• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید ابن معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینا کیوں جائز نہیں؟

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
یزید ابن معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینا کیوں جائز نہیں؟

يزيد پر سب و شتم کا مسئلہ
يزيد رحمۃ اللہ عليہ پر سب و شتم ایک اہم مسئلہ ہے جسے بدقسمتی سے رواج عام حاصل ہوگيا ہے اور بڑے بڑے علامہ فہامہ بھي يزيد کا نام برے الفاظ سے ليتے ہيں ، بلکہ اس پر لعنت کرنے ميں بھی کوئی حرج نہين سمجھتے اور اس کو
"حب حسين "
اور
"حب اہل بيت"
کا لازمی تقاضا سمجھتے ہيں حالانکہ يہ بھی اہل سنت کے مزاج اور مسلک سے ناواقفيت کا نتيجہ ہے محققين علمائےاہل سنت نے يزيد پر سب و شتم کرنے سے بھی روکا ہے اور اسی ضمن ميں اس امر کی صراحت بھی کی ہے کہ يزيد کا قتل حسين ميں نہ کوئی ہاتھ ہے نہ اس نے کوئی حکم ديا اور نہ اس ميں اس کی رضا مندی ہی شامل تھی۔ ہم يہاں شيخ الاسلام امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ عليہ کے اقوال کے بجائے امام غزالی کی تصريحات نقل کرتے ہيں جن سے عام اہل سنت بھی عقيدت رکھتے ہيں۔ علاوہ ازيں امام ابن تيميہ کا موقف کتاب کےآخر ميں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔امام غزالی فرماتے ہيں:
((ما صح قتلہ للحسين رضي اللہ عنہ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم يصح ذٰلک لم يجز ان يظن ذٰلک فان اسآءۃ الظن ايضا بالمسلم حرام قال اللہ تعاليٰ: }يَأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا يعلم حقيقہ اصلا واذا لم يعرف وجب احسان الظن بکل مسلم يمکن احسان الظن بہ)) (وفيات الاعيان: 450/2، طبع جديد)
يعنی’’حضرت حسين رضی اللہ عنہ کو يزيد کا قتل کرنا يا ان کے قتل کرنے کا حکم دينا يا ان کے قتل پر راضی ہونا، تينوں باتيں درست نہيں اور جب يہ باتيں يزيد کے متعلق ثابت ہی نہيں تو پھر يہ بھی جائز نہيں کہ اس کے متعلق ایسی بدگمانی رکھی جائے کيونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے جيسا کہ قرآن مجيد ميں ہے، بنا بريں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق يزيد سے حسن ظن رکھنے پر بھي ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح اپنی معروف کتاب احياء العلوم ميں فرماتے ہيں:
((فان قيل ھل يجوز لعن يزيد بکونہ قاتل الحسين او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم يثبت اصلاً ولا يجوز ان يقال انہ قتلہ او امر بہ مالم يثبت)) (131/3)
يعنی "اگر سوال کيا جائے کہ کيا يزيد پر لعنت کرنی جائز ہے کيونکہ وہ (حضرت حسين رضی اللہ عنہ کا ) قاتل ہے يا قتل کاحکم دينے والا ہے ؟ تو ہم جواب ميں کہيں گے کہ يہ باتيں قطعاً ثابت نہيں ہيں اور جب تک يہ باتيں ثابت نہ ہوں اس کے متعلق يہ کہنا جائز نہيں کہ اس نے قتل کيا يا قتل کا حکم ديا۔"
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
پھر مذکورۃ الصدر مقام پر اپنے فتوے کو آپ نے ان الفاظ پر ختم کيا ہے:
((واما الترحم عليہ فجائز بل مستحب بل ہو داخل في قولنا في کل صلوٰۃ اللھم اغفر للمؤمنين والمؤمنات فانہ کان مؤمنا۔ واللہ اعلم)) (وفيات الاعيان: 450/3، طبع جديد)
يعنی "يزيد کے ليے رحمت کی دعا کرنا (رحمۃ اللہ عليہ کہنا) نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ اس دعا ميں داخل ہے جو ہم کہا کرتے ہيں ۔ (يا اللہ! مومن مردوں او ر مومن عورتوں سب کو بخش دے) اس ليے کہ يزيد مومن تھا! واللہ اعلم"
مولانا احمد رضا خاں کی صراحت:
مولانا احمد رضا خاں فاضل بريلوی، جو تکفير مسلم ميں نہايت بے باک مانے جاتے ہيں، يزيد رحمۃ اللہ عليہ کے بارے ميں يہ وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد رحمۃاللہ عليہ اسے کافر جانتے ہيں او رامام غزالی وغيرہ مسلمان کہتے ہيں، اپنا مسلک يہ بيان کرتے ہيں کہ:
"اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہيں کہ ہم نہ مسلمان کہيں نہ کافر، لہٰذا يہاں بھی سکوت کريں گے۔۔۔" (احکام شريعت، ص:88، حصہ دوم)
فسق و فجور کے افسانے؟ رہی بات يزيد رحمۃ اللہ عليہ کے فسق وفجور کے افسانوں کی، تو يہ بھی يکسر غلط ہے جس کی ترديد کے ليے خود حضرت حسين رضی اللہ عنہ کے برادر اکبر محمد بن الحنفيہ کا يہ بيان ہی کافی ہے جو انہوں نے اس کے متعلق اسی قسم کے افسانے سن کرديا تھا۔
((ما رايت منہ ما تذکرون وقد حضرتہ واقمت عندہ فرايتہ مواظباً علي الصلوٰۃ متحريا للخير يسال عن الفقہ ملازماً للسنۃ)) (البدايۃ والنہايۃ: 236/8، دارالديان للتراث، الطبعۃ 1988ء)
يعنی ’’تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ميں نے ان ميں سے ايسی کوئی چيز نہيں ديکھی، ميں نے ان کے ہاں قيام کيا ہے اور ميں نے انہيں پکا نمازی ، خير کا متلاشی، مسائل شريعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پايا ہے۔‘‘ (البدايۃ والنہايۃ، ج:8، ص:233)
غزوۂ قسطنطنيہ کے شرکاء کی مغفرت کے ليے بشارت نبوی:
علاوہ ازيں کم از کم ہم اہل سنت کو اس حديث کے مطابق يزيد کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہيے جس ميں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ ميں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور يزيد اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ يہ بخاری کی صحيح حديث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن يا نجومی کی پيشين گوئی نہيں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کرديں۔ اگر ايساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پيشين گوئی ميں فرق باقی نہ رہے گا۔ کيا ہم اس حديث کی مضحکہ خيز تاويليں کرکے يہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہيں؟ يہ حديث مع ترجمہ درج ذيل ہے:
((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ)) (صحيح البخاري ، الجہاد والسير، باب ما قيل في قتال الروم، ح: 2924)
"ميري امت کا پہلا لشکر جو قيصر کے شہر (قسطنطنيہ) ميں جہاد کرے گا، وہ بخشا ہوا ہے۔"
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
غزوۂ قسطنطنيہ کے شرکاء کی مغفرت کے ليے بشارت نبوی:
علاوہ ازيں کم از کم ہم اہل سنت کو اس حديث کے مطابق يزيد کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہيے جس ميں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ ميں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور يزيد اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ يہ بخاری کی صحيح حديث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن يا نجومی کی پيشين گوئی نہيں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کرديں۔ اگر ايساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پيشين گوئی ميں فرق باقی نہ رہے گا۔ کيا ہم اس حديث کی مضحکہ خيز تاويليں کرکے يہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہيں؟ يہ حديث مع ترجمہ درج ذيل ہے:
سلام. کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ یزید پہلے لشکر جس کے بارے میں حضور صلی اللہ وسلم نے بشارت دی ہے شامل تھا
 

غزنوی

رکن
شمولیت
جون 21، 2011
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
659
پوائنٹ
76
سلام. کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ یزید پہلے لشکر جس کے بارے میں حضور صلی اللہ وسلم نے بشارت دی ہے شامل تھا
آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ
1۔ یزید پہلے لشکر میں شامل نہیں تھا ؟
2۔ يزيد کا قتل حسين ميں ہاتھ تھا یا حکم ديا یا رضا مندی شامل کی ؟
3۔ اگر یزید پہلے لشکر میں شامل نہیں تھا تو پھر کون تھا ؟ کیا آپ نام مع دلائل بتا سکتے ہیں ؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ
1۔ یزید پہلے لشکر میں شامل نہیں تھا ؟
2۔ يزيد کا قتل حسين ميں ہاتھ تھا یا حکم ديا یا رضا مندی شامل کی ؟
3۔ اگر یزید پہلے لشکر میں شامل نہیں تھا تو پھر کون تھا ؟ کیا آپ نام مع دلائل بتا سکتے ہیں ؟
سلام. یہاں لکھا گیا کہ

غزوۂ قسطنطنيہ کے شرکاء کی مغفرت کے ليے بشارت نبوی:
علاوہ ازيں کم از کم ہم اہل سنت کو اس حديث کے مطابق يزيد کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہيے جس ميں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ ميں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور يزيد اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ يہ بخاری کی صحيح حديث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن يا نجومی کی پيشين گوئی نہيں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کرديں۔ اگر ايساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پيشين گوئی ميں فرق باقی نہ رہے گا۔ کيا ہم اس حديث کی مضحکہ خيز تاويليں کرکے يہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہيں؟ يہ حديث مع ترجمہ درج ذيل ہے:
((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ)) (صحيح البخاري ، الجہاد والسير، باب ما قيل في قتال الروم، ح: 2924)
"ميري امت کا پہلا لشکر جو قيصر کے شہر (قسطنطنيہ) ميں جہاد کرے گا، وہ بخشا ہوا ہے۔"

میں نے صرف یہ پوچھا کہ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ یزید پہلے لشکر جس کے بارے میں حضور صلی اللہ وسلم نے بشارت دی ہے شامل تھا

جواب دینا آپ کا حق ہے ؟؟؟؟







 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو قطنطنیہ کی بشارت کا مصداق بتلانا علمی غلطی نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہے ۔

مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے لشکرکشی کرنے والے سب مغفورہوں گے یہ بھی بخاری ہی میں ہے اور اس پہلے حملہ کے امیر یزید رحمہ اللہ تھے یہ بھی بخاری ہی میں ہے ، ملاحظہ ہو:

قال محمود بن الربيع: فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها، ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم [صحيح البخاري: 2/ 60]

محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔(ترجمہ داؤدراز)
بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیریزید رحمہ اللہ کی امارت میں مدینہ قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ ہوا ۔
اب اس سے پہلے کسی بھی حملہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اس لئے بخاری کی اس روایت سے ثابت ہوا کہ یزید رحمہ اللہ ہی کی امارت میں مدینہ قیصر پرسب سے پہلے حملہ ہوا ۔

بخاری کی شرح کرنے والے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ یزید رحمہ اللہ کی امارت میں سب سے پہلے غزوہ قیصر پرحملہ ہو ملاحظہ ہو:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق [فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]۔

یزید رحمہ اللہ اس پہلے لشکرکے امیرتھے، اس پرسب کا اتفاق ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
مدینہ قیصر(قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے لشکرکشی کرنے والے سب مغفورہوں گے یہ بھی بخاری ہی میں ہے اور اس پہلے حملہ کے امیر یزید رحمہ اللہ تھے یہ بھی بخاری ہی میں ہے ، ملاحظہ ہو:

قال محمود بن الربيع: فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها، ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم [صحيح البخاري: 2/ 60]

محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ تھے۔(ترجمہ داؤدراز)
بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ امیریزید رحمہ اللہ کی امارت میں مدینہ قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ ہوا ۔
اب اس سے پہلے کسی بھی حملہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اس لئے بخاری کی اس روایت سے ثابت ہوا کہ یزید رحمہ اللہ ہی کی امارت میں مدینہ قیصر پرسب سے پہلے حملہ ہوا ۔

بخاری کی شرح کرنے والے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس پر پوری امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ یزید رحمہ اللہ کی امارت میں سب سے پہلے غزوہ قیصر پرحملہ ہو ملاحظہ ہو:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فإنه كان أمير ذلك الجيش بالاتفاق [فتح الباري لابن حجر: 6/ 103]۔

یزید رحمہ اللہ اس پہلے لشکرکے امیرتھے، اس پرسب کا اتفاق ہے۔



جی بقول آپ کے یزید والا لشکر پہلے تھا تو سنن ابو داوود والی حدیث میں جس لشکر کا ذکر ہوا ہے وہ کون سا تھا جس میں مشہور صحابی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور زندہ تھے
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
اسی روایت میں ابوعمران یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ
’’فلم یَزل أبو أیوب یجاھد في سبیل اﷲ حتی دُفن بالقسطنطینیۃ ‘‘
’’پس ابوایوب مسلسل (بغیر کسی انقطاع کے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے رہے یہاں تک قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔‘‘
اس روایت سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ عبدالرحمن بن خالد جب جماعت پرامیر تھے، یہ غزوہ جاری رہا اور ابوایوب انصاریؓ اس میں وفات پاگئے۔ جبکہ صحیح بخاری کی محمود بن ربیع والی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فحدثتھا قومًا فیھم أبو أیوب صاحب رسول اﷲ ! في غزوتہ التي تُوفي فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بأرض الروم (صحیح بخاری:۱؍۱۵۸)
’’پس میں نے یہ حدیث ایسے لوگوں کوبیان کی جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی ابوایوب بھی تھے۔ اس غزوہ میں جن میں وہ وفات پاگئے اور یزید بن معاویہ ان پر امیر تھے۔‘‘ اسلم ابوعمران کی روایت میں بھی ابوایوب کی وفات کا ذکر ہے اور اس حدیث ِمحمود بن ربیع میں بھی ان کی وفات کا ذکر ہے۔عبدالرحمن بن خالد کی اِمارت والے غزوہ میں ان کی عدم واپسی اور مسلسل جہاد اور پھر وفات ثابت ہے اور اس حدیث میں بھی۔ لہٰذا یہ دونوں روایات ایک ہی غزوے یا واقعے کے متعلق ہیں۔ اَب رہ گئی یہ بات کہ عبدالرحمن بن خالد بھی امیر ہیں اور یزید بن معاویہ بھی تو اس میں منافات نہیں بلکہ تطبیق ممکن ہے۔چونکہ یہ نہایت اہم غزوہ ہے، اس بنا پر سیدنا معاویہؓ نے اس کے لیے بہت بڑا لشکر بھیجا تھا اور اہل مصر کی جماعت پر عقبہ بن عامر امیر تھے، اہل شام کی جماعت پر فضالہ بن عبید اور مدینہ سے آنیوالی جماعت پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے جبکہ تمام لوگوں پر یزید بن معاویہ امیرتھے۔
اس تطبیق سے اس اشکال کا حل بھی نکل آتا ہے کہ جامع ترمذی کی روایت میں
وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید ’’جماعت پر فضالہ بن عبید امیر تھے۔‘‘ وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید اور وعلی أھل الشام فضالۃ بن عبید میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ الجماعۃ سے مراد اہل شام ہی کی جماعت ہے اور عبدالرحمن بن خالد بھی الجماعۃ پر امیر تھے، لیکن وہ الجماعۃ جو مدینہ سے نکلی تھی جیسا کہ اسلم ابوعمران کے الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں۔
غزونا من المدینۃ نرید القسطنطینیۃ سے پتہ چلا کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور الجماعۃ پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے، یعنی وہ جماعت جو مدینہ سے نکلی تھی۔ یہی بات دکتور صلابی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے:

’’یعنی الجماعۃ الذین غزوا من المدینۃ یعنی وہ جماعت جو مدینے سے جہاد کے لیے نکلی تھی، جبکہ قائد ِعام یزید بن معاویہ ہی تھے۔‘‘ (الدولۃ الأمویۃ:۲؍۳۶)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اسی روایت میں ابوعمران یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ
’’فلم یَزل أبو أیوب یجاھد في سبیل اﷲ حتی دُفن بالقسطنطینیۃ ‘‘
’’پس ابوایوب مسلسل (بغیر کسی انقطاع کے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے رہے یہاں تک قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔‘‘
اس روایت سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ عبدالرحمن بن خالد جب جماعت پرامیر تھے، یہ غزوہ جاری رہا اور ابوایوب انصاریؓ اس میں وفات پاگئے۔ جبکہ صحیح بخاری کی محمود بن ربیع والی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فحدثتھا قومًا فیھم أبو أیوب صاحب رسول اﷲ ! في غزوتہ التي تُوفي فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بأرض الروم (صحیح بخاری:۱؍۱۵۸)
’’پس میں نے یہ حدیث ایسے لوگوں کوبیان کی جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی ابوایوب بھی تھے۔ اس غزوہ میں جن میں وہ وفات پاگئے اور یزید بن معاویہ ان پر امیر تھے۔‘‘ اسلم ابوعمران کی روایت میں بھی ابوایوب کی وفات کا ذکر ہے اور اس حدیث ِمحمود بن ربیع میں بھی ان کی وفات کا ذکر ہے۔عبدالرحمن بن خالد کی اِمارت والے غزوہ میں ان کی عدم واپسی اور مسلسل جہاد اور پھر وفات ثابت ہے اور اس حدیث میں بھی۔ لہٰذا یہ دونوں روایات ایک ہی غزوے یا واقعے کے متعلق ہیں۔ اَب رہ گئی یہ بات کہ عبدالرحمن بن خالد بھی امیر ہیں اور یزید بن معاویہ بھی تو اس میں منافات نہیں بلکہ تطبیق ممکن ہے۔چونکہ یہ نہایت اہم غزوہ ہے، اس بنا پر سیدنا معاویہؓ نے اس کے لیے بہت بڑا لشکر بھیجا تھا اور اہل مصر کی جماعت پر عقبہ بن عامر امیر تھے، اہل شام کی جماعت پر فضالہ بن عبید اور مدینہ سے آنیوالی جماعت پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے جبکہ تمام لوگوں پر یزید بن معاویہ امیرتھے۔
اس تطبیق سے اس اشکال کا حل بھی نکل آتا ہے کہ جامع ترمذی کی روایت میں
وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید ’’جماعت پر فضالہ بن عبید امیر تھے۔‘‘ وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید اور وعلی أھل الشام فضالۃ بن عبید میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ الجماعۃ سے مراد اہل شام ہی کی جماعت ہے اور عبدالرحمن بن خالد بھی الجماعۃ پر امیر تھے، لیکن وہ الجماعۃ جو مدینہ سے نکلی تھی جیسا کہ اسلم ابوعمران کے الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں۔
غزونا من المدینۃ نرید القسطنطینیۃ سے پتہ چلا کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور الجماعۃ پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے، یعنی وہ جماعت جو مدینہ سے نکلی تھی۔ یہی بات دکتور صلابی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے:

’’یعنی الجماعۃ الذین غزوا من المدینۃ یعنی وہ جماعت جو مدینے سے جہاد کے لیے نکلی تھی، جبکہ قائد ِعام یزید بن معاویہ ہی تھے۔‘‘ (الدولۃ الأمویۃ:۲؍۳۶)
سلام. کیا آپ جو بات کر رھے ہیں۔ ووہا اسی طرح ہی ہے جیسا کہ آپ کہ رھے ہیں.

کیا زبیر علی زئی صاحب جو تحقیق و تخریج کر رھے ہیں اور دارلسلام والے اسی پر احادیث کی کتابیں چھاپ وہ بھی یہی بات کہتے ہیں ۔

یہی خرابی ہے ہم میں کہ دوسروں کو ہم کوستے ہیں کہ وہ صحیح احادیث کو نہیں مانتے ۔ لکن جب ہم پر خود ایسا وقت آتا ہے تو ہم تاویل کرنے لگ جاتے ہیں.
 
Top