عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
یزید ابن معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینا کیوں جائز نہیں؟
يزيد پر سب و شتم کا مسئلہ
يزيد رحمۃ اللہ عليہ پر سب و شتم ایک اہم مسئلہ ہے جسے بدقسمتی سے رواج عام حاصل ہوگيا ہے اور بڑے بڑے علامہ فہامہ بھي يزيد کا نام برے الفاظ سے ليتے ہيں ، بلکہ اس پر لعنت کرنے ميں بھی کوئی حرج نہين سمجھتے اور اس کو
اور"حب حسين "
کا لازمی تقاضا سمجھتے ہيں حالانکہ يہ بھی اہل سنت کے مزاج اور مسلک سے ناواقفيت کا نتيجہ ہے محققين علمائےاہل سنت نے يزيد پر سب و شتم کرنے سے بھی روکا ہے اور اسی ضمن ميں اس امر کی صراحت بھی کی ہے کہ يزيد کا قتل حسين ميں نہ کوئی ہاتھ ہے نہ اس نے کوئی حکم ديا اور نہ اس ميں اس کی رضا مندی ہی شامل تھی۔ ہم يہاں شيخ الاسلام امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ عليہ کے اقوال کے بجائے امام غزالی کی تصريحات نقل کرتے ہيں جن سے عام اہل سنت بھی عقيدت رکھتے ہيں۔ علاوہ ازيں امام ابن تيميہ کا موقف کتاب کےآخر ميں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔امام غزالی فرماتے ہيں:"حب اہل بيت"
اسی طرح اپنی معروف کتاب احياء العلوم ميں فرماتے ہيں:((ما صح قتلہ للحسين رضي اللہ عنہ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم يصح ذٰلک لم يجز ان يظن ذٰلک فان اسآءۃ الظن ايضا بالمسلم حرام قال اللہ تعاليٰ: }يَأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا يعلم حقيقہ اصلا واذا لم يعرف وجب احسان الظن بکل مسلم يمکن احسان الظن بہ)) (وفيات الاعيان: 450/2، طبع جديد)
يعنی’’حضرت حسين رضی اللہ عنہ کو يزيد کا قتل کرنا يا ان کے قتل کرنے کا حکم دينا يا ان کے قتل پر راضی ہونا، تينوں باتيں درست نہيں اور جب يہ باتيں يزيد کے متعلق ثابت ہی نہيں تو پھر يہ بھی جائز نہيں کہ اس کے متعلق ایسی بدگمانی رکھی جائے کيونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے جيسا کہ قرآن مجيد ميں ہے، بنا بريں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق يزيد سے حسن ظن رکھنے پر بھي ہوتا ہے۔‘‘
((فان قيل ھل يجوز لعن يزيد بکونہ قاتل الحسين او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم يثبت اصلاً ولا يجوز ان يقال انہ قتلہ او امر بہ مالم يثبت)) (131/3)
يعنی "اگر سوال کيا جائے کہ کيا يزيد پر لعنت کرنی جائز ہے کيونکہ وہ (حضرت حسين رضی اللہ عنہ کا ) قاتل ہے يا قتل کاحکم دينے والا ہے ؟ تو ہم جواب ميں کہيں گے کہ يہ باتيں قطعاً ثابت نہيں ہيں اور جب تک يہ باتيں ثابت نہ ہوں اس کے متعلق يہ کہنا جائز نہيں کہ اس نے قتل کيا يا قتل کا حکم ديا۔"