حافظ عمر صدیق صاحب نے اپنی تقریر "منہج اہلحدیث اور یزید بن معاویہ" میں یزید کی شخصیت پر کئی اعتراضات کیئے ہیں۔ جن میں سے کچھ احادیث ہیں کچھ تاریخی روایات ہیں اور اقوال و آراء بھی ہیں۔ جو بالترتیب ہم یہاں پیش کر دیں گے۔ عمر صدیق صاحب نے دلائل دینے سے قبل تقریر میں جو تین اعتراضات کیئے ہیں وہ یہ ہیں:
1) 14 صدیوں میں کوئی بندہ پیش کر دو جس نے یزید کی تعریف میں کسی کتاب پر صرف ایک نقطہ لگایا ہو۔
2) ائمہ محدثین میں سے کسی نے نامزد یزید کو "رحمۃ اللہ علیہ" کہا ہو۔(بوقت: 34:39 )
3) تیسری بات ائمہ محدثین میں سے کسی نے یزید کو روایت میں قبول کیا ہو۔(بوقت 34:50).
ان اعتراضات کی کیا حقیقت ہے؟
سوالات
1) 14 صدیوں میں کوئی بندہ پیش کر دو جس نے یزید کی تعریف میں کسی کتاب پر صرف ایک نقطہ لگایا ہو۔
2) ائمہ محدثین میں سے کسی نے نامزد یزید کو "رحمۃ اللہ علیہ" کہا ہو۔(بوقت: 34:39 )
جوابات
بخاری کے شا رح الْمُهَلَّبُ کہتے ہیں کہ
قَالَ الْمُهَلَّبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مَنْقَبَةٌ لِمُعَاوِيَةَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا الْبَحْرَ وَمَنْقَبَةٌ لِوَلَدِهِ يَزِيدَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ غَزَا مَدِينَةَ قَيْصَرَ – بحوا لہ فتح الباری از ابن الحجر
الْمُهَلَّبُ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں منقبت ہے معاویہ کی کیونکہ ان کے دور میں بحری حملہ ہوا اور منقبت ہے ان کے بیٹے کی کہ انہوں نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا
أبو عمرو خليفة بن خياط بن خليفة الشيباني العصفري البصري (المتوفى: 240هـ) تاریخ میں لکھتے ہیں
وَفَاة يزِيد بن مُعَاوِيَة قرئَ عَلَى ابْن بكير وَأَنا أسمع عَن اللَّيْث قَالَ توفّي أَمِير الْمُؤمنِينَ يَزِيد فِي سنة أَربع وَسِتِّينَ لَيْلَة الْبَدْر فِي شهر ربيع الأول
وَفَاة يزِيد بن مُعَاوِيَة ، عَلَى ابْن بكير نے بیان کیا اور میں سن رہا تھا کہ لیث نے کہا أَمِير الْمُؤمنِينَ يَزِيد کی وفات ٦٤ ھ البدر ( مکمل چاند ) کی رات ہوئی ربيع الأول کے مہینے میں
اس پر ابوبکرابن العربی (المتوفی: ٥٤٣) کتاب العواصم من القواصم میں لکھتے ہیں
فإن قيل. كان يزيد خمارًا. قلنا: لا يحل إلا بشاهدين، فمن شهد بذلك عليه بل شهد العدل بعدالته. فروى يحيى بن بكير، عن الليث بن سعد، قال الليث: توفي أمير المؤمنين يزيد في تاريخ كذا فسماه الليث أمير المؤمنين بعد ذهاب ملكهم وانقراض دولتهم، ولولا كونه عنده كذلك ما قال إلا توفي يزيد
اگرکہاجائے کہ یزید شرابی تھا تو ہم کہتے ہیں کہ بغیردوگواہ کے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی تو کس نے اس بات کی گواہی دی ہے؟ بلکہ عادل لوگوں نے تو یزید کے عدل کی گواہی دی ہے۔چنانچہ یحیی بن بکیرنے روایت کیا کہ امام لیث بن سعد نے کہا: امیرالمؤمنین یزید فلاں تاریخ میں فوت ہوئے ۔تو یہاں پراما م لیث نے یزید کو امیرالمؤمنین کہا ہے ان کی حکومت اور ان کا دور ختم ہونے کے بعد ۔اگران کے نزدیک یزید اس درجہ قابل احترام نہ ہوتا تو یہ صرف یوں کہتے کہ یزید فوت ہوئے
سوال
3) تیسری بات ائمہ محدثین میں سے کسی نے یزید کو روایت میں قبول کیا ہو۔(بوقت 34:50).
جواب
كيا أصحاب رسول کے تمام لڑکوں کی روایت لی گئی ہے ؟ بہت سے تو کچھ روایت ہی نہیں کرتے اور نہ سندوں میں ان کا نام ہے
یزید نے بھی کچھ روایت نہیں کیا
صحیح بخاری و مسلم میں حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی روایت ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر حسین کی روایت نہیں لکھی؟