• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندو تہذیب کے مسلمانوں پر اثرات

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
ہندو تہذیب کے مسلمانوں پر اثرات

تہذیب کے معنی ومفہوم:
لغوی معنی:
تہذیب کے لغوی معنی چھانٹنے، اصلاح کرنے سنوارنے ، درست کرنے، خالص کرنے اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ اس کا مادہ ہذب ہے۔ عرب بولتے ہیں ہذبۃ۔ ( اس کی تہذیب کی یعنی اس کی اصلاح كی۔ اسے درست کیا۔ سنوارا۔)( اسلام کا تہذیبی نظام از سید یحیٰ ندوی : ص 17)
اصطلاحی مفہوم:
اصطلاح میں تہذیب کا لفظ ہر چیز کی درستگی اصلاح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ارادہ اور نیت کی درستگی و اصلاح، خیالات وجذبات عادات و اطوار ، رسم ورواج نظام معاشرت، سیاست مدن، سیاست منزل، علوم فنون، تجارت وذراعت اور فکر وعمل کی درستگی و اصلاح۔ غرض سب پر تہذیب کا اطلاق ہوتا ہے۔(اسلام کا تہذیبی نظام : ص 17۔18)
محمد مار میڈیوک پکھتال کے خطبات مدارس میں تہذیب کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
تہذیب سے مراد انسانی دماغ اور دل کی آراستگی ہے۔( محمد مارميڈ یوک پکھتال کے خطبات مدراس کا اردو ترجمہ تہذیب اسلامی مترجم شیخ عطاء اللہ ایم۔ اے: ص 17)
تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سرسید لکھتے ہیں کہ جب ایک گروہ انسانوں کا کسی جگہ اکٹھا ہو کر بستا ہے۔ تو اکثر ان کی ضرورتیں اور ان کی حاجتیں، ان کی غذائیں اور ان کی پوشاکیں۔ ان کی معلومات اور ان کے خیالات ان کی مسرت کی باتیں اور ان کی نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں۔ اور اس لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوتے ہیں۔ اور برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ایک سی ہوتی ہے۔ اور یہی مجموعی خواہش تبادلہ یا مجموعی خواہش سے وہ تبادلہ اس قوم یا گروہ کی سولزیشن ہے۔(مقالات سر سید از مولانا محمد اسماعیل پانی پتی : 4/ 3)
ايك اور مصنف سبط حسن نے تہذیب کی وضاحت اس طرح کی ہے:
’’ کہ کسی معاشرے کی با مقصد تخلیقات اور سماجی اقدار کے نظام کو تہذیب کہتے ہیں۔ تہذیب معاشرے کے طرز زندگی اور طرز فکر اور احساس کا جوہر ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات و آزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے رہن سہن فنون لطیفہ علم و ادب فلسفہ حکمت، عقائد و افسون، اخلاق و عادات، رسوم ورواج، عشق ومحبت کےسلوک اور خاندانی تعلقات تہذیب کے مختلف مظاہر ہے۔ انگریزی زبان میں تہذیب کے لئے کلچر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ کلچر لا طینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں۔ زراعت، شہد کی مکھیوں، ریشم کے کیڑوں، سیپیوں اور بکیٹیریا کی پرورش یا افزائش کرنا۔ جسمانی یا ذہنی اصلاح اور ترقی کھیتی باڑی کرنا۔‘‘( پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء از سبط حسن : ص 13 ۔14)
اردو فارسی اور عربی میں کلچر کے لئے تہذیب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں تہذیب کا لفظ عام طور سے شائستگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں۔
تہذیب دل سے جنم لیتی ہے۔ دل کو ایک کھیت سمجھے۔ جسے نرم کرنا، حسد، نفرت او بخل وغیرہ کے خار دار پودے اکھیڑنا اس میں انسانی محبت اور دیگر جذبات صالحہ کابیج بونا قرآنی تعلیمات سے آبیاری کرنے اور شیطانی ترغیبات سے بچانا کلچر ہے۔ جو علم مطالعہ اور ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کا عملی اظہار تہذیب ہے کلچر صرف دین کا علم ہے۔ اور تہذیب ذہنی تصورات اور خارجی اعمال ہر دور کا مجموعہ ثقافت، تمدن اور کلچر خاص ہیں۔ ثقافت کا تعلق علوم و فنون سےس ہے تمدن کا عمارات وباغات سے۔ کلچر کا دانش، ذہنی تصورات اور ایمانیات اور تہذیب ایک عام چیز ہے۔ جو ان تینوں پر حاوی ہے۔ اور مذہب تہذیب کو حسن عطا کرتا ہے لیکن یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔( ہماری عظیم تہذیب از غلام برق جیلانی : ص 19 تا 20)
تمدن كى معنی ومفہوم:
تمدن کا مادہ مدن ہے۔ جس کے لغوی معنی جگہ ، بستی اور شہر کے ہے۔
اصطلاحی معنی:
شخصی اور جماعتی ٖآزادی، شخصی اور اجتماعی حقوق کے قوانین آپس میں مل جل کر رہنے کے وہ قواعد جو اخلاقی اور روحانی اصولوں پر مستنبط ہوں اور جن میں اخلاق ، فطری، خوبیاں اور حقیقی شائستگیاں پائی جاتی ہیں۔
اصلاح میں تمدن سے مراد وہ باتیں ہیں۔ جو Civilization میں شمار ہوتی ہے۔ مثلا شائستہ ہونا بودوبدھ باش ۔ شہری زندگی اپنانا وغیرہ۔ تمدن حقیقت میں ضروریات زندگی کی پیداوار ہے۔ انسان کی ضروریات رفتہ رفتہ تمدن کو جنم دیتی ہیں۔
تہذیب و تمدن کا تعلق
تہذیب کا تعلق نظریات سے ہوتا ہے۔ اور تمدن کا تعلق اعمال سے تمدن اصل میں کسی خاص تہذیب کی عملی صورت کا نام ہے۔ مادی معاشرتی اور فنی ترقی کا نام تمدن ہے۔ اور روحانی و ذہنی ارتقاء کا نام تہذیب ہے۔ اس لحاظ سے تہذیب اور تمدن کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ تہذیب اور تمدن کا تعلق روح اور جسم کاسا ہے۔ تہذیب روح ہے اور تمدن اس کا جسم یا بیج اور درخت کا سا تعلق ہے۔ بیج تہذیب ہے اور تمدن اس سے پیدا ہونا والا درخت ہے۔
ہندو مسلم تعلقات پس منظر
اصل موضوع پر لکھنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلم دور حکومت میں ہندو مسلم تعلقات کا تفصیلی جائز ہیں تاکہ اصل موضوع پر بحث کرنا آسان ہو جائے۔
مسلمانوں کے آنےسے پہلے ہندوستان میں کئی مذاہب مثلا جین دھرم، بدھ دھرم اور ویدک دھرم مروج تھے اور ان مذاہب کے علمبرداروں کی تعلیمات میں سخت اختلاف پائے جاتے تھے۔ مگر پھر بھی چونکہ وہ پیدائشی ہندوستانی ہے اس لیے ان میں ظاہری تصادم تک نوبت نہ پہنچتی ہر شخص کو آزادی تھی کہ وہ جس مذہبی عقائد کو چاہیے اپنا لے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی مذہبی تاریخ میں بیان کے مختلف مذاہب کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم اور اشاعت مذاہب اور عقائد میں تشدد اور چیز کی مثالیں دستیاب نہیں ہوتیں۔
مسلمانوں کے ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آنے اور اکثر یہیں بس جانے سے ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا جس کے دو نازک پہلو تھے ایک تو یہ کہ مسلمان بیرونی ممالک سے وارد ہوئے تھے اور ہندوستان پر حکومت کرنے کے مقصد سے آئے تھے۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ وہ اپنےساتھ ایسا مذہب بھی لائے تھے جو مفتوح قوم کےمذاہب سے بالکل متضاد تھا۔
ابتدائی زمانے میں یہ دونوں قومیں مذہبی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کو نفرت، حقارت اورمشتبہ نظر سے دیکھتی تھیں۔ ہندوں کا مقصد اجنبیوں کےساتھ، اور اسی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے البیرونی نے لکھا ہے کہ پہلا سبب تو زبان کا اختلاف ہے اور دوسرا دین کے متضاد ہونے کا۔
دین کے بارے میں البیروانی رقمطراز ہیں:
’’ ہندو دین میں ہم سے کلی مغائرت رکھتے ہیں نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جو ان کے ہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے ہاں کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔ غیروں کو یہ لوگ پلید یعنی ناپاک کہتے ہیں اور ان کو ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان ملنا جلنا، شادی بیاہ کرنا، ان کےقریب جانا، یا ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ملک ہے تو ان کا ملک۔ انسان میں تو ان کی قوم کے لوگ، بادشاہ ہیں تو ان کے بادشاہ، دین ہے تو وہی جو ان کا مذہب ہے۔ اور علم ہے تو وہ جو ان کے پاس ہے۔(كتاب الہند از ابو ریحان البیرونی : ص 239۔ 243)
مگر یہ صورت حال بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ پھر ایک مذہب کے پیروا اس ملک میں رہ سکتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک قوم دوسری قوم کو مذہبی اختلافات کی بناء پر جڑ سے ختم کر دیتی ، ساتھ ساتھ مسلم عوام اور خصوصا سلاطین دہلی حقیقت شناس تھے۔ وہ لوگ یبہ بات بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ بغیر رعایا کے حکومت کس پر کی جائےگی۔ لہٰذا انہوں نے ہندوؤں کےساتھ نرمی اور مذہبی راواداری کا رویہ اختیار کیا اور تبلیغ اسلام کو اپنا فرض اولین نہ سمجھا۔ ان لوگوں میں تبلیغ اور اشاعت اسلام کا وہ جوش وخروش اور جذبہ بھی نہیں تھا جو خلفائے راشدین کے زمانے کے مسلمانوں میں پایا جاتا تھا۔
وقت کےساتھ ساتھ ہندوؤں مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت او برادارانہ تعلقات بڑھنے لگے۔ چنانچہ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:
’’ جب فتح پالی کا پہلا طوفان تھم گیا اور ہندو اورمسلمان ایک پڑوسی کی طرح رہنے سہنے لگے تو بہت دنوں تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کے خیالات، عادات و اطو ار، رسم ورواج کے سمجھنے کی کوشش کی اور بہت جلد ہی ان دونوں قوموں اتحاد پیدا ہو گیا۔‘‘( Trachanal Dr. Islam Indian Culture P.137 )
اس پس منظر میں ہمیں مسلمانوں پر ہندو تہذیب کے اثرات کا تفصیلی جائز ہ لینا ہے۔
 
Top