اہل علم اس روایت کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ کیونکہ آواز کے ساتھ ہنسنے سے نماز کا لوٹانا تو معلوم ہے مگر وضو دوبارا کرنے بارے کیا یہ روایت حجت ہو سکتی ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
توحید ڈاٹ کام پر علامہ غلام مصطفی ظہیر صاحب کا مقالہ شائع ہے ، بہت معلومات افزا ہے ، ملاحظہ فرمائیں؛
کیا قہقہہ لگانے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟
تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری
اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو نماز ہی ٹوٹے گی، وضو نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ:
دلیل نمبر۱: حافظ ابن المنذر (م: ۳۱۸ھ) لکھتے ہیں:
أجمع أھل العلم علی أن الضحک فی غیر الصلاۃ لا ینقض الطھارۃ ولا یوجب وضوءا أجمعوا علی أن الضحک فی الصلاۃ ینقض الصلاۃ.
“اس بات پر اہل علم کا اجماع و اتفاق ہے کہ نماز کے علاوہ ہنسنا وضو کو نہیں توڑتا، نہ ہی وضو کو واجب کرتا ہے ، اس بات پر بھی اجماع ہے کہ نماز میں ہنسنا نماز کو توڑ دیتا ہے ۔” (الاوسط لابن المنذر: ۲۲۶/۱)
دلیل نمبر۲: عن عطاء عن جابر قال؛ کان لا یری علی الذی یضحک فی الصلاۃ وضوءا.
“عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ (صحابی رسول) سیدنا جابر (بن عبداللہ الانصاری) رضی اللہ عنہ نماز میں ہنسنے والے پر وضو خیال نہیں کرتے تھے ۔” (سنن الدارقطنی:۱۷۳/۱، ح: ۶۵۰، و سندہ حسن)
دلیل نمبر۳:
“ہشام کہتے ہیں کہ میرے بھائی نماز میں ہنس پڑے ، ان کو عروہ نے نماز دہرانے کا کہا ،وضو کرنے کا نہیں کہا ۔ “
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۴:
عن عطاء فی الرجل یضحک فی الصلاۃ، قال؛ ان تبسم فلا ینصرف ، وان قھقہ استقبل الصلاۃ، ولیس علیہ وضوء.
“امام عطاء بن ابی رباح نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا، جو نماز میں ہنس پڑے ، اگر اس نے تبسم ظاہر کیا ، تو نماز نہیں توڑے گا ، لیکن اگر قہقہہ لگا کر ہنسا تو نماز دہرائے گا ، البتہ اس پر وضو نہیں ہے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۵:
عبدالرحمٰن بن قاسم کہتے ہیں: ضحکت وأنا أصلی مع أبی، فأمرنی أن أعید الصلاۃ.”میں اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ہنس پڑا، انہوں نے مجھے نماز دہرانے کا حکم دیا ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۷/۱، وسندہ صحیح)
دلیل نمبر۶:
محمد بن سیرین تابعی کہتے ہیں:کانوا یأمر وننا و نحن صبیان، اذا ضحکنا فی الصلاۃ أن نعید الصلاۃ. “بچپن میں جب ہم نماز میں ہنس پڑتے تو (علماء) ہمیں نماز دہرانے کا حکم دیتے تھے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۸/۱ وسندہ صحیح)
امام احمد بن حنبل (مسائل احمد لابن ھانی:۷/۱) ، امام شافعی(الام للشافعی:۳۱/۱) ، امام اسحاق بن راہویہ (مسائل احمد و اسحاق:۲۰/۱) کا بھی یہی فتویٰ ہے ۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ فرماتے ہیں:یعید الصلاۃ و لا یعید الوضوء.
“نمازمیں ہنسنے والا نماز تو دہرائے گا، لیکن وضو نہیں دہرائے گا۔ ” (مصنف ابن ابی شیبہ:۳۸۸/۱)
تقلید پرست جمہورِ امت اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی نماز میں ہنس پڑے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ، وہ اس کو وضو لوٹانے کا حکم دیتے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔
ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا محدثین کرام کےاصولوں کے مطابق جائزہ پیش کرتے ہیں:
دلیل نمبر۱:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور مسجد میں واقع ایک گڑھے میں گرگیا، اس کی بصارت میں نقص تھا، بہت سارے لوگ نماز میں ہنس پڑے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، جو شخص ہنسا ہے ، وہ وضو بھی دوبارہ کرےگا اور نماز دہرائے گا ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۴۶/۱، نصب الرایۃ: ۴۷/۱)
تبصرہ: اس کی سند “ضعیف” ہے ، اس میں ہشام بن حسان “مدلس ” ہیں، جو “عن” سے روایت کررہے ہیں ، ثقہ مدلس کی صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ “عن” والی روایت “ضعیف ” ہوتی ہے ۔
دلیل نمبر۲:
ابو العالیہ الریاحی نے کہا کہ ایک اندھا کنویں میں گرگیا، نبی کریم ﷺ صحابہ کرامؓ کو نماز پڑھا رہے تھے ، آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے کچھ لوگ ہنس پڑے ، تو آپ نے فرمایا، جو ہنسا ہے ، وہ وضو دوبارہ کرےاور نماز بھی دہرائے ۔” (مصنف عبدالرزاق: ۳۷۶/۲، ح: ۳۷۶۲-۳۷۶۰)
تبصرہ: اس کی سند “تدلیس ” اور “انقطاع” کی وجہ سے “ضعیف” ہے ۔ امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
حدیث أبی العالیۃ مرسل، والمرسل لا تقوم بہ الحجۃ.
“ابو العالیہ کی حدیث مرسل ہے اور مرسل حدیث سے حجت قائم نہیں ہوسکتی۔” (الاوسط:۲۲۸/۱)
یاد رہے کہ دین متصل ، صحیح روایات کا نام ہے ۔
دلیل نمبر۳:
حسن بصری نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک نابینا آدمی قبلہ کی جانب سے نماز کے ارادہ سے آیا، لوگ فجر کی نماز میں مشغول تھے، یہ نابینا ایک گڑھے میں گرگیا، کچھ لوگ ہنس پڑے ، حتیٰ کہ انہوں نے قہقہہ لگا دیا، جب نبی کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا، جس نے قہقہہ لگایا ہے ، وہ وضو اور نماز دونوں کو دہرائے۔” (کتاب الآثار بروایۃ محمد : ۳۳)
تبصرہ: یہ موضوع (من گھڑت) حدیث ہے ،کیونکہ:
۱… یہ مرسل ہے اور مرسل روایت “ضعیف” ہوتی ہے ۔
۲… راویٔ کتاب محمد بن حسن الشیبانی “کذاب” ہے ۔
۳… اس میں محمد بن حسن الشیبانی کا استاذ بالاتفاق “ضعیف و متروک” ہے ،کسی “ثقہ” امام سے اس کا “ثقہ” ہونا باسند “صحیح” ثابت نہیں۔
دلیل نمبر۴:
معبد سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھانے میں مشغول تھے کہ ایک نابینا آدمی نماز کے ارادے سے آیا اور ایک گڑھے میں گرگیا، کچھ لوگ ہنس پڑے، حتیٰ کہ انہوں نے قہقہہ لگا دیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ، جس نے قہقہہ لگایا ہے ،وہ وضو اور نماز دونوں کو دہرائے ۔ (سنن الدارقطنی: ۱۶۶/۱، ح : ۶۱۲)
تبصرہ: یہ روایت سخت ترین “ضعیف” ہے ،کیونکہ:
۱… اس میں “ارسال” ہے ، معبد الجہنی تابعی ہیں، خود امام دارقطنی نے اس کو “مرسل” کہا ہے ، جناب زیلعی حنفی نے بھی اس کو “مرسل” قرار دیا ہے ۔ (نصب الرایۃ:۵۱/۱)
۲… اس میں امام حسن بصری کی تدلیس ہے ۔
۳… اس کی سند کا دارو مدار نعمان بن ثابت پر ہے ، جو بالاجماع “مجروح ہیں۔
دلیل نمبر۵:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے نماز میں قہقہہ لگایا ،وہ وضو اور نماز دہرائے ۔ (الکامل لابن عدی: ۱۶۷/۳)
تبصرہ: یہ روایت بھی “ضعیف” ہے ، کیونکہ اس میں “انقطاع” ہے ، امام عطاء بن ابی رباح کا سیدنا ابن عمر سے سماع ثابت نہیں ہے ۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: قدرآی ابن عمر و لم یسمع منہ.
“یقیناً انہوں نے سیدنا ابن عمر کو دیکھا ہے ، لیکن ان سے سماع نہیں کیا ۔” (المراسیل لابن أبی حاتم: ۱۵۴)
یہی بات امام علی بن مدینیؒ اور امام ابو عبداللہ نے بھی فرمائی ہے ۔ (تہذیب التہذیب: ۱۸۲/۷)
نیز اس میں بقیہ بن ولید راوی اگرچہ جمہور کے نزدیک “ثقہ” ہیں(دیکھیں: الترغیب و الترہیب للمنذری: ۵۶۸/۴، الکاشف للذھبی: ۱۰۶/۱- ۱۰۷) لیکن “تدلیسِ تسویہ” کے مرتکب تھے، لہٰذا سند مسلسل بالسماع ہونی چاہیے۔
حافظ ابن حجر ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
بقیۃ صدوق، لکنہ یدلس و یسوی، قد عنعنہ عن شیخہ و شیخ شیخہ.
“بقیہ صدوق راوی ہے ، لیکن تدلیس تسویہ کرتا تھا، اس نے اپنے استاذ اور استاذ کے استاذ سے بصیغہ عن روایت کی ہے ۔” (موافقہ الخبر الخبر لابن حجر: ۲۷۶/۱)
حافظ ابن ملقن لکھتے ہیں: لکن بقیۃ رمی بتدلیس التسویۃ ، فلا ینفعہ تصریحہ بالتحدیث.
“بقیہ پر تدلیس تسویہ کا الزام ہے ، لہٰذا صرف اپنے شیخ سے سماع کی تصریح چنداں مفید نہیں۔” (البدر المنیر: ۵۰۹/۴)
اس روایت کے “ضعیف” ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے ، امام ابن عدی اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
و محمد الخزاعی ھذا ھو من مجھولی مشایخ بقیۃ، ویقال عن بقیۃ فی ھذہ الحدیث عن محمد بن راشد عن الحسن، ومحمد بن راشد أیضا عن الحسن مجھول.
“اس روایت میں موجود محمد الخزاعی ، بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے، اس سند میں محمد بن راشد عن الحسن بھی بیان کیا جاتا ہے اور حسن بصری سے بیان کرنےوالا محمد بن راشد بھی مجہول ہے۔” (الکامل :۱۶۶-۱۶۷/۳)
حافظ ابن حجر (لسان المیزان:۱۶۳/۵) اور حافظ ذہبی (میزان الاعتدال: ۵۴۴/۳، المفنی: ۲۹۷/۲) نے اسی کو اختیار کیا ہے ۔
جناب ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں: ابن راشد ھذا و ثقہ ابن حنبل و ابن معین… (الجوھر النقی:۱۴۶/۱)
ہم کہتے ہیں کہ جناب ابن ترکمانی حنفی صاحب شدید وہم و اختلاط کا شکار ہوگئے ہیں، محمد الخزاعی “مجہول” کو محمد بن راشد المکحولی سمجھ بیٹھے ہیں، ایک “ثقہ” راوی کی “توثیق” ایک “مجہول” پر تھوپ دی ہے ، ابن ترکمانی کی تقلیدِ ناسدید میں جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی کا اسے محمد بن راشد المکحولی کہہ کر اس روایت کو “حسن” قرار دینا مبنی بر جہالت ہے ، کیونکہ محمد بن راشد المکحولی کے اساتذہ میں کسی محدث نے بھی حسن بصری کو ذکر نہیں کیا، نہ ہی حسن بصری کے شاگردوں میں ان کا نام موجود ہے ، اس لیے حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے:
محمد بن راشد عن الحسن نکرۃ. “حسن بصری سے بیان کرنے والا محمد بن راشد مجہول ہے۔”
(المفنی:۲۹۷/۲، میزان الاعتدال:۵۴۴/۳)
ثابت ہوا کہ اس روایت میں محمد الخزاعی سے مراد محمد بن راشد المکحولی نہیں، بلکہ اور کوئی ہے ، جس کے حالات نہیں مل سکے ۔ ہماری بات کی تصدیق کے لئے صرف محمد بن راشد المکحولی کا حسن بصری سے سماع نہ ملنا ہی کافی تھا، محدثین کی تصریح مزید سونے پر سہاگہ ہے۔
دلیل نمبر۷:
عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
اذا قھقہ أعاد الوضوء و الصلاۃ. “جب کوئی (نماز میں) قہقہہ لگائے ، وہ وضو اور نماز کا اعادہ کرے۔”
(الکامل لابن عدی : ۱۶۷/۳)
تبصرہ: یہ سند “موضوع” (من گھڑت) ہے ، کیونکہ :
۱… اس میں عمرو بن عبید راوی “متروک و کذاب” اور “داعی الی البدعہ ” ہے ، یونس بن عبید کہتے ہیں:
کان عمرو بن عبید یکذب فی الحدیث. یعنی:”عمرو بن عبید حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔”
(الجرح و التعدیل : ۲۴۶/۶)
ابوحاتم کہتے ہیں کہ “متروک الحدیث” ہے ۔ (الجرح و التعدیل : ۲۴۷/۶)
حمید کہتے ہیں: لا تاخذ عن ھذا شیئا، فانہ یکذب علی الحسن.
“اس سے کچھ روایت نہ کرو، کیونکہ یہ حسن بصری پر جھوٹ باندھتا ہے ۔” (الجرح و التعدیل : ۲۴۶/۶ و سندہ حسن)
عمرو بن علی کہتے ہیں: کان متروک الحدیث، صاحب بدعۃ. (الجرح و التعدیل: ۲۴۷/۶ و سندہ حسن)
نعیم بن حماد کہتے ہیں کہ میں نے امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا کہ محدثین کرام نے عمرو بن عبید کو کس بنا پر “متروک”قرار دیا ہے ؟ فرمایا، یہ بدعت کا داعی ہے ۔ (الجرح و التعدیل : ۲۴۸/۶ و سندہ حسن)
۲… اس کا دوسرا راوی عمر بن قیس المکی بھی “متروک” ہے ۔
۳… اس میں حسن بصری کی “تدلیس” بھی ہے ۔
دلیل نمبر ۷:
عامر شعبی کہتے ہیں: “یہ قہقہہ فتنہ ہے ، ایسا انسان وضو اور نماز کااعادہ کرے گا۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۳۸۸/۱)
تبصرہ: اس کی سند ضعیف ہے ، اس میں اشعث بن سوار نامی راوی “ضعیف” ہے۔ (تقریب التہذیب:۵۲۷)
امام مسلم نے اس سے متابعت میں روایت لی ہے ، اس میں ابو خالد الاحمر “مدلس” بھی موجود ہے ۔
دلیل نمبر ۸:
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب آدمی نماز میں ہنس پڑے تو وہ وضو اور نماز دونوں کا اعادہ کرے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: ۲۸۸/۱)
تبصرہ: اس میں مغیرہ نامی راوی کا تعین مطلوب ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے ، نہ قرآن ہے ، نہ حدیث ہے ، نہ اجماعِ امت ہے ، آلِ تقلید امام ابراہیم نخعی کے مقلد یا امامِ ابوحنیفہ کے ۔
لہٰذا یہ کہنا کہ نماز میں ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، باطل ، بلکہ ابطل الا باطیل ہے ، ایک باوضو انسان کا وضو اس وقت ٹوٹے گا، جب سنت یا اجماع سے دلیل قائم ہوجائے گی۔
ہنسنا یا قہقہہ لگانا ان چیزوں میں سے نہیں، جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے مثلاً چھوٹی یا بڑی قضائے حاجت ، نیند ، ریح وغیرہ ، ان چیزوں کے نماز کے اندر واقع ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے اور نماز کے باہر بھی، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے اندر ہنسنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ، ان کے نزدیک نماز کے علاوہ ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، یہ عجیب منطق ہے !
آلِ تقلید یہ کہتے ہیں کہ اگر حالتِ نماز میں ہوا خارج ہوگئی تو وضو ٹوٹ جائے گا ، نمازی دوبارہ وضو کرے، جو نماز پڑھ چکا ہو ، اس پر بنیاد کرتے ہوئے باقی ادا کرلے، اگر درمیان میں کلام نہیں کی تو نماز فاسد نہیں ہوگی، اگر کلام کرلی تو نماز فاسد ہوجائے گی، ازسرِ نو نماز ادا کرنا ضروری ہوگی ، وہی کہتے ہیں کہ اگر دورانِ نماز ہنسی آجائے تو وضو اور نماز دونوں کا اعادہ ضروری ہوگا، معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک نماز میں ہنسنا ہوا خارج کرنے سے بھی بڑاکام ہے ۔
جناب عبدالشکور لکھنوی فاروقی دیوبندی لکھتے ہیں:
“نابالغ کے قہقہے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اگر چہ نماز میں ہی ہو۔” (علم الفقہ از لکھنوی : ۹۶)
نیز لکھتے ہیں:
“جنازہ کی نماز اور تلاوت کے سجدہ میں قہقہہ لگانے سے وضو نہیں جاتا، بالغ ہو یا نابالغ ۔” (علم الفقہ: ۹۶)
جبکہ یہ فرق شریعتِ مطہرہ سے ثابت نہیں، محض ان کی منہ کی باتیں ہیں۔ دیکھیں کہ یہ لوگ کس طرح اسلام کے نظامِ نظامت و طہارت کا سنگین مذاق اڑاتے ہیں!
یاد رہے کہ وضو ایمان میں داخل ہے ،یہ بات بھی واضح ہو کہ لکھنوی صاحب نے اپنی اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ :”ہر مسئلہ میں وہی قول لکھا جائے گا، جس پر فتویٰ ہے۔” (علم الفقہ: ۱۵)
تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے اتنی دیر بیٹھا، جتنی دیر میں تشہد پڑھا جاسکتا ہے ، پھر جان بوجھ کر ہوا خارج کردے یا قہقہہ لگا دے یا ہنس دے یا نماز کے منافی کوئی کام کردے تو نماز مکمل ہوگئی ۔ فیا للعجب!
اس سے بڑھ کر حیرانی اس بات پر ہے کہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز میں ہنسنے سے وضو اور نماز دونوں ٹوٹ جاتے ہیں، ان کے نزدیک اگر نماز میں کسی پر تہمت لگائی یا فحش کلام کردی تو وضو نہیں ٹوٹے گا، مطلب صاف ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک نمازمیں ہنسنا کسی پر تہمت لگانے سے بھی بڑا جرم ہے ۔
اس پر ایک مناظرہ کی روئیداد ملاحظہ فرمائیں:
البویطی یقول؛ سمعت الشافعی یقول؛ قال لی الربیع؛ أنا أشتھی أن أسمع مناظر تک و اللؤلوی، قال؛ فقلت لہ؛ لیس ھناک، قال؛ فقال؛ أنا أشتھی ذلک، قال؛ فقلت؛ متی شئت، قال؛ فأرسل الی فحضرنی رجل ممن کان یقول بقولھم، ثم رجع الی قولی، فاستتبتہ و أرسل الی اللؤلوی، فجاء، فأتینا بطعام، فأکلنا ولم یأکل اللؤلوی، فلما غسلنا أیدیناقال لہ الرجل الذی کان معی؛ ما تقول فی الرجل قذف محصنۃ فی الصلاۃ؟ قال؛ بطلت صلاتہ، قال؛ فما حال الطھارۃ؟ قال؛ بحالھا، قال؛ فقال لہ ؛ فما تقول فی من ضحک فی الصلاۃ؟ قال؛ بطلت صلاتہ و طھارتہ، قال؛ فقلت؛ قذف المحصنات فی الصلاۃ أیسر من الضحاک فی الصلاۃ؟ قال؛ فأخذ اللؤلوی نعلہ وقام، قال ؛ فقلت للفضل؛ قد قلت لک؛ ان لیس ھناک.
“بویطی کہتے ہیں کہ میں نے امام (محمد بن ادریس) الشافعی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے فضل بن ربیع(یہ امیر المومنین ہارون الرشید کے دربان تھے) نے کہا ، میں آپ کے اور (حسن بن زیاد) اللولوی (کذاب حنفی فقیہ) کے مابین مناظرہ سننا چاہتا ہوں،میں نے کہا، وہ اس قابل نہیں، اس نے کہا کہ میں کرانا چاہتا ہوں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا، آپ کب مناظرہ کرانا چاہتے ہیں؟ پھر اس (فضل بن ربیع) نے (مناظرے کے لئے) مجھے بلوا لیا، اسی اثنا میں ایک آدمی میرے پاس آیا جو پہلے اللولوی کا معتقد تھا، بعد میں اس نے میرا مسلک اختیار کرلیاتھا، میں نے اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا ،اس (فضل بن ربیع)نے اللولوی کو بھی بلایا، وہ آگیا ، ہمارا کھانا لایا گیا، ہم سب نے کھانا کھایا ، لیکن اللولوی نے نہیں کھایا، جب ہم ہاتھ دھو رہے تھے تو میرے ایک ساتھی نے اللولوی سے پوچھاکہ آپ ایسے انسان کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، جو نماز میں کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے؟ اس نے کہا: اس کی نماز باطل ہے، اس نے پھر پوچھا کہ اس کے وضو کا کیا بنے گا ؟ اللولوی نے کہا کہ وہ برقرار رہے گا، اس نے اللولوی سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو نماز میں ہنس پڑے؟ اس نے جواب دیا کہ اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہیں، اس نے کہا کہ میں نے اللولوی سے پوچھا کہ کیا آپ کے نزدیک نماز میں پاک دامن عورت پر زنا و بدکاری کی تہمت لگانا، نماز میں ہنسنے کے مقابلے میں چھوٹا جرم ہے (کہ وہاں صرف نماز ٹوٹی اور یہاں وضو اور نماز دونوں) ؟ اس پر اللولوی نے جوتے پکڑے اور بھاگ گیا، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے فضل بن ربیع کو کہا کہ میں نے تو آپ کو پہلے بتایا تھا کہ یہ مناظرہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔” (الکامل لابن عدی: ۳۱۹/۲ و سندہ حسن)
اس مناظرہ کے راوی ابوجعفر محمد بن زاہر النسائی کے بارے میں امام ابوحاتم الرازی فرماتےہیں:
لم یکن بہ بأس. (الجرح و التعدیل : ۲۶۰/۷)
قارئین کرام ! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ دین وایمان کے خلاف ایسے مضحکہ خیزاور سنسنی خیز مسائل بیان کرنے والے دین کے خیر خواہ ہوسکتےہیں؟ شریعت کی اس مخالفت کو آپ کیا نام دیں گے؟