اخوانی اور جماعتیوں کی حقیقت
تحریکیوں کی پریشانی: اسباب و محرکات
بقلم ڈاکٹر اجمل منظور
۔24/فروری 2018 کو جمعیت اہل حدیث شولا پور مہاراشٹرا کی طرف سے ایک جلسے کا اہتمام کیا گیا جس میں اخوانیت کی حقیقت کے موضوع پر تقریریں ہوئیں۔ اس جلسے کا اصل مقصد اس پرفتن دور میں اخوانیت اور تحریکیت کے شروفساد اور ان کے اسلام مخالف افکار وخیالات سے مسلم نوجوانوں کو آگاہ کرنا اور ان سے بچانا تھا۔ اور ساتھ ہی کتاب وسنت پر مبنی منہج سلف کو اجاگر کرنا بھی تھا۔ اور اپنے اس مقصد میں یہ جلسہ کامیاب رہا۔
۔ لیکن اس تحریکیت کے شجرہ خبیثہ سے جڑے بعض لوگوں کو اس جلسے سے بڑی تکلیف ہوئی اور انہوں نے اس کے خلاف الٹے سیدھے مضامین لکھنا شروع کردئیے جس میں سلفیوں اور سعودی عرب کے خلاف خوب خوب الزام لگایا اور ان کے تعلق سے الٹی سیدھی باتیں کہیں جن کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایک صاحب نے تو سعودی عرب کے خلاف ہندوستان میں اگلے ایک ہفتہ تک احتجاج کرنے کا مطالبہ بھی کرڈالا کیونکہ ان کے نزدیک تمام خرابی کی جڑ یہی سعودی عرب ہے۔ یہ جناب ایران کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے جو شام میں بشار مجرم کے ساتھ مل کر سنیوں کا قتل عام کررہا ہے کیونکہ ایرنی حکومت ان کے مرشدین کے بقول پکا اسلامی حکومت ہے۔جبکہ سعودی عرب کی حکومت دور جاہلیت کی حکومت ہے ۔
-ملک شام کے اندر ایرانی روافض جغرافیائی ڈھانچہ بدل رہے ہیں۔ سنی مسلمانوں کو بھگا کر شیعوں کو بسایا جا رہا ہے۔ اس پروجیکٹ پر اربوں روپیہ خرچ کیے جا رہے ہیں۔ دیکھیں اس ویڈیو کلپ کو:
https://www.facebook.com/groups/1035980613200810/permalink/1244840585648144/
لیکن تحریکی اس پر خاموش ہیں۔ اس کے لیے کوئی احتجاج نہیں ھے۔
-شام ہی کے اندر روافض کے ساتھ مل کر سنیوں کے دشمن علوی نصیری صحابہ کرام کو گالی دے رہے ہیں اللہ ان کا بیڑا غرق کرے۔ اس پر بھی یہ تحریکی خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ کیوں کہ یہ سب سعودی عرب میں نہیں ھو رھا ھے۔ یہ تو ان کے خلیرے پھپھیرے بھائی ہیں۔ دیکھیں یہ لنک:
https://www.facebook.com/groups/1035980613200810/permalink/1244282912370578/
۔دراصل تحریکیوں اور اخوانیوں کی خیانت ، مسلم حکومتوں کے ساتھ بغاوت، امت مسلمہ کو دین الہی کے نام پر دھوکہ ، حکومت وسیادت تک پہونچنے کیلئے مذہب اسلام کو زینہ کے طور پر استعمال کرنا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔
مملکت سعودی عرب کے ساتھ بھی جب انہوں نے ساری حدیں پار کردیں یعنی تمام سہولتوں اور عہدوں کے باوجود بھی جب انہوں نے دشمنانِ مملکہ کے گود میں کھیلنا شروع کردیا اور درپردہ ایرانی رافضیوں کے اہداف خبیثہ کو پورا کرنے میں بھی ہاتھ بٹانے سے پیچھے نہ رہے تو مملکہ نے گزشتہ سال ۲۰۱۶ء میں ان پر سختی کرنا شروع کردی اور انکے خونخوار ارادوں پر قدغن لگانے کیلئے ان پر پابندی لگادی۔ حالانکہ مملکہ نے ان کی شرارتوں اور خیانتوں کو بہت برداشت کیا اور ان منافقوں نے بھی مملکہ کو بہت درد دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جمال عبد الناصر نے ان پر جب مصر کے اندر زمین تنگ کردی تھی تو اسی مملکہ نے انہیں زمین مہیا کی تھی ۔ شام کے اندر حافظ اسد نے جب ان کا جینا حرام کردیا تھا تو اس وقت بھی مملکہ نے ان کا ساتھ دیا تھا ۔ عراق کے اندر عبد الکریم قاسم نے جب ان کی شرارتوں کی وجہ سے انہیں چن چن کر مارنے کی کوشش کی تھی اس وقت بھی مملکہ ہی نے انہیں پناہ دی تھی۔ ان سب احسانات وعنایات کے بدلے میں آخر اخوانیوں نے سعودی کو کیا دیا سوائے درد اور تکلیف کے؟ ان احسان فراموشوں کے ساتھ کوئی بھی ملک آخر کیا سلوک کرے گا؟ اور خاص طور سے ایسے سنگین حالت میں کہ جب سعودی کو ان کے سپورٹ کی شدید ضرورت تھی انہوں نے اس وقت بھی سعودی کے خلاف رافضی حوثیوں کا ساتھ دیا۔
۔مملکت سعودی عرب میں رہ کر بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر فائز تھے اور در پردہ مملکہ کے خلاف دشمنان مملکہ سے مل کر اپنے سارے اہداف خبیثہ پورا کرتے تھے ۔ انہیں پوری چھوٹ ملی ہوئی تھی ۔ ان کے خلاف کچھ بولنا جرم سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن جب انہوں نے حد کردی ، رافضی دہشت گرد نمر النمر کو پھانسی دینے پر انہوں نے اعتراض کیا ، یمن میں در پردہ حوثیوں کا ساتھ دیا ، ایران سے تعلقات توڑنے پر انہوں نے تکلیف کا اظہار کیا ، سعودی عرب میں جب تک امریکی فوجی اڈہ تھا انہوں نے ہمیشہ اس پر اعتراض کیا لیکن جیسے ہی یہاں سے ہٹایا گیا اور اسے قطر نے اپنے یہاں جگہ دیدی تب سے یہ بیہودے خاموش ہیں ۔ کیا قطر جزیرۃ العرب کا حصہ نہیں ہے ؟ اس پر انہوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔
۔ان کی سازشوں اور خبیث پلانوں کو پورا ہونے میں دنیا کے اندر کہیں بھی رکاوٹ آئے اسکا ذمیدار فوراً سعودی عرب کو یہ بناتے ہیں۔ مصر کے اندر تحریکی مرسی کی حکومت کو وہاں کی فوج گرادیتی ہے تو اس کا الزام سعودی عرب پر لگاتے ہیں۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے تین سال سے سعودی عرب پورے سات عرب ملکوں کے اتحاد کے ساتھ چند مٹھی بھر حوثی باغیوں کی صنعا میں حکومت کو نہیں گراپارہے ہیں۔ آخر یہ مصر کی مضبوط اخوانی حکومت کو کیسے گرادیں گے ؟ در اصل سعودی عرب کو مرسی حکومت پر اعتراض تھا ۔ کیونکہ مرسی نے اسلام کا نام لیکر حکومت بنائی تھی لیکن عوام کے توقعات پر پورا نہیں اتری یہ حکومت۔ یورپی جمہوریت کے طرز پر حکومت بناکر آخر اسلام کو یہ اخوانی کیا نافذکریں گے ؟ دعوی الگ شیء ہے ۔ النور سلفی پارٹی ہے ۔ اس نے مرسی حکومت کو حمایت دی تھی لیکن اس پارٹی کو مرسی نے ایک بھی وزارت نہیں دی ۔ اسے دھوکہ دیا جس کی بنا پر اس نے حمایت واپس لے لی۔ عوام کو بھی دھوکہ دیا انہوں نے احتجاج کیا ۔ ایران سے رابطے بڑھانا شروع کردیا اور چند مہینوں میں ایران کا دو مرتبہ دورہ کیا ۔ کئی معاہدے کئے ۔ وہ سارے حسینیات اور امام باڑے جن پر پابندی تھی یہاں تک کہ رافضی سیاحیوں پر بھی کئی طرح کی پابندی تھی مرسی نے آکر ساری پابندیاں ختم کردیں ۔
۔ یہی وجہ ہے کہ مرسی اخوانی کی حکومت آنے پر ایران کے اندر حکومتی پیمانے پر خوشی منائی گئی جگہ جگہ خوشی کی محفلیں لگائی گئیں ۔ مبارکبادیاں دی گئیں۔ اس ویڈیو کلپ کو دیکھیں:
اس طرح اسلامی حکومت کا نام لیکر مرسی نے مصر کو فاطمی اور عبیدی دور رافضیت میں ڈھکیلنے کی پوری پلاننگ کرلی تھی اور اس طرح بغداد اور دمشق اور بیروت کے ساتھ قاہرہ کو بھی رافضیت کے گود میں دینے کی تیاری ہوچکی تھی۔ لیکن اہل سنت کے متوالوں نے جیسے ہی اس بھیانک سازش کو جانا مرسی کی خبیث حکومت کو فورا جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ جسکا رونا یہ آج تک رو رہے ہیں۔
۔ سعودی حکومت نے اس کے بعد بھی انہیں برداشت کیا اور یہ تحریکی اندر اندر پیج وتاب کھاتے رہے ۔ 2016 کے اندر پورے دراسہ کے بعد جب ان غداروں پر پابندی لگائی گئی اور ان کے ساتھ ساتھ وہاں کے تمام لبرل پسندوں کو چن چن کر جیل میں ڈال دیا گیا اور اس طرح سعودی عرب کو ان ناپاکوں سے پاک کردیا گیا اور اسی وقت سے سعودی عرب میں دھماکے اور سازشیں ہونا بند ہوگئیں۔
۔ یہ تحریکی اسی وقت سے بلبلا رہے ہیں کیونکہ ان کی ساری سازشیں اب دنیا کے سامنے کھل آچکی ہیں ۔ لوگ ان کی ایران دوستی کو سمجھ چکے ہیں۔ یہ روافض اور یہودیوں کے کس طرح آلہ کار بنے ہوئے ہیں اسے بھی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات ان ساری سازشوں کو کرنے کیلئے انہیں جہاں سے مالی سپورٹ ملتا تھا وہ سارے چشمے بند ہوچکے ہیں۔ سعودی نے انٹی کرپشن کے نام پر ان کے بڑے بڑے تاجروں اور ان کے سپورٹوں کو دھر دبوچا ہے ۔ ولید بن طلال ان کا سب سے بڑا مالی امداد کرنے والا تھا۔ آج اس نے بھی توبہ کرلی ہے ۔ اسے بھی پتہ چل گیا ہے کہ مملکہ کے یہ اخوانی سب سے بڑے دشمن ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس انٹی کرپشن کے خلاف ان تحریکیوں نے کتنا پروپیگنڈہ کیا تھا اور سعودی عرب کے اوپر کس کس طرح کے الزامات لگارہے تھے ۔ دراصل اسکا سب سے بڑا بھیانک مالی اثر انہیں تحریکیوں پر پڑا تھا۔
۔ اب یہ تحریکی ہر جگہ سے مایوس ہوکر ایک چھوٹے سے ملک قطر میں جاکر سمٹ گئے ہیں۔ امیر قطر نے بھی اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے انہیں استعمال کررہا ہے اور جب اسکے اہداف پورے ہوجائیں گے یا وہ کسی نہ کسی وقت دیگر خلیجی ملکوں سے جب ملے گا تو وہاں بھی ان کا جینا حرام ہوجائے گا اور سازشی یہودیوں کی طرح ادھر ادھر انہیں بھٹکنا ہی پڑے گا۔
۔تحریکی دین سے اپنی کم علمی اور اپنے مقاصد کو چھپانے کیلئے بڑے بڑے جید علماء پر کیچڑ اچھالتے ہیں ۔ علامہ ابن باز، ابن عثیمین ، علامہ البانی جیسے کبار علماء کو حیض ونفاس کا مولوی کہہ کر ان کا مذاق کرتے ہیں اور انہیں اپنے عوام کے اندر ذلیل کرتے ہیں اور ان پر اور دیگر سعودی علماء پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ سب طاغوتی حکمرانوں کیلئے پستی میں گر کر وفا داری (Loyalty) کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مداخلہ نامی طائفہ اس معاملے میں حاکم پرستی کی علامت بن گیا۔ اور یہ لوگ سعودی حکمرانوں کی خصیہ برداری کرتے ہیں اور ان کے ہر فیصلے پر یہ فتوی تیار رکھتے ہیں ۔ جو کہ سب کا سب الزام کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
۔ سب جانتے ہیں کہ وہاں کے حکمراں سعودی علماء کا کس قدر احترام کرتے ہیں ۔ علامہ ابن باز کو وہاں کے حکمراں والد کہہ کر پکارتے ہیں ۔ کبار علماء کے گھر یہ حکمراں خود مشورے لینے کیلئے جاتے ہیں۔ اور ان کے آگے چلنے کی ہمت نہیں کرپاتے ہیں۔ نیز دین کے کسی بھی فیصلے میں ان کے مشورے سے کچھ نہیں بول سکتے ہیں ۔ یہ سب دراصل معاہدہ ہے جو شیخ محمد بن عبد الوہاب اور امام محمد بن سعود کے درمیان ہوا ہے کہ دینی امور آل شیخ کے گھرانے والے اور دنیاوی امور آل سعود کے گھرانے والے طے کریں گے۔ اور اسی پر آج تک عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔
۔ اخوانیوں کی سب سے بڑی نشانی موجودہ حکمرانوں کو کافر گرداننا اور موجوہ معاشرے کو جاہلیت ثانیہ ماننا ہے جیسا کہ ان کے مرشد سید قطب نے انہیں سبق دیدیا ہے۔ موجودہ مسلم حکمرانوں کو طاغوتی حکمران کہہ کر درا صل یہ لوگ اپنے اسی کج فکری (Narrow View) اور یرقانی ذہن (Jaundiced) کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
۔ سعودی علماء کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حاکم پرست ہیں در اصل یہ تحریکیوں کے حکماء کے خلاف خروج کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ کیونکہ سعودی علماء حکماء کے خلاف خروج کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ اس سے مزید فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے جیسا کہ اسلامی تاریخ میں بارہا ایسے انقلابات اور خروج کانقصان امت مسلمہ کو اٹھانا پڑا ہے۔ اور اس کا ایک نمونہ عرب بہاریہ (Arab Spring) کا تلخ تجربہ حال ہی میں دیکھا جا چکا جس کی قیادت انہی تحریکیوں نے کیا۔
۔انہیں بڑا قلق ہے اس بات پر کہ سعودی نے یمن میں حوثی سرکش نوجوانوں کی تحریک کو ابھرنے نیز یمن پر قابض ہونے سے روک کیوں دیا۔ یہ چند سلفی علماء ہیں جن سے ان تحریکیوں کو کافی پریشانی ہے: محمد امان الجامی، ربیع بن ہادی مدخلی، محمد بن ہادی مدخلی، مقبل بن ہادی الوادعی، علامہ البانی کے شاگرد رشید سلیم الہلالی اور مشہور آل سلمان وغیرہ۔
۔یہ تحریکی سعودی علماء اور خصوصاً مداخلہ سے جو اس قدر ناراض رہتے ہیں اور ان کے خلاف لکھتے بولتے رہتے ہیں اس کی وجہ حاکم پرستی وغیرہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی علماء ان تحریکیوں کی اصلیت بتاتے ہیں اور ان کے نفاق اور جھوٹ کا پردہ یہی چاک کرتے ہیں۔ دین اسلام سے انہیں کتنی محبت ہے اور اسلام کے نام پر مسلم نوجوانوں کو اپنی تنظیموں اور تحریکوں خاص طور سے طلبہ تنظیموں سے کیسے کیسے لالی پاپ دکھا کر اور بہلا کر جوڑتے ہیں اسکا بھانڈا یہی پھوڑتے ہیں۔ ان کے اصلی نصب العین اور اصل مقاصد سے پردہ یہی اٹھاتے ہیں۔ ان کے مرشدین کے نجی حالات کیسے رہتے ہیں اور اسٹیج پر آکے کیسے بھیس بدل لیتے ہیں اس پر لوگوں کو آگاہ یہی کرتے ہیں۔ روافض شیعوں سے ان کے کتنے گہرے تعلقات (Intimate Relations) ہیں اور ان کے ساتھ مل کر سنی مسلمانوں کے ساتھ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں اس بات کو سامنے یہی لوگ لاتے ہیں۔ حتی کہ صہیونیوں اور صلیبیوں سے ان کے کیا رشتے ہیں اسکا انکشاف بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔
-انہی سعودی علماء اور مداخلہ نے ان کے کج فکری، خروج، دین بیزاری اور گمراہیوں (Heresies) پر خوب خوب کتابیں لکھ کر ان کا پردہ فاش کیا ہے۔ ذیل میں کچھ مفید کتابیں درج کی جاتی ہیں جن کی روشنی میں ان تحریکیوں کو اچھی طرح پہچانا اور سمجھا جاسکتا ہے:
-المخرج من الفتنۃ، تالیف: شیخ مقبل بن ہادی الوادعی۔
-الإخوان المسلمون بین الابتداع الدینی والإفلاس السیاسی، تالیف: شیخ علی الوصیفی۔
-کشف شبہات مجوزی المظاہرات، تالیف: شیخ عبد العزیز الریس۔
-وقفات مع تنظیم الإخوان المسلمین، تالیف: ابو عبد اللہ عبد الوہاب الحجوری۔
– لماذا ترکت دعو ۃ الإخوان المسلمین واتبعت المنہج السلفی، تالیف: فیصل بن عبدہ قائد حاشدی۔
-تركة حسن البنا وأسہم الوارثین، تالیف: شیخ عاید شمری۔
– العلاقة المریبة بین الشیعة والإخوان المسلمین، تالیف: شیخ خالد محمد عثمان مصری۔
-البیان عن حال کبار علماء وزعماء الإخوان، تالیف: شیخ نبیل صالح محمد مشرف۔
-الخطوط العریضۃ للإخوان المسلمین وخلافتہم المرتقبۃ، تالیف شیخ نعمان عبد الکریم الوتر۔
یہ تحریکی اور اخوانی شیخ ربیع بن ہادی مدخلی سے کچھ زیادہ ہی ناراض رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے سب سے زیادہ ان تحریکیوں کے خلاف لکھا ہے اور انہوں نے ان کی قلعی (Gilding) خوب خوب اتاری ہے۔ نیچے کچھ شیخ کی کتابیں لکھ رہا ہوں جو کافی مفید ہیں:
-الکتاب والسنة: أثرہما ومکانتہما والضرورۃ إلیہما فی إقامۃ التعلیم فی مدارسنا۔
-مکانة أہل الحدیث ومآثرہم وآثارہم الحمیدۃ فی الدین۔
– جماعة واحدۃ لا جماعات۔
-منہج أہل السنة والجماعة فی نقد الرجال والکتب والطوائف۔
– التعصب الذمیم وآثارہ۔
-دفاع عن السنۃ وأہلہا، یہ در اصل محمد غزالی کے رد میں تین مقالات ہیں۔
-کشف موقف الغزالی من السنۃ وأہلہا ونقد بعض آراۂ، یہ کتاب محمد کے رد میں ہے۔
-أہل الحدیث ہم الطائفۃ المنصورۃ الناجیة، سلمان عودہ سے مناظرہ کرتے ہوئے۔
– مجازفات الحداد۔
-طعن الحداد فی علماء السنۃ، یہ دونوں کتابیں محمود بن محمد الحداد کے رد میں ہیں۔
-رد علی سعید حوی، اس کتاب کو آپ نے تقریباً ۱۴۰۳ھ میں لکھی جس میں سعید حوی کی صوفیانہ گمراہیوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔
خاص طور سے سید قطب کے اوپر شیخ ربیع کی کی چند کتابیں یہ ہیں:
– أضواء إسلامیة علی عقیدۃ سید قطب وفکرہ۔
– الحد الفاصل بین الحق والباطل، شیخ بکر ابو زید کے ساتھ سید قطب کے عقیدہ وفکر پر بحث کرتے ہوئے۔
– العواصم مما فی کتب سید قطب من القواصم۔
-مطاعن سید قطب فی الصحابۃ۔
– حول سید قطب۔
۔ ان تحریکیوں کو سعودی عر ب سے ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ ان کے جنونی مرشدوں کی کتابوں پر سعودی میں پابندی لگا دی گئی ہے جس کی بنیاد پر یہ تڑپ رہے ہیں اور سعودی عرب پر طرح طرح سے الزامات لگا رہے ہیں ابھی گزشتہ سال ایک پکا تحریکی محمد ریسونی نے یہ الزام لگایا کہ حالیہ دنوں میں سعودی ثقافتی اداروں (Cultural Departments) کی طرف سے بے حساب کتابوں کو ضائع کر دیا گیا یا آگ کے حوالے کر دیا گیا جو برسوں سے سعودی حکومت کی زیر نگرانی شائع اور تقسیم کی جارہی تھیں جیسے ابن تیمیہ کی کتابیں ، موسوعۃ الدرر السنیۃ وغیرہ، اور آج سعودی فرمانرواؤں کو اس میں اپنے لئے خوف اور خطرہ نظر آنے لگا۔
۔ریسونی صاحب نے اپنی عادت کے مطابق یہ بھی ایک بڑا بہتان اور جھوٹ باندھا ہے کیونکہ کتابوں کے جلانے کا حکم کہیں صادر نہیں ہوا ہے۔ در اصل تحریکیوں کی گرفتاریوں سے سبکی مٹانے کیلئے سعودی پر طرح طرح کے الزامات لگارہے ہیں ۔ آخر اتنا درد سہنے کے بعد بھی اگر سعودی ان پر شکنجہ نہ کسے تو کیا کرے؟ اس سے پہلے مارچ ۲۰۱۵ء میں اخوانیوں اور تحریکیوں کے خلاف سعودی میں سرکاری فرمان(Royal Order) جاری ہوا تھا جس کے تحت ان کی وہ اسی (۸۰)کتابیں جو انحراف سے پر ہیں انہیں مساجد ، لائبریریوں اور تمام تعلیمی اور ثقافتی جگہوں سے ہٹانے اور ان پر پابندی لگنے کاحکم دیا گیا تھا۔ ان میں ان کے بڑے بڑے مرشدین شامل ہیں: حسن البنا، سید قطب، محمد قطب، یوسف قرضاوی، علامہ مودودی ، مالک بن نبی، سلمان عودہ، عبد القادر عودہ، مصطفی سباعی، انور جندی اور حسن ترابی وغیرہ۔ چنانچہ ان سب کی اکثر کتابوں میں منحرف افکار بھرے پڑے ہیں۔
۔ان منحرف کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے جن میں چند کتابیں کچھ یہ ہیں: حسن البنا کی ( اللہ فی العقیدۃ الإسلامیۃ) ، اور( الوصایا العشر )، یوسف قرضاوی کی: (الحلال والحرام فی الإسلام)، سید قطب کی : (شبہات حول الإسلام)، علامہ مودودی کی: (الخلافة والملوکیة) وغیرہ۔ اس موضوع سے متعلق ایک جامع کتاب بکر ابو زید نے لکھی ہے جو کافی مفید ہے جس کا نام ہے: (کتب حذر منہا العلماء) دو جلد میں یہ کتاب نوجوانوں کے لیے بڑی مفید ہے۔
۔لیکن اگر ضائع کرنے کے نام پر ان کتابوں کو جلا بھی دیا جائے یا دفن کردیاجائے تو اس میں کیا کوئی شرعی قباحت ہے؟ تاریخ میں بہت ساری ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ شرعی یا سیاسی بنیادوں پر کتابوں کو جلایا گیا ہے ۔ فکری انحراف پر مشتمل کتابیں جن سے لوگوں کو گمراہ اور منحرف ہونے کا شبہ ہو تو انہیں جلانا ہی بہتر ہے ۔ لیکن تحریکی اپنی ان کتابوں کا نام نہیں لیتے بلکہ غلط بیانی کرتے ہوئے ابن تیمیہ وغیرہ کی کتابوں کا نام لیتے ہیں تاکہ انکا اگلا جملہ پورا ہوسکے کہ سعودی اسطرح متشدد تیمی وہابی ماڈل سے معتدل اسلام (Moderate Islam) کی طرف آنا چاہتا ہے۔ واقعی جھوٹ بول کر جملے تو بنائے جاسکتے ہیں لیکن لوگوں کا اعتبار حاصل نہیں کئے جاسکتے کیونکہ جھوٹ کبھی نہ کبھی سامنے آہی جاتا ہے۔
۔ان تحریکیوں کی کتابوں پر پابندی مصر وغیرہ ملکوں میں بھی لگائی گئی ہے بلکہ مصر کے اندر جمال عبد الناصر کے دور میں ان منحرف کتابوں کو ضائع کرنے کے نام پر بڑے پیمانے پر جلایا بھی گیا تھا لیکن یہ تحریکی اس سچ کو دنیا کے سامنے نہیں پھیلاتے ہیں۔ انہیں تکلیف ہے تو صرف سعودی سے کہ آخر یہاں بگاڑ اور فساد کیوں نہیں پنپ رہے ہیں؟ یہ اپنی سازشوں میں کامیاب کیوں نہیں ہو پارہے ہیں؟ عرب بہاریہ نے سعودی کو اپنی لپیٹ میں کیوں نہیں لے پایا؟ یہی انکاسعودی کے ساتھ سب سے بڑا درد ہے؟ اللہ بلاد حرمین کو ان کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔
۔ یہ وہی ریسونی ہیں جن کو مراکش سے فقہ اور اصول فقہ کے میدان میں کام کرنے کیلئے سعودی بلایا گیا۔ یہاں جدہ میں سعودی اور امارات کے تعاون سے (معلمۃ زاید للقواعد الفقھیۃ والأصولیۃ) جیسے عظیم پروجیکٹ کے تحت (مجمع الفقہ الإسلامی الدولی) کے نام سے اسلامک فقہ اکیڈمی قائم کیا گیا تھا جس میں آپ نے ایک ماہر تجربے کار (Masterful Expert)کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اس پروجیکٹ کے آپ نائب مدیر بنے اور پھر مدیر بن گئے۔ اس اثنا میں آپ مکہ مکرمہ اوپن یونیورسٹی کی مجلس علمی کی رکنیت حاصل کی، (المعہد العالمی للفکر الإسلامی) میں تعلیمی مشیر (Academic Secretary) کی حیثیت سے بھی کام کیا اور ساتھ ہی (جامعۃ زاید بالإمارات العربیۃ) اور (جامعۃ حمد بن خلیفہ بقطر) کے مہمان استاذ بھی رہے۔ ۲۰۱۳ء میں اس عظیم فقہی موسوعہ (Jurisprudential Encyclopedia) کی تکمیل کے بعد آپ کی خواہش امارات جانے کی ہوئی۔ لیکن کسی وجہ سے سعودی اور امارات نے آپ کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔
۔اسی مسئلے کو لیکر جناب امارات اور سعودی کے مخالف ہوگئے اور دسمبر ۲۰۱۳ء میں (رابطۃ علماء أہل السنۃ) کے رکن بن گئے اور (الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین) کے نائب صدر بنا دئیے گئے۔ اور یہ معلوم ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں (رابطۃ العالمی الإسلامی) اور (ہیءۃ کبار العلماء) کی مخالفت میں بنائی گئی ہیں۔
۔قطر میں جاکر انہوں نے سعودی عرب اور سعودی کبار علماء کے بارے میں طرح طرح کے بیانات دینا شروع کردیا اور ان پر مختلف الزامات بھی لگانا شروع کردیا اور اسطرح اپنی تحریکیت کو جوانہوں نے سعودی عرب میں چھپا کر رکھا تھا قطر میں جاکر ظاہر کردیا۔ ان کے سارے الزامات کا جواب کئی ایک سعودی علماء نے دی ہے جن کا خلاصہ میں نے پانچ قسطوں میں لکھا ہے۔ میرے فیس بک پیج پر کچھ پیچھے جاکر ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
۔ان تحریک پرستوں کی نظر میں آل سعود اور علماء سعودیہ کے اندر صرف برائی کے علاوہ اور کچھ دکھتا ہی نہیں ہے۔ فکری ، معاشی، سماجی نیز تعلیمی اور ٹکنالوجی ترقیاتی پیمانے پر بروقت سعودی حکومت کیا اقدام کر رہی ہے اور اسکے لئے تمام بڑے بڑے شہروں میں کتنے بجٹ کے کون کون سے پروجیکٹ پاس کئے جارہے ہیں؟ ان سب ترقیاتی کاموں اور اصلاحات پر نہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی تشہیر کرتے ہیں یا جان کر ان سے تجاہل برتتے ہیں کہ کہیں دنیا کی نظر میں آل سعود اور علماء سعودیہ کے تئیں مثبت سوچ اور اچھا اثر نہ چلا جائے اور دھیرے دھیرے ان کی پروپیگنڈے والی ڈفلی کمزور پڑ کر پھٹ نہ جائے۔
۔جس طرح مملکہ کے حاسدین نے سلمان کمپلیکس برائے حدیث پرنٹنگ کے تعلق سے غلط پروپیگنڈہ دنیا بھر میں پھیلایا اسی طرح بہت سارے ایسے سعودی پروجیکٹ کوبھی انہوں نے نظر انداز کیا جن کا سیدھا فائدہ سعودیوں کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو پہونچتا ہے ۔ چنانچہ حدیث کمپلیکس کی طرح اہل مدینہ کیلئے قطار الحرمین مٹرو ٹرین گزشتہ سال کا دوسرا بڑا تحفہ ہے جو خود ان کے لئے اور تمام سعودیوں نیز مسلمانان عالم کیلئے بھی باعث شرف اور لائق فخر ہے۔
۔لیکن برا ہو مملکہ کے ان حاسدین اور مخالفین رافضی ، تحریکی اور تقلید پرستوں کا جو سعودی میں ہر معمولی اور چھوٹی چھوٹی پیش آنے والی چیزوں کو ایک بھیانک اور ہولناک ہوا بنا کر پیش کرتے ہیں پھر ان کے چمچے اور اذناب واذیال اس کا پروپیگنڈہ کر کے پوری دنیا میں پھیلا دیتے ہیں ۔ لیکن وہیں پر قطار الحرمین مٹرو ٹرین جیسی عظیم پروجیکٹ سے نظریں بچا کر صم بکم عمی جیسی صفتوں کا پیکر بن جاتے ہیں اور میڈیا میں اس کی بھنک بھی نہیں لگنے دیتے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا والے مملکہ کے عظیم کاموں کے بارے میں سن کر وہاں کے سربراہان کی سراہنا کرنے لگیں اور مملکہ کے تعلق سے ان کے کھوکھلے دعوے لوگوں کے سامنے کھل کر سامنے آجائیں۔
۔ایک اندازے کے مطابق رافضی ملک ایران مملکہ کے خلاف پروپیگنڈہ اور افواہ پھیلانے کیلئے سالانہ تیس بلین ڈالر اپنی پبلک رلیشن اور میڈیا پر خرچ کرتا ہے اور پریشان رہتا ہے کیونکہ ان کا پیسہ جھوٹ اور نفاق پر خرچ ہو جاتا ہے۔ کس قدر مشابہت ہے انکی اللہ کے نافرمان کافر بندوں سے ؛ سچ فرمایا پرور دگار عالم نے: (إن الذین کفروا ینفقون أموالہم لیصدوا عن سبیل اللہ فسینفقونہا ثم تکون علیہم حسرۃ ثم یغلبون والذین کفروا إلی جہنم یحشرون) [سورۂ انفال:۳۶] ترجمہ: بیشک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکیں، سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہو جائیں گے، پھر وہ مغلوب ہوجائیں گے، اور کافر لوگوں کو درزخ کی طرف جمع کیا جائے گا۔
پھر یہ تحریکی اور تقلیدی روافض کے ان افواہوں ، ان کے ظنون واوہام ، اندیشوں اور خدشات کو یقین کا درجہ دیکر خود فیصلہ کر لیتے ہیں اور آل سعود نیز علماء سعودیہ کو دنیا کی نظر میں مجرم بنا کر پیش کرنے لگتے ہیں ، اور یہی روافض کا نصب العین ہے۔ جس طرح یہودیوں کی سواری کاکام صلیبی مسیحی کرتے ہیں بالکل اسی طرح روافض کی سواری کا کام تحریکی تقلیدی کرتے ہیں۔
۔لیکن یہ طے ہے کہ جب تک سعودی عرب کے اندرجب تک طاقت ہے وہ ان شاء اللہ کبھی دین کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ ہی علماء سعودیہ ان کی غلط رہنمائی کریں گے۔ امام محمد بن سعود اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللہ نے جس دین اسلام کے نام پر حکومت چلانے کی بیعت کی تھی وہ بیعت آج بھی باقی ہے، اور دونوں خاندان اسی بیعت پر قائم ہیں اوراسی ایمان کی قوت اور مضبوطی سے حکومت چلا رہے ہیں اور امید یہی ہے کہ مستقبل میں بھی یہ مملکت توحید اسی بیعت پر قائم رہے گا۔ حاسدین لاکھ چلائیں اور پروپیگنڈہ کریں ، اللہ نے چاہا تو سعودی عرب ترقی کرتا رہے گا ، اور عالم اسلام کی روحانی قیادت کرتا رہے گا۔
۔اب عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ مکار میڈیا وہاں کی اچھی اور خیر والی خبروں کو کتنا ہی چھپائے سوشل میڈیا کے ذریعے ان خبروں کی حقیقت اور سچائی سامنے آہی جائے گی۔ اس طرح مملکت سعودی عرب کے تئیں مسلمانان عالم کا اعتماد اور بھروسہ بڑھتا جائے گا اور مملکت توحید کا جھنڈا بلند رہے گا۔ امید یہی ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں مستقبل قریب ہی میں سعودی عرب دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا اور اس کے حاسدین اور معارضین کا چہرہ مزید سیاہ ہوگا اور ان کی صفوں میں ماتم کا عالم بنا رہے گا۔
۔اللہ ہمیں تحریکیت، حزبیت، شخصیت پرستی نیز جمود وتعصب سے دور رکھے۔ کتاب وسنت اور منہج سلف کا پیروکار بنائے۔ حقیقت پسند، حق گو اور باطل سے نفرت کرنے والا بنائے۔ دین اسلام کا حقیقی خادم بنائے نیز ریا ونفاق سے بچائے۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت دین حق اور توحید کی سربلندی عطا کرے نیز شرک وکفر اور بدعت وتقلید کی لعنتوں سے جزیرۃ العرب کو پاک رکھے۔ آمین
اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، ولا تجعلہ متلبسا علینا فنضل، واجعلنا خادماً للإسلام والمسلمین۔آمین
۔نوٹ: تحریکیوں کے بڑے بڑے مرشدین کے عقائد وافکار کے بارے میں الگ سے مضمون لکھا جائے گا تاکہ ان کی کھوکھلی بنیاد کو پتہ دنیا والوں کو چل سکے۔ اور ساتھ ہی حماس تنظیم کے پول کو کھولنا بھی ضروری ہے جس سے محبت کرنا یہ لوگ ایمان کا جزء بتاکر نوجوانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔
شیخ ابو رضوان سلفی حفظہ اللہ جنہوں نے اس جلسے میں خطاب کیا تھا انہوں نے بھی جواب لکھا ہے جسے ساتھ میں پیسٹ کیا جارہا ہے اور انکی تقریر بھی یوٹیوب میں موجود ہے اسکا حوالہ بھی دیا جارہا ہے جو نوجوانوں کیلئے کافی مفید ہے۔
____________________________________________
تقریر کا لنک:
____________________________________________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عنوان: حقیقتِ اخوانیت
تحریر: شیخ ابورضوان محمّدی سلفی
(استاذ جامعہ محمدیہ منصورہ)
مورخہ 24 فروری 2018 کو شولاپور جمیعت اہل حدیث کے زیراہتمام ایک اجلاس ہوا جس کا مرکزی عنوان تھا "حقیقت اخوانیت” اور اس میں تین خطابات ہوئے اس پروگرام کے ردعمل میں دو پوسٹیں وہاٹساپ پر ھمیں موصول ہوئیں ایک ایاز احمد اصلاحی صاحب کی تحریر ہے دوسری سمیع اللہ خان صاحب کی دونوں تحریروں میں تحریکی فکر کا روایتی انداز ہے جذباتی انداز میں اپنے حق میں خوبصورت دعوے اور مقابل بالخصوص سلفیوں کے بارے میں ریڈی میڈ قسم کے گھسے پٹے الزامات جنھیں پڑھ کر کسی جواب کی ضرورت بالکل محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ان میں کوئی علمی بات اور دعووں کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اجلاس میں ہونے والی تقریروں میں پہلے ہی ان باتوں کا جواب موجود ہے
پھر بھی مختصر تجزیہ پیش ہے۔
انہوں نے اجلاس اور اس کی تقریروں کو فتنہ انگیز اور منفی بنیادوں پر کہا ہے جواب ہے
یہ تقریریں امت کے نوجوانوں کو بچانے کیلئے بہت ضروری ہیں موجودہ حالات کی ضرورت ہیں اور اس بنیاد پر مثبت اور اصلاحی ہیں۔ تقریریں سن کر فیصلہ کیجئے کہ دونوں میں سے کون سا دعوی صحیح ہے؟
ایاز اصلاحی صاحب نے سلفیوں کو اس حدیث کا مصداق ٹھہرانے کی کوشش کی کہ نبی اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ اس پرُفتن دور میں دین کے نام پر بننے والے گروہ بہت ہوں گے لیکن ان میں بیشتر وہ ہوں گے جو اسلام کا نام لیکر غیر اسلام کی خدمت کریں گے۔
ایاز صاحب پر تعجب ہے کہ انہوں نے جو لکھا وہ خود نہیں سمجھ سکے اخوانیوں اور سلفیوں میں سے دور فتن کی پیداوار کون ہے؟
آپ ہی نے نقل کیا ہم اخوانی 1928 کی پیداوار ہیں
سلفی کی نسبت تو صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے لہذا ان کا وجود عہد رسالت سے ہے اور سلفیوں کی خدمات پوری تاریخ میں اور آج بھی دین خالص کی اطاعت اشاعت و دفاع اور ہر باطل کی تردید سے لبریز ہے۔
جبکہ اخوانیوں اور تحریکیوں کی خدمات کیا ہیں کس کے لیے ہیں 1928 سے اب تک کی تاریخ دیکھ لیجئے انہوں نے کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ دشمنان دین کو فائدہ اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا ہے یہ ایران کی اندھی حمایت کرتے ہیں اور قدم قدم پر ان کا ساتھ دیتے ہیں جو عقیدت اور عمل میں ہمیشہ دین حق کے خلاف سرگرم رہے ہیں۔
مرسی صاحب نے مصر کی صدارت کے مختصر سے دور میں دو مرتبہ ایران کا دورہ کیا ان کے ایک نمائندے نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا صدر مرسی نے مصر کے کئی کلیدی عہدوں پر روافض کی تقرری کی اور یہ سلسلہ جاری رہاصہیونی اور عالمی ایجنسیوں کو مسلمانوں میں ھنگامہ آرائی کرنے دھماکہ کرنےکیلئے رنگروٹ انہی تحریکیوں کے ذریعے ملتے رہے اور اسلام اور مسلمانوں کی بد نامی کا سبب بنتے رہے مسلمانوں کے خلاف عالمی ذہنی سازش اور کاروائیوں کی راہ ھموار کرتے رہے مسلم نوجوانوں کو تباہی کی راہ پر ڈالتے رہے ۔۔۔۔ہندوستان کی ممنوعہ تنظیم کس کی اولاد اور پیداوار ہئے ؟
آج بھی ان کا فکری و منہجی مصدر کیا ہے ؟کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ حقائق کھول کر بیان کئے جائیں؟ …..مجبور نہ کیجئے
انہوں نے لکھا "امام حسن البناء” اور ان کے چند ساتھیوں کے ذریعے اخوان المسلمین خالص احیاء دین کی غرض سے قائم کی گئی تھی سوال ہے کہ حسن البناء آپ کے نزدیک کس اعتبار سے "امام” ہیں کیا آپ ان کی تقلید کرتے ہیں اور کروانا چاہتے ہیں؟ دوسرا سوال ہے کیا حسن البناءصاحب کا دین کتاب وسنت کا خالص دین تھا؟ مصطفٰی سباعی اور سعید حوی اور ان جیسےقائدین اخوان کا عقیدہ اور منہج اور عمل دین خالص کی ترجمانی کرتےتھے؟ وحدت الوجود کا ہندوانہ عقیدہ توسل بالشخص کا اہلسنت کے یہاں ( بشمول امام ابو حنیفہ) ناجائز عمل ـــــــــاورایسے متعدد منحرف عقائد و اعمال کے ساتھ کوئی شخص یا اسکی فکر اور تحریک خالص دین والی کیسے ہو سکتی ہے؟ محترم پہلے خالص دین کا علم حاصل کیجئےاور اس کے معیار پر لوگوں کی فکر منہج عقیدہ اور عمل کو پرکھیئے شخصیتوں سے حق کو نہیں بلکہ حق سے شخصیتوں کو پہچانا جاتا ہے۔ حسن البناء اور ان کے رفقاء اللّه کی صفات کے بارے میں "تاویل” کے مذہب کو ماننے والے ہیں جو قرآن و حدیث اور اہلسنّت کے اجماعی عقیدے کے خلاف ہے۔ معلوم کر لیجیئے!
یہ تحریکی سلفیوں کو ایک الزام تواتر کے ساتھ دیتے ہیں کہ یہ عربوں کا مال کھاتے ہیں اور ان سے وفاداری کرتے ہیں۔ دین کو سطحی سیاسی اورپروپیگنڈائی انداز میں سمجھنے اور سمجھانے والوں سے اس قسم کی بےتکی بات کی ہی امید کی جاسکتی ہے مگر یہ برصغیر کا ایک ٹرینڈ ہے عربوں کو کوسنے کی ایک فضا اور میڈیائی روایت قائم کر دی گئی ہے یہود و نصاریٰ نے عربوں اور سعودی عرب کے تعلق سے جو مزاج اور رجحان دیا ہے یہ اسی کی اتباع کرتے ہیں سعودی اور عربوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کا جھوٹا میڈیا ان کے یہاں وحی الٰہی بن جاتا ہے اور ایران اور تحریکیوں کی مسلم مخالف سر گرمیوں کے دستاویزی ثبوت بھی رد کردیتے ہیں جان لیجئے کہ سلفیوں کا تعلق عربوں اور سعودی عرب سے کوئی پیٹرول نکلنے کے بعد کا نہیں ہے عربوں کی غربت کے زمانے میں بر صغیر کے سلفیوں نے اپنے وسائل کے مطابق ان کی بھر پور امداد کی ہے اور ان سے تعلق دینی تعلق ہے جسے عقیدہ ولاء و براء کہتے ہیں اور یہ عقیدہ اگر صیح ہوگا تو آدمی صحابہ کرام کو گالیاں دینے والوں کو دوست اور توحید وسنت کی خدمت کرنے والوں کو دشمن نہیں بنائے گا ـ بحرین کے اخوانی قائد طارق سویدان نے کویت میں ایرانی وفد سے کہا تھا اگر تم حضرت ابوہریرہؓ اور صحابہؓ کو برا بھلا کہنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے مگر بس ہمارے سامنے نہ کہو..(دیکھیے کتاب احزروا لدغ العقارب) اخوانیوں کے ایسے کئی بیانات اور اقدامات بتاتے ہیں کہ دین ،ایمان اور ضمیر کون بیچتا ہے اور مادی مفادات کی بنیاد پر کس کے قبلے بدلتے ہیں مسلم دشمنوں کا ہر دور میں اعتراف رہا ہے کہ "سلفی بِکتے نہیں” تحریکوں کے لیے ایرانی امدادوں کا سلسلہ اب کوئی چھپی بات نہیں رہی ہاں اخوانیوں کا اسرائیل اور امریکہ کی مسلم دشمن ایجنسیوں سے تعلّق ابھی پوری طرح لوگوں کے سامنے کھلا نہیں ہے لیکن پوری طرح چھپا بھی نہیں رہا۔ تحریر اسکوائر پر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے احتجاج کا قائد کون تھا؟ اور اس کی ڈور کس کے ہاتھ میں تھی ۔۔ہندوستان کے لوگ نا جانیں لیکن عربوں کے سامنے یہ بات بالکل صاف ہو چکی ہے۔ کہ یہ قائد یہودی ایجنسی گوگل کا کارندہ تھا۔ اخوانی اور تحریکی خود کو اتحاد کا علمبردار اور سلفیوں کو بلا سمجھے رٹے رٹائے اعتراض سے متّہم کرتے ہوئے انتشار اور فتنہ کا ذمّہ دار قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اخوانی قائدین کے ایسے بیانات اور اخوانیوں کے ایسے اعمال برابر سامنے آتے رہتے ہیں جو دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اخوانی قائد علی العشماوی کا صاف فرمان ہے کہ جو لوگ ہم سے نہیں ملتے وہ کافر ہیں۔ سیّد قطب نے اخوانیوں کے علاوہ سارے معاشرہ کو جاہلی قرار دیا ہے۔ فی ظلال القران کو پڑھ کر ایک شخص نے شیخ العشماوی سے پوچھا کے سیّد صاحب کی تحریریں پڑھ کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ سارے مسلمان کافر ہیں پھر ہم ان کا ذبیحہ کھائیں یا نہیں ؟ ۔۔۔۔اس پر شیخ العشماوی نے سیّد قطب سے رجوع کیا تو انہوں نے جواب دیا کے ” انھیں مسلمانوں کو اہل کتاب کے زمرے میں رکھ کر ان کا ذبیحہ کھانے دو۔” ( یہ بات شولاپور کے خطاب میں بیان کی گئی ہے احذروا لدغ العقارب نامی کتابچے میں یہ باتیں حوالوں کے ساتھ موجود ہیں)
عرب علماء اخوانیوں کو تکفیری گروہ کہتے ہیں کہ یہ سب کو کافر قرار دیتے ہیں کتنے مسلم وزراء کو کافر قرار دے کر ان کے کارندوں نے قتل کر دیا۔ کل تک ہندوستان میں کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلمانوں کو تحریکی برملا کافر ٹھہراتے تھے اور اپنی کم علمی سے ‘ومن لم یحکم بما انزل اللّه فاولئک ھم الکافرون’ کا مصداق ٹھہراتے تھے۔
آج بھی اخوانی تمام مسلم حکام کو کافر کہتے ہیں ان کے کارپرداز عوام ہی نہیں علماء کو کفر اور گمراہی کا مرتکب قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک سعودی حکومت اپنی تمام دینی خدمات کے باوجود کفر اور کافروں کی ہمنوا ہے۔ مگر ایران جمہوری بھی ہے اسلامی بھی بلکہ امیر معاویہؓ کی حکومت سے زیادہ اچّھی حکومت ہے ۔ ۔ ۔ ہاں ! یہ امیر معاویہؓ اور صحابہؓ پر تنقید کرتے ہیں سعودی تو کسی شمار میں نہیں مگر ایران پر کبھی تنقید نہیں کرتے ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ ان کے نزدیک صحیح اور غلط کا اور دوستی اور دشمنی کا معیار عقیدہ اور عمل صالح ہے ہی نہیں۔ ان کا معیار اپنی خود ساختہ فکر اور مفادات ہیں اور اہل حق کی مخالفت اور اہل موافقت کو یہ ڈھٹائی سے امّت کی خیر خواہی باور کراتے ہیں کہ یہ اتحاد کا نسخہ ہے ؟ یہ اسلام پسندی ہے؟ یوسف القرضاوی صاحب نے الجزائر پرایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ "الحریة عندنا مقدم علی تطبیق الشریعة” ۔ ‘ آزادی ہمارے نزدیک شریعت نافذ کرنے سے زیادہ مقدم اور اہم ہے۔’ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے یہاں اتحاد کا مطلب ہے رافضیوں اور ان کے واسطے دشمنان اسلام سے ہاتھ ملانا۔ اور شرک کا رد کرنے والے اور توحید کے متوالوں کی مخالفت کرنا۔اگر کوئی شرک’ بدعت’ اور غلط منہج کی تردید کرے تو وہ اختلاف پیدا کرنے والا ہے۔ میرا اخوانیوں اور تحریکیوں سے سوال ہے کہ آپ کی اسلام پسندی کا مصدر کیا ہے ؟ کیا آپ رسول اللّه صلی اللّه علیہ وسلّم اور صحابہ کرامؓ سے بہتر دین والا کسی کو سمجھتے ہیں۔۔۔۔ تو بتائیے کہ اللّه کے نبی صلی اللّه علیہ وسلّم اور صحابہؓ نے شرک سے’ دین میں نئے کاموں سے کتنا سمجھوتا کیا؟ جو آپ کرتے ہیں۔ یہ آپ کی کیسی اسلام پسندی ہے کہ احادیث رسول صلی اللّه علیہ وسلّم کی آپ کے یہاں عام تنقیص، تخفیف، اور تردید کی جاتی ہے صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخیاں کی جاتی ہیں کئی اخوانیوں نے آپ کے امام ” حسن البناء” کو صحابہ سے افضل قرار دیا۔جامعہ ازہر کے بعض اساتذہ نے جب غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا تو قرضاوی صاحب نے اسے ان لوگوں کی ذاتی رائے قرار دے کر دفاع کیا۔ جب کے صحابہ کو افضل و عدول ماننا رائے کا معاملہ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ اہلسنّت کا اجماعی عقیدہ ہے۔
اتفاق و اتحاد کی دعوت دینے والے یہ اسلام پسند افغانستان میں روسیوں کے دانت کھٹّے کرنے والے شیخ جمیل الرحمٰن رحمہ اللّه اور ان کے گروہ کے خلاف محاذ کھڑا کرتے ہیں۔ جب کہ شیخ جمیل نے افغانستان کے ایک حصّے میں اسلامی حکومت قائم کر لی تھی۔ ان اسلام پسندوں نے ان سے اتحاد و اتفاق کیوں نہیں کیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ امّت پر جو فتنے اور انتشار کے بادل منڈلا رہے ہیں اس کے کئی عوامل میں سے ایک بڑا عامل مسلمانوں کے بیچ ایسے شر پسندوں کا وجود ہے۔ جو اسلام پسندی کے نام پر اسلام دشمنی کے آلئہ کار بنتے ہیں۔
جو ہر وقت مخالفین کے ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں۔سچے مسلمانوں اور داعیوں کے خلاف پروپگنڈہ کرتے ہیں ( سعودی عرب، عالم کفر یہود و نصاریٰ اور اخوانیوں کا پہلا نشانہ ہے)
ایسے میں تحریکیوں کی یہ رٹ لگانا کہ امّت کے ایسے حالات میں یہ موضوع کیوں چھیڑا جا رہا ہے۔ یہ انتشار کی کوشش ہے۔ یہ سازش ہے۔یہ یہود و نصاریٰ کی مدد ہے؟ نہیں نہیں ۔۔ حقیقت میں یہ امّت کے برے حالات کے سبب کا بیان ہے۔ یہ امّت کے علاج کی کوشش ہے۔ یہ سچائی کو بے نقاب کرنے کا عمل ہے۔ اسلام پسندی کے چولے میں سازش کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش ہے۔ یہ یہود و نصاریٰ کے اصل مدد گاروں اور اصل دشمنوں کے تعارف کا عمل ہے۔
مضمون میں پوچھا گیا ہے کے سلفیوں نے کیا کیا ہے اور مسلمانوں کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ بھی عالمی میڈیا کی طرح جو حقیقت ہے اس کی نفی کرتے ہیں اور جو نہیں ہے اسے ثابت کرتے ہیں عالم اسلام میں سعودیوں اور سلفیوں نے جو کیا ہے جو کر رہے ہیں اور جو قربانیاں دی ہیں ایرانی اور اخوانی اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکے ہیں۔ شام ، فلسطین ، عراق ، یمن ، ہر جگہ اہلسنّت کے شانہ بشانہ سب سے زیادہ کتاب و سنّت کے متوالے ہی نظر آئینگے۔شام کے 25 لاکھ جی ہاں 25 لاکھ سے زیادہ پناہ گزیں سعودی عرب میں تمام شہری حقوق مفت تعلیم و علاج کی سہولت کے ساتھ مقیم ہیں مگر تحریکی اسے بیان نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ برما کے مسلمانوں کے لیے بھی برسوں سے سعودی عرب کے دروازے کھلے ہوئے ہیں افریقی ممالک سے لیکر مغربی ممالک کے گلی کوچوں تک اسلام کی دعوت میں سب سے نمایاں کردار سعودی عرب کویت اور یہاں کے سلفیوں کا ہی ملے گا۔ یہی تو یہود و نصاریٰ کو کھٹک رہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان فتنے برپا کئے جاتے ہیں اور اس عمل میں ان کا سب سے بڑا تاریخی مددگار ایران ہے اور ایران کے حلیف اخوانی اور تحریکی ہیں۔
پوسٹ میں ایک انتہائی مضحکہ خیز بات یہ لکھی گئی ہے کہ اخوان المسلمین کے اسلام پسند ہونے پر علماء اسلام کا اجماع ہے۔۔۔۔یقیناً یہ اس صدی کے لطیفوں میں شمار کئے جانے کے لائق ہے۔ صاحب ذرا آنکھیں کھولیے اپنے اردگرد کے لوگوں کو دنیا نا سمجھیں حقیقت تو یہ ہے کہ اخوانیوں اور تحریکیوں کے پاس پختہ کار علماء کی شدید قلّت رہی ہے یہاں شدّت پسندوں کا غلبہ رہا ہے بھائی شولا پور میں اسٹیج سے ہاتھ میں ایک ایسی کتاب دکھائی گئی ہے جس میں صرف عالم اسلام کے کئی بڑے علماء اور علماء کی کئی کمیٹیوں کے فتوے اور جوابات’ اخوانیوں کے بارے میں نقل کئے گئے ہیں۔۔۔ سارے علما نے اخوان کو اہل سنّت کے منہج سے ہٹا ہوا، خارجی مزاج کے علمبردار، باطنی فرقوں کے اثرات سے متاثر اور گمراہ قرار دیا ہے۔ ان کے بڑوں کے عقائد و افکار کی بے راہ روی کو اجاگر کیا ہے اس کے باوجود کن لوگوں کے بارے میں آپ کا یہ دعوی ہے کہ یہ علماء ہیں اور یہ ان کا اجماع ہے؟ کیا آپ نے یہ خبر کسی اسرائیلی یا ایرانی ایجنسی سے سن لی ہے؟ ارے خود اخوانیوں سے الگ ہونے والے اخوانی قائد محمّد سرور صاحب کی اخوانیوں کے منھج اور بعض طریقوں پر تنقید ہی پڑھ لیتے تو اجماع کا دعوی نہیں کرتے۔ محمّد سرور کے ماننے والے سروریہ کہلاتے ہیں جیسے سیّد قطب کے ماننے والے قطبین کہے جاتے ہیں ان کا آپس میں بھی اختلاف ہے۔
علماء کے اجماع کے نام اور حقیقت کے بالکل برخلاف دعوے کے ساتھ ہی ایک پوسٹ میں علی میاں ندوی کو نشانہ بنانے کی بات کہی گئی ہے یہ گھٹیا سیاست کا جذباتی انداز ہے کہ علی میاں کے عقیدت مندوں کو سلفیت کے خلاف ورغلایا جائے۔ تحریکیت کا اور سلفیت کا ایک فرق یہ بھی ہے کہ ‘سلفی سیاست کو دین کا حصّہ اور اس کا تابع مانتے ہیں اور اخوانی دین کو سیاست کا حصّہ اور سیاست کا تابع مانتے ہیں’۔
پوسٹ میں داعش کا وجود نا مسعود سعودیوں اور سلفیوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے یہ بھی عجوبہ ہی ہے کہ داعش سعودی عرب کی مسجدوں میں دھماکے کریں سعودی اور سلفی علماء کو دھمکیاں دیں پھر بھی ان کے دوست۔ اور داعش کے شانہ بشانہ ایرانی رافضی کام کریں القاعدہ اور داعش کے زخمیوں کا علاج ایران اور اسرائیل میں ہوتا رہے (جیسا کہ نیٹ پر ایمن الظواہری کے بیان سے ثابت ہو چکا ہئے اور دوسرے ثبوتوں کے ذریعے بھی) پھر بھی ایران اور اخوانی داعش اور القاعدہ سے بری الذمہ ہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش اور القاعدہ کی خارجی اور تکفیری فکر اور فکری سانچہ اخوان کی فکر اور منھج سے ڈھلا اور استوار ہوا ہے۔
ان کے قائدین اور ارکان کے پاس اخوانی لٹریچر کی موجودگی اور ان کے بعض ترجمانوں کا یہ بیان و اعتراف سامنے آچکا ہے کہ اخوانیوں کی بعض کتابیں بالخصوص سیّد قطب صاحب کی بعض کتابیں ان – القاعدہ و داعش- کی رہنما اور مشعلِ راہ ہیں۔۔۔ تحقیق کر لیجیئے۔
ہمارے خیال میں فی الحال اتنی باتیں کافی ہیں۔ اسلئے قلم کو زبردستی روک رہا ہوں، اسلئے کہ یہ بھی قدرے تفصیل ہو گئی ہے۔ مگر ابھی کافی باتیں باقی ہیں، جو کچھ کہا گیا اسے اشارہ سمجھیں۔ اب اس تحریر کے جواب اور رد عمل میں جو کہا اور لکھا جائے گا تو ضرورت محسوس ہونے پر انشاء اللّه مزید تفصیل اور حقائق پیش کئے جائیں گے۔
اللّه تعالٰی ہمیں حق کا علمبردار بنائے رکھے۔