینہ طیبہ میں لائے، سارا عرب ان کا دشمن ہوگیا، منافقین مدینہ ان سے اسی بنا پر بغض رکھتے تھے، ان سے محبت رسول اللہﷺ سے رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ خادم اسلام ہونے کے ناطے اور رسول اللہﷺ کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے نتیجہ میں ہے۔
سیدنا الامام معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ «مَنْ أَحَبَّ الْأَنْصَارَ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَ الْأَنْصَارَ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ» ‘‘ (المجمع: 39/10، عبدالرزاق: 59/11)
جو انصار سے محبت کرتا ہے، وہ میرے ساتھ محبت کے باعث ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے، وہ میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔
یہ روایت طبرانی میں ثقہ راویوں سے مروی ہے۔
اسی مفہوم کی حدیث حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں اور ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں بھی موجود ہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حکم تمام اعیان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی ہے کہ ان سے محبت ایمان کی اور ان سے بغض نفاق کی علامت ہے۔ (عمدۃ القاری: 152/1)

اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے بارے میں فرمایا: ’’
« لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» ‘‘ (صحیح مسلم: 240)
مجھ سے وہی محبت کرے گا جو مؤمن ہوگا اور وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی تمام قریبی رشتہ داروں کے علی الرغم صغر سنی کے باوصف رسول اللہﷺ کا ساتھ دیا، بایں طور ان سے محبت بھی ایمان کی علامت قرار دی گئی۔ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت بھی رسول اللہﷺ سے نسبت اور آپﷺ کی رفاقت کے اعتبار سے ہے اور ان سے بغض وعداوت بھی دراصل رسول اللہﷺ سے بغض کا نتیجہ ہے،

چنانچہ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ مَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ‘‘
کہ جو صحابہ سے محبت کرتا ہے وہ میرے ساتھ محبت کی بنا پر ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے۔
یہ روایت امام ترمذی رحمہ اللہ (الجامع: 360/3) اور امام احمد رحمہ اللہ (87/4) نے نقل کی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے ایمان کی بڑی کوشش کی مگر وہ اسلام نہ لائیں تو انہوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر والدہ کے ایمان کےلیے دعا کی التجا کی، آپﷺ نے دعا کردی تو اسے دولت ایمان حاصل ہوگئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خوشی خوشی اس کی بشارت لےکر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور والدہ کے ایمان کی بشارت دی اور مزید عرض کیا : ’’ يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ، وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا - يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ - وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ» فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ‘‘ (صحیح مسلم: 6396)
اے اللہ کے رسولﷺ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مؤمن بندوں کے دلوں میں پیدا کردے اور مؤمنوں کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے دعا کی اور فرمایا: ’’اے اللہ! اپنے اس بندے، یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور اس کی والدہ کی محبت اپنے مؤمن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ان کے دلوں میں مؤمنوں کی محبت ڈال دے۔‘‘ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ) پھر ایسا ہوا کہ کوئی مسلمان پیدا نہیں ہوا جو میرا ذکر سن کر یا مجھے دیکھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔

سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہمیں آپﷺ کے اس ارشاد پر اتنی خوشی ہوئی کہ اتنی خوشی کسی اور بات سے نہیں کہ ’’ «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ» ‘‘ تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ فَأَنَا أُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ ‘‘ (صحیح البخاری: 3688، مسلم)
پس میں نبی کریم ﷺ سے، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں اورامید رکھتا ہوں کہ ان سے محبت کی بنا پر ان کے ساتھ رہوں گا، اگرچہ میں ان کے اعمال جیسے عمل نہیں کرسکا۔
لہٰذا رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اور آخرت میں ان کی مرافقت ومصاحبت کا باعث ہے۔ جبکہ رسول اللہﷺ سے بغض کفر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد منافقت کی علامت ہے۔
مشہور تابعی امام مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ حب أبي بكر وَعمر وَمَعْرِفَة فضلهما من السّنة ‘‘ (العلل ومعرفۃ الرجال امام احمد: 452،453/1)
کہ ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اور ان کی فضیلت کی معرفت سنت ہے۔ بلکہ المعرفۃ للفسوی میں ہے کہ خالد بن سلمہ نے امام مسروق کا یہی قول ابن شبرمہ سے طواف کے دوران ذکر کیا مگر جب امام حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’حب أبي بكر وعمر سنة؟‘‘ کہ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت سنت ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’لا، فريضة‘‘ نہیں بلکہ فرض ہے۔ (کتاب الرقاق والحکایات، ص: 171 لخیثمۃ بن سلیمان)
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت فرض ہے۔ ’’حبهم فرض‘‘ (الجمہرۃ، ص: 3)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’كان صالح السلف يعلمون أولادهم حب أبي بكر وعمر كما يعلمون السورة أو السنة‘‘ سلف صالحین اپنی اولاد کو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن پاک کی سورت یا سنت سکھاتے تھے۔ (مسند الامام ابی القاسم الجوہری، ص: 110)
علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ومن توقيره وبره صلى الله عليه وسلم توقير أصحابه وبرهم ومعرفة حقهم والاقتداء بهم وحسن الثناء عليهم والاستغفار لهم... الخ‘‘ (الشفاء: 41/2)
رسول اللہﷺ کی تعظیم وتوقیر اور آپ ﷺسے حسن سلوک کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی توقیر کی جائے اور ان سے حسن سلوک کا اظہار کیا جائے، ان کے حق کو سمجھا جائے، ان کی اقتداء کی جائے اور ان کی تعریف کی جائے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کی جائے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس کے بعد اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ کا ذکر کرتے ہوئے امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ جو بصرہ کے کبار فقہاء وعباد میں شمار ہوتے ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں ثقۃ ثبت حجۃ کہا ہے، کا قول ذکر کیا ہے کہ
’’ وَمِن أَحْسَن الثَّنَاء عَلَى أَصْحَاب مُحَمَّد صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم فَقَد بَرِئ مِن النّفَاق وَمِن انْتَقَص أحَدًا منهم فَهُو مُبْتَدع مُخَالِف لِلسُّنَّة وَالسَّلِف الصَّالِح وأخاف أن لَا يَصْعَد لَه عَمَل إِلَى السَّمَاء حَتَّى يُحبَّهُم جَمِيعًا وَيَكُون قَلْبُه سَلِيمًا ‘‘ (الشفاء: 42/2)
جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اچھی تعریف کرتا ہے، وہ نفاق سے بری ہے اور جو ان میں سے کسی ایک کی تنقیص کرتا ہے، وہ بدعتی ہے، سنت اور سلف صالحین کے طریقہ کے مخالف ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ ا س کا کوئی عمل (قبولیت کےلیے ) اس وقت تک آسمان پر نہیں جائے گا جب تک وہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت نہ کرے اور اس کا دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض سے بچا ہوا نہ ہو۔
اسی طرح انہوں نے حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ لَم يُؤْمِن بِالرَّسُول من لَم يُوقّر أصْحَابَه ‘‘ (الشفاء: 44/2)
کہ جو رسول اللہﷺ کے صحابہ کی توقیر نہیں کرتا ، اس کا آپﷺ پر ایمان ہی نہیں۔

امام ا بونعیم اصفہانی رحمہ اللہ نے امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ «إِنِّي أُحِبُ مَنْ أُحَبَّهُمُ اللهُ وَهُمُ الَّذِينَ يَسْلَمُ مِنْهُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبْغِضُ مَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ وَهُمْ أَصْحَابُ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ» ‘‘ (حلیۃ الاولیاء: 103/8، بسند صحیح)
میں ان سے محبت کرتا ہوں جن سے اللہ محبت کرتے ہیں اور وہ وہی ہیں جن کی زبان درازیوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محفوظ ہیں اور میں ان سے بغض رکھتا ہوں جن سے اللہ بغض رکھتے ہیں اور وہ خرافی اور بدعتی ہیں۔
امام ابوحفص عمر بن سلیم رحمہ اللہ المتوفی 264ھ جو شیخ خراسان اور امام القدوۃ الربانی کے القاب سے یاد کیے جاتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’ لَوْ أَنَّ رَجُلا ارْتَكَبَ كُلَّ خطيئةٍ مَا خَلا الشِّرْكَ بِاللَّهِ، وَخَرَجَ مِنَ الدُّنْيَا سَلِيمَ الْقَلْبِ لأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ. ‘‘ (الجزء الاول، الفوائد والاخبار والحکایات، رقم: 44 ، للامام ابی علی الحسن بن الحسین الہمزانی المتوفیٰ 405ھ)
اگر کوئی شرک کے علاوہ دوسرے گناہ کا مرتکب ہو اور دنیا سے جائے کہ اس کا دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں پاک صاف ہو، اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا۔
ان سے کہا گیا کہ اس کی کوئی دلیل ہے تو انہوں نے فرمایا: ہاں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے: اے میرے نبیﷺ! کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، آپﷺ کی اتباع یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی جائے۔ (کہ آپﷺ بھی اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے تھے) حضرت ابوسعید احمد بن محمد نیسابوری رحمہ اللہ جو اس قول کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ میں فارس میں تھا تو مجھ سے امام ابو حفص رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے ایک دن میں ان کا یہ قول ایک ہزار مرتبہ ذکر کیا اور لوگوں کو املاء کروایا۔
امام بشر بن الحارث الحافی رحمہ اللہ جو کبار اہل اللہ میں شمار ہوتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’«أَوْثَقُ عَمَلِي فِي نَفْسِي حُبُّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ‘‘ (الحلیۃ: 388/8)
میرے نزدیک میرا سب سے پختہ عمل محمد ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے۔
امام بشر حافی رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں: ’’ نَظَرْتُ فِي هَذَا الأَمْرِ؛ فَوَجَدْتُ لِجَمِيعِ النَّاسِ تَوْبَةً إِلا مَنْ تَنَاوَلَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ حَجَزَ عَنْهُمُ التَّوْبَةَ. ‘‘ (المجالسۃ للدینوری: 397/6)
میں نے دین کے معاملے میں غور کیا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تمام لوگوں کےلیے توبہ ہے مگر جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حرف گیری کرتا ہے ان کی توبہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حرف گیری اہل بدعت کا شعار ہے، ظاہر ہے کہ جب وہ اس بُری عادت سے باز آئیں گے تبھی انہیں توبہ کی توفیق ملے گی، بالکل یہی بات امام بشر حافی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ سے نقل کی ہے کہ : ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کی توبہ قبول نہیں کرتے اور سب سے بُری بدعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنا ہے۔ امام بشر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ بات کہہ کر امام فضیل رحمہ اللہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا پختہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کو بناؤ، اگر تو قیامت کے دن ریت کے ذرات کے برابر گناہ لے کر آئے گا تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے گا لیکن اگر تیرے دل میں ذرہ بھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بغض ہوا تو تیرا کوئی عمل تجھے فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ (المجالسۃ: 412/5)
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے بسندِحسن امام ابو طاہر السلفی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ خَصْلَتانِ مَنْ كَانَتْ فِيه؛ الصِّدْقُ وحُبُّ أصحابِ محمَّدٍ صلى الله عليه وسلم، فَأَرْجُو أَنْ ينجُوَ إِنْ سَلِم ‘‘ (الطیوریات: 331/2)
ایمان وتسلیم کے بعد دو خصلتیں ہیں جس میں وہ پائی جائیں گی امید ہے وہ نجات پاجائے گا: ایک سچ وصدق اور دوسری محمدﷺ کے صحابہ سے محبت۔
امام ابوبکر الآجری رحمہ اللہ نے یہی قول امام الفضل بن عیاض رحمہ اللہ کے واسطہ سے امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے اور اس قول کو حکایت کرنے سے پہلے خود امام الفضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ حُبُّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُخْرٌ أَدَّخِرُهُ ثُمَّ قَالَ: رَحِمَ اللَّهُ مَنْ تَرَحَّمَ عَلَى أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَإِنَّمَا يَحْسُنُ هَذَا كُلُّهُ بِحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘ (کتاب الشریعۃ: 1688/4)
میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا ذخیرہ جمع کررہا ہوں، جو صحابہ رضی اللہ عنہم کےلیے رحم و کرم کی دعا کرتا ہے، اللہ اس پر رحم فرمائے، یہ سب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت سے درست ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بسند ِ صحیح منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ «إِنَّ حُبَّ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبٍ مُؤْمِنٍ وَكَذَبُوا , قَدْ جَمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حُبَّهُمَا بِحَمْدِ اللَّهِ فِي قُلُوبِنَا» ‘‘ (کتاب الشریعۃ: 1770/4، المعجم لابن الاعرابی: 125/6)
لوگ کہتےہیں کہ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما دونوں سے محبت مؤمن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کی محبت جمع کردی ہے۔
امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں امام سعید بن مسیب سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ’’ اسْمَعْ يا زهري، من مات حبا لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ، وَشَهِدَ لِلْعَشَرَةِ بالجنة، وترحم على معاوية، كان حقاً عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُنَاقِشَهُ الْحِسَابَ. ‘‘ (البدایۃ: 139/8)
زہری! سنو، جو ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے محبت کرے، عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم کےجنتی ہونے کی شہادت دے، معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیے رحمت کی دعا کرے، اللہ تعالیٰ کےلیے ہے کہ اس سے حساب کتاب نہ لے۔
ابو شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ «لَا يَجْتَمِعُ حُبُّ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إِلَّا فِي قُلُوبِ أَتْقِيَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ» ‘‘ (کتاب الشریعۃ: 1771/4، المعجم لابن الاعرابی: 128/2)
ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی محبت صرف اس امت کے اتقیاء کے دل میں جمع ہوتی ہے۔
یہی بات علامہ ذہبی رحمہ اللہ (السیر: 273/7) نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے اور امام ابن الاعرابی رحمہ اللہ (المعجم: 128/2) نے ابوجعفر ہاشمی رحمہ اللہ سے بھی نقل کی ہے، اس لیے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالعموم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے بالخصوص محبت ایمان کا حصہ ہے اور ان سے بغض و عداوت، نفاق اور بدعت کی علامت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت ہے
اللہ سبحان و تعالیٰ شیخ محترم اسحاق سلفی رحمہ اللہ پر آپ خاص رحمت کرے اور انکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے - آمین یا رب العالمین
 
Top