• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندی تہذیب کے اثرات

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
ہندی تہذیب کے اثرات

مسلمانوں کی عورتیں اور ان کے سبب ان کے مردوں میں جس قدر رسمیں مروج ہیں وہ تقریبا سب کی سب ہندوانی رسمیں ہیں۔ جن میں سے بہت رسمیں جوں کی توں ہیں۔ بعض کے نام وہی ہیں مگر طریقے بدل گئے ہیں۔ بعض میں برائے نام فرق کر دیا ہے۔ بعض کو مذہبیث امور میں یہ تغیر نام شامل کر لیا گیا ہے مثلاً رسم یتجا، ہندوؤں میں اور فاتحہ سوم یا پھول مسلمانوں میں ان دونوں قوموں کی رسموں کے متعدد ہو جانے کے چار اسباب ہیں:ۤ
سب سے پہلا سبب تو یہ ہے کہ جس وقت شمالی ممالک کے مسلمانوں نے یہاں آکر حکومت او سکونت اختیار کی تو وہ لوگ جریدہ آئے اگرچہ بعض بادشاہ اور وزراء اپنی بیگمات کو ہمراہ بھی لائے مگر شاذ ونادر ایسا ہوا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے یہاں کے نو مسلوں کی عورتوں ہی سے جن کی گھٹی میں ہندی قومی عقائد اور رسمیں پڑی ہوئی تھیں۔ شادیاں کیں۔ اس وجہ سے بدستور ان کی اولادوں میں کسی قدر کم وبیش رسمیں و عقیدے جمے رہے۔ جو آج تک چلے آ رہے ہیں۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ آدمی جہاں رہ پڑتا ہے وہیں کی باتیں جیسے رسم ورواج، رویہ برتاؤ، بول چال بلکہ خوراک و پوشاک تک اپنے آپ کو مانوس کرنے کی غرض سے اختیار کر لیتا ہے، اس لیے باعث اتحاد و اشتراک ان لوگوں نے اہل ہند اور اہل ہند نے اہل اسلام کی اکثر باتیں اختیار کر لیں۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ ہند نے چونکہ استحکام سلطنت و ازدیار اتباط و مواننت کی غرض سے ہندی عقائد و مراسم کو اختیار کر لیا تھا اور اس کا پیل تک رواج ہو گیا تھا کہ اب اس اخیر وقت میں بھی جو شہزادہ تخت کا حق دار خیال کیا جاتاتھا وہ آداب تخت ہند کے پاس و لحاظ سے ختنہ نہیں کراتا تھا اور دیگر سلاطین بھی بادشاہ نے وہ خاندانی افراد جن کے ورثہ میں تخت نشینی نہیں آ سکتی تھی حسب شر یعت ختنہ کراتے تھے۔
بلکہ بادشاہ عالم کے وقت سے تو مسلمانوں میں راکھی باندھنا، ہولی، دیوالی، وسہرے کا کا تہوار منانا دھلی کی شاہی خاندان میں ایک عام دستور ہو گیا تھا۔
چوتھا سبب یہ ہے کہ اکبر بادشاہ نے چونکہ عقد مناکحت کا سلسلہ راجپوتوں سے جاری کر دیا تھا اور وہ سب کےسب اقوام ہند سے تھے۔ لہذا ہندی رسمیں برابر جاری رہیں۔( رسوم دھلی مقدمہ سید یوسف رخاری دھلوی از سید احمد دھلوی : ص 1۔20)
مذہبی اثرات

دین الٰہی کا پس منظر:
اکبر بادشاہ 950ھ میں سندھ کےر یگستان میں امر کوٹ کے مقام پر پیدا ہوا۔ ہمایوں کی جب وفات ہوئی تو اس کی عمر 13 سال 4 ماہ تھی چنانچہ تخت سلطنت پر اکبر بٹھا دیا گیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت از سید ابو الحسن ندوی : 4/ 07۔72)
اكبر اپنے ابتدائی عہد حکومت میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا اور دینی تعلیم بلکہ مطلق تعلیم نہ ہونے، ماحول کے اثر اور اپنے عہد کے رواج کے مطابق بزرگوں کے مزارات کے لئے طویل طویل سفر کرتا تھا۔ بد عقیدگی او ر خلاف جمہور عقائد کے الزام پر سخت سزا دیتا تھا اولیاء اللہ کے مزارات پر نذر و نیاز کرتا تھا۔ خود ذکر میں انہماک کے ساتھ مشغول رہتا تھا۔ علماء او رصلحاء کی صحبت میں وقت گزارتا اور مجلس سماع میں شرکت کرتا تھا۔
اکبر کی دینداری اور مذہبی شغف اسی سطحی اور عامیانہ قسم کی مذہبیت تھی، جس کی بنیاد دین کے صحیح فہم، کتاب وسنت سے واقفیت اور براہ راست علم ومطالعہ پر نہیں تھیں بلکہ دین سے ناواقف امراء و اہل حکومت کی تقلید و نقالی اور ضعیف الاعتقادی پر مبنی تھی وہ نا خواندہ محض تھا۔(اکبر نامہ از ابو الفضل اکبر علائی : 2/ 236)
اكبر نے بے چین اور متجسس دماغ پایا تھا۔ کئی مذہبی مسائل اسے پریشان کرتے تھے۔ کوئی مذہبی عالم اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا۔( )
یوں مذہبی تشکیک کا دباؤ بڑھتا رہا جو اسے بالآخر آزاد خیال تصوف اور بھگتی تحریک کے پھیلاتےہوئے خیالات کی طرف لے آیا۔ اس سفر میں شیخ مبارک ، ابو الفضل اور فیضی جیسے علماء کے علاوہ بیرم خاں اور عبد اللطیف جیسے امراء نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔(ہندی مستحکم تہذیب از قاضی جاوید : ص 216)
ڈاکٹر محمد باقر اپنے مضمون ابو الفضل اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھتے ہیں:
’’ابو الفضل نے اکبر کے مذہبی عقائد میں اچھا خاصا دخل پیدا ہوا۔ چنانچہ جب اکبر نے 982ھ بمطابق 1575ء میں فتح پور سیکٹری میں مذہبی علماء کے مباحثے سننے کے لئے عبادت خانہ قائم کیا تو ابو الفضل علماء کے ان مباحثوں میں شریک ہوتا اور ہمیشہ اکبر کے عقائد کی طرف داری کرنا یہاں تک کہ اس نے اکبر کو یہ سمجھایا کہ مذہب کے متعلق اس کے نظریات معاصر علماء سے کہیں افضل اور بہتر ہیں اور 1579ء میں دبار شامی سے ایک محضہ جاری کیا۔ اس کی رو سے مذہبی علماء کے اختلافات نپٹانے کے لئے آخری حکم اکبر کو بنا دیا گیا۔ عبادت خانہ کے مناظروں کے درمیان بھی اکبر کو ایک نیا مذہب ایجاد کرنے کاشوق چرایا اور اس نے 1582ء میں دین الہٰی بنیاد رکھی اسے ابو الفضل نے بھی قبول کیا۔‘‘( اردو دائره معارف اسلاميہ از ڈاکٹر محمد باقر : 1/ 889۔ 895)
علامہ عبد القادر لکھتے ہیں:
’’ بادشاہ کے ذہن میں چونکہ یہ بات راسخ ہو گئی تھی کہ پیغمبر اسلام کے بعثت کی مدت کے ہزارہا سال پورے ہو چکے ہیں جو اس دین کی عمر طبعی ہے کہ اب کو ئی مانع ان پوشیدہ دلی تقاضوں تکے اظہار میں نہیں رہا۔‘‘( منتخب التواریخ از علامہ عبد القادر بدایونی : ص 351)
چنانچہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی ٹہی کہ اس صاحب زمان کا وقت آ گیا ہے جو ہندو مسلمان کے بہتر 72 فرقوں کے اختلاف کا مٹانے والا ہو گا اور وہ بادشاہ کی ذات قدسی صفات ہیں۔(منتخب التواریخ از علامہ عبد القادر بدایونی : ص 279)
اسی سے دین الٰہی اکبر شاہی کا آغاز ہوا۔ جس میں توحید کے بجائے (عبارت کی آفتاب کی شکل میں) شرک صریح ۔ تو اکبر پرستی، ایمان المبعث کے بجائے عقیدہ تناسخ تھا۔ اکبر بادشاہ باقاعدہ بیعت لیتا تھا، اس دین میں داخل ہونے والوں سے جو کلمہ پر ہوا یا جاتا تھا اس میں لا إله إلا الله کےس اتھ اکبر خلیفۃ اللہ بھی شامل کیا جاتا تھا۔(تاريخ دعوت و عزيمت از سید ابو الحسن ندوی : ص 157)
اس دين میں سود، جوئے اور شراب اور لحم خنزیر کی حلت تھی اور ذبیحہ گاؤ کی ممانعت تھی۔ قانون نکاح میں ترمیمات کی گئی تھیں۔ پردہ اورسم ختنہ کی ممانعت تھی جسم فروشی کے کاروبار کو منظم کر دیا گیا تھا۔
آفتاب پرستی:
آفتاب کی عبادت دن میں چار وقت یعنی صبح وشام ، و دوپہر اور آدھی رات میں لازمی طور پر کرتے تھے اور ایک ہزار ایک آفتاب کے ہندی ناموں کو اپنا وظیفہ بنایا تھا۔ وہ قشقہ بھی لگائے اور آدھی رات کو ایک دفعہ پھر طلوع آفتاب کے وقت، دوسری بار روزانہ نوبت اورنقارہ بھی مقرر تھا۔(منتخب التواریخ ازملا عبد القادر بدایونی : ص 323)
آتش پرستی:
جہاں پناہ اپنی روشن ضمیری سے روشنی کو بے حد عزیز رکھتے ہیں نادان اس کو خدا فراموشی و آتش پرستی کہتے ہیں۔ چانچہ آفتاب کے غروب ہونے کے بعد خدمت گزار بارہ کافوری شمعیں روشن کرتے ہیں اور ہر چراغ چاندی اور سونے کی لگن میں رکھ کر بادشاہ کے حضور میں لاتے ہیں اور ان میں سے ایک شیریں زبان، خوش خلق خادم شمع کو ہاتھ میں مختلف دلکش سروں میں خدا کی حمد اشعار گاتا ہے اور آخر میں خود جہاں پناہ ازدہار عمر و دولت کی دعا کرتا ہے۔(آئین اکبر از ابو الفضل علامی : 1/ 28)
سجده تعظيمی:
بندگان عقیدت مند سجدہ تعظیمی کرتے اور اسے سجدہ ایزدی شمار کرتے ہیں۔(آئین اکبر از ابو الفضل علامی : 1/ 33)
كواكب پرستی:
کواکب پرستی میں غلو اس قدر بڑھ گیا تھا کہ بادشاہ اپنے لباس کا رنگ سات ستاروں کےر نگ کے موافق رکھتے تھے چونکہ یہ ستارہ کےساتھ منسوب ہے اس لیے پڑن کے لباس کا رنگ جداگانہ ، مطابق رنگ ستارہ ہوتا تھا۔(آئین اکبر از ابو الفضل علامی : 1/ 28)
جھروکہ روشن:
ملا صاحب لکھتے ہیں:
’’ ہر صبح اس وقت جبکہ بادشاہ جھروکہ میں آفتاب کی پوجا کرتا تھا اس کے مریدوں کی جب تک بادشاہ کے مبارک چہرہ پر نظر نہ پڑتی، وتوں کرنا اور کھانا پینا ان پر حرام رہتا ہر ایک کی حاجت وضرورت خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان عورت ہو یا مرد غرض سب ہی طرح کے لوگوں کو اس جگہ آنے کی عام اجازت تھی بادشاہ جوں ہی آفتاب کے ایک ہزار ایک نام کے وظیفہ سے فارغ ہو کر دہ سے باہر آتا، سب کےسب ایک دفعہ سجدہ میں گر جاتے۔‘‘(منتخب التواریخ از ملا عبد القادر بدایونی : 2/ 262)
اسی سجدہ کا نام ’’ زمین بوس‘‘ رکھا گیا۔ ’’ زمین بوس ‘‘ کا یہی طریقہ اکبر کے بعد جہانگیر کے عہد میں بھی جاری رہا۔
معنقر تاریخ ہند کے مصنفین ڈبلیو ایچ مور لینڈ اور اے۔ سی چیڑجی نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
’’اکبر نے ہندوؤں کو خوش کرنے کےلئے گاؤ کشی بھی بند کر دی تھی اور اس کے اس حکم کے خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دیں اکبری قوانین دین اسلام سے زیادہ ہندو مذہب کی موافقت اور حمایت میں ہوتے تھے۔ اس کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔‘‘(مکتوب نمبر 27 : 1/ 65)
دین الہٰی کا عوام پر اثر:
انسان اقتدار پر ست ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’الناس علی دین ملوكهم‘‘
’’ لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں۔‘‘
اکبر كے خیالات نے جو عوام پر اثر ڈالا اس کےبارے میں حضرت مجدد فرماتے ہیں:
’’ کفار برملا اور بطریق غلبہ دار الاسلام (ہندوستان ) میں احکام کفر جاری کرتے ہیں اور مسلمان احکام اسلام کے اظہار سے عاجز ہیں اور اگر بیٹھتے ہیں تو قتل کر دیئے جاتے ہیں۔ آب  کی تصدیق کرنے والے ذلیل و خوار ہیں اور آپ  کے انکار کرنے والوں کی عزت ہوتی ہے۔‘‘
علم نجوم:
قدیم ہندوستان میں علم نجوم کا عام رواج تھا۔(کتاب الہند از ابو ریحان البیروانی : ص 284)
جب مسلمان هندوستان آئے اور یہاں مسلسل سکونت اختیار کر لی انہیں بھی اس علم سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ملوک و امراء اپنے بچوں کے زائچے تیار کرواتے تھے۔ سترھویں اور اٹھارہویں صدی میں علم نجوم کا چرچا عام تھا۔
نجومیوں کے مشورے کےبغیر کوئی اہم کام شروع نہیں کیا جاتا تھا یہاں تک کہ جنگ کا وقت اور بچے کی ولادت کا وقت تک ان سے پوچھا جاتا تھا اور لاولد بادشاہ اور دیگر اشخاص اولاد کے ہونے اور نہ ہونے تک کی بات ان سے معلوم کرتے تھے۔
برنیر کا بیان ہے:
’’ ایشیائی لوگ اکثر حکام نجوم کے ایسے معتقد ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا کا کوئی معاملہ ایسا نہیں جو کواکب اور افلاس کی گردش پر منحصر نہ ہو اور اس لیے وہ ہر ایک کام میں نجومیوں سے مشورہ کیا کرتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر نہ شادی بیاہ ہو سکتا ہے اور نہ کہیں کا سفر کیا جاتا ہے بلکہ ذرا ذرا سی باتیں بھی ان سے پوچھے بغیر نہیں کی جاتیں۔(وقائع سیر وسیاحت از ڈاکٹر بریر : 1/ 282)
سلطان فیروز شاہ تغلق کا علم ونجوم ہیئات سے بڑی گہری دلچسپی تھی وہ نجومیوں سے ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا تھا۔ مزید برآں سلطان جادو ٹوٹکے، تعویذات کا بھی معتقد تھا۔(تاریخ فیروز شاہ از ضیاء الدین برنی : ص 421۔ 425)
عہد مغلیہ میں بھی علم نجوم سے گہری دلچسپی لی گئی۔ اکبر بادشاہ کو اس فن سے بے حد دلچسپی تھی۔ جہانگیر اور شاہ جہاں بادشاہ کے دربار سے اہل تنجیم منسلک تھے اور وہ بھی ان کے مشورے پر بڑی پابندی سے عمل پیرا ہوتے تھے۔(مآثر عالمگیری از محمد ساقی مستعد خان : ص 161)
اورنگ زیب نے ان نجومیوں کو جو دربار شاہی سے منسلک تھے، بر طرف کر دیا اورنگ زیب کی وفات کے بعد پھر پہلے سی صورت حال پیدا ہو گئی اورنجومیوں او ر امالوں کا ستارہ بلند ہو گیا۔
سحر افسوں پر اعتقاد:
ہندوستان میں اسلام سے قبل بالخصوص جادوگری کا عام رواج پایا جاتا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان مسلمانوں نے جو ہندی الاصل تھے اور اس پر عمل کرتے رہے باہر سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی اور اس پر عمل کرتے رہے باہر سے آتے ہوئے مسلمانوں نے بھی رفتہ رفتہ اس فن میں دسترس حاصل کر لی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام مسلمان جادوگری پر اعتقاد رکھنے لگے۔(متوجی : 2/ 134)
چنانچہ اہلیہ سید حسن علی لکھتی ہیں کہ
’’ مجھے مشکل سے کوئی شخص ایسا ملا ہو گا جو اس بات کا عقیدہ نہ رکھتا ہو کہ افسوس اور وسائل خبیثہ کسی نہ کسی قبضے میں ہیں اکثر اپنے پڑوسیوں پر اس کی مشق کی جاتی تھی۔‘‘( مراۃ الاصلاح : ص 45)
دیوالیی کے تہورا کے زمانے میں عام طور پر جادو اور ٹوٹکے پر عمل کیا جاتا تھا۔ ہندوسشتان میں قدیم زمانے سے بنگالی کے جادوگر بڑے مشہور تھے۔( خلاصۃ التواریخ از سبعان رائے بٹالوی : ص 48)
شادی بیاہ کے موقعوں پر اوہام پرستی:
شادی بیاہ کے موقعوں پر قسم قسم کے اوہام پر عمل کیا جاتا تھا اورآج بھی ان کی ادائیگی لازمی ہے۔ مثلا نوشہ کے مکان کی یا بڑی دیواروں پر عقائد باطلہ کے تخت تیل یا چونے سے کچھ نشانات بنائے جاتے ہیں اس کے علاوہ ناڑا جو کہ بہت سے نیلے اور سر خ رنگوں کے دھاگوں کو ملا کر بٹ کر بنایا دجاتا ہے او ر موس لکڑی کا بنا ہوا دھان کو کاٹنے کا آلہ (چکی وغیرہ) ہوتا ہے جس سے کوٹ کر دھان سے چاول الگ کرتے ہیں اس کو یہ دھاگے باندھا جاتا۔ یہ رسم بنیادی طور پر ہندوانی تھی۔( تقویۃ الایمان از مولانا محمد اسماعیل شہید : ص 77)
اس کے علاوہ ایسی بہت سی رسمیں تھیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہندوستانی ماحول کے زیر اثر مسلمانوں میں مروج ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی بہت سی رسمیں تھیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور ہندوستانی ماحول کے زیر اثر مسلمانوں میں مروج ہیں۔
1.بعض گھروں میں کنواری لڑکی کا ہونا مبارک نہیں سمجھا جاتا۔
2.صفر کے مہینے میں تیرہ دن منحوس سمجھے جاتے ہیں۔
3.بالعموم منگل اور سینچر کے دن منحوس تصور کیے جاتے ہیں۔( تقویۃ الایمان از مولانا محمد اسماعیل شہید : ص 177۔ 178)
4.جن دنوں میجک کی وبا پھیلی تھی مسلمانوں کے گھروں میں طرح طرح کے ٹوٹکے عمل میں آئے تھے۔ مثلا عالن پھول لے کر آتی تھی ان دنوں گوشت نہیں پکتا تھا۔ ان دنوں بالعموم دیوی کی پوجا ہوتی تھی۔
مرزا مظہر خان جاناں اس ضمن میں فرماتے ہیں:
’’ در وقت عروض مرض جدائی (چیچک) کہ زبان ہندی سنیلا معروفت و مشہور محسوست، کم زنی باشد کہ از دقائق این شرک فالی بود وبرسمی از رسوم آن اقدام نتماید‘‘( معمولات مظہر ی : ص 38)
بچوں کے گلوں میں ہنسلی تعویذ پہنانا:
لوگوں کو تعویذ گنڈوں پر بے حد عقیدہ ہے او رہر طرح کے امراض اوربلائے آسمانی کے دفع کے لئے بھی ان چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔
مثلا تعویذ برائے طفل، تعویذ برائے دفع بت لرزہ، دفع جدائی وغیرہ۔( معمولات مظہر ی : ص 82-84)
اہلیہ میر حسن علی لکھتی ہیں کہ
’’ بچوں کی ولادت کے دن سے انہیں تعویذ گنڈوں سے مسلح کر دیا جاتا ہے اور اگر کوئی اس رسم کا مذاق اڑاتا ہے تو اس کو ایک کافر سے بد تر خیال کرتے ہیں۔‘‘( میراۃ الاصلاح : ص165)
اختراعی اسماء کے نام کے روزے:
بقول البیرونی:
’’ ہندوؤں کے نزدیک کل روزے نفل اور مستحب ہیں۔ کوئی بھی فرض نہیں ہے۔ روزہ نام ہے کسی مدت تک کھانا چھوڑ دینے کا۔ مدت کی مقدار اور فعل کی صورت کے لحاظ سے روزہ مختلف قسم کا ہوتا ہے۔‘‘( کتاب الہند از ابو ریحان البیرونی :1/ 257۔259)
اسی طرح مسلمان عورتوں نے بھی بہت سے مصنوعی روزے رکھ لیے اختراع کے لئے تھےاور ان کو اسلامی رنگ دے دیا تھا ان کا عقیدہ تھا کہ فلاں شخص کے نام کے روزے رکھنے سے ان کی مراد باد آور ہو جائے گی۔
ارواح خبیثہ پر اعتقاد:
ارواح خبیثہ کے اثرات پر عقیدہ رکھنے کا جتنا رواج ہندوستان میں پایا جاتا تھا غالبا دنیا کے کسی دوسرے حصے میں نہیں تھا۔
چراغ برائے حاجت:
خواہشمند لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اگر اپنی مراد بار آوری کی غرض سے کسی بزرگ کی خدمت میں کچھ نقدی بطور نذر پیش کی جائے تو ان کی دلی مراد پوری ہو جائے گی۔ اس رسم کو چراغ برائے حاجت دارن کہتے تھے اور یہ رسم اب بھی جاری ہے۔
جس طرح ہندوؤں میں کسی خوشی کے موقع پر ست نرائن کی جاتنی ہے اسی طرح مسلمانوں نے منت کے طور پر سیدہ کی کہٰانی ماننا شروع کر دی تھی او ردلچسپ بات یہ ہے کہ ست نرائن کی کتھا بعد جناب سیدہ کی کہانی کے بعض اجزاء بالکل یکساں ہیں۔(حیات اور کارنامے از رجب علی بیگ : ص36-37)
مزراوں پر جھنڈیاں چڑھانا:
قدیم الایام سے ہندوؤں میں ریہ رسم چلی آرہی ہے کہ وہ لوگ اپنے دیوتاؤں اوردیویوں کے مندروں پر سالانہ میلہ منعقد کرتے ہیں اور بالعموم زائرین اپنے ہاتھوں میں جھنڈیاں لے کر شرکت کے لئے دور دراز مسافت طے کر کے آتے ہیں مسلمانوں نے بھی مندروں کی بجائے اپنے بزرگوں کے مزاروں پر جھنڈے لے کر جانا شروع کر دیا۔
زیارت مزارات اور بزرگان دین:
مردوں کی مناسب حرمت او رقبروں کی مناسب عزت تو ضرور ہونی چاہیے لیکن مزارات پر زائرین کاٰطرز عمل ہندوؤں کے اثر کا نتیجہ ہے جس طرح وہ لوگ دیوی دیوتاؤں سے اپنی حاجتوں کی بار آوری کی استدعا کرتے ہیں۔ مندروں میں جا کر نذورونیاز اورچڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ اسی طرح مسلمان زائرین بھی مزار پر جا کر نذر چڑھاتے ہیں او رمنتیں مانتے ہیں۔ فاتحہ اور نذر کے کھانے مخصوص قسم کے ہوتے ہیں۔
سید اسماعیل شہید لکھتے ہیں:
’’ پس اس طعام کے ادب کا حاصل ہندوؤں کے ساتھ مشابہت پیدا کرنے کے لئے بغیر اور کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر اوقات، وہ دانوں او رغلوں اور طعام کے اجناس کی پرستش کرتے ہیں او رکھانے والوں کے لئے قید لگانے یعنی ایک کھانے سے منع کرتے اور دوسرے کو اس کی اجازت دیتے ۔ نذرو نیاز کی ر سم اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ کھانے اور دوسرے اشیائے خورد سے گزر کر جانوروں کی نذرو نیاز چڑھانے لگتے ۔‘‘( صراط مستقیم از مولانا شاہ اسماعیل شہید : ص 65)
سلطان فیروز شاہ تغلق نے گور پرستی کے تدارک کی پوری کوششیں کی ہیں مگر وہ اس کام میں ناکام رہا دو رمغلیہ میں گور پرستی کے عقیدے کو بے حد تقویت ملی کیونکہ شاہان مغلیہ بزرگان دین سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔
اکبر بادشاہ جوتین عقیدت میں برہنہ پا اور پیادہ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کی زیارت کے لئے آگرہ سے احمیر جایا کرتا تھا۔ جہانگیر بھی بزرگوں کے مزار پر حاضری دیتا تھا۔ شاہ جہاں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضر ہوا او راپنی حاجت پیش کی۔ ان واقعات سے عوام کا متاثر ہونا نا گزیر تھا اس بناء پر لوگوں نے مزارات کو اپنی حاجت روائی کا ایک واحد اور قوی ذریعہ بنا لیا۔( تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی : ص 54-55)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی البلاغ المبین میں لکھتے ہیں:
’’ عادت آتش پر ستان وہم عادت بت پرستان ہند کے روزے از روہائے معین در ہر سال عید سے کنند و مجمع عام سے نمائند۔ پیر پرستان نیز عید عذ پر ضم وعرس بائے قبور بزرگان مقرر کردہ اند کہ ہم چوتعیش آہنا در آن ایام دار عیش و طرب لہو و ولعب سے دہند وارواح خبیثۃ شیاطین را خوریند ساخت( البلاغ المبین از شاہ ولی اللہ : ص 31)
ایک اور مقام پر شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ من اعظم البدع ما اخترعوا فی أمٰر تقبو فاتخذوہا عیدا‘‘( تفہیمات الٰہیہ از شاہ ولی اللہ : 2/ 64)
امت کو انتباہ!:
آنحضرت ﷺ کو أپنی امت میں اس بیماری کے آ جانے کا ڈر تھا۔ اس لیے کہ انبیاء و صلحا کی محبت میں غلو سے شرک پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اعلان فرمایا:
’’لا تجعلوا قبري عيدا‘‘
’’یعنی میری قبر کو عید مت بنائیو۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ یہودیوں اور عیسائیوں پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے انبیاء و صلحا کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا ڈالا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قبروں کے پجاری جو معاملے قبروں سے کرتے ہیں ۔ چومنا چاٹنا ان سے حاجتیں مانگنا، چڑھاوے چڑھانا، وغیرہ اس سے قبروں کی حیثیت ’’ وثن‘‘ جیسی بن جاتی ہے اس لیے قبروں کو بلند یا ان گنبد بنانا پھر ان پر چراغاں کرنا اور عرسوں کا اہتمام سب باتیں بدعت اور حرام ہیں۔( اسلام اور قبروں کے عرس از مولانا عطاء اللہ حنیف : ص 10-14)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بہت خوب عمر بھائی!
بہت ہی اہم موضوع شیئر کیا آپ نے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوانہ تہذیب کے شرکیہ اور توہمانہ رسوم رواج کس طرح اسلام میں در آئے اور گھس کر بیٹھ گئے! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کریں، اور ہمیں صرف اور صرف کتاب وسنت کے مطابق اپنے عقائد بنانے کی توفیق مرحمت فرمائیں!
ایک بات کا دھیان رکھیں کہ اگر کسی کا کوئی مضمون یا اچھی دعوتی واصلاحی تحریر شیئر کریں تو صاحبِ مضمون کا نام لازماً لکھیں! اسے ہرگز بغیر نام کے شیئر نہ کریں! ورنہ اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آپ نے خود لکھا ہے۔ جو کہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں ’غش‘ ہے۔ علاوہ ازیں کسی کا مضمون ہو یا خود ہی لکھا ہو، تو شیئر کرنے سے پہلے ایک دفعہ اس کی پروف ریڈنگ ضرور کر لیں، تاکہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو۔
اللہ آپ کو خوش رکھیں، اور مزید دعوتی وعلمی سرگرمیوں کی توفیق عطا کریں! آمین یا رب العٰلمین
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہت ہی عمدہ پوسٹنگ ہے۔ بہت شکریہ جناب
 
Top