حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
ہندوستانی دجال احمد قادیانی کی موت
مئی26 سنہ 1908 ۔ ربيع الآخر23 سنہ 1326
ہندوستانی دجال
انگریز سنہ 1857 کی آزادی کی کوشش دبا چکے تھے لیکن وہ مسلمانوں کی فطرت سے واقف تھے کہ جب تک اس میں صحیح دینی شعور ہوگا اس کی طرف سے مطمئن ہونا ممکن نہیں لہاذا انھوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جیسا کہ انکی کی عادت رہی ہے ہندوستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی تاکہ ہندو مسلم سکھ عیسائی اتحاد کو ختم کیا جائے۔دوسری طرف خود مسلمانوں میں گمراہ فرقوں کی ہمت افزائی کی جس سے ایک بڑا طبقہ صحیح اسلامی عقائد سے ہٹ گیا اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت فرقوں میں بٹ گئی۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا مذہب اسی دور کی پیداوار ہے جسے اس وقت کی حاکم قوت نے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ اس مذہب نے حکومت برطانیہ کے ساتھ وفاداری اور اخلاص کو اپنے بنیادی عقائد اور مقاصد میں شامل کیا تھا۔اور اس کے لئے قرآن و حدیث میں ایسی تاویلیں کی تھیں کہ شاید خود انگریز بھی اس کی جسارت نہ کرتے۔
سیرت کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ غزوہ بدر میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ابو جہل کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا مات فرعون ھذہ الامۃ اس امت کا فرعون مارا گیا۔ آج جب مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کا دن ہے تو یہ جملہ کہنے کو جی چاہتا ہے مات دجال ھذہ الامۃ آج اس امت کا دجال مارا گیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی دعوت کے چار دور
مرازا غلام احمد قادیانی ایک متلون مزاج آدمی تھا جس کے قول و فعل میں تو تضاد تھا ہی اس کے اقوال میں بھی تضاد پایا جاتا تھا جس کی واضح مثال اس کی دعوت کا تدریجی ارتقاء ہے۔
اسلامی تاریخ میں پنپنے والی شاید ہی کسی تحریک نے قادیانی تحریک کی طرح رنگ بدلے ہوں اس تحریک کو ہم چار ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلے یہ دعوی پیش کیا کہ و ہ اسلامی مبلغ ہے لیکن دوسرے دور میں خود کو مسیح موعود بنا کر پیش کیا اور اس جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے صریح احادیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے متعلق جو وضاحتیں وارد ہیں انکی ایسی ایسی تاویلیں کیں جنھیں پڑھ کر عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اس تحریک کا تیسرا دور وہ ہے جب اپنی نبوت کا اعلان کرکے خود بھی اسلام سے نکل گیا اور نہ جانے کتنے لوگوں کو کافر بنا کر جہنم میں لیجانے کا تمغہ اپنے سر پر سجایا۔ اور پھر دنیا نے وہ دور بھی دیکھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کی روح اُسکےجسم میں حلول کر گئی ہے(استغفراللہ)۔
ظاہری امراض
یہ مرزا غلام احمد قادیانی کی باطنی کشمکش کی ایک جھلک ہے جس کا اظہار اس نے اپنی زبان سے کیا۔ اس کا ظاہری جسم بھی باطن کی طرح بیمار تھا جس کی تفصیل خود ضمیمہ اربعین میں اس طرح لکھتا ہے '' ہمیشہ سر درد ، دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے، اور دوسری بیماری جو میرے نیچے کے حصہ بدن میں ہے ، وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے، اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔
سیرت المھدی حصہ اول صفحہ نمبر سترہ پر لکھا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جوانی میں ہسٹریا کی شکایت ہو گئی تھی اور کبھی کھی اس کا ایسا دورہ پڑتا تھا کہ بیہوش ہوکر گر جاتا تھا۔
تصنیفات
مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی دعوت کے چاروں ادوار میں کچھ نہ کچھ تصنیف کیا ہے انکی تصنیفات کی تعداد چوراسی سے کم نہیں ہے ان میں إزالۃ الأوهام، إعجاز أحمدي، براهين أحمدية، إعجاز مسيح، تبليغ، تجليات ألهية وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
قادیانی مذہب کی بنیادی تعلیمات
مرزا غلام احمد قادیانی کے مذہب کا نچوڑ ان نکات میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
ملکی اور دینی معاملات میں انگریز ہی حاکم ہونگے لہاذا انکی اطاعت فرض ہے اور انکے خلاف خروج یا بغاوت حرام اور گناہ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی ہی اللہ کا نبی ہے اور اللہ تعالی نے مرزا غلام احمد قادیانی پر کتاب نازل کی ہے جس کا نام الکتاب المبین ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کےپیروکار ہی ہدایت پر ہیں باقی تمام لوگ کفر اور گمراہی پر ہیں۔
اللہ تعالی انگریز ہے اور وہ انگریزی ہی بولتا ہے۔
مسلمان مرد اور عورت کا ہندو اور سکھ سے شادی کرنا جائز ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا کہنا تھا کہ ہندؤوں کے بھگوان کرشنا کی روح ان کے جسم میں حلول کر گئی ہے تاکہ وہ ہندؤوں کا بھی محبوب بن جائے۔
شراب، افیون اور ہر قسم کا نشہ جائز ہے،مرزا غلام احمد قادیانی خود بھی افیون کا شوقین تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی دعوت انگریزی فکر کی پیداوار تھی اور انگریزوں نے اس دعوت کو ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں پہونچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کا بھرپور تعاون کیا جس کا مرزا غلام احمد قادیانی پوری زندگی اپنی تصنیفات، بیانات، اور باطل مذہب کے ذریعے حق نمک ادا کرتا رہا۔
قادیانیوں کو ابتدائی دور میں انگریز حکومت سے جو تعاوم ملا وہ تعاون آج بھی اسرائیل کی شکل میں باقی ہے اسرائیل نے قادیانیوں کے لئے کئی مدارس اور مراکز کھول رکھیں ہیں حتی کہ انکا عالمی مرکز بھی مقبوضہ فلسطین کے شہر حیفا میں ہے۔
عبرت ناک انجام
لیکن بعض گناہوں کی سزا کی ایک جھلک اللہ تعالی دنیا ہی میں دکھا دیتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔مرزا غلام احمد قادیانی کا گناہ تو بہت بڑا تھا وہ صرف خود گمراہ نہیں ہوا بلکہ نہ معلوم کتنوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کےنام اعمال کو سیاہ تر کرتا جا رہا ہے۔
اللہ تعالی بھی شاید انکے انجام کی ایک جھلک اپنے بندوں کو دکھانا چاہتا تھا۔ ہوا یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے علماء اسلام میں مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ کیا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو میری موت پہلے ہوگی اور اگر میں حق پر ہوں تو آپ کی وفات مجھ سے پہلے ہوگی اور جو باطل پر ہوگا اللہ اسے کسی مہلک بیماری طاعون ہیضہ وغیرہ میں مبتلا کریگا۔مرزا غلام احمد قادیانی اس مباہلہ کے ایک سال بعد 25 مئی سنہ 1908 عیسوی کو لاہور میں بعد نماز عشاء اسہال میں مبتلا ہوااسہال کے ساتھ استفراغ بھی تھا بالآخر 26 مئی بروز منگل دن چڑھے مرزا غلام احمد قادیانیکا انتقال ہو گیا۔ نعش قادیان لے جائی گئی ، 27مئی 1908 عیسوی کو تدفین عمل میں آئی۔اور مولانا ثناء اللہ امرتسری مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد پورے چالیس برس زندہ رہے، آپ کا انتقال 15 مارچ سنہ 1948 عیسوی میں اسی برس کی عمر میں ہوا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کے بعد ان کے پیروکار دو جماعتوں میں بٹ گئے ایک جماعت احمدی کہلائی جو آپ کو مبلغ اسلام مانتی ہے اور دوسری قادیانی جو آپ کو نبی مانتی ہے۔