یزید بن معاویہ جرح وتعدیل کے میزان میں
اوپربتایا جاچکاہے کہ سیدالتابعین اویس القرنی رحمہ اللہ ہی کی طرح امیر المؤمنین یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے بھی احادیث کی روایت کی ہی نہیں ہے اس لئے جرح وتعدیل کی کسوٹی پر انہیں پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ تاہم اس کے باوجود بھی اگر کوئی انہیں جرح وتعدیل کی کسوٹی پر چڑھانا ہی چاہتاہے تو ان کے بارے میں بھی وہی نتائج سامنے آئیں گے جو سیدالتابعین اویس قرنی رحمہ اللہ کے بارے میں ملتے ہیں۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
ناقدانہ استقراء
یزید بن معاویہ سے متعلق جرح وتعدیل میں ناقدانہ استقراء کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ ان سے کسی بھی حدیث کی روایت کرنے کا ثبوت نہیں ملتا ۔ اور جو روایات ان کے حوالہ سے منقول ہیں ان میں یزید کے نیچے کی سند صحیح نہیں ہے۔
تاہم اگر نیچے کی سند کو نظر اندار کردیا جائے اور یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یزیدنے ان روایات کو بیان کیا ہے تو امام ابن عدی رحمہ اللہ کے اصول کے مطابق یہ روایت یزید کی عدالت وثقاہت پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان دونوں روایات کے شواہد موجود ہیں تفصیل ملاحظہ ہوں:
پہلی حدیث:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو محمد بن الأكفاني نا أبو محمد الكتاني أنا تمام بن محمد حدثني أبي حدثني أبو بكر بن أبي قحافة الرملي نا سعيد بن نفيس ،قال وأنا تمام حدثني أبو محمد الحسن بن علي بن عمر الحلبي ثنا سعيد بن نفيس المصري بحلب نا عبدالرحمن بن خالد العمري حدثني أبي حدثني الهقل بن زياد عن حريز بن عثمان سمعه من عبدالملك بن مروان يخبره عن أبي خالد عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ،أبو خالد هو يزيد بن معاوية [تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 395]۔
اس حدیث کو ابوخالدیعنی یزید بن معاویہ نے اپنے والد یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہی حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے دیکھئے : بخاری رقم 71 ۔
دوسری حدیث:
أبو القاسم تمام بن محمد الرازي ثم الدمشقي (المتوفى: 414 ) نے کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلَّانَ الْحَرَّانِيُّ ثنا أَبُو عَلِيٍّ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ ثنا عَبْدُ اللَّهِ الْمَقْدِسِيُّ، بِبَغْدَادَ ثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْفَضْلُ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو خَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَقَالَ: «هَذَا وُضُوئِي، وَوُضُوءُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي» [مسند المقلين من الأمراء والسلاطين لتمام بن محمد الدمشقي ص: 31 رقم 14]
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی اعضاء وضوء کو تین بار دھونے والی حدیث صحیح سند سے ابوداؤد میں موجود ہے دیکھئے سنن ابی داؤد رقم 125۔
نیز
’’هذا وضوئي ووضوء الأنبياء قبلي‘‘ کا جملہ بھی دیگر احادیث سے ثابت ہے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں نقل کیا ہے دیکھئے : سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 523) رقم 261 ۔
معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ سے جو دو احادیث منقول ہیں وہ ثابت شدہ ہیں اب اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے ان احادیث کی روایت کی ہے تو چونکہ یزید بن معاویہ کی بیان کردہ یہ احادیث ثقہ رواۃ کے موافق ہیں اس کے شواہد متابعات موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ان احادیث کی روایت میں یزید بن معاویہ عادل اورضابط ہیں یعنی ثقہ وصدوق ہیں ۔
اسی بنیاد پر امام ابن عدی رحمہ اللہ اویس قرنی رحمہ اللہ کو بھی ثقہ قرار دیا ہے چنانچہ ان سے بھی صرف دو احادیث منقول ہیں ملاحظہ ہو:
پہلی حدیث:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا محمد بن أبي يعقوب ثنا القاسم بن القاسم السياري المروزي ثنا أبو الموجه محمد بن عمرو بغير حديث وحدثنا محمد بن الحسين بن موسى ثنا عبدالواحد بن علي السياري ثنا خالي أبو العباس القاسم بن القاسم السياري ثنا أحمد بن عباد بن سلم وكان من الزهاد ثنا محمد بن عبيدة النافقاني ثنا عبدالله بن عبيدة العامري ثنا سورة بن شداد الزاهد عن سفيان النوري ! عن إبراهيم بن أدهم عن موسى بن يزيد عن أويس القرني عن علي بن أبي طالب قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إن لله تسعة وتسعين اسما مائة غير واحد ما من عبد يدعو بهذه الأسماء إلا وجبت له الجنة إنه وتر يحب الوتر هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام إلى قوله الرشيد الصبور[حلية الأولياء 10/ 380]
دوسری حدیث:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430) نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْهُذَيْلِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْعَنْبَرِيُّ، ثنا عَمْرٌو شَيْخٌ كُوفِيٌّ، عَنْ أَبِي سِنَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أُوَيْسًا الْقَرَنِيَّ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي فَإِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَلْعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا وَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ الْمَقْتُ عَلَى الْأَرْضِ وَأَهْلِهَا فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ فَلْيَضَعْ سَيْفَهُ عَلَى عَاتِقِهِ ثُمَّ لِيلْقَ رَبَّهُ تَعَالَى شَهِيدًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ» [حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 2/ 87 ]
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے راجح اسی بات کو سمجھا ہے کہ اویس قرنی رحمہ اللہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی ہے کیونکہ ان سے مروی احادیث میں ان سے نیچے کی سند ثابت نہیں ہے لیکن چونکہ ان سے منقول ان روایات کے بھی شواہد ومتابعات ملتے ہیں اس لئے اس قلیل مقدار کی روایات کی روشنی میں بھی اویس قرنی ثقہ وصدوق قرارپاتے ہیں چنانچہ:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وَلَيْسَ لأُوَيْسٍ مِنَ الرِّوَايَةِ شَيْءٌ، وإِنَّما لَهُ حِكَايَاتٌ وَنُتَفٌ وَأَخْبَارٌ فِي زُهْدِهِ وَقَدْ شَكَّ قَوْمٌ فِيهِ إِلا أَنَّهُ مِنْ شُهْرَتِهِ فِي نَفْسِهِ وَشُهْرَةِ أَخْبَارِهِ لا يَجُوزُ أَنْ يُشَكَّ فيه وليس لَهُ مِنَ الأَحَادِيثِ إِلا الْقَلِيلُ فَلا يَتَهَيَّأُ أَنْ يُحْكَمَ عَلَيْهِ الضَّعْفُ بَلْ هُوَ صَدُوقٌ ثِقَةٌ مِقْدَارِ مَا يُرْوَى عَنْهُ.
اویس قرنی کی ایک بھی روایت نہیں ہے بلکہ ان سے متعلق حکایات وقصص اور ان کے زہد کی خبریں ہی ملتی ہیں ۔اوربعض لوگوں نے ان کے وجود ہی کے بارے میں شک کیا ہے لیکن چونکہ یہ بذات خود مشہور ہیں اوران کی خبریں بھی مشہور ہیں اس لئے ان کے وجود کے بارے میں شک کرنا درست نہیں ہے ، اور ان سے منقول احادیث بہت کم ہیں جس کے سبب ان پر ضعف کا حکم لگانے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ اپنی روایات کی مقدار کے حساب سے سچے اور ثقہ ہیں [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 2/ 111]
عرض ہے کہ اگر اویس قرنی سے مروی صرف دو روایات کی مقدار ان کے ثقہ وصدوق ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو ٹھیک اسی طرح یزید بن معاویہ رحمہ اللہ سے بھی مروی دو احادیث ان کے ثقہ وصدوق ہونے پر دلالت کرتی ہیں بالخصوص جبکہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کی مرویات کے صحیح شواہد ومتابعات موجود ہیں۔
اوراگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے کوئی روایت بیان نہیں کی ہے تب بھی ان کا وہی معاملہ ہوگا جو اویس بن قرنی رحمہ اللہ کا ہے چنانچہ راجح قول کے مطابق اویس قرنی رحمہ اللہ نے کوئی روایت بیان ہی نہیں کی اس لئے اس پہلو سے انہیں ضعیف یا ثقہ کہنے کی گنجائش ہی نہیں ہے جیساکہ اوپر امام ذہبی رحمہ اللہ کی کے حوالہ سے صراحت گذری ہے۔
لیکن چونکہ اویس قرنی کی خوبیاں منقول ہیں اس لئے اس اعتبار سے انہیں ابن سعد رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
وكان أويس ثقة وليس له حديث عن أحد
اویس ثقہ تھے اور کسی سے بھی ان کی کوئی روایت نہیں ہے[الطبقات لابن سعد: 6/ 207]
عرض ہے کہ اگر روایت میں حصہ نہ لینے کے باوجود بھی بعض خوبیوں کے پیش نظر اویس قرنی رحمہ اللہ ثقہ ہیں تو اسی اصول کے تحت امیرالمؤمنین یزید بن معاویہ رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں والحمدللہ کیونکہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کی خوبیاں منقول ہیں کما سیاتی ، بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے اس لئے یہ بھی ثقہ ہیں ۔
شہادت وگواہی
اولا:
صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسطنطنیہ پر سب سے پہلے حملہ کرنے والے لشکر کوبخشا ہوا قرار دیا ہے (بخاری رقم 2924) اور بخاری ہی کی روایت کے مطابق یزید بن معاویہ رحمہ اللہ نے قسطنطنیہ پرحملہ کیا (بخاری رقم 1186)
اوریزید سے قبل قسطنطنیہ پرکسی بھی حملہ کا بسند صحیح کوئی ثبوت نہیں ملتا لہٰذا بخاری ہی کی روایات سے ثابت ہوا کہ یزید ہی نے سب سے پہلے قسطنطنیہ پر حملہ کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے ۔[فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]۔
ثانیا:
قسطنطنیہ پرحملہ کرتے وقت یزید اس لشکر کے اصل امیرتھے (بخاری رقم 1186) اور ان کی زیرامارت صحابہ کرام بھی تھے ، صحابہ کرام کا ان کی زیرامارت اس لشکر میں شامل ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کی نظر میں یزید بن معاویہ دیندار اور معتبر شخص تھے۔
ثالثا:
صحیح سند سے ثابت ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید بن معاویہ کو ’’ امیر المؤمنین ‘‘ کہا ہے[تاريخ الأمم والرسل والملوك- الطبري 3/ 299 واسنادہ صحیح]۔ صحیح تاریخ الطبری کے محققین نے بھی اس روایت کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے اور اسے صحیح تاریخ الطبری میں نقل کیا ہے۔دکتور شیبانی نے بھی طبری کی اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے دیکھئے مواقف المعارضہ ص 342 ۔
حسین رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کا یزید کو امیر المؤمنین جیسے مقدس لقب سے متصف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی نظر میں یزید نیک اور صالح اور معتبر شخص تھے ۔
اسی وجہ سے امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے بھی یزید کو ’’امیرالمؤمنین‘‘ کہا ہے [تاريخ خليفة بن خياط ص٢٥٣ واسناده صحيح].
امام ابوبکرابن العربی(المتوفی: 543) رحمہ اللہ بجاطور پرفرماتے ہیں:
فإن قيل. كان يزيد خمارًا. قلنا: لا يحل إلا بشاهدين، فمن شهد بذلك عليه بل شهد العدل بعدالته. فروى يحيى بن بكير، عن الليث بن سعد، قال الليث: " توفي أمير المؤمنين يزيد في تاريخ كذا " فسماه الليث " أمير المؤمنين " بعد ذهاب ملكهم وانقراض دولتهم، ولولا كونه عنده كذلك ما قال إلا " توفي يزيد ".
اگرکہاجائے کہ یزید شرابی تھا تو ہم کہتے ہیں کہ بغیردوگواہ کے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی تو کس نے اس بات کی گواہی دی ہے؟؟ بلکہ عادل لوگوں نے تو یزید کے عدل کی گواہی دی ہے۔چنانچہ یحیی بن بکیرنے روایت کیا کہ امام لیث بن سعد رحمہ اللہ نے کہا: امیرالمؤمنین یزید فلاں تاریخ میں فوت ہوئے ۔تو یہاں پراما م لیث رحمہ اللہ نے یزید کو’’امیرالمؤمنین‘‘ کہا ہے ان کی حکومت اور ان کا دور ختم ہونے کے بعد ۔اگران کے نزدیک یزید اس درجہ قابل احترام نہ ہوتا تو یہ صرف یوں کہتے کہ یزید فوت ہوئے [العواصم من القواصم ط الأوقاف السعودية ص: 228]۔
واضح رہے کہ یہ روایت بالکل جھوٹی اور من گھڑت ہے کہ عمربن عبدالعزیزکے سامنے کسی نے یزید بن معاویہ کو ’’امیرالمؤمنین‘‘ کہہ دیا تو ان انہوں نے اسے بیس کوڑے لگانے کا حکم دیا تفصیل کے لئے دیکھئے میرا مضمون:
’’ کیا یزیر بن معاویہ رحمہ اللہ کو امير المؤمنين کہنے والے پر عمربن عبدالعزیررحمہ اللہ نے بیس کوڑے لگوائے؟‘‘ ۔
دراصل عمربن عبدالعزیز نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو کوڑے لگوائے تھے لیکن سبائییوں نے اس بات کو بدل کو پیش کردیا تفصیل کے لئے دیکھئے میرا مذکورہ مضمون ۔
رابعا:
صحابہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں نیک اورصالح ترین شخص کہا ہے [أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 164 ]۔
واضح رہے کہ صحابہ کا لفظ ’’صالح‘‘ کے ساتھ توثیق کرنا بہت بڑی اہمیت رکھتاہے کیونکہ یہ انداز توثیق انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سیکھا ہے چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی توثیق کرتے ہوئے انہیں ’’صالح‘‘ قراردیا ہے۔[صحيح البخاري 5/ 25 رقم 3740 مسلم4/ 1927 رقم2478]۔
خامسا:
تابعین میں محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ نے انہیں عبادت گذار ، خیر کا متلاشی ، سنت کا پاسداراور علم دین کا شیدائی کہا ہے [البداية والنهاية: 8/ 233 ،تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274 واسنادہ صحیح]۔دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 384 ]۔
فائدہ:
محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ کی گواہی سے معلوم ہوا کہ یزید بن معاویہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے تھے ان کے پاس احادیث بھی تھیں لیکن یہ اور بات ہے کہ انہوں نے احادیث روایت نہیں کی جس طرح اویس قرنی رحمہ اللہ نے بھی احادیث روایت نہیں کی۔