غالب نے کہا تھا ''مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں'' یہ بات بھارتی مسلمانوں پر سو فیصد صادق آتی ہے۔ کانگرس ہو یا بھاجپا۔ دونوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو دل سے بھارتی شہری اور محب وطن تسلیم نہیں حالانکہ صدیوں کی طرح آج بھی کروڑوں بھارتی مسلمان بھارت کی سماجی، ثقافتی، تہذیبی، سیاسی اور تجارتی وصنعتی ترقی میں اپنا خون پسینہ بہا کر اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں کیا ان کی قربانیوں اور عزم و ہمت کی داستان کو فراموش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے زور بازو اور حسن سلوک پر کئی صدیوںبھارت پہ حکومت کی مگر زبردستی کی نہ مذہبی تعصب برتا۔ اس کے باوجود جدید بھارت میں آئے روز کہیں مذہبی بنیاد پر کہیں سیاسی بنیاد اور کہیں زبان کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسند جماعتیں فسادات پھیلاتی رہتی ہیں۔ متمول مسلمان خاندانوں اور انکے خوشحال علاقوں کو چن چن کر تباہ کیا جاتا ہے مگر ان میں کسی نے کبھی بھارت کے خلاف بات نہیں کی رہی ان پر مظالم کی بات تو بقول شاعر...؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار لے چکا ہے تو امتحان ہمارا
برسوں پہلے یہ کہے گئے اشعار اس وقت سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کی حالت زار کی بہترین عکاسی کر رہے ہیں اور آج کے مشکل ترین حالات میں بھی جب ایک انتہا پسند مذہبی جنونی بھارت کا وزیراعظم بننے چلا ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ بھارتی مسلمان خوف زدہ نہیں کیونکہ وہ ایک درخشاں اور عظیم ماضی کے امین اور روایات کے حامل ہیں اور اچھے یا برے دونوں حالات سے نبردآزما ہونا جانتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مودی وزیراعظم بن کر بھی مودی ہی رہتا ہے یا ایک بار پھر موذی بن کر مسلمانوں کے درپے آزار ہوتا ہے۔ اگر بھارتیوں کا وزیراعظم بن کر رہا تو امید ہے بہتر ہی ہو گا۔ ورنہ ہر موذی چیز سے زمین کو پاک کرنا مسلمانوں کے لئے کار ثواب بھی ہے۔ کیونکہ یہ بھی ''اہنسا'' ہی کی ایک شکل ہے۔